![]() |
My soul and my philosophy about eternity |
ازل - ازلیت کا تصور: فلسفہ، بصیرت اور بندگی
ازل کا مطلب وہ لمحہ ہے جو کسی نقطۂ آغاز سے نہیں جڑا، یعنی وہ وقت جب نہ کوئی مخلوق تھی، نہ کوئی کائنات، اور نہ ہی کوئی زمانہ۔ اس حقیقت کا تعلق صرف اور صرف اللہ کی ذات سے ہے، جو ہمیشہ سے موجود ہے اور ہمیشہ رہے گا۔ یہ وہ وقت ہے جو کسی ابتدا یا محدودیت سے آزاد ہے۔
ازل محض وقت کا ایک غیر متعین لمحہ نہیں بلکہ وہ نکتۂ حقیقت ہے جو ہر آغاز، ہر تخلیق، اور ہر محدود دائرے سے ماورا ہے۔ ازل کی جہت صرف ایک ہی ذات سے وابستہ ہے - اللہ تبارک و تعالیٰ، جو خود کسی زمان و مکان سے مشروط نہیں بلکہ ان سب کا خالق ہے۔
ازلیت کی یہ فہم انسان کو نہ صرف اپنی حقیقت سے آشنا کرتی ہے، بلکہ اس کی روح کو معرفت، تواضع اور بندگی کی جانب بھی مائل کرتی ہے۔
اللہ تبارک و تعالیٰ کی ازلی ذات - قرآن کی روشنی میں
قرآن مجید میں اللہ کی ازلی، ابدی اور کامل ذات کا تصور بارہا اجاگر ہوتا ہے۔ اس کا ذکر صرف تاریخی یا اعتقادی حوالہ نہیں، بلکہ یہ روح کی غذا اور عقل کی روشنی ہے:
هُوَ الْأَوَّلُ وَالْآخِرُ وَالظَّاهِرُ وَالْبَاطِنُ وَهُوَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ
"وہی سب سے پہلا ہے، اور سب سے آخر بھی، وہی ظاہر ہے اور وہی باطن، اور وہ ہر چیز کا علم رکھتا ہے۔"
📖 سورۃ الحدید: 3
یہ آیت ازلیت اور ابدیت کا ایسا جامع بیان ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ کائنات کی ہر جہت اللہ کی محیط ذات میں ہے۔ اس کی موجودگی نہ کسی لمحے کی محتاج ہے اور نہ کسی سبب کی۔
اللَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ الْحَيُّ الْقَيُّومُ
"اللہ، جس کے سوا کوئی معبود نہیں، وہ ہمیشہ زندہ ہے، قائم اور قائم رکھنے والا ہے۔"
📖 سورۃ البقرہ: 255
"حی" اور "قیوم" صرف صفاتی کلمات نہیں بلکہ ازلی زندگی اور قدرت کی گواہی ہیں، جن کے ذریعے اللہ کی ذات ہمیشگی اور دوام کی علامت بنتی ہے۔
وَكَانَ اللَّهُ سَمِيعًا بَصِيرًا
"اور اللہ ہمیشہ سے سننے والا، دیکھنے والا ہے۔"
📖 سورۃ النساء: 134
"کان" کا فعل عربی زبان میں ہمیشہ موجود رہنے کا استعارہ ہے، جو اللہ کی صفات کے زمانوں سے ماورا ہونے کی دلیل ہے۔
كُلُّ شَيْءٍ هَالِكٌ إِلَّا وَجْهَهُ
"ہر چیز فنا ہونے والی ہے، سوائے اس کے چہرے (ذات) کے۔"
📖 سورۃ القصص: 88
یہ آیت فنا کے سمندر میں اللہ کی ذات کو واحد جزیرہ بقا کے طور پر پیش کرتی ہے—جو ظاہر بھی ہے اور باقی بھی۔
لَا تَأْخُذُهُ سِنَةٌ وَلَا نَوْمٌ
"نہ اسے اونگھ آتی ہے اور نہ نیند۔"
📖 سورۃ البقرہ: 255
یہ وصف کسی ایسی ہستی کا ہے جو غفلت، زوال یا تغیر سے پاک ہے—یعنی ازلی ہو کر بھی کامل بیدار اور فعال۔
🔹 إِنَّ رَبَّكُمُ اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ ثُمَّ اسْتَوَىٰ عَلَى الْعَرْشِ
"بیشک تمہارا رب اللہ ہی ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ ادوار میں پیدا کیا، پھر عرش پر مستوی ہوا۔"
📖 سورۃ الاعراف: 54
یہاں تخلیق سے پہلے کی اللہ کی ذات کو ایک عظیم حقیقت کے طور پر بیان کیا گیا ہے، جو عرش پر استواء کے ساتھ اپنی کائناتی حاکمیت کا اظہار فرماتی ہے۔
احادیث کی روشنی میں - نبوی حکمت
كَانَ اللَّهُ وَلَمْ يَكُنْ شَيْءٌ غَيْرُهُ
"اللہ ہمیشہ سے تھا، اور اس کے سوا کچھ بھی نہیں تھا۔"
📖 صحیح بخاری: 3191
یہ حدیث ازلیت کے اس تصور کو اجاگر کرتی ہے جس میں اللہ تعالیٰ وجودِ مطلق ہے، اور باقی تمام اشیاء اس کے بعد اور اس کے امر سے معرضِ وجود میں آتی ہیں۔
ازل کے بارے میں میری روح اور میرا فلسفہ
ازلیت کا تصور صرف عقیدے کا ایک پہلو نہیں بلکہ وہ عدسہ ہے جس سے انسان کائنات، تقدیر، بندگی، اور اپنی فطرت کو پہچانتا ہے:
✅ اللہ ہی علتِ اولیٰ ہے:
ہر شے کے پیچھے اللہ کی مشیت، علم اور تدبیر کارفرما ہے۔ کوئی چیز بغیر اس کی اجازت کے ظہور پذیر نہیں ہوتی۔
✅ انسان کی محدودیت، اللہ کی وسعت کے مقابل:
انسان وقت، عقل اور اختیار میں قید ہے، جبکہ اللہ ازل سے بے قید، ہمہ دان اور ہمہ موجود ہے۔
✅ تقدیر اور تخلیق کا فہم:
ازل سے اللہ کے علم میں ہے کہ کون سا ذرے کب پیدا ہوگا، کیسے زندگی پائے گا اور کیسے فنا ہوگا۔
✅ بندگی کا مقصد ازل میں پوشیدہ ہے:
جب بندہ جان لیتا ہے کہ اُس کا خالق ازل سے موجود ہے، تو اس کی زندگی کا ہر لمحہ بندگی، خشیت اور تقرب میں تبدیل ہو جاتا ہے۔
نتیجہ
ازل کا تصور محض ماضی کی ایک انتزاعی تفہیم نہیں، بلکہ یہ ایک زندہ حقیقت ہے جو ہمیں اللہ کے قرب، اپنی فانی حقیقت، اور بندگی کی مقصدیت کا شعور عطا کرتی ہے۔ جب ہم ازل کو پہچان لیتے ہیں، تو ہم اپنے وقت کے فانی لمحے کو عبدی معنی عطا کرنے کے قابل ہو جاتے ہیں۔
ازل کے بارے میں اللہ کے اسماء الحسنیٰ اور ان کی ازلی صفات - ایک روحانی و فلسفیانہ مطالعہ
اللہ تعالیٰ کے اسماء الحسنیٰ (بہترین نام) نہ صرف اس کی صفاتِ کمال کا اظہار ہیں بلکہ وہ ازل سے موجود ایک ایسی حقیقت کا آئینہ ہیں جو ہر زمانے، ہر مخلوق، اور ہر فہم سے ماورا ہے۔ یہ نام محض الفاظ نہیں بلکہ وہ صفاتی تجلیات ہیں جن کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے اپنی پہچان کروائی، اور جن کے ذریعے بندہ اپنے رب سے قرب حاصل کرتا ہے۔
اسماء الحسنیٰ - قرآن کی روشنی میں
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
وَلِلَّهِ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنَىٰ فَادْعُوهُ بِهَا
"اور اللہ ہی کے لیے سب اچھے نام ہیں، پس اسے ان ہی ناموں سے پکارو"
📖 سورۃ الاعراف: 180
یہ آیت اس بات کی دلیل ہے کہ اللہ کے نام نہ صرف صفاتی کمالات کا مظہر ہیں بلکہ وہ بندگی، دعا اور معرفت کا ذریعہ بھی ہیں۔
ازلیت اور صفاتِ الٰہیہ
اللہ تعالیٰ کی صفات ازلی اور ابدی ہیں۔ وہ نہ کسی حادثے سے پیدا ہوئیں، نہ کسی تغیر سے بدلتی ہیں، اور نہ ہی کسی مخلوقی صفت سے مشابہت رکھتی ہیں۔ ہر صفت اپنی کامل ترین شکل میں ازل سے موجود ہے:
- الرَّحْمٰن - وہ جو ازل سے رحم کرنے والا ہے، بغیر کسی سبب کے۔
- الْعَلِيم - وہ جو ہر شے کا علم رکھتا ہے، حتیٰ کہ وہ جو ابھی وجود میں نہیں آئی۔
- الْقَيُّوم - وہ جو خود قائم ہے اور ہر شے کو قائم رکھنے والا ہے۔
- الْخَالِق - وہ جو تخلیق سے پہلے بھی خالق تھا، کیونکہ اس کی صفت تخلیق ازل سے ہے۔
یہ تمام صفات نہ کسی وقت کی محتاج ہیں، نہ کسی مخلوق کی، اور نہ کسی ظاہری مظہر کی۔
فلسفیانہ پہلو - صفات کی ازلیت اور وحدت
اسلامی فلسفہ میں اللہ کی صفات کو "عین ذات" مانا جاتا ہے، یعنی وہ صفات اللہ کی ذات سے جدا نہیں بلکہ اسی کا اظہار ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ:
- اللہ کا علم ازل سے ہے، اور وہ ہر ممکن شے کو جانتا ہے۔
- اللہ کی قدرت ازل سے ہے، اور وہ ہر ممکن فعل پر قادر ہے۔
- اللہ کی رحمت ازل سے ہے، اور وہ ہر مخلوق پر محیط ہے۔
یہ صفات نہ کسی خارجی محرک سے پیدا ہوئیں، نہ کسی زمانی تسلسل سے، بلکہ وہ اللہ کی ازلی حقیقت کا حصہ ہیں۔
روح اور بندہ - بندے کا تعلق اسماء الحسنیٰ سے
اللہ کے اسماء الحسنیٰ صرف فکری یا علمی موضوع نہیں، بلکہ وہ بندے کے لیے روحانی ترقی کا زینہ ہیں:
✅ معرفت:
ہر نام اللہ کی ایک صفت کا دروازہ ہے، جس سے بندہ اس کی ذات کو پہچانتا ہے۔
✅ دعا:
ان ناموں کے ذریعے دعا کرنا قبولیت کا ذریعہ ہے، جیسا کہ نبی ﷺ نے فرمایا:
"اللہ کے ننانوے نام ہیں، جو ان کو یاد کرے گا، وہ جنت میں داخل ہوگا"
📖 صحیح بخاری و مسلم
✅ تزکیہ:
جب بندہ "الرحیم" کو پہچانتا ہے، تو وہ خود بھی رحم دل بنتا ہے؛ "الحکیم" کو جان کر حکمت سیکھتا ہے؛ "الصبور" کو یاد کر کے صبر اختیار کرتا ہے۔
اسماء الحسنیٰ - چند مثالیں اور ان کی ازلی معنویت
اسم معنی ازلی پہلو
- الرَّحْمٰن بے پایاں رحم کرنے والا رحم ازل سے ہے، کسی مخلوق کے وجود سے پہلے بھی اللہ رحم کرنے والا تھا
- الْعَلِيم سب کچھ جاننے والا اللہ کا علم ہر ممکن شے پر محیط ہے، حتیٰ کہ وہ جو ابھی ظاہر نہیں ہوئی
- الْقَدِير ہر چیز پر قدرت رکھنے والا اس کی قدرت کسی سبب یا وسیلے کی محتاج نہیں، وہ ازل سے قادر ہے
- الْحَيُّ ہمیشہ زندہ اس کی حیات نہ کسی ابتدا کی محتاج ہے، نہ کسی جسم یا روح کی
- الْوَدُود محبت کرنے والا اللہ کی محبت ازل سے ہے، اور وہ ہر مخلوق کے لیے خیر چاہتا ہے
نتیجہ - اسماء الحسنیٰ کی ازلیت اور بندگی کا شعور
اللہ کے اسماء الحسنیٰ ہمیں یہ سکھاتے ہیں کہ ہمارا رب نہ صرف ہر شے کا خالق ہے، بلکہ وہ ہر صفت میں کامل، ازلی اور بے مثال ہے۔ جب بندہ ان ناموں کو یاد کرتا ہے، ان پر غور کرتا ہے، اور ان کے مطابق اپنی زندگی ڈھالتا ہے، تو وہ اللہ کی قربت، معرفت اور رضا کے راستے پر گامزن ہو جاتا ہے۔
ابھی آگے بڑھنے سے پہلے میں آپ کو ازل کے بارے میں دیگر مذاہب کا نظریہ بتاتا ہوں۔