حمد و ثنا
تمام تعریفیں ربّ ذوالجلال کے لیے ہیں، جو تمام جہانوں کو پالنے والا ہے، ہر مخلوق کی پرورش کرتا ہے، اور اس کی رحمت کا ہر ذرہ گواہ ہے۔
جو ابتدا سے ہے اور انتہا تک رہے گا، وہی ازل ہے، وہی ابد ہے، نہ اس کی کوئی حد ہے، نہ اس کے وجود کو فنا ہے۔
جس نے تمام مخلوقات کو بغیر کسی نمونے کے پیدا کیا، پانی کے ایک قطرے سے انسان کی تخلیق کی، مٹی سے زندگی کی نمو دی، اور کائنات کو اپنی قدرت سے مزین کیا۔
جسے نہ نیند آتی ہے اور نہ اونگھ، کیونکہ وہ ہر لمحہ نگہبان ہے، ہر دل کی دھڑکن اس کے اذن سے چلتی ہے، اور ہر زندگی اسی کے نور سے منور ہے۔
جو دانوں کی گٹھلیوں سے بیج نکالتا ہے، اور پھر ان کو بڑا کرتا ہے، زمین کے سینے میں مخفی بیج جب پھوٹتے ہیں، تو اس کی قدرت کا اظہار کرتے ہیں۔
جو وقت کا مالک ہے، لمحے، صدیاں، راتیں اور دن سب اس کے حکم پر رواں ہیں، اس کا امر ہی کائنات کا تسلسل ہے۔
سات زمینوں اور آسمانوں کا مالک، رات اور دن کا مالک، جو اندھیرے کے بعد اجالا کرتا ہے، جو ہر طلوع میں زندگی بخشتا ہے، ہر غروب میں سکون عطا کرتا ہے۔
جو اس پورے ظاہری کائنات کو ترتیب سے چلاتا ہے، ہر گردش، ہر حرکت، ہر ستارے کی چمک اسی کی تدبیر ہے۔
جو باطنی کائناتوں کا مالک ہے، جس کی حکمت وہاں تک پہنچتی ہے جہاں انسانی نظر نہیں پہنچ سکتی۔
جس کے لیے یہ ظاہری کائنات اور تمام باطنی کائنات ذرہ بھر کی حیثیت نہیں رکھتیں، کیونکہ اس کا جلال ہر حدود سے بالاتر ہے۔
جس کی حمد، تسبیح و تعریف میں تمام جہان مگن رہتے ہیں، زمین و آسمان، سمندر و پہاڑ، ہوا و خلا، سب اسی کے ذکر میں مشغول ہیں۔
تمام زمینیں، تمام آسمان، سورج، چاند، ستارے، سیارے اور مخلوقات جو ہمیں نظر نہیں آتیں، جس کے قابو میں ہیں، ہر چیز اسی کے حکم کے تابع ہے، اور ہر موجود اسی کی قدرت سے قائم ہے۔
جو موت اور زندگی کا مالک ہے، جو فنا اور بقا کی تقدیر لکھتا ہے، اور ہر روح کو اس کے وقت مقرر پر بلاتا ہے۔
جس نے آسمانوں کو بغیر ستون کے کھڑا کیا، ایک نظر آسمان کی وسعت پر ڈالو، اس کی قدرت کی گواہی ہر سمت میں نظر آئے گی۔
جس نے زمینوں کو ہموار بنایا، کہ انسان سکون سے زندگی گزار سکے، اور اس کے وسائل سے فیض یاب ہو۔
جو سمندر، پہاڑ، دریا، جزائر، جنگلات اور انسان کا مالک ہے، ہر شے اس کے فضل سے قائم ہے، اور ہر زرے میں اس کی رحمت جھلکتی ہے۔
جو تمام جاندار، چرند اور پرند کا مالک ہے، پرندوں کے پر، دریاؤں کی روانی، جنگلوں کی سرسبزی، سب اس کے حکم سے چلتی ہیں۔
جس نے غبارے کے مانند انسان کو عقل، شعور، فکر اور چلنے کے لیے ہدایات دیں، جو انسان کو بصیرت دیتا ہے، اس کے دل و دماغ کو روشنی بخشتا ہے، اور اسے راہ دکھاتا ہے۔
جس کی رحمت ہر چیز کو گھیرے ہوئے ہے، اس کی رحمت زمین پر برسنے والی بارش میں ہے، ہوا کے نرم جھونکوں میں ہے، اور ہر زندگی کی روشنی اسی سے ہے۔
جو بادشاہوں کا بادشاہ ہے، نہ اس سے بڑا کوئی ہے، نہ اس کے برابر کوئی، وہی واحد ذات ہے، وہی معبودِ حقیقی ہے۔
درود و سلام
بعد از حمد و ثنا، درود و سلام ہو، سید السادات، امام الانبیاء، خاتم الانبیاء، محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ و آصحابہ و سلم پر، وہ نورِ مجسم، جو رحمت للعالمین بنا کر بھیجے گئے، جو انسانیت کو تاریکی سے نکال کر روشنی کی طرف لے گئے، جو حق و باطل میں فرق واضح کر گئے، اور جن کے نقشِ قدم ہی ہمارے لیے کامیابی کا راستہ ہیں۔ جس نے رب العالمین کے دکھائے ہوئے ہدایت کے راستے پر عمل کرکے ہمارے لیے ایک مثال قائم کی۔ وہی راستہ جو حق کی طرف لے جاتا ہے، جو ہر مخلوق کے لیے ہدایت کا ذریعہ ہے، اور جس کی پیروی ہی ایمان کی تکمیل ہے۔
بعد از درود و سلام،
اللهم أرنا الحق حقاً وارزقنا اتباعه، وأرنا الباطل باطلاً وارزقنا اجتنابه۔
یہ سفر اس شناخت کی تلاش ہے جو روح کے لیے حق کا دروازہ کھولتی ہے،
ایک جستجو، ایک روشنی، ایک پکار- اللّٰہ کی تلاش، جو ہر ذرّے میں موجود ہے مگر ہر دل میں نہیں جاگتی۔
یہ وہ راہ ہے جو دنیا کی حقیقتوں سے بلند کر دیتی ہے،
جو ہر آزمائش میں صبر سکھاتی ہے،
جو ہر سانس میں اللّٰہ کی عظمت کو محسوس کراتی ہے۔
یہ سفر اس پیاسے کی مانند ہے جو صحرا میں آبِ حیات کی تلاش میں سرگرداں ہے،
جہاں ہر سراب حقیقت معلوم ہوتا ہے، مگر اصل نور وہی ہے جو قلب کی گہرائیوں میں جاگزین ہو جائے۔
میں نے 34 سال حق کی تلاش میں گزارے، ہر لمحہ ایک امتحان تھا،
ہر سوال میرے ایمان کی آزمائش تھی، ہر جواب میری بصیرت کا امتحان۔
ہر شب کا سکون ایک غیب کی گواہی، ہر دن کی روشنی ایک حقیقت کی علامت۔
"أحسب الناس أن يتركوا أن يقولوا آمنا وهم لا يفتنون" (العنكبوت: 2)
کیا لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ وہ محض یہ کہہ کر چھوڑ دیے جائیں گے کہ ہم ایمان لے آئے،
اور انہیں آزمایا نہیں جائے گا؟
میں نے دنیا کی زرق برق کو پار کیا، مادی آسائشوں کو ترک کیا،
اور اس حقیقت کو پایا جو صرف ان پر ظاہر ہوتی ہے جو دل کے دروازے پر دستک دیتے ہیں۔
پھر وہ لمحہ آیا جب میری روح کو حقیقت کا احساس ہوا،
جب شعور کی روشنی اللّٰہ کی تجلیات میں ڈھل گئی،
جب ہر شے بے معنی ہو گئی اور صرف ایک ہی مقصد باقی رہا
اللّٰہ تبارک و تعالیٰ کا دیدار۔
جب دل کے دریچے کھل گئے، تو حقیقت یوں روشن ہوئی جیسے رات کے اندھیروں میں اچانک سحر نمودار ہو جائے۔
یہی زندگی کا خلاصہ ہے،
یہی کائنات کی اصل ہے،
یہی اس سفر کی انتہا ہے،
جہاں دل کی دنیا فنا ہو جاتی ہے اور روح بقا میں داخل ہو جاتی ہے۔
تو یہی اصل کامیابی ہے، یہی حقیقت کی معراج ہے،
اور یہی حقیقت مومن کی معراج بن جاتی ہے۔
حقیقی طلب اور روح کا سوال
پہلے میری ہر دعا میں الفاظ شامل ہوتے تھے۔ کہ "یارب العالمین۔ میں تیری دیدار کا طلبگار ہوں"۔ دعائیں کرتا تھا، مگر ایک دن روح نے مجھ سے ایسا سوال کیا جس نے میرے قلب کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔
روح نے کہا کہ
"تو جس ذات کے دیدار کا طلبگار ہے، وہ پاک ہے، اور تو ناپاک ۔ وہ بے نیاز ہے، کامل ہے، ہر عیب اور ہر کمزوری سے مبرا۔ جبکہ تو خطا کا پتلا ہے، گناہوں میں لت پت، کوتاہیوں میں ڈوبا ہوا، اور اللّٰہ کی رحمت کے بغیر کچھ بھی نہیں۔ جب اللّٰہ کی ذات مطلق پاکیزگی ہے، تو انسان کی خواہش، اس کی طلب، اس کی قربت کا کیا مقام؟"
یہ سوال میرے دل کی گہرائیوں میں ایک طوفان لے آیا۔ میں نے روح سے مزید پوچھا کہ
"کیا ایسا ممکن ہے کہ ناپاک، کمزور، گناہ آلود انسان اس پاک ذات کے قرب کا طلبگار ہو؟ اور اگر طلب سچی ہو، تو کیا اللّٰہ کی رحمت اسے پاکیزہ بنا سکتی ہے؟"
روح نے جواب دیا کہ
"یقیناً! اللّٰہ کی رحمت ہی ہر گناہ کو دھو سکتی ہے، ہر ناپاکی کو پاک کر سکتی ہے، ہر کمزور کو مضبوط بنا سکتی ہے۔ جو بھی خالص طلب کے ساتھ اللہ کی طرف رجوع کرے، اللّٰہ اسے پاک کر دیتا ہے۔"
یہ جواب میرے لیے ایک دعوتِ فکر تھا۔ ایک ایسا لمحہ جس نے مجھے اپنی حقیقت کی پہچان کروا دی، ایک ایسا لمحہ جس نے مجھے اپنے باطن میں جھانکنے پر مجبور کر دیا۔
باطن کی تلاش اور روحانی بلندی
جب روح نے یہ حقیقت ظاہر کی، تو میں نے اپنے باطن کی طرف سفر شروع کیا۔ میں نے اپنی زندگی کے ہر لمحے کو یاد کیا، اپنے ہر عمل کو پرکھا، اپنی ہر دعا کو جانچا، اور اپنی نیتوں کی گہرائی میں جھانکنے لگا۔
میں گڑگڑایا، رونے لگا۔ کیونکہ وقت جدید میں علم رکھنے والوں کا یہ عقیدہ تھا کہ اللّٰہ کا دیدار اس جہان میں ممکن نہیں۔ مجھے کوئی صورت نظر نہیں آ رہی تھی۔ پھر غور کرنے لگا کہ آخر کوئی راستہ تو ہو گا۔ میں زار و قطار، تن تنہا رویا کرتا تھا۔ پھر ایک دن جب میں غور و فکر کررہا تھا۔ تو روح نے کہا
"جب تک دل کی پاکیزگی حاصل نہ ہو، روحانی بلندی ممکن نہیں۔ جب انسان اپنے اندر کا زنگ صاف کرتا ہے، تو وہ اللّٰہ کے قرب کا اہل ہو جاتا ہے"
تب میں نے جانا کہ روحانی بلندی کا راستہ محض عبادات سے نہیں، بلکہ دل کی پاکیزگی سے جُڑا ہوا ہے۔
پھر میں نے سوال کیا کہ "دل کو کیسے پا ک کروں"۔
تو روح نے محبت بھرے لہجے میں جواب دیا کہ
"دل کی پاکیزگی ،اخلاص میں ہے، توبہ میں ہے، حسنِ اخلاق میں ہے، قلب کی نرمی اور اللّٰہ کی یاد میں ہے۔ جو اپنی نیت میں سچائی رکھے، جو اپنی عبادت میں اخلاص رکھے، جو دنیا کے فریب کو چھوڑ دے، جو ہر زہر کو دل سے نکال دے، وہی اللّٰہ کی قربت کا اہل بن جاتا ہے۔"
پھر میں نے بے چینی سے پوچھا کہ
"تو کیا حق کی طلب محض زبان سے ادا کرنا کافی نہیں ہے؟"
پھر روح نے جوابا کہا کہ
"نہیں، حق دل کی گہرائی سے طلب کیا جاتا ہے، حق عمل میں ظاہر ہوتا ہے، حق کردار میں نکھرتا ہے، حق تب ہی عطا ہوتا ہے، جب روح ہر آلودگی سے پاک ہو جائے۔"
میں سوچنے لگا، کافی دیر کے بعد پھر میں نے پوچھا کہ
"میں اس پر کیسے عمل کروں؟"
تو روح نے جواب دیا کہ
"اس کا پہلا قدم یہ ہے کہ تم اپنے گناہوں کی حقیقت کو پہچانو، اپنی خطاؤں کو قبول کرو، اور اپنی کمزوریوں کو سمجھ لو۔ گناہوں سے نجات کی راہ خود احتساب سے شروع ہوتی ہے۔ دوسرا سچی ندامت اور توبہ، اور تیسرا اصلاحِ نفس۔"
پھر میں نے فورا پوچھا کہ
وقت جدید میں علم رکھنے والوں کا یہ عقیدہ ہے کہ اس جہان میں اللّٰہ کا دیدار ناممکن ہے؟ اب میں کیا کروں؟
جواب ملا کہ
قرآن اٹھا کر دیکھ، تمھیں پتہ چل جائے گا۔ اللّٰہ فرماتا ہے کہ
"میں تمھاری شہ رگ سے بھی زیادہ تمھارے قریب ہوں"
اور سورہ کھف میں آخری آیت میں اللّٰہ فرماتا ہے کہ
"جو کوئی اپنے رب سے ملاقات کا خواہش مند ہے اسے چاہئیے کہ وہ نیک اعمال کرے اور اللّٰہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ بنائے۔"
میں نے پوچھا کہ
"اس کا کیا مطلب ہے؟"
روح نے پرسکون انداز میں جواب دیا کہ
"پہلی آیت کا مطلب یہ کہ اللّٰہ انسان کے دل میں رہتا ہے۔
دوسری آیت کا مطلب یہ ہے کہ جب انسان اللّٰہ کے سوا دنیا کی محبت، مال کی محبت یا اولاد کی محبت یا کسی دنیاوی مادے کو اپنے دل میں جگہ دیتا ہے، تو وہ اللّٰہ کے ساتھ شریک ٹھہراتا ہے۔ لہذا تم کبھی بھی ایسا نہ کرنا، اگر حق کو پانا چاہتے ہو۔"
اس کے بعد میرے دل کو تسلی ملی کہ آج کے علم رکھنے والوں کا نظریہ غلط ہے۔ اور میں مطمئن ہو گیا۔ تب
گناہوں سے توبہ: ایک روحانی سفر
میں نے اپنے باطن میں جھانکا، اپنے ہر عمل پر غور کیا، اور دل کی گہرائیوں سے توبہ کی۔ مردود کو دل سے نکال دیا۔ دل میں اللّٰہ کو بسایا، خود کو بار بار آزمایا، اپنے وجود کو ہر ناپاکی سے پاک کیا، الحمدللہ۔
تب روح نے کہا:
"اب تیرا دل روشنی قبول کرنے کے قابل ہو گیا ہے۔ جب انسان سچی توبہ کرتا ہے، تو اس کے دل کی تاریکی ختم ہو جاتی ہے، اور اللّٰہ کی تجلیات اس کے قلب میں اُترتی ہیں"
یہ الفاظ میرے دل پر ثبت ہو گئے۔ میں نے اپنی روح میں نورحق کی تجلیات کو محسوس کرنا شروع کیا۔ پھر میں نے استدراج، فراست، کشف اور الہام کی طرف سفر کیا۔ جب میں نے یہ سفر مکمل کیا تو میری روح حق کی روشنی میں ڈھل گئی۔
مگر اس کے پیچھے کا بڑا راز میرے عقیدے ہیں۔ میرے مکمل عقیدے قرآن سے ہیں۔ میں کسی کی اندھی پیروی نہیں کرتا۔ اور پھر اس مقام تک پہنچنا، جیسے کہ ایک مقولہ مشہور ہے کہ "نیت صاف، منزل آسان"۔
اور یوں، حقیقت واضح ہو گئی، کہ دین صرف عبادات کا نام نہیں، بلکہ قلب کی پاکیزگی، نیت کی سچائی، اور کردار کی روشنی ہے۔
مجھے ایسا محسوس ہوا جیسے میری روح نور میں ڈھل رہی ہو، جیسے ایک بھاری بوجھ میرے وجود سے اُتر رہا ہو، اور ایک نئی زندگی کا دروازہ کھل رہا ہو۔ اب میری دعا ہر لمحہ یہی رہی:
"یا رب العالمین، تو پاک ہے، سبحان تیری ذات ہے،جیسا کہ تو پاک ہے، ویسا ہی تو مجھے بھی پاک کر دے، کہ یہ دیدار پاکی میں ہو"
توبہ کی حقیقت
روح نے میری دعا سن کر کہا:
"جب کوئی بندہ اپنی کمزوری کو پہچان لے، اپنی حقیقت کو تسلیم کر لے، اور اللّٰہ سے پاکیزگی مانگے، تو یہ اس کی روحانی بیداری کی دلیل ہے۔ مگر یاد رکھ، یہ صرف الفاظ نہیں، بلکہ ایک مسلسل تڑپ، ایک جستجو، ایک یقین ہے کہ اللّٰہ کی رحمت ہر گناہ کو دھو سکتی ہے۔"
میں نے حیرت سے پوچھا:
"کیا واقعی اللّٰہ ہر گناہ معاف کر دیتا ہے؟"
روح نے پر سکون لہجے میں مجھے مطمئن کیا کہ
"جو ہو گیا سو ہو گیا۔ اب اگر اللّٰہ کا دیدار چاہتے ہو تو، آگے سب کے سب نیک اعمال کرو۔
اور قرآن کی ایک آیت تلاوت کی
قُلْ يَا عِبَادِيَ ٱلَّذِينَ أَسْرَفُوا۟ عَلَىٰٓ أَنفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوا۟ مِن رَّحْمَةِ ٱللَّهِ ۚ إِنَّ ٱللَّهَ يَغْفِرُ ٱلذُّنُوبَ جَمِيعًا
(سورۃ الزمر، آیت 53)
پھر وضاحت کرتے ہوئے کہا:
اللّٰہ اپنے بندوں کو نرمی سے مخاطب کر کے فرماتا ہے کہ اے میرے بندو، جو اپنی جانوں پر ظلم کر چکے ہو، میری رحمت سے ناامید نہ ہو! کیونکہ اللّٰہ تمام گناہوں کو معاف کر دیتا ہے۔
یہی وہ وعدہ ہے جس پر توبہ کرنے والا ہمیشہ بھروسہ رکھتا ہے۔"
یہ الفاظ میرے دل میں سکون لے آئے۔ میں نے روح سے مزید پوچھا:
"تو کیا پاکیزگی صرف ظاہری جسم کی صفائی کا نام ہے؟"
روح نے مسکراتے ہوئے کہا:
"نہیں، پاکیزگی صرف جسم کی صفائی نہیں، بلکہ باطن کی طہارت، نیت کی سچائی، کردار کی بلندی، اور دل کی روشنی ہے۔ جسے اللّٰہ پاک کرنا چاہے، اسے دنیا کی کوئی آلودگی میلی نہیں کر سکتی۔"
سچی توبہ کی علامت
میں نے اپنی روح سے کہا:
"میں اپنی دعا میں یہ الفاظ بھی شامل کرنا چاہتا ہوں کہ ’یا رب العالمین، تیرے ایک اشارے سے اس نجس کا کام بن جائے گا۔‘"
روح نے نرمی سے مسکرا کر جواب دیا:
"یہ عاجزی، مکمل یقین، اور اللّٰہ کی قدرت پر ایمان کی علامت ہے۔ اللّٰہ اگر کن کہہ دے، تو ہر چیز بدل جاتی ہے۔ ہر گناہ نیکی میں بدل جاتی ہے، ہر اندھیرا نور میں بدل جاتا ہے، ہر غم راحت میں ڈھل جاتا ہے۔"
پھر روح نے مزید وضاحت کرتے ہوئے کہا:
"یہی سچی بندگی ہے کہ انسان اپنی ناپاکی کو تسلیم کرے، اپنی عاجزی کو پہچانے، اور اللّٰہ کے ایک اشارے کا طلبگار ہو"
میں نے سکون بھری آواز میں کہا:
"تو کیا یہی سچی دعا ہے؟"
روح نے شفقت بھری مسکراہٹ کے ساتھ کہا:
"ہاں، یہ دعا محض الفاظ نہیں، بلکہ ایک مومن کا اللّٰہ کے در پر گرنے کا اظہار ہے، اس کے رحم و کرم کی التجا ہے، اور اس کی رضا کی فریاد ہے"
تب میں نے گہرے یقین سے کہا:
"یا رب العالمین، میں تیرے در پر جھکنے آیا ہوں، مجھے اپنی رحمت میں ڈھانپ لے"
اطاعت اور عبادتِ الٰہی
میں نے اپنی روح سے سوال کیا:
"میں چاہتا ہوں کہ میرا سارا وقت اللّٰہ کی اطاعت اور عبادت میں گزرے، تاکہ مجھے آخرت میں سوال و جواب میں مشکل نہ ہو۔ میں اسے کیسے ممکن بنا سکتا ہوں؟"
روح نے محبت بھرے انداز میں جواب دیا:
"اگر تیرے پاس وقت ہو، سہولیات ہوں، اور تیرے آس پاس گناہوں کا ماحول ہو، تو ان سے دور ہو جا۔ ہر گناہ کو اپنے اوپر حرام کر لے، تب یہ تیری اطاعت ہے، اور ہر وقت باوضو رہے اور زبان، دل اور بدن کے تمام اعضاء یہاں تک کہ تیرے بدن کے بال، ان سے اللّٰہ کو پکار، تو تیری تعداد ظاہر اور باطن میں دو لاکھ اسی ہزار ہو جائے گی، تو یہ تیری عبادت ہے۔ جو بندہ گناہوں سے بچتا ہے، وہی حقیقی عبادت کی راہ پر چلتا ہے اور عبادت کی مٹھاس حاصل کر لیتا ہے"۔
میں نے غور کیا اور اپنے حالات کو پرکھا:
"اب میرے پاس وقت ہے، سہولیات ہیں، انٹرنیٹ ہے، اور میرے آس پاس گناہوں کا ماحول ہے۔ لیکن پھر بھی میں فلمیں، ڈرامے، اور فضول تفریح نہیں دیکھتا۔ حتیٰ کہ خبریں بھی نہیں دیکھتا۔ نہ کہیں دنیا کی شغل بازیوں پہ جاتا ہوں، خود کو اطاعت کے سانچے میں ڈھالا۔ عبادت کے لیے میں نے اپنے بدن کے دو لاکھ اسی ہزار ظاہری اور باطنی جوڑ کو اللّٰہ کے لیے وقف کر دیا۔ جس سے 'لاالہ الا للہ محمد رسول اللّٰہ' کو میں اپنے باطن میں اتارنے میں کامیاب ہو گیا۔ اب میں اپنا پورا وقت قرآن پاک کی تعلیم اور تحقیق میں گزارتا ہوں، اورالحمدللہ، اپنی آنے والی نسل اور امت مسلمہ کے اتحاد کے لیے صحیح اسلامی عقائد مرتب کر رہا ہوں۔"
روح نے مسکراتے ہوئے کہا:
"یہی اصل کامیابی ہے، کہ انسان دنیا کی فتنہ انگیزی سے بچ کر، اللّٰہ کے قرب کی راہ پر گامزن ہو جائے۔ جو اپنے وقت کو قرآن، تحقیق، اور حق کی تلاش میں گزارے، وہی آخرت میں سرخرو ہوگا"
میں نے روح سے مزید پوچھا:
"کیا عبادت کا مطلب صرف نماز، روزہ، اور دیگر ظاہری عبادات ہیں، یا اس کا دائرہ اس سے وسیع ہے؟"
روح نے نرمی سے جواب دیا:
"عبادت صرف نماز، روزہ، اور دیگر ارکانِ دین کا نام نہیں، بلکہ زندگی کے ہر عمل میں اخلاص اور اللہ کی رضا کو شامل کرنا ہی اصل عبادت ہے۔ جب تمہارا ہر عمل اللّٰہ کی خوشنودی کے لیے ہو، تو تمہاری پوری زندگی عبادت بن جاتی ہے"۔
میں نے حیرت سے سوال کیا:
"تو کیا علم حاصل کرنا، لوگوں کی مدد کرنا، اور میرا ہر کام کرنا بھی عبادت سمجھ سکتا ہوں؟"
روح نے گہرائی سے کہا:
"یقیناً! علم حاصل کرنا لیکن اللّٰہ کی رضا کی خاطر، حق کی جستجو کرنا، دوسروں کی مدد کرنا، نیک نیتی سے معاملات طے کرنا، ہر وہ کام جو اللّٰہ کے قریب لے جائے، عبادت ہے۔ دینِ اسلام میں ہر نیکی عبادت ہے، اگر وہ اللّٰہ کی رضا کے لیے ہو"۔
میں نے مزید غور کیا:
"اگر میں ہر عمل اللّٰہ کی خوشنودی کے لیے کروں، تو کیا میری روزمرہ کی زندگی بھی عبادت بن جائے گی؟"
روح نے پر یقین لہجے میں کہا:
"بالکل! اگر تم اپنے کھانے، پینے، سونے، جاگنے، کام کرنے، علم حاصل کرنے، اور حتیٰ کہ لوگوں سے حسنِ اخلاق سے ملنے کو بھی اللّٰہ کی رضا کے لیے کرتے ہو، تو تمہاری ہر سانس عبادت بن جائے گی۔"
پھر میں نے پوچھا کہ "میں اس پہ عمل کیسے کر سکتا ہوں"۔
روح نے سکون سے جواب دیا کہ "رسول اللّٰہ ﷺ کا طریقہ اپنا لو، اور اگر تو باقی نہیں جانتا، تو اتنا کرلے کہ جب بھی کسی سے مل، تو سلام کر۔ اپنے کلام میں انشاء اللّٰہ، ماشاء اللّٰہ، سبحان اللّٰہ، الحمدللہ، اللّٰہ اکبر، استغفر اللّٰہ کو جاری کردے۔"
پھر میں نے کہا کہ
اب یہ کیسے کروں؟
تو جواب ملا کہ
"ہر ارادے میں انشاء اللّٰہ کہہ، ہر کام کی شروعات میں بسم اللّٰہ پڑھ اور اختتام میں الحمدللہ پڑھ۔ کوئی نیا علم تجھ تک پہنچے تو کہہ سبحان اللّٰہ۔ بلندی پر چڑھ ، تو کہہ اللّٰہ اکبر۔ نیچے اتر تو کہہ سبحان اللّٰہ، قدرت کی نئی عجوبات اور نظاروں پر کہہ ماشاء اللّٰہ، گناہوں کی بخشش کے لیے استغفر اللّٰہ کہہ۔"
یہ جواب میرے دل میں ایک روشنی لے آیا۔ میں نے دعا کی
"۔ یا رب العالمین! مجھے توفیق عطا فرما کہ میں اپنی زندگی کا ہر لمحہ تیری خوشنودی کے لیے وقف کر سکوں۔ میں نے اپنی جتنی بھی زندگی ان کلمات انشاءاللہ، ماشاءاللہ، سبحان اللہ، الحمدللہ، اللہ اکبر، استغفراللہ کے بغیر گزاری ہے، تو میری سابقہ زندگی کے ہر لمحہ میں یہ کلمات شامل کردے میرے مولا۔ "
رسول اللّٰہ ﷺ کی مبارک طریقہ پر میں پہلے ہی سے عمل پیرا تھا، کیونکہ الحمدللہ میں نے تمام مسنون اعمال بچپن سے جاری رکھے تھے اور میں ہر عمل کو اپنے باطن میں انجام دیتا تھا، لہذا پھر میں نے مزید اخلاص سے عمل شروع کیا۔
عبادت کی روحانی لذت
میں نے اپنی روح سے سوال کیا:
"میں نے ایسے بھی لوگ دیکھے ہیں جو عبادت کو بوجھ سمجھتے ہیں؟"
روح نے مسکراتے ہوئے کہا:
"جو شخص عبادت کو بوجھ سمجھتا ہے، ان سے اللّٰہ ناراض ہے، اس لیے وہ حقیقت میں عبادت کی روحانی مٹھاس سے محروم ہے۔ وہ اللّٰہ کو راضی کر لے۔ جب کوئی عبادت میں محبت، اخلاص، اور یقین شامل کر لے، تو عبادت اس کے دل کو سکون اور روح کو روشنی عطا کرتی ہے"
میں نے پھر کہا کہ
"عبادت کی مٹھاس حاصل کرنے کے لیے ان کو کیا کرنا چاہئیے؟"
رو ح نے میری تائید میں جواب دیا کہ
"ان کو اللّٰہ سے توفیق مانگنی چاہئیے"
میں نے کہا کہ
"توفیق کیسے مانگنی چاہیئے
تو روح نے کہا کہ
"اس کے لیے ارادہ ہونا چاہیئے"
میں نے کہا کہ
"ارادہ کیسے کریں؟"
تو روح نے کہا کہ
"دل کی سچائی ہونی چاہئیے، جسے اخلاص کہتے ہیں۔"
میں نے سوال کیا:
"کیا عبادت انسان کی زندگی بدل سکتی ہے؟"
روح نے پرزور انداز میں کہا:
"یقیناً! جو بندہ عبادت کی سچائی کو پہچان لے، اس کی زندگی بدل جاتی ہے۔ اس کے معاملات آسان ہو جاتے ہیں، دل کو سکون ملتا ہے، اور اللّٰہ کا قرب نصیب ہوتا ہے۔ عبادت وہ راستہ ہے جو انسان کو دنیا اور آخرت میں کامیابی کی طرف لے جاتا ہے"۔
توحید
پھر میں نے اپنی روح سے سوال کیا: توحید کیا ہے؟
"روح نے پرسکون لہجے میں جواب دیا: اللّٰہ ایک ہے۔"
میں نے مزید جاننے کی خواہش میں پوچھا:
"میں اس پر کیسے عمل کر سکتا ہوں؟"
روح نے کہا:
"تو خود بھی ایک ہو جا۔"
میں نے حیرت سے کہا:
"یہ کیسے ممکن ہے؟"
روح نے نرمی سے کہا:
"ہر چیز سے بیگانہ ہو جا، خود کو خواہشات کی زنجیروں سے آزاد کر، اور اپنی ذات کو اللّٰہ کی یاد میں قید کر، جیسا کہ قرآن میں اللہ فرماتے ہیں کہ اللہ کو اس طرح یاد کرو کہ تم خود کو بھی بھول جاو۔ جب تمہارا ہر قدم اللّٰہ کی رضا کے حصول کے لیے اٹھے گا، تب ہی تم حقیقی توحید کی منزل پر پہنچو گے۔ یاد رکھو، ہر حقیقت کی انتہا محبتِ الٰہی ہے۔ وہی محبت جو انسان کو حق کی طرف لے جاتی ہے، روح کو روشن کرتی ہے، دل کو سکون بخشتی ہے، ہر تعلق کو پاکیزگی عطا کرتی ہے، اور انسان کو اس کے اصل مقصد کی طرف لے جاتی ہے۔"
صبر اور شکر
میں نے روح سے پوچھا:
"صبر اور شکر کی حقیقت کیا ہے؟"
روح نے مسکرا کر جواب دیا:
"صبر طاقت ہے، اور شکر روشنی۔"
میں نے مزید وضاحت طلب کی، تو روح گویا ہوئی:
"جب انسان ہر حالت میں اللّٰہ کی رضا پر راضی ہو جائے، تو صبر اس کے دل کو مضبوطی عطا کرتا ہے اور شکر اسے نور بخشتا ہے۔"
میں نے کہا کہ "میں ان پر کیسے عمل کروں"۔
جواب ملا کہ
"کوئی تکلیف پہنچے، تو اناللہ و انا الیہ راجعون پڑھ کر اس پر خاموشی اختیار کرکے بھول جا کہ، جیسے کچھ ہوا بھی ہے، یا نہیں، تو یہی صبر ہے۔ اور اگر اللّٰہ کی کوئی بھی نعمت، جو تیرے ہاتھ تک پہنچے، تو اس پر الحمدللہ رب العالمین کہنا، یہی شکر ہے۔"
سادگی اور عاجزی
پھر میں نے کہا کہ:
"میں سادگی اور عاجزی کو اختیار کرنا چاہتا ہوں؟"
روح نے جواب دیا:
"ہرایک طاقتور کو کمزور سمجھ، اور ہر ایک کمزور کو طاقتور سمجھ۔ یہی سوچ تمہارے دل میں حقیقی عاجزی اور خلوص پیدا کرے گی، اور تمہیں تکبر سے بچائے گی۔"
میرے کام ادھورے کیوں رہ جاتے ہیں؟
پھر میں نے پوچھا:
"میرا ہر کام ادھورا کیوں رہ جاتا ہے؟"
روح نے کہا:
"تم اپنے ہر کام میں اللّٰہ کی رضا کو شامل کر لو۔"
میں نے بے چینی سے پوچھا:
"میں اس پر کیسے عمل کر سکتا ہوں؟"
روح نے مسکرا کر کہا:
"اپنے ہر کام کا ارادہ کرنے سے پہلے استثناء کرو یعنی انشاء اللہ کہو، جب شروع کرو تو بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھو، تو تمہیں کامیابی نصیب ہوگی، اور تمہارا ہر کام بخوبی انجام کو پہنچے گا۔"
کیا میری تعلیمات صرف میری نسل کے لیے ہیں؟
بعد از کلام، میں نے اپنی روح سے سوال کیا:
"کیا میں اپنی تمام تعلیمات صرف اپنی آنے والی نسل کے لیے مخصوص کر دوں؟"
روح نے حیرت سے پوچھا:
"کیا تم بخیل ہو؟"
میں نے فوراً جواب دیا:
"نہیں۔"
روح نے وضاحتی انداز میں پوچھا کہ:
"پھر ایسا کیوں سوچتے ہو؟"
میں نے تسلی بخش انداز میں جواب دیا کہ:
"میں وہی دین پسند کرتا ہوں جو رسول اللّٰہ ﷺ پر نازل ہوا ہے، اگرچہ بظاہر میرا راستہ کٹھن ہے۔ رسول اللّٰہ ﷺ نے فرمایا: "یہ دنیا مومن کے لیے قید ہے اور کافر کے لیے جنت۔" جب میں آج کے دور میں مسلمانوں کی موجودہ حالت کو دیکھتا ہوں" تو دل افسردہ ہو جاتا ہے، کیونکہ مسلمانوں نے اس دنیا کو اپنی جنت بنا لیا ہے۔ حکم یہ ہے کہ یہاں پر اس دنیا میں ایک مسافر کی طرح رہنا ہے، اور یہ ایک امتحان کی جگہ ہے، مگر مسلمانوں نے اس دنیا میں ایسی رہائش اختیار کی ہے کہ جیسے یہاں ہمیشہ کے لیے رہنا ہو۔ حکم آخرت کی تیاری کا ہے، مگر افسوس میرے مسلمان بھائی اس وقت اس وقت اس کا مخالف راستہ اختیار کر چکے ہیں۔ حقیقت کو چھوڑکر فریب کا راستہ اختیار کر چکے ہیں۔ اس لیے شاید ہی کوئی میری راہ پر چلے۔"
روح نے میرے دل کو تسلی دی:
"کیا صرف تم ہی ہو جو اس راستے پر چلنے کی خواہش رکھتے ہو؟ ایسا کیوں سوچتے ہو؟ اللہ تمہارے ساتھ ہے۔ تم اللّٰہ پر کامل یقین رکھو، آگے بڑھو، اور تم دیکھو گے انشاء اللہ، کہ راستے میں دوسرے مومنین تمہارا ساتھ دیتے جائیں گے۔"
اسی لیے اب کافی عرصے کے بعد اپنی تعلیمات کو شائع کر رہا ہوں۔
یا اللّٰہ ۔ مجھے توفیق دے کہ میں اپنی زندگی میں حقیقی دین اسلام نافذ کروں۔ اپنا ہر لمحہ تیرے نازل کیے ہوئے دین پر بسر کروں۔ آمین۔
میری کوئی دعا قبول کیوں نہیں ہوتی؟
میں نے اپنی روح سے پوچھا کہ "میری کوئی دعا قبول نہیں ہوتی؟"۔
روح نے جواب دیا کہ"مظلوم بن جا"۔
میں نے کہا کہ"میں کیسے مظلوم بن جاوں؟"۔
روح نے کہا کہ "مظلوم اور اللہ کے درمیان کوئی پردہ نہیں ہے۔ اللّٰہ مظلوم کی ہر دعا قبول فرماتا ہے"۔
میں نے کہا "میں کیسے اس پر عمل کروں"۔
روح نے کہا کہ "اپنی نفس پر اتنا ظلم کر، کہ وہ مظلوم بن جائے"۔
دنیا اور اس کا امتحان
پھر میں نے اپنی روح سے سوال کیا کہ:
"جب تجھے ہر چیز کا علم ہے، ہاتھ کے فنون سے لے کر ٹیکنالوجی تک، تو مجھے کسی بھی مہارت میں کامیاب بنا سکتی ہے، جیسے دوسرے لوگ مال و دولت کے پیچھے بھاگ رہے ہیں۔ لوگوں میں، سوشل میڈیا پر، کاروبار میں، ہر جگہ دولت کو کامیابی سمجھا جا رہا ہے۔ اب میں کیا کروں؟"
روح نے لمحہ بھر خاموشی اختیار کی، پھر کہا:
"اے دوست! کیا تو نے کبھی غور کیا کہ اللہ نے رزق اور دولت کے اصول کو مختلف بنایا ہے؟ ہر انسان کو ایک منفرد آزمائش دی گئی ہے۔ کوئی دولت کے امتحان میں ہے، کوئی علم کے، کوئی طاقت کے، کوئی غربت کے، اور کوئی عزت کے امتحان میں مبتلا ہے۔ مگر اصل سوال یہ ہے: تو کس امتحان میں کامیاب ہونا چاہتا ہے؟۔"
پھر میں نے پوچھا کہ
"لوگ تو صرف دولت کے پیچھے بھاگ رہے ہیں، سوشل میڈیا پر شہرت کے لیے اپنی روح بیچ رہے ہیں، عزت کی قیمت لگا رہے ہیں۔ تو کیا میں بھی یہی راستہ اپنا لوں؟"
روح نے گہرائی سے جواب دیا کہ
"یہاں غور کر، انسان دو راستوں میں الجھا ہے
ایک راستہ وہ ہے جس میں انسان تکبر، آزمائش اور گمراہی اختیار کرکے راستہ بھٹک جاتا ہے۔
دوسرا راستہ وہ ہے جس میں انسان عاجزی، سخاوت اور اللّٰہ کی رضا پر چل کر زندگی گزارتا ہے۔
ذرا غور کرو؟
رسول اللّٰہ ﷺ کے صحابی حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ ایک کامیاب تاجر تھے، مگر انہوں نے کبھی دولت کو اپنی زندگی کا مقصد نہیں بنایا، بلکہ اللہ کی راہ میں خرچ کرتے رہے۔ جب ان کے سامنے دنیا کی نعمتیں آئیں، تو وہ رو پڑے کہ کہیں یہ ان کا اجر نہ ہو جائے"۔
میں سوچا کہ
"اس کا مطلب دو راستے ہیں۔"
پھر میں نے سوال کیا کہ
"ان دو راستوں کی کیا حقیقت ہے؟"
روح نے جواب دیا کہ
"ایک راستہ اللّٰہ کا ہے، جو کہ سیدھا راستہ ہے۔ اور دوسرا راستہ شیطان مردود کا ہے، جو کہ گمراہ ہے۔ یعنی سیدھا راستہ اور گمراہ مطلب بھٹکا ہوا راستہ۔"
پھر میں پوچھا کہ
"ان میں کیا فرق ہے؟"
تو جواب ملا کہ
"سیدھا راستہ دنیا اور آخرت دونوں کی کامیابی، اور گمراہی کا راستہ، صرف دنیا کی کامیابی، جو کہ عارضی ہے۔ اور ختم ہو نے والی ہے۔ مردود بظاہر دنیا کو سجا کر لوگوں کے سامنے پیش کرتا ہے، اس لیے جو دنیا کے طالب ہوتے ہیں، وہ دوڑ کر اس کے پیچھے جلے جاتے ہیں۔ جو اللّٰہ کے ساتھ مخلص ہو جاتے ہیں۔ پھر اللّٰہ ہر معاملے میں ان کی مدد اور کفایت کرتا ہے۔"
پھر میں غور کیا اور کہا کہ
"اس کا مطلب ہے کہ
انسان ہمیشہ دو راستوں کے درمیان الجھا رہتا ہے۔ کیا دولت، علم، طاقت، غربت اور عزت ، یہ سب ایک دو راہے پر کھڑی ہیں؟ ان کی حقیقت کیا ہے؟"
روح نے پرسکون انداز میں جواب دیا کہ
"ہر آزمائش دو راستے رکھتی ہے۔ اس میں انسان کی اصل شناخت بنتی ہے۔ انہی آزمائشوں سے انسان کے جنت اور جہنم کا فیصلہ ہوتا ہے۔"
پھر میں نے پوچھا کہ
"دولت کے دو راستے کیا ہیں؟"
روح نے جواب دیا کہ
"ایک راستہ وہ ہے جہاں دولت تکبر، آزمائش اور گمراہی کی طرف لے جاتی ہے۔ انسان غرور میں مبتلا ہوتا ہے، دوسروں کو کمتر سمجھتا ہے، اور اپنے مال کو اپنی طاقت سمجھتا ہے۔ اگر دل مال ودولت کی محبت میں گرفتار ہو جائے، تو وہ اللہ سے دور ہو جاتا ہے۔
دوسرا راستہ وہ ہے جہاں دولت عاجزی، سخاوت اور اللّٰہ کی رضا کا ذریعہ بنتی ہے۔ جو دیتا ہے، وہ حقیقت میں زیادہ حاصل کرتا ہے۔ لیکن یاد رکھ، جو اللّٰہ کے قریب ہونا چاہتا ہے، وہ دولت کے فریب کو مسترد کر دیتا ہے
ذرا غور کرو؟
قارون وہ شخص تھا جسے بے پناہ دولت عطا ہوئی، مگر اس نے تکبر اختیار کیا اور اللّٰہ سے دور ہو گیا۔ زمین نے اسے نگل لیا، اور اس کی دولت اس کے کام نہ آئی۔
اس کے مقابلے میں سیدنا ابوبکرؓ بھی مالدار تھے، مگر انہوں نے اپنی دولت دین کی خدمت میں لگا دی۔ فقر کو گلے لگا لیا، اور ہمیشہ اللہ کی رضا کو مقدم رکھا۔ دولت بذاتِ خود فریب نہیں، بلکہ دل کی نیت اس کا فیصلہ کرتی ہے۔
پس، سچائی پر قائم رہ، بصیرت کو تھامے رکھ، اور دنیا کی چمک سے دھوکہ نہ کھا۔ دولت خود فتنہ نہیں، مگر دل کی نیت اس کا فیصلہ کرتی ہے۔ کامیابی وہ ہے جو دل کو مطمئن کرے، نہ کہ وہ جو انسان کو مزید لالچ میں مبتلا کر دے۔"
میں نے پوچھا کہ
علم کے دو راستے کیا ہیں؟
روح نے جواب دیا کہ
"ایک راستہ وہ ہے جہاں علم تکبر، خود پسندی اور دوسروں کو کمتر سمجھنے کی طرف لے جاتا ہے۔ انسان علم کو اپنی بڑائی کا ذریعہ بناتا ہے۔ اس سے دنیا حاصل کرنے لگ جاتا ہے۔ جیسے دولت اور شہرت۔ اس لیے حکمت اور بصیرت کھو دیتا ہے۔
دوسرا راستہ وہ ہے جہاں علم روشنی اور عاجزی کا ذریعہ بنتا ہے۔ انسان خود اس پر عمل کرتا ہے۔ دوسروں کو بغیر کسی لالچ کے حقیقی علم دیتا ہے۔ جو علم بانٹتا ہے، وہ خود زیادہ سمجھتا ہے۔ ذرا سوچو؟
سیدنا سلیمانؑ کو اللّٰہ نے انہیں بے پناہ علم اور حکمت دی۔ انہوں نے اسے عدل، انصاف اور لوگوں کی رہنمائی کے لیے استعمال کیا۔ ان کی دعا مشہور ہے: "مجھے ایسا اختیار عطا کر جو میرے بعد کسی کو نہ ملے، اور مجھے شکر گزاروں میں شامل کر۔"
اور
ابن ملجم قرآن کا حافظ تھا، علم رکھتا تھا، مگر علم نے اسے غرور اور گمراہی میں دھکیل دیا۔ بجائے اس کے کہ وہ حکمت سیکھتا، وہ تکبر میں مبتلا ہو گیا اور سیدنا علیؓ پر حملہ کر بیٹھا۔"
میں سوچ میں پڑ گیا اور پھر پوچھا کہ
"طاقت کا کیا حال ہے؟"
روح نے جواب دیا کہ
"ایک راستہ وہ ہے جہاں طاقت ظلم، غرور اور دوسروں کو دبانے کا ذریعہ بن جاتی ہے۔ انسان اپنی قوت کو برتری کے لیے استعمال کرتا ہے، انصاف بھول جاتا ہے۔
دوسرا راستہ وہ ہے جہاں طاقت عدل، حفاظت اور کمزوروں کی مدد کا ذریعہ بنتی ہے۔ جو طاقت کو راہِ حق میں استعمال کرتا ہے، وہ سچا محافظ بنتا ہے۔
ذرا غور کرو؟
نمرود وہ بادشاہ تھا، جسے بے پناہ طاقت ملی۔ مگر وہ اسی طاقت میں گم ہو گیا، اور خود کو رب کہلوانا شروع کر دیا۔ قدرت نے اسے مچھر کے ذریعے ہلاک کر دیا۔
اس کے برعکس سیدنا عمر فاروقؓ وہ شخص تھے، جنہیں طاقت دی گئی، مگر انہوں نے اسے عدل، انصاف اور کمزوروں کی خدمت میں صرف کیا۔ ان کا ہر فیصلہ حق پر مبنی تھا، اور طاقت ان کے کردار کو نہ بدل سکی۔"
پھر میں نے پوچھا کہ
"عزت کیسے آزماتی ہے؟"
روح نے جواب دیا کہ
"ایک راستہ وہ ہے جہاں عزت نرگسیت، خود پسندی اور تکبر میں بدل جاتی ہے۔ انسان خود کو دوسروں سے اعلیٰ سمجھتا ہے، اور حقیقت کھو دیتا ہے۔
دوسرا راستہ وہ ہے جہاں عزت فروتنی، نرمی اور محبت کا ذریعہ بنتی ہے۔ جو عزت کو نعمت سمجھ کر انکساری اختیار کرتا ہے، وہ دلوں میں گھر کر لیتا ہے۔
ذرا سوچو کہ
ابو جہل قریش کا معزز سردار تھا، مگر اسی عزت میں وہ خود پسندی اور تکبر میں مبتلا ہو گیا۔ عزت کو حق کے خلاف استعمال کیا، اور ذلت اس کا مقدر بنی۔
مگر سیدنا علیؓ عزت والے تھے، مگر انہوں نے اپنی عزت کو عاجزی اور محبت میں استعمال کیا۔ لوگوں کے دلوں میں جگہ بنائی، اور عزت کو رضائے الٰہی کا ذریعہ بنی۔"
پھر میں پوچھا کہ
"غربت کا امتحان کیا ہے؟"
جواب ملا کہ
"ایک راستہ وہ ہے جہاں غربت حسد، ناامیدی اور مایوسی میں بدل جاتی ہے۔ انسان اپنی محرومی کو ظلم سمجھتا ہے، اور دوسروں سے نفرت کرنے لگتا ہے۔ اور گمراہی کی طرف چل پڑتا ہے۔
دوسرا راستہ وہ ہے جہاں غربت صبر، قناعت اور قربِ الٰہی کا ذریعہ بنتی ہے۔ جو کم رکھ کر بھی شکر کرتا ہے، وہ سب سے زیادہ خوشحال ہوتا ہے۔ اس کو فقر کہتے ہیں۔
ذرا غور کرو؟
دیکھ، وہ لوگ جنہوں نے غربت کو حسد، مایوسی اور کفر میں بدل لیا، وہ ہمیشہ بے سکون رہے۔ ابو لہب نے دنیا کی آسائشیں چاہیں، مگر روحانی تباہی اس کا مقدر بنی۔
اس کے مقابلے میں سیدنا ابو ذر غفاریؓ وہ شخص تھے، جنہوں نے فقر کو گلے لگایا، اور غربت کو قناعت اور صبر کا ذریعہ بنایا۔ ان کا دل دنیا کے مال سے بے نیاز تھا، اور اسی میں ان کی حقیقی کامیابی تھی۔"
پھر میں نے سوچ کر کہا کہ
"تو ہر انسان دو راستوں میں سے ایک کا انتخاب کرتا ہے؟"
روح نے جواب دیا کہ
"بالکل! انسان کا ہر قدم ایک امتحان ہے، اور راستے کا انتخاب اس کی حقیقت کو طاہر کرتا ہے۔ جو حق کا راستہ چنتا ہے، وہ اگر بظاہر لوگوں کی نظروں میں ناکام ہو لیکن ہمیشہ کامیاب ہوتا ہے۔ اور جو بھٹکا ہوا راستہ چنتا ہے، وہ اگر بظاہر دنیا کی نظروں میں کامیاب ہو، وہ ہمیشہ ناکام رہتا ہے۔"
پھر گہری سوچ میں پڑ گیا اور چند لمحے بعد پوچھا کہ
"تو ہر آزمائش کا انجام انسان کی نیت اور راستے کے انتخاب پر ہے؟"
روح نے وضاحتی انداز میں جواب دیا کہ
"بالکل! دولت، علم، طاقت، عزت اور غربت بذاتِ خود نہ فائدہ دیتی ہیں، نہ نقصان پہنچاتی ہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ انسان انہیں کس راہ پر لے جاتا ہے۔ یہی اس کی حقیقی آزمائش ہے۔"
میں اور تم کتنا عرصہ دنیا میں رہیں گے؟
میں نے روح سے مزید پوچھا کہ
"میرا اور تمھارا یہاں رہنے کا دورانیہ کتنا ہے، ہم یہاں کتنے عرصے تک رہیں گے؟"
روح نے ایک ٹھنڈی سانس لی اور پر سکون انداز میں جواب دیا کہ
"جب میدان محشر میں لوگ جمع ہوں گے، تو ان کو اس دنیا کی زندگی کا دورانیہ ایک مختصر ساعت کی طرح محسوس ہو گا کہ جیسے انھوں نے دنیا میں صرف صبح کا ایک گھنٹہ گزارا ہے۔ یا پھر عصر سے لے کر مغرب تک کا وقت گزارا ہے"
تب میری آنکھوں سے آنسو گر پڑے اور رب العالمین کے حضور گڑ گڑانے لگا کہ
"میرے مولا، مجھے اس امتحان میں بغیر کسی تکلیف کے پاس کردے"
میرے رونے پر روح نے مزید وضاحت کی کہ
"ذرا سمجھ، اس بات کو، تیرے رب نے وقت کو بنایا۔ وہ چاہے تو پلک جھپکنے میں سب کچھ ساکن کر دے۔ وقت کو روک دے۔ تو اگر اس دنیا میں پانچ ہزار سال جئے گا، تب بھی آخر تو اس مقام سے واپس اپنے رب کی طرف پلٹے گا۔ پھر بھی تو نے اس کے روبرو حاظر ہو کر جواب دینا ہے"
روح نے مزید تسلی دیتے ہوئے کہا کہ
"میں نے مشاہدہ کیا ہے کہ تم نے اپنی تمام جمع پونجی اللّٰہ کی قربت حاصل کرنے اور علم کے حصول کے لیے خرچ کر دی ہے۔ بے شک، علم کا حصول اللّٰہ کے قریب لے جانے والا راستہ ہے۔ رزق کی ضمانت اللّٰہ نے لی ہے، اور وہ ہر حال میں دیا جائے گا۔ مگر آخرت کی ضمانت اللہ نے نہیں لی، بلکہ فرمایا کہ جا دنیا میں، اور اپنی آخرت کما کر لا"
یہ الفاظ میرے دل میں ثبت ہو گئے۔ میں نے اپنی روح سے کہا:
"تو پھر حقیقت یہی ہے کہ دنیاوی مال محض ایک آزمائش ہے، اور کامیابی صرف اخلاص، قربانی، اور دین کی راہ میں مال خرچ کرنے میں ہے"
روح نے جواب دیا:
"بالکل۔ یہی سچا راستہ ہے، یہی حقیقت ہے، اور یہی وہ بصیرت ہے جو انسان کو حقیقی کامیابی کی طرف لے جاتی ہے"
میرا فیصلہ؟
میں تمام امتحانات کے بارے میں کئی دن سوچتا رہا کہ اگر ایک اگر ہاتھ میں ایک موقع ہو۔ اور وہ بھی ایسا موقع، جس میں انسان دوبارہ اپنے امتحان کے لیے واپس نہیں لوٹ سکتا۔ جس میں وقت کا پتہ بھی نہ ہو۔ تو اس کو چھوڑ دینا، بہت بڑی حماقت ہے۔ اور آخرکار میں نے فیصلہ کیا۔ پھر روح سے کہا کہ
"جب تجھے پتہ ہے کہ یہ دنیا ایک امتحان کی جگہ ہے۔ اور امتحان کا مقررہ وقت بھی معلوم نہیں۔ کسی بھی وقت بلاوا آسکتا ہے۔ تو اس لیے میں اتنا بڑا خطرہ مول نہیں لے سکتا۔ اور میں مال و دولت کو رب ذوالجلال کی خاطر رد کرتا ہوں۔ میں دنیا کی اس اندھی دوڑ کو رد کرتا ہوں، کیونکہ یہ انسان کو اللّٰہ سے دور کر دیتی ہے۔ پھر بعد میں پچھتانے کا کیا فائدہ؟ میں نے غربت کے امتحان کو قبول کرنے کا فیصلہ کیا ہے، مگر یہ راہ مشکل ہے۔ کیا میں اس امتحان میں کامیاب ہو سکتا ہوں؟"
روح نے خوشی سے جواب دیا کہ
"اے مسافرِ راہِ حق، آزمائش کا معیار تمہارے دل میں ہے، نہ کہ تمہارے ہاتھ میں۔ ہر آزمائش میں پوشیدہ حکمت ہوتی ہے۔ غربت کا امتحان تمہیں صبر، قناعت اور اخلاص سکھائے گا۔ جب ہاتھ خالی ہوں، دل بھرنے کا ہنر آتا ہے۔ جو کم رکھ کر بھی شکر گزار رہے، وہی اصل کامیابی پاتا ہے۔"
پھر میں نے بے چینی سے سوال کیا کہ
"لوگ کہتے ہیں کہ دولت خوشی لاتی ہے، اختیار قوت دیتا ہے، عزت سکون بخشتی ہے۔ اگر میرے پاس کچھ بھی نہیں، تو میں کیسے مطمئن رہ سکتا ہوں؟"
روح نے تسلی سے جواب دیا کہ
"دولت سکون نہیں، بلکہ دل کی کیفیت سکون ہے۔ قارون کے پاس بے پناہ دولت تھی، مگر اس کا دل فریب میں مبتلا تھا۔ ہمیشہ کے لیے ناکام ہوگیا۔ اس کے برعکس سیدنا ابو ذر غفاریؓ نے فقر کو گلے لگایا، اور ان کا دل ہمیشہ آزاد رہا۔ غربت کمزوری نہیں، بلکہ صبر کی طاقت ہے۔"
پھر میں نے پوچھا کہ
"مگر لوگ دولت، طاقت اور عزت کے امتحان میں ہیں، وہ دنیا میں کامیاب نظر آتے ہیں۔"
روح نے مسکرا کر جواب دیا کہ
"بظاہر کامیابی وہی ہے جو دیکھنے والوں کو متاثر کرے، مگر حقیقت میں کامیابی وہ ہے جو روح کو سکون دے۔ دولت کے امتحان میں انسان بخل سے لڑتا ہے، علم کے امتحان میں تکبر سے، طاقت کے امتحان میں ظلم سے اور عزت کے امتحان میں نرگسیت سے۔ ہر آزمائش کا بوجھ الگ ہے، مگر مقصد ایک اپنی روح کو سنوارنا۔"
پھر میں نے پوچھا کہ
"میں اگر محتاج ہو جاؤں، تو کیا میں آزمائش میں ناکام نہ ہو جاؤں گا؟"
روح نے صابرانہ جواب دیا کہ
"محتاجی مال میں نہیں، بلکہ دل کی بے قراری میں ہے۔ جو فقر میں بھی پرسکون رہے، وہی حقیقت میں مالدار ہوتا ہے۔ سیدنا علیؓ فرمایا کرتے تھے: "فقر میرا فخر ہے"
پھر میں نے مزید پوچھا کہ
"مگر میں دنیا میں کیسے جاؤں گا؟ لوگ مجھے کمتر سمجھیں گے، میری ضروریات پوری نہیں ہوں گی"
روح نے جواب دیا کہ
"جو دنیا کی نظر میں کمتر ہے، وہ اللّٰہ کی نظر میں عزیز ہوتا ہے۔ کمزوری غربت میں نہیں، بلکہ خودداری کے ترک کرنے میں ہے۔ تمہاری اصل دولت تمہارا کردار، تمہارا صبر، اور تمہاری عزتِ نفس ہے"
پھر میں سکون کی سانس لی اور پوچھا کہ
"تو کیا میں محروم نہیں ہوں؟ کیا غربت مجھے کمزور نہیں کرے گی؟"
جواب ملا کہ
"کمزوری دولت نہ ہونے میں نہیں، بلکہ حوصلہ ہارنے میں ہے۔ جو کم رکھ کر بھی خود کو غنی سمجھے، وہی حقیقی دولت مند ہے۔ غربت تمہیں عاجزی سکھائے گی، تمہیں دوسروں کی تکلیف کا احساس دلائے گی، تمہارا دل نرم رکھے گی۔ یہ وہ دولت ہے جو نہ چوری ہو سکتی ہے، نہ زائل ہوتی ہے۔"
پھر میں نے سوال کیا کہ
"تو میں اس امتحان میں کامیاب کیسے ہو سکتا ہوں؟"
جواب ملا کہ
"صبر سے، شکر سے، اور قناعت سے۔ جب تم آزمائش میں ثابت قدم رہو گے، تو تمہاری روح مضبوط ہوگی، تمہاری بصیرت گہری ہوگی، اور تمہاری زندگی حقیقت کے قریب ہوگی۔ یاد رکھو، ہر امتحان عارضی ہے، مگر اس کا اثر دائمی ہوتا ہے۔"
میں نے خوشی سے کہا کہ
"تو اس کا مطلب ہے فقر دنیا اور آخرت کی کامیابی کا راز ہے۔ اور میں خوش ہوں کہ میں نے صحیح راستہ چنا ہے۔"
روح نے جواب دیا کہ
"مبارک ہو۔ اللّٰہ پر بھرسہ رکھو، انشاءاللہ تمھاری اسقبال کے لیے فرشتے آئیں گے۔"
فقر کیا ہے؟
فقر ایک عظیم حقیقت ہے، جو دنیا کی زرق برق سے بے نیازی اور قربِ الٰہی کا راستہ دکھاتی ہے۔ یہ دولت کی محرومی نہیں، بلکہ دل کی آزادی ہے۔
میں نے اپنی روح سے پوچھا کہ
"لوگ کہتے ہیں کہ فقر آزمائش ہے، مگر کچھ اسے اختیار کرتے ہیں۔ کیا فقر ایک کمزوری ہے یا ایک نعمت؟"
جواب ملا کہ
"فقر نہ آزمائش ہے، نہ کمزوری، بلکہ حقیقت کو پہچاننے کا راستہ ہے۔ جو فقر میں ایمان پاتا ہے، وہ کسی نعمت سے محروم نہیں ہوتا، بلکہ دنیا کی حقیقت کو دیکھنے لگتا ہے۔"
میں نے بیقراری سے پوچھا کہ
"مگر لوگ فقر کو دنیا کی محرومی سمجھتے ہیں، اس سے بچنے کی کوشش کرتے ہیں۔ کیا دنیا کی آسائشیں بے معنی ہیں؟"
روح نے پرسکون جواب دیا کہ
"دنیا کی آسائشیں بے معنی نہیں، مگر ان کا دھوکہ خطرناک ہے۔
دولت آنکھوں کو چمک دیتی ہے، مگر دل کو اندھا کر سکتی ہے۔
طاقت انسان کو بلند کرتی ہے، لیکن اگر سنبھالی نہ جائے، تو اسے گرا بھی دیتی ہے۔
عزت وقار دیتی ہے، لیکن اگر انسان خودپسندی میں مبتلا ہو جائے، تو اسے تنہا کر دیتی ہے۔
فقر ہی وہ واحد راستہ ہے جو انسان کو کمزور نہیں کرتا، بلکہ اس کی روح کو مضبوط کرتا ہے۔"
میں نے پوچھا کہ
"لیکن اگر میرے پاس کچھ نہ ہو، میں کیسے زندہ رہ سکتا ہوں؟"
جواب ملا کہ
"زندہ رہنا صرف جسم کا معاملہ نہیں، بلکہ روح کا بھی ہے۔ جو دل قناعت میں جیتا ہے، وہ سب سے خوشحال ہوتا ہے۔ سیدنا علیؓ فرمایا کرتے تھے: "فقر میرا فخر ہے"
پھر پوچھا کہ
"تو کیا فقر دنیا سے بے نیازی کا دوسرا نام ہے؟"
جواب ملا کہ
"فقر بے نیازی ہے، مگر دنیا سے فرار نہیں۔
جو فقر میں جیتا ہے، وہ دنیا کی حقیقت کو پہچانتا ہے۔
جو فقر میں اللہ کو یاد کرتا ہے، وہ ہر ایک دولت مند سے زیادہ سکون میں ہوتا ہے۔
جو کم رکھ کر بھی شکر کرتا ہے، وہی اصل دولت مند ہوتا ہے۔"
پھر پوچھا کہ
"لیکن کیا فقر کا مطلب یہ ہے کہ میں کچھ بھی نہ کماؤں، دنیا میں محنت نہ کروں؟"
جواب ملا کہ
نہیں! فقر صرف دل کی کیفیت ہے، نہ کہ عمل کی رکاوٹ۔"
کام کرو، مگر دنیا کو مقصد نہ بناؤ۔
کماؤ، مگر دل کو اس سے باندھو نہیں۔
محنت کرو، مگر یاد رکھو کہ حقیقی خوشحالی قربِ الٰہی میں ہے، نہ کہ دنیا کے مال میں۔"
پھر پوچھا کہ
"تو میں فقر میں کامیاب کیسے ہو سکتا ہوں؟"
جواب ملا کہ
"صبر، شکر، اور قناعت سے۔
جب تم دنیا کے مال میں خوشی تلاش نہ کرو، تو تمہارا دل آزاد ہوگا۔
جب تم دوسروں کی محتاجی میں ان کے مددگار بنو، تو تمہارا مال اللہ کے ہاں محفوظ ہوگا۔
جب تم آزمائش میں ثابت قدم رہو، تو تمہاری روح روشنی میں آئے گی۔"
میں نے گفتگو جاری رکھی کہ
"تو اس کا مطلب ہے کہ فقر اللہ کے قریب لے جاتا ہے؟"
جواب ملا کہ
"فقر دنیا کی حقیقت کو دیکھنے دیتا ہے، اور اسی میں قربِ الٰہی پنہاں ہے۔
جو دنیا میں فقر کی حقیقت کو سمجھ لے، وہ اصل میں کامیاب ہوتا ہے۔
جو دنیا کے مال سے زیادہ اللہ پر بھروسہ کرے، وہ سب سے زیادہ طاقتور ہوتا ہے۔"
مال و دولت کے بارے میں میرا عقیدہ
تب میں نے کہا کہ
"مال و دولت کے بارے میں میرا یہ عقیدہ ہے کہ تمام مال اللہ کی راہ میں خرچ کر دینا چاہیے۔"
روح نے نرمی سے جواب دیا کہ
"ہاں، سیدنا ابو ذر غفاریؓ کا عقیدہ یہی تھا کہ دنیاوی دولت انسان کو آزمائش میں مبتلا کر سکتی ہے، اور اس کا بہترین مصرف یہی ہے کہ اسے اللہ کے راستے میں خرچ کیا جائے"
اس لیے میرے عقیدے پہ قائم رہنے کے لیے میں مزدوری کرکے اپنا اور بچوں کا پیٹ پالتا ہوں۔ یااللہ۔ میرے اس سفر میں میرا حامی و مددگار بن جا اور میرے لیے دنیا اور آخرت میں آسانیاں پیدا کر دے۔ آمین
دنیاوی حقیقت اور انسان کی محرومی
میں نے اپنی روح سے سوال کیا:
، "جو چیز میرے مشاہدے میں ہے، وہ بہت تلخ ہے۔ چند گنے چنے اہلِ ایمان کو چھوڑ کر، باقی دنیا محض پیٹ کے چکر میں گرفتار ہے۔ لوگ رزق، دولت، شہرت، اور عیش کی تلاش میں اپنی آخرت کو بھول چکے ہیں، اور زندگی ایسے گزار رہے ہیں جیسے یہاں ہمیشہ رہنا ہو۔ کیا واقعی یہ حقیقت ہے؟"
روح نے خاموشی اختیار کی، پھر ایک گہری سانس لے کر کہا:
"ہاں، یہ ایک تلخ حقیقت ہے۔ انسان صحیح اور غلط کا فرق کیے بغیر دن گزار رہا ہے، حق اور باطل کے درمیان تمیز کھو چکا ہے، نہ رزقِ حلال کی پرواہ باقی رہی، نہ عدل و انصاف کا خیال۔ ہر کوئی دنیا کے سودے میں مشغول ہے، مگر آخرت کی فکر کہیں گم ہو چکی ہے"
میں نے بے قراری سے پوچھا:
"تو پھر انسان یہاں کیوں آیا ہے؟ اسے کیا شعور حاصل کرنا چاہیے؟"
روح نے نرمی سے کہا:
"انسان کو سمجھنا چاہیے کہ اس دنیا میں آنے کا ایک مقصد ہے، اور اسے اللہ کے سامنے جواب دہ ہونا ہے۔ مگر سب سے بڑی محرومی یہی ہے کہ وہ اپنے مقصدِ زندگی کو بھول گیا ہے"
میں نے گہرے تدبر کے ساتھ پوچھا:
"تو کیا یہ دنیا محض کھانے پینے، کمانے، اور عیش کرنے کے لیے ہے؟"
روح نے سنجیدگی سے جواب دیا:
"نہیں۔ ذرا غور کر، کل جو دن گزرا ہے، دنیا میں ایسے بھی لوگ ہیں، جنہوں نے کل انواع و اقسام کے کھانے کھائے ہیں۔ غذا ان کے پیٹ میں جاکر گندگی میں بدل گئی۔ تجھے جو کچھ ملا، تو نے شکر ادا کرکے کھا لیا، تو غذا کا تیرے پیٹ میں بھی یہی معاملہ رہا۔ ایسے لوگ بھی ہیں جنہوں نے کل اپنا وقت برباد کیا، کسی نے محض تفریح میں وقت گزارا، کسی نے عیش میں، جبکہ تو نے اطاعت و عبادت الہی میں وقت گزارا۔ ایسے بھی لوگ ہیں جو جدید محلات میں رہے، جبکہ تو کچے مکان میں رہا۔ ایسے لوگ بھی ہیں جنہوں نے ہوا میں سفر کیا۔ جبکہ تو نے پیدل سفر کیا۔ اس لیے دن تو وہی ہے، جو تمھارا بھی گزرا، اور ان کا بھی گزرا۔ تو ذرا سوچ، تیرے اور ان کے حساب میں کتنا فرق ہوگا؟ یہ دنیا کا وقت آسانی یا مشکل سے گزر جائے گا۔ کیونکہ موت ایک حقیقت ہے، جس سے کوئی بچ نہیں سکتا۔ لیکن آخرت کی زندگی ہمیشہ کے لیے رہنے والی ہے۔ گزرنے والی نہیں ہے۔ اس لیے یہ دنیا ایک امتحان کی جگہ ہے، ایک عارضی مقام، جہاں ہر عمل کا حساب ہونا ہے۔ یہی وہ حقیقت ہے جسے اکثر لوگ نظرانداز کر دیتے ہیں۔"
شیطان مردود سے نجات کا راستہ
روح نے مسکرا کر کہا:
"ہاں، اے دوست۔ جو اللہ کے قریب ہو جائے، اسے مردود گمراہ نہیں کر سکتا۔ "
تب میں پوچھا کہ
"مجھے مردود کی طاقت کے بارے میں بتاو؟"
روح نے ایک دم سے نور بن کر بجلی کے گرج کی طرح مجھے مخاطب کرکے جواب دیا کہ
"اس ذلیل کی کوئی اوقات ہی نہیں، صرف وسوسہ ڈال سکتا ہے، اور وسوسہ ان پر اثر کرتا ہے جو اللہ سے دور ہوتے ہیں اور اس کے شر سے اس کی پناہ نہیں مانگتے"
میں نے سوالیہ انداز میں پوچھا کہ "کیا مطلب؟"۔
روح نے مد برانہ جواب دیا کہ " کسی بھی برائی کے کام کی شروعات وسوسہ سے ہوتی ہے۔ پھر ارادہ کیا جاتا ہے۔ پھر اس پر عمل ہوتا ہے"۔
میں نے کہا کہ "میں مردود کو جلا کر راکھ کر دینا چاہتا ہوں"۔
تو روح نے جواب دیا کہ "جب بھی تجھے وسوسہ آئے، تو فورا "اعوذ باللہ من الشیطان الرجیم" پڑھنا، مردود کا وسوسہ جل کر راکھ ہو جائے گا"۔
تب میں نے دعا کی:
"یااللہ، مجھے اور میری نسل کو مردود اور مردود کے تمام پیروکاروں سے محفوظ رکھ۔ آمین"
آج کے علم رکھنے والوں سے میرا شکوہ
آج جب مزدوری سے گھر واپس لوٹا، تو میرے جسم کے ہر عضو میں شدت کی تکلیف تھی ، پھر جب میں نے یہ دعا کی کہ یااللہ، مجھے اور میری نسل کو مردود اور مردود کے تمام پیروکاروں سے محفوظ رکھ۔ تو میری روح نے مجھے مخاطب کرکے کہا کہ
"اگر تو چاہتا ہے کہ تیری نسل مردود سے پناہ میں رہے، تو جب تو اپنی گھر والی کے پاس جائے، تو اس وقت یہ دعا کرنا، کہ یااللہ مجھے، میری گھر والی کو اور جو تو مجھے اس اولاد دے، ہم سب کو مردود کی شر سے پناہ میں رکھ، تو تم سب کو اس کی شر سے پناہ مل جائے گی۔"۔
میں نے اپنی روح اس کا ثبوت مانگا۔ تو میری روح نے مجھے کہا کہ "یہ رسول اللہ ﷺ کا طریقہ ہے"۔
تب میری آنکھوں سے آنسو گر پڑے، اس وجہ آج کے دور کے ان لوگوں پر، جو علم کا لبادہ اوڑھے رکھتے ہیں، مگر حقیقی اعمال جن کی ضرورت ہے، ان کو لوگوں کے سامنے نہیں لاتے۔
میں نے اپنی زوجہ سے کہا کہ"اللہ آج کے ان لوگوں کو اندھا کرے، جو حقیقی اسلام کی جگہ اپنے پیٹ کو آگے رکھتے ہیں۔ اور اللہ کی اطاعت سے محروم رہتے ہیں۔ اتنی حقیقی بات جن کو آج کے لوگ توجہ نہیں دیتے، یا تو ان کو پتہ نہیں ہے، یا اگر پتہ ہے تو پھر ان کو یقین نہیں۔ میں نے کہا کہ دونوں صورتوں میں یہ لوگ محروم ہیں، جو خود کو عالم سمجھتے ہیں۔ کیونک اگر پتہ ہے تو دوسروں کو کیوں نہیں بتاتے۔ کیونکہ نکاح کے وقت مومن کا ہاتھ پکڑ کر اس ہدایت کرتے کہ تیری کامیابی اسی میں ہے۔ اور اگر نہیں پتہ تو بجائے اختلافات اور فرقہ واریت بڑھانے کے، اللہ کی دی ہوئی نشانیوں میں غور کیوں نہیں کرتے"۔
تب میں نے اللہ سے دعا کی:
"یا اللہ، ہمیں ان فتنوں سے محفوظ رکھ، اور ہمیں سادگی و اخلاص کے راستے پر قائم رکھ۔ آمین"
مسلمانوں کے زوال کی بڑی وجوہات
میں نے اپنی روح سے سوال کیا
" جدید دور کے مسلمان زوال کا شکار کیوں ہو رہے ہیں؟ وہ جو کبھی دنیا کے رہنما تھے، آج کیوں علمی، اقتصادی اور روحانی طور پر کمزور نظر آ رہے ہیں؟"
روح نے ایک لمحے کے لیے خاموشی اختیار کی، پھر گہرے سکون سے جواب دیا:
"اے دوست! یہ ایک المیہ ہے کہ وہ امت، جسے قرآن نے 'خیر الامم' کہا، آج زوال کے اندھیروں میں بھٹک رہی ہے۔ اور اس زوال کے کئی اسباب ہیں، جن میں سب سے زیادہ خطرناک حقیقی علم یعنی قرآن سے دوری، دنیا پرستی اور دولت کی اندھی دوڑ، اتحاد کی کمی اور فرقہ واریت اور دین سے دوری ہیں۔"
میں نے سوالیہ انداز میں پوچھا کہ
"مجھے مزید سمجھاو؟"
جواب ملا کہ
"کیوں نہیں۔ پہلے سمجھو قرآنی علوم سے دوری کے بارے میں۔
کیا تو نے غور کیا کہ جب تک مسلمان قرآنی علم کے چراغ کو تھامے رہے، وہ دنیا پر حکمرانی کرتے رہے؟ بغداد، قرطبہ، غرناطہ، اور دیگر اسلامی تہذیبوں میں دنیا کے عظیم ترین علوم پروان چڑھے۔ مگر آج، امت قرآن کی راہ سے ہٹ چکی ہے۔ وہ علم، جو کبھی مسلمانوں کا سرمایہ تھا، آج ان کے ہاتھ سے نکل کر دوسروں کے پاس چلا گیا ہے۔
"حضرت علیؓ نے فرمایا:
'علم دولت سے بہتر ہے، کیونکہ علم تمہاری حفاظت کرتا ہے، جبکہ دولت کی حفاظت تمہیں کرنی پڑتی ہے۔'
مگر آج کے مسلمان قرآن کے علم کو چھوڑ کر دنیا کی سطحی چمک میں گم ہو چکے ہیں، اور یہی ان کے زوال کی سب سے بڑی وجہ ہے"
دوسری بڑی وجہ دنیا پرستی اور دولت کی اندھی دوڑ ہے۔
لوگ آج دنیا کی چمک دمک میں گم ہو چکے ہیں، سوشل میڈیا پر شہرت کے لیے اپنی عزت کا سودا کر رہے ہیں، نیکی کو تجارت سمجھ کر استعمال کر رہے ہیں۔ انہوں نے دین کو چھوڑ دیا، اور دنیا کو اپنایا۔
دیکھ، قارون کو بے پناہ دولت ملی تھی، مگر جب اس نے غرور اور تکبر کیا، تو اللہ نے اسے زمین میں دفن کر دیا۔ دولت بذاتِ خود فتنہ نہیں، مگر اگر دل اس کی محبت میں گرفتار ہو جائے، تو وہ انسان کو گمراہی میں ڈال دیتی ہے۔"
میں نے مزید پوچھا:
"لیکن مسلمانوں نے کب سے دولت کی طرف زیادہ توجہ دینا شروع کر دی؟"
روح نے افسوس سے جواب دیا
"جب سیدنا عمر فاروقؓ کے بعد، سیدنا عثمان غنیؓ کی نرمی اور عفوودرگزر سے ناجائز فائدہ اٹھا کر، مال و دولت کی طرف متوجہ ہوئے۔ تب سے ان پر آزمائشوں کے پہاڑ گرنے لگے، اور دنیاوی فتنوں نے انہیں گھیر لیا"
تیسری بڑِی وجہ اتحاد کی کمی اور فرقہ واریت ہے۔
مسلمان جب ایک تھے، تب وہ ناقابلِ شکست تھے۔ مگر جب انہوں نے فرقہ واریت کو اپنایا، جب انہوں نے محبت کی جگہ نفرت ڈال دی، تو وہ کمزور ہو گئے۔ قرآن میں اللہ فرماتا ہے۔
'وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوا' (آل عمران:103)
(اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور فرقہ واریت میں مت پڑو)"
"جب صلاح الدین ایوبیؒ نے مسلم سلطنت کو متحد کیا، تو وہ دوبارہ طاقتور بن گئے اور یروشلم کو آزاد کر لیا۔ مگر جب مسلمان تقسیم ہو گئے، تو وہ اپنی سلطنتیں کھو بیٹھے"
چوتھی بڑِی وجہ دین سے دوری اور نفاق ہے۔
آج کے مسلمان دین کو رسم و رواج سمجھتے ہیں، مگر وہ اس کی اصل روح کو فراموش کر چکے ہیں۔ دین کو محض عبادات تک محدود کر دیا گیا ہے، اور عملی زندگی میں اس کی تاثیر کم ہو گئی ہے۔ ایک مرتبہ حضرت عمرؓ نے فرمایا:
ہم وہ امت ہیں جسے اللہ نے اسلام کے ذریعے عزت دی، اگر ہم کسی اور چیز میں عزت تلاش کریں گے، تو ہم رسوا ہو جائیں گے۔
مگر آج کے مسلمان عزت دنیا کی نظروں میں دیکھتے ہیں، نہ کہ اللہ کے قرب میں۔"
سادگی اور دین کی حقیقت
میں نے اپنی روح سے سوال کیا
"میں کس طرح اس خالص دین پر عمل کروں، جو رسول اللہ ﷺ پر نازل ہوا ہے؟"
روح نے گہری سانس لی، پھر نرمی سے کہا:
"اے دوست، ذرا سوچو! اگر رسول اللہ ﷺ نے کچے مکان میں زندگی بسر کی، تو تجھے اور مجھے عالی شان بنگلے بنانے کی کیا ضرورت ہے؟ اگر رسول اللہ ﷺ نے پتھروں اور کچی اینٹوں کی مساجد میں نماز ادا کی، تو ہمیں ایسی مساجد بنانے کی کیا ضرورت، جو دیکھنے میں عالیشان ہوں مگر اندر ایمان سے خالی؟ اگر رسول اللہ ﷺ نے سادہ لباس میں زندگی بسر کی، تو ہمیں سوٹ بوٹ پہننے کی کیا ضرورت؟
روح نے افسوس سے اپنا جواب جاری رکھا
یہ لباس انسان میں غرور اور تکبر پیدا کرتا ہے، اور دل کو اللہ سے دور کر دیتا ہے۔ کیا تم اپنی زندگی میں رسول اللہ ﷺ کی سادگی کو اپنا رہے ہو؟ کیا دنیاوی آسائشیں تمھیں دین کے قریب کرتی ہیں، یا دور لے جاتی ہیں؟
میں نے گہری سوچ میں ڈوب کر کہا
"کیا سادگی اور صبر ہی اصل کامیابی نہیں ہے؟"
روح نے شفقت سے جواب دیا
یقیناً ہے ! مگر کیا تمھاری عبادات میں اخلاص موجود ہے، یا تم صرف ظاہری خوبصورتی کو ترجیح دے رہے ہو؟ کیا تم ریاکاری سے پاک ہو؟ کیا تمھارا دل بغض، کینہ، نفرت، حسد، تکبر، عداوت، آپس کی دشمنی اور لالچ سے پاک ہے؟
میں گہری سوچ میں ڈوب گیا۔ اپنی باطن میں جھانک کر دیکھا اور خود کو الحمدللہ، صاف پایا۔ لیکن جب امت پر نظر ڈالی، تو مایوس ہو گیا۔ تب روح سے شکایت کی کہ
یہ تمام امراض میرے مسلمان بھائیوں میں موجود ہیں۔
تب روح نے بے قراری سے کہا
"کیا تیرے مسلمان بھائی، نعوذ باللہ، رسول اللہ ﷺ سے بڑھ کر ہیں؟"
میں نے سنجیدگی سے کہا
"بالکل نہیں"
روح نے فورا جواب دیا کہ
"اگر نہیں، تو یہ بتاؤ کہ تیرے مسلمان، کس کی پیروی کر رہے ہیں؟ کیونکہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی پیروی کا حکم بار بار دیا گیا ہے۔ تو پھر، کیا تیرے بھائی واقعی ان کی پیروی کر رہے ہیں؟ اگر اب بھی یہ لوگ ضد پر قائم ہیں، تو ان کی روح بیمار ہے۔"
روح کا علاج
میں نے پریشانی سے پوچھا:
"اگر ان کی روح بیمار ہے، تو اس کا علاج کیا ہے؟"
روح نے نرمی سے کہا:
"تو اور تیرے مسلمان بھائیوں نے کلمہ طیبہ صرف زبان سے پڑھا ہے، مگر دل سے تصدیق نہیں کی۔ دل سے تصدیق کر لو، یہی علاج ہے۔ جب ایمان دل کی گہرائیوں میں اُتر جائے، تو روح پاک ہو جاتی ہے، اور دل سکون پا لیتا ہے"
تب روح نے سوالیہ انداز میں پوچھا کہ
"اگر صحابہ کرامؓ صرف ایک کھجور چبا کر کئی دن گزار سکتے تھے، تو کیا میں اور تم، اگر کچھ نہ کھائیں تو مر جائیں گے؟"
میں جواب دیا کہ
"نہیں"
تب روح نے نرمی سے کہا
"اگر اسی حالت میں موت بھی آ جائے، تو اس سے بڑی خوش نصیبی اور کیا ہوگی کہ وہ موت بھی اللہ کی رضا سے آئے، اور تب بھی تم ان شاء اللہ سرخرو ہو گے"
دین میں اخلاص اور مالی آزمائش
میں نے اپنی روح سے سوال کیا
"کیا دین اور دنیا کے معاملات میں پیسے لینا جائز ہے؟"
روح نے سختی سے کہا:
"نہیں! دینی امور میں بھی، اور دنیاوی معاملات میں بھی، بغیر کسی لالچ کے دوسروں کی مدد کرو۔
یہ زندگی بہت مختصر ہے۔ اگر تو بھوکا رہے تب بھی دن گزر جائے گا۔ لیکن آخرت کی زندگی ہمیشہ رہنے والی ہے"
میں نے مزید سوال کیا:
"دینی تعلیم اور دنیاوی تعلیم کا مقصد کیا ہونا چاہیے؟"
روح نے واضح الفاظ میں کہا:
"یہ علم عزت، شہرت، اور مرتبے کے لیے مت حاصل کرو، بلکہ اسے ایک فرض سمجھ کر حاصل کرو! تاکہ اس علم کے ذریعے تجھے قربتِ الٰہی نصیب ہو۔ حقیقی علم وہی ہے، جو تجھے اللہ کے قریب کرے، اور دل میں خشیت پیدا کرے"
فتنوں کا دور
میں نے اپنی روح سے سوال کیا کہ
"کیا یہ حقیقت ہے کہ آج مال و دولت ہی عزت کی پہچان بن چکی ہے، علم و حکمت نہیں؟"
روح نے گہری سانس لی، پھر افسوس سے کہا
"ہاں، اے دوست! آج دولت انسان کے مقام کا تعین کرتی ہے، نہ کہ علم اور اخلاق۔ دینی اور دنیاوی تعلیم بھی تجارت بن چکی ہے، اور انسانوں کے تعلقات بھی مادی بنیادوں پر استوار ہو چکے ہیں۔ اگر کسی محفل میں بیٹھو، تو لوگ سب سے پہلے تمہارا مال دیکھیں گے۔ اگر دولت کم ہوئی، تو تمہیں کمتر سمجھیں گے، اور حقارت کی نظر سے دیکھیں گے۔"
میں نے بے قراری سے کہا کہ
"لیکن اللہ کے نزدیک تو برتری ایمان اور تقویٰ سے ہے، نہ کہ مال و دولت سے"
روح نے تائید کرتے ہوئے کہا کہ
"بالکل! مگر لوگوں نے اپنی اقدار بدل لی ہیں۔ اگر دینی تعلیم حاصل کرنے جاو، تو بھی روپے دینے پڑیں گے۔ اگر دنیاوی تعلیم حاصل کرو، تو بھی روپے دینے پڑیں گے۔ اگر مسجد میں جاو، تو بھی چندہ دینا ہوگا۔ اگر قرآن خوانی کرواؤ یا محفلِ قرآن سجاؤ، تو بھی پیسے دینے ہوں گے۔ یہاں تک کہ اگر کسی ادارے میں کوئی قانونی کام ہو، تو بھی رشوت یا فیس دینا لازم ہے۔"
میں نے افسوس سے کہا کہ
"کیا عبادات، دین، اور انصاف بھی مال کے بغیر میسر نہیں؟"
روح نے دکھی لہجے میں کہا کہ
"یہی سب سے بڑا فتنہ ہے! یہ فتنے اس بات کی نشانی ہیں کہ معاشرہ آخرت کی حقیقت کو بھلا چکا ہے، اور دنیاوی منفعت کو ہی اصل کامیابی سمجھ بیٹھا ہے۔ کیا یہ وہ نظام ہے جو اللہ اور اس کے رسول ﷺ نے دیا تھا؟ نہیں! اصل دین اخلاص، قربانی، اور اللہ کی رضا کا نام ہے، نہ کہ دولت اور عہدے کی بنیاد پر چلنے والا نظام۔"
رسول اللہ ﷺ کی پیشن گوئی
میں نے روح سے سوال کیا کہ:
"کیا اس زمانے کی حقیقت پہلے سے بیان کی جا چکی تھی؟"
روح نے جواب دیا
"ہاں! رسول اللہ ﷺ نے ایک بار صحابہ کرامؓ سے فرمایا کہ عنقریب فتنوں کا دور آئے گا، اس وقت تم اپنے گھر میں رہ کر اپنے ایمان کی حفاظت کرنا۔ یہی وہ وقت ہے جس کی رسول اللہ ﷺ نے پیشن گوئی فرمائی تھی۔"
میں نے حیرانی سے کہا کہ
"تو پھر ہمیں کیا کرنا چاہیے؟"
روح نے سنجیدگی سے جواب دیا:
"ہر طرف فتنے، آزمائشیں، دین پر چلنے میں مشکلات، اور حق پر ثابت قدم رہنے کے لیے قربانی درکار ہے۔ ایسے دور میں ایمان کی حفاظت سب سے بڑی ذمہ داری ہے۔ اپنے اعمال، اخلاق، اور عبادات کو محفوظ رکھو، ورنہ کسی بھی وقت زندگی کا امتحان مکمل ہو سکتا ہے۔ اور جب یہ امتحان ختم ہو جائے، تو پھر پچھتانے کا کوئی فائدہ نہیں۔"
فرقہ واریت اور امت کی حقیقت
میں نے روح سے سوال کیا کہ
"فرقہ واریت کیا ہے؟"
روح نے جواب دیا کہ
"فرقے کا لفظ فرق سے اخذ کیا گیا ہے۔ فرق کسی مادی اور غیر مادی اجسام کے درمیان تمیز کو کہتے ہیں۔ جب لوگ مذہبی طور پر مختلف گروہوں میں تقسیم ہو جائیں، اور ایک دوسرے سے اختلاف کرنے لگیں، تو یہ فرقہ واریت ہے۔"
پھر میں نے پوچھا کہ
"مسلمانوں میں فرقہ واریت کا کیا نشانی ہے؟"
تو روح نے جواب دیا کہ
"جب ایک مسلمان خود کو بڑا ظاہر کرنے کے لیے اپنے آپ کو دوسرے سے اچھا ثابت کرنے کی کو شش کرتا ہے۔ تو یہ ان کے درمیان فرق ہو گیا۔ اور یہ اس کی نشانی ہے۔
فرقہ واریت غرور اور خود برتری کی نفسیات سے جڑی ہوئی ہے، جو کہ شیطان کی روش ہے۔ قرآن میں اللہ فرماتے ہیں
سورہ الحجرات (49:11)
"اے ایمان والو! کوئی قوم دوسری قوم کا مذاق نہ اڑائے، ممکن ہے وہ ان سے بہتر ہو۔"
تب میری زبان سے کلمات جاری ہوئے۔ "لاحول ولا قوۃ الا باللہ" اور میں نے مزید پوچھا کہ
"اس کا مطلب تو، چند اہل ایمان کو چھوڑ کر، نعوذباللہ، باقی ہم سب تو تباہی کے دہانے پر کھڑے ہیں"
پھر میرا جسم بے اختیار تکلیف میں آگیا۔ میں نے اوپر آسمان کی طرف نظر کی اور اللہ سے رحم کی بھیک مانگنے لگا۔
تب میں نے اپنی روح کو مخاطب کیا کہ
"میں اب جہاں رہتا ہوں، یہاں پر لوگ 3 گروہوں میں تقسیم ہیں، جیسے بریلوی، دیوبندی اور شیعہ۔ تو کیا یہ بھی فرقہ واریت ہے؟"
تب جواب ملا کہ
"یہ بھی فرقہ واریت ہے"
پھر میں نے اپنی روح سے کہا کہ
"کیا یہ میرے بھائی نہیں ہیں؟"
تب روح نے جوابا کہا کہ
"جس کسی کے دل میں ذرہ بھر بھی ایمان ہے، تو وہ تیرا بھائی ہے۔"
تب میں اصرار کیا کہ
"یہ فرقہ واریت کیسے ہے؟ ہر کوئی اپنی طرف سے دلیل دے رہا ہے، کہ وہ حق پر ہے۔"
تب روح نے جواب دیا کہ
حق پر اللہ ہے۔ اللہ کا قرآن اور اللہ کا نازل کیا ہوا راستہ۔
اس کے بعد پھر میں نے پوچھا کہ
"کہ یہ بھی قرآن کا ترجمہ کرکے کہتے ہیں کہ یہ حق پر ہیں۔"
تب پرسکون جواب ملا کہ
"قرآن کا لفظی ترجمہ تبدیل کرنے سے قرآن کی حقیقت کو تبدیل نہیں کیا جاسکتا۔ جو کوئی قرآن کے ترجے کو بدلتا ہے، تو کیا اسے پتہ نہیں کہ جب ہم دوبارہ زندہ کیے جائیں گے، تو اس وقت حساب اللہ کی عدالت میں ہو گا، نہ کہ ترجمہ تبدیل کرنے والے کی عدالت ہو گی۔ تب بھی سچائی کا وہ معیار ہوگا، جو کہ آج قرآن صاف صاف بیان کر رہا ہے۔ قرآن نور ہے، اور اس کا حقیقی علم اللہ اور اس کے رسول ہی بہتر جانتے ہیں۔ قرآن کا جو ترجمہ کیا جاتا ہے، وہ بھی ایک انسان ہی ہے۔ انسان کا عقل اور شعور اللہ کی ذات تک نہیں پہنچ سکتا، بلکہ صرف صفات تک پہنچ سکتا ہے۔ قرآن میں اللہ کا صاف صاف حکم ہے کہ فرقے نہ بناو مطلب کہ الگ الگ جماعتیں نہ بناو اور سب مل کر اکٹھے ایک قرآن کے حلال کو حلال سمجھو اور حرام کو حرام سمجھو۔ اور دوسری جگہ اللہ نے فرمایا کہ میں نے تمھیں کل بھی مسلمان کہا تھا اور تم آج بھی مسلمان ہو۔"
تب روح نے مجھ سے سوال کیا کہ
"کیا رسول اللہ ﷺ دیوبندی تھے؟"
میں نے جواب دیا کہ
"نہیں"
پھر سوال کیا کہ
"کیا رسول اللہ ﷺ بریلوی تھے؟"
میں نے کہا کہ
"نہیں"
پھر سوال کیا کہ
"رسول اللہ ﷺ شیعہ تھے؟"
میں نے کہا کہ
"نہیں"
پھر روح نے احتراما عرض کی کہ
"تو اب یہ بتاو کہ تم اور تمھارے مسلمان بھائی کس کی پیروی کر رہے ہو؟"
میں خاموش رہ گیا کہ جیسے میرے دل کو حقیقت کی چادر نے ڈھانپ لیا ہو۔ مجھ پر مزید حقائق ظاہر ہونے لگے۔
تب روح جوشیلے انداز میں کہا کہ
"یہ لوگ جنہوں نے اسلام کے نام پر اپنے لیے خود یہ نام رکھے ہیں، کیا یہ اپنے نام ختم کرکے ایک اللہ کا دیا ہوا نام نہیں رکھ سکتے؟، جسے مسلمان کہا جاتا ہے۔ کیا اللہ کا دیا ہوا نام حقیقت ہے یا انسان کا بنایا ہوا نام۔ اللہ کا دیا ہوا نام امر تسلیم شدہ ہے۔ جبکہ انسان کے بنائے ہوئے نام میں یہ لوگ ایک دوسرے میں فرق ڈالتے ہیں۔ رفتہ رفتہ فرقے کی شکل اختیار کر چکے ہیں۔ جو صاف صاف اس آیت کا انکار ہے کہ "فرقے نہ بناو"۔ تو اس آیت کی روشنی میں کیا یہ بریلوی، دیوبندی اور شیعہ اپنے اس نام کو ختم کر سکتے ہیں؟۔ اور کیا یہ لوگ خود کو صرف مسلمان کہہ سکتے ہیں۔ قرآن بنیاد ہے۔ تو یہ بنیاد کی طرف کیوں نہیں جاتے ۔ اور قرآن کے ان آیات کی مخالفت کیوں کرتے ہیں۔"
تب تو میرے دماغ کی بتی گل ہو گئی۔ آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھانے لگا۔ ایک بہت بھاری بوجھ کو محسوس کیا کہ کیا حقیقت میں قرآن کی آیت کی مخالفت ہو رہی ہے۔ پھر میں نے توبہ کی اور استغفار پڑھنے لگا۔ میرے دل کو حقیقت کی روشنی مل رہی تھی۔
پھر میں نے روح سے کہا کہ
"یہ لوگ کہتے ہیں کہ یہ وقت کا تقاضہ ہے، وقت کی ضرورت ہے"
تب روح نے لاحول ولاقوۃ الا باللہ پڑھ عرض کی کہ
"یہ دوسری آیت کا انکار ہے۔ قرآن میں اللہ (سورہ انعام: 6:38) میں فرماتے ہیں کہ ہم نے اس کتاب میں کوئی چیز نہیں چھوڑی۔ لہذا وقت کا تقاضہ قرآن ہے۔
یہ آیت وضاحت کرتی ہے کہ اسلام ہر دور کے لیے مکمل اور جامع دین ہے۔ جدید دور کے ناموں، اصلاحات، اور فرقہ بندیوں کی ضرورت نہیں، کیونکہ اسلام پہلے ہی ہر مسئلے کا حل قرآن میں فراہم کر چکا ہے۔"
نماز کا وقت ہو چکا ہے۔ جب میں نماز پڑھنے کے لیے جارہا تھا، تو میں نے اپنی روح سے سوال کیا کہ
"یہ بتا دیوبندی، بریلوی اور شعیہ ناموں میں آخر نقصان کیا ہے؟ یہ نام کوئی کیوں نہیں رکھ سکتا؟"
تب روح نے پروقار لہجے میں جواب دیا کہ
"یہ بدعت ہے"
میں نے پوچھا کہ "کیسے"۔
تو روح نے کہا کہ
"یہ نام رسول اللہ ﷺ کے دور کے بعد مختلف انسانوں نے بنائے ہیں، اس لیے یہ بدعت ہے۔ اور رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ تمام بدعات گمراہی ہیں۔"
پھر میں نے پوچھا کہ
"تو پھر کون سیدھے رستے پر ہے؟"
تب روح نے کہا کہ
جو صرف قرآن کو عقیدہ بنائے۔ خود کو صرف مسلمان کہے اور مختلف قسم کے نام اپنے ختم کرے، جس سے فرق پیدا ہوتا ہے۔ اور سب سے بڑی بات قرآن پر عمل کرے، جس کے بارے میں اللہ پوچھے گا۔ قرآن میں ہے کہ قیامت کے دن قرآن ہر ایک کا دامن پکڑ کر اللہ سے کہے گا۔ کہ کس نے اس پر عمل کیا تھا اور کس نے اس کو چھوڑا تھا۔
پھر میں نے پوچھا کہ
"اب اس کا کیا حل ہے؟"
روح نے کہا کہ
"پہلے اپنے یہ نام، بریلوی، دیوبندی اور شیعہ اپنے ختم کریں۔ ایک دوسرے کو مل کر حقییقی اسلام سمجھانے کی کوشش شروع کردیں۔ فرق ختم کریں۔ اور اللہ پر ایمان کی تصدیق دل سے کریں۔ قرآن کو اپنی زندگی میں لائیں۔"
اب میں یہاں اللہ کے سوا اکیلا ہوں، جس کا یہ عقیدہ ہے۔ اب تنہا تنہا رہتا ہوں ۔ اللہ سے باربار یہ دعا کرتا ہوں کہ مجھے اور میری نسل کو توفیق عطا فرمائے کہ ہم حقیقی دین اسلام پر عمل پیرا ہوں۔ مجھے اور میری نسل کو دین اسلام کی خدمت کے لیے منتخب کر لے، میرے مولا۔
فرقہ واریت اسلام کے خلاف ہے۔
میں نے اپنی روح سے سوال کیا:
"کیا فرقہ واریت، اختلافات اور نفرتیں اسلام کی اصل روح کے خلاف ہیں؟"
روح نے لمحہ بھر خاموشی اختیار کی، جیسے کسی گہرے راز کو سامنے لانے کے لیے الفاظ تلاش کر رہی ہو، پھر کہا:
"ہاں، اے دوست! اسلام محبت، اخوت، اور اتحاد کا درس دیتا ہے۔ انسان اپنے نفس کی خواہشات کو دین کی حقیقت پر غالب کر دیتا ہے۔ مگر افسوس! انسان کی کمزوری اور دنیا کی آزمائشوں نے اسے تقسیم کر دیا ہے۔ اللہ فرماتے ہیں
'إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ إِخْوَةٌ فَأَصْلِحُوا بَيْنَ أَخَوَيْكُمْ' (الحجرات:10)
(مومنین آپس میں بھائی بھائی ہیں، پس اپنے بھائیوں کے درمیان اصلاح کرو)"
مگر دیکھو، انسان نے اپنے دلوں میں نفرت کو جگہ دی، بھائی کو بھائی سے جدا کر دیا، اور مسلک کو محبت سے زیادہ اہمیت دی۔ جب ایک درخت کی جڑیں ایک ہوں، تو اس کی شاخیں الگ ہو کر بھی ایک ہی منبع سے غذا پاتی ہیں۔
ذرا غور کرو کہ
جب نبی کریم ﷺ نے مدینہ میں ہجرت کی، تو وہاں اوس اور خزرج دو قبائل تھے، جو سالوں سے ایک دوسرے کے دشمن تھے۔ مگر جب اسلام آیا، تو رسول اللہ ﷺ نے ان کے دلوں کو جوڑا، اور وہ بھائی بھائی بن گئے۔ ان کی دشمنی اسلام کی محبت میں بدل گئی۔ لیکن آج کے دور میں، امت چھوٹے چھوٹے اختلافات میں بٹ چکی ہے، اور محبت کو نفرت سے بدل دیا گیا ہے۔
اور
رسول اللہ ﷺ نے مہاجرین اور انصار کے درمیان مؤاخات (بھائی چارہ) قائم کیا، جہاں ایک انصاری اپنے مہاجر بھائی کو اپنی جائیداد اور کاروبار میں شریک کرتا تھا۔"
میں نے بے قراری سے کہا کہ
"کیا ایمان ہی اصل رشتہ نہیں ہے؟"
روح نے مسکرا کر کہا کہ
"ایمان ہی اصل رشتہ ہے، مگر شرط یہ ہے کہ اس رشتے کو دل سے تسلیم کیا جائے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا
'مؤمن ایک جسم کی مانند ہیں، جب ایک عضو تکلیف میں ہوتا ہے تو پورا جسم بے چین ہو جاتا ہے۔'
تو دیکھ، اگر تمہارا بھائی کسی اور نظریے کا حامل ہے، مگر اس کے دل میں ایمان ہے، تو وہ تمہارا بھائی ہے۔ محبت ایمان سے پیدا ہوتی ہے، نفرت نفس سے۔
دیکھو، حضرت سلمان فارسیؓ ایک غیر عرب تھے، مگر جب وہ ایمان لائے، تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا
'سلمان ہم میں سے ہے، اہلِ بیت میں سے'
اسلام نے کبھی قوم، نسل یا زبان کو اہمیت نہیں دی، بلکہ ایمان کو اصل تعلق قرار دیا۔ مگر افسوس، آج لوگ عقائد اور فرقوں کی بنیاد پر ایک دوسرے کو جدا کر رہے ہیں۔"
میں نے روح سے استفسار کیا
"مگر اللہ کے حضور حساب کیسے دیا جائے گا؟ جبکہ ہر عمل، ہر ارادہ، ہر نیت درج ہو چکی ہے، بھلا ایک انسان اللہ تبارک و تعالیٰ کا حساب کیسے دے سکتا ہے۔ جس کے پاس انسان کی پیدائش سے لے اس کی موت تک ہرایک ایک سیکنڈ کا حساب ہے۔ سب کچھ ریکارڈ ہو رہا ہے۔ اور انسان کے اعضاء تک اس کے خلاف گواہی دیں گے؟"
روح نے ایک گہری آہ بھری، پھر کہا کہ
"یہی سب سے بڑی حقیقت ہے! انسان بھول جاتا ہے، مگر رب کبھی نہیں بھولتا۔ مگر یاد رکھو، ایک بار رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ کوئی محض اپنے اعمال کی بنیاد پر جنت میں نہیں جا سکتا۔ صحابہ کرام نے عرض کیا، 'یا رسول اللہ ﷺ، آپ بھی؟' تو آپ ﷺ نے فرمایا، 'ہاں، میں بھی نہیں، جب تک کہ اللہ کا فضل شامل حال نہ ہو۔'"
اور
حضرت عمرؓ ہر وقت اللہ سے رحم کی دعا کرتے تھے، حالانکہ وہ عظیم خلیفہ تھے۔ جب ایک شخص نے ان کی تعریف کی، تو انہوں نے فرمایا
"اگر اللہ مجھے معاف نہ کرے، تو میں کچھ بھی نہیں"
"پس، نیکی کا تکبر مت کر، اعمال کو اپنا فخر مت بنا، بلکہ اللہ کی رحمت کا طلبگار بن۔ جنت فضل ہے، حساب نہیں"
میں نے پھر روح سے پوچھا:
"تو جنت میں کون جائے گا؟"
روح نے نرمی سے کہا
"جنت میں وہ جائے گا جو اللہ کے کلام کو اپنا راہنما بنائے گا، رسول اللہ ﷺ کی سنت کو اپنے عمل کا چراغ بنائے گا،
اور جو اپنے دل کو نفرت سے پاک رکھے گا۔ یاد رکھو، جب حضرت علیؓ سے پوچھا گیا کہ سب سے افضل عمل کیا ہے، تو انہوں نے کہا
'وہ جو دل سے ہر ایک کے لیے خیر چاہے اور کسی سے حسد نہ کرے۔'
"یہی وہ کیفیت ہے جو جنت میں لے جانے والی ہے"
رسول اللہ ﷺ نے ایک شخص کی طرف اشارہ کر کے فرمایا کہ وہ جنتی ہے۔ صحابہ کرامؓ نے حیران ہو کر اس کی زندگی کو دیکھا، تو معلوم ہوا کہ وہ ہر رات سونے سے پہلے اپنے دل سے ہر قسم کی نفرت نکال دیتا تھا۔
اور
حضرت عثمانؓ فرماتے تھے
"اگر دل پاک ہو جائے، تو کبھی قرآن سے سیر نہیں ہوتا!"
اور سب سے بڑھ کر، اللہ کی رحمت کا طلبگار ہوگا۔
اے دوست! رب کا فضل عظیم ہے، اور اس کا دروازہ ہمیشہ کھلا ہے۔ محبت پیدا کر، اخلاص سے زندگی گزار، اور کسی کو اس کے نظریے کی بنیاد پر جدا نہ کر۔ امت وہی سر بلند ہوگی جن کے دلوں میں محبت ہو، ورنہ اختلافات اسے کمزور کر دیں گے۔
اور
ایک مرتبہ ایک شخص نے صحابہ کرامؓ سے پوچھا
"کیا چھوٹے عمل بھی قبول ہوتے ہیں؟"
تو جواب دیا گیا:
"ہاں، اگر نیت خالص ہو
مومن کی ذمہ داری
میں نے گہری سوچ میں ڈوب کر کہا:
"تو پھر میرا فرض کیا ہے؟"
روح نے نرمی سے جواب دیا:
"مومن کا کام ان لوگوں کو 'آگ' سے بچانا ہے، جنہیں خبر نہیں کہ آگے 'آگ' ہے۔ سچے مومن کا فرض صرف ہدایت دینا ہے، دلوں کو بدلنا نہیں، کیونکہ ہدایت اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ جو حق نہیں جانتے، ان کے لیے ہدایت ضروری ہے، اور جو حق جان چکے ہیں، ان پر حجت پوری ہو چکی ہے۔"
قیامت کے دن سوالات
میں نے روح سے سوال کیا کہ
"کیا ہمیں اللہ کی عدالت میں حاضر ہونا ہے؟"
روح نے پُرسکون لہجے میں کہا:
"ہاں! ہر نفس کو اللہ کے حضور پیش ہونا ہے، اور اپنے اعمال کا حساب دینا ہے۔ یہ دنیا محض امتحان ہے، اصل زندگی وہ ہے جو آخرت میں شروع ہوگی۔ وہاں ہر عمل کا حساب ہوگا، کوئی چیز چھپی نہیں رہے گی، اور ہر عضو اپنے خلاف گواہی دے گا"
میں نے سنجیدگی سے پوچھا کہ
"کیا قیامت کے دن ہم سے ہمارے بارے میں سوال کیا جائے گا؟"
روح نے کہا کہ
"یقیناً! اللہ فرمائے گا
جب میں نے تجھے دنیا میں بھیجا، تو تو نے کیا کیا؟
اپنی عمر کن کاموں میں گزار دی؟
جوانی کو کیسے اور کہاں صرف کیا؟
مال و دولت کہاں سے حاصل کیا اور کہاں خرچ کیا؟
علم جو کچھ سیکھا، اس پر کتنا عمل کیا؟
جسم کو کیسے اور کن کاموں میں استعمال کیا؟
یہ وہ غور طلب سوالات ہیں، جن کے جوابات پر آخرت کا فیصلہ ہونا ہے۔
میں نے حیرانی سے پوچھا:
"کیا اللہ ہم سے ہمارے گھر اور معاشرتی رویوں کے بارے میں بھی سوال کرے گا؟"
روح نے کہا:
ہاں، پھر اللہ فرمائے گا
میں نے تجھے اولاد دی، تو نے ان کی کیسی پرورش کی؟
میں نے تجھے ہمسائے اور پڑوسی دیے، تو نے ان کے ساتھ کیسا سلوک کیا؟
میں نے تجھے بولنے کے لیے زبان، کام کرنے کے لیے ہاتھ، چلنے کے لیے پاؤں دیے، تو نے ان کا کیا استعمال کیا؟
میں نے تجھے سوچنے کے لیے دماغ، روح میں قلب، جسم کی توانائی، حواس خمسہ دیے، تو نے انہیں کس مقصد کے لیے استعمال کیا؟
ہر چیز کا حساب ہوگا، اور کچھ بھی چھپا نہ رہے گا۔"
بدگمانی اور اس کا نقصان
میں نے اپنی روح سے پوچھا کہ
"سننے میں آیا ہے کہ مسلمانوں میں ایسے لوگ بھی ہیں جو صحابہ کرام کے بارے میں برا عقیدہ رکھتے ہیں؟"
روح نے جواب دیا کہ
"کتنے اندھے لوگ ہیں۔ جو لوگ ہمارے دور سے پندرہ سو سال پہلے گزرے ہیں، آج پندرہ سو سال بعد کیسے ان کے بارے ایسی سوچ رکھتے ہیں۔ اب مجھے یہ بتاو کہ کیا ان کو یہ پتہ نہیں، کہ جو کوئی بھی دنیا میں آتا ہے، اللہ اسے ضرور آزماتا ہے؟"
میں نے جواب دیا کہ
"ان کو پتہ ہے"
پھر روح نے وضاحت کی کہ
"اگر ان کو یہ پتہ ہے کہ ہر کسی کا اللہ امتحان لیتا ہے۔ تو آج سے پندرہ سو برس پہلے بھی ایمان والوں کے امتحان ہوئے تھے۔ رہی بات فیصلہ کرنے کی، تو مختیار کل اللہ ہے۔ چاہے کسی کو معاف کرے یا کسی کو سزا دے۔ انسان کو کوئی اختیار نہیں ہے فیصلہ کرنے کا۔"
میں نے اپنی روح سے سوال کیا:
"کیا بدگمانی انسان کو اندھا کر دیتی ہے؟"
روح نے افسوس سے کہا:
"ہاں! بدگمانی کا مرض انسان کو روحانی طور پر اندھا کر دیتا ہے، اور اسے اپنی اصلاح سے غافل کر دیتا ہے۔ اگر کوئی ماضی کے بارے میں بدظن ہے، بدگمان ہے، جیسا کہ صحابہ کرامؓ کی گستاخی کی جاتی ہے، تو اسے یہ سمجھنا چاہیے کہ جب وہ اللہ کے سامنے حاضر ہوگا، تو اس سے اس کے اپنے اعمال کا حساب لیا جائے گا، نہ کہ دوسروں کی زندگی کا۔"
میں نے سوال کیا:
"تو پھر ہمیں کس چیز پر توجہ دینی چاہیے؟"
روح نے گہرے لہجے میں کہا:
"اے میرا مسلمان بھائی، بدگمانی رکھنے سے پہلے، ذرا یہ ضرور سوچ کہ تو خود کس حد تک اسلام پر عمل پیرا ہے؟ کیا ہم اپنی اصلاح کر رہے ہیں، یا دوسروں کی خامیوں میں الجھے ہوئے ہیں؟ اللہ ہم سے دوسروں کے اعمال کا حساب نہیں لے گا، بلکہ ہمارے اپنے اعمال کا جواب طلب کرے گا۔"
میں نے گہری سوچ میں ڈوب کر کہا:
"اگر میں کسی سے بدگمانی رکھوں، تو کیا اللہ مجھ سے سوال کرے گا؟"
روح نے سختی سے کہا:
"خبردار! اگر ماضی، حال، یا مستقبل میں کسی سے بھی بدگمانی رکھی، تب تجھ سے ضرور پوچھا جائے گا، اور تم جواب نہ دے سکو گے۔ بدگمانی اعمال نامہ پر بوجھ ڈال دیتی ہے، اور جنت کی راہ مشکل کر دیتی ہے۔"
نجات کا راستہ
میں نے روح سے سوال کیا:
"تو پھر نجات کا راستہ کیا ہے؟"
روح نے محبت بھرے لہجے میں کہا کہ
"اے دوست، جب تو اپنا جواب نہیں دے سکتا، تو کسی اور کا بوجھ کیوں اٹھا رہا ہے؟ اگر تم بدگمانی اور نفرت لے کر جنت کی طرف بڑھو گے، تو تمہارا داخلہ مشکل ہو جائے گا۔ جنت نیک اعمال، اخلاص، حسنِ اخلاق، اور پاکیزہ دل والوں کے لیے ہے، نہ کہ بدگمانی اور نفرت رکھنے والوں کے لیے۔"
میں نے گہری سوچ میں ڈوب کر کہا:
"تو پھر کیا دعا کرنی چاہیے؟"
روح نے کہا:
"اے اللہ، مجھے اور میری نسل کو محفوظ رکھ، ہر اس کام سے جو تجھے ناپسند ہے، اور توفیق دے ہر اس عمل کی، جو تجھے پسند ہے۔ ہمیں اپنے مخلص بندوں میں شامل فرما، یا رب العالمین۔ آمین!"
آنے والے حقائق اور بدگمانی کا انجام
میں نے اپنی روح سے سوال کیا:
"کیا آنے والے حقائق اتنے شدید ہوں گے کہ انہیں جاننے والا اپنی حالت سے بے خبر ہو جائے گا؟"
روح نے گہری سانس لی، پھر کہا:
"ہاں، اے دوست! جب وہ حقائق سامنے آئیں گے، تو جو کھڑے ہوں گے، وہ ساکت ہو جائیں گے، اور جو بیٹھے ہوں گے، وہ بے حرکت بیٹھے رہ جائیں گے۔ یہ بھول جائیں گے کہ انہوں نے کچھ پہنا بھی ہے یا نہیں۔ تب انہیں اس حقیقت کی شدت کا احساس ہوگا، اور ان شاء اللہ وہ خود کو بدل ڈالیں گے۔"
تب میں نے کہا کہ
مجھے ان آنیوالے حقائق کے بارے میں بتاو۔ تو روح اس طرح گویا ہوئی کہ
"حقائق شدید تر ہیں۔"
تب روح نے برزخ، قیامت اور حساب کتاب کو اس طرح بیان کیا کہ
برزخ کی حقیقت
جب آنکھ بند ہوگی، پردے ہٹ جائیں گے،
جو دنیا میں بے خبر تھا، وہ قبر میں چیخے گا،
زمین اس کا بوجھ نہ سہہ سکے گی،
اور روح حیران کھڑی ہوگی، کہ اب کہاں جائے؟
یہاں کوئی اختیار نہ ہوگا،
عمل ختم، وقت ختم، مہلت ختم،
بس حساب باقی ہوگا، سوال باقی ہوگا، اور جزا و سزا منتظر ہوگی۔
قیامت کا زلزلہ
پھر وہ دن آئے گا جب سورج بے نور ہو جائے گا،
چاند ٹوٹ جائے گا، ستارے بکھر جائیں گے،
پہاڑ دھول بن کر اڑ جائیں گے،
اور زمین لرز کر پکارے گی:
"یہ کیا ہو رہا ہے؟"
ہر شخص اپنی جان کے لیے بھاگے گا،
کوئی کسی کا نہیں ہوگا،
ماں بچے کو چھوڑ دے گی،
بھائی، بھائی سے کترائے گا،
اور دوست، دوست کو پہچاننے سے انکار کرے گا۔
حساب کا لمحہ
پھر جب نامۂ اعمال کھلے گا،
تو نیکوکار مسکرا کر کہیں گے۔
"الحمدللہ، میں کامیاب ہو گیا"
اور گناہگار چیخ اٹھیں گے:
"یا حسرتا، میں نے کیا کھو دیا"
جہنم دہک رہی ہوگی،
جنت کی خوشبو قریب ہوگی،
اور ہر شخص فیصلہ سننے کے انتظار میں کانپ رہا ہوگا۔
حقیقی کامیابی
روح نے کہا:
"وہی کامیاب ہے جو آج ہی سنبھل جائے، جو توبہ کر لے، جو نفس کو قابو میں لے آئے، جو برائی سے بچ جائے، اور جو اللہ کی رضا کے لیے جئے"
میں نے آنسوؤں سے کہا:
"یا رب العالمین، مجھے ہدایت عطا فرما، مجھے ان غافلوں میں شمار نہ کر، اور میرا نام ان کامیاب لوگوں میں لکھ دے"
میں نے بے قراری سے کہا:
"تو پھر کسی کے بارے میں بدگمانی رکھنا کس قدر خطرناک ہے؟"
روح نے افسوس بھرے لہجے میں جواب دیا:
"چہ جائیکہ کسی اور کے بارے میں بدگمانی رکھنا، یہ تو اللہ کے غضب کو دعوت دینے والی بات ہے۔ بدگمانی سب سے بڑا فتنہ ہے، جو انسان کو تباہی اور گمراہی میں مبتلا کر دیتا ہے۔ اللہ ہمیں ہر فتنے سے محفوظ رکھے، اور حق پر ثابت قدم رکھے۔ آمین"
حقیقی دین اسلام کیا ہے؟
میں نے روح سے سوال کیا:
"کیا آج کا دین حقیقی دینِ اسلام ہے؟"
روح نے جواب دیا:
"نہیں! حقیقی دین اسلام قرآن اور سنت میں ہے، جبکہ آج اس میں اجماع اور قیاس شامل کر دیا گیا ہے۔ ان اضافوں نے لوگوں کو حقیقی دین سے دور کر دیا ہے۔"
میں نے گہری سوچ میں ڈوب کر کہا:
"شریعت کا اصل ماخذ کیا ہے؟"
روح نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ
"شریعت اللہ کا نازل کردہ نظام ہے، اور اس کی بنیادیں قرآن اور سنت ہیں۔ مگر افسوس آج کے دور میں شریعت میں اجماع اور قیاس کو شامل کیا جا چکا ہے۔ جس سے امت مسلمہ کے ٹکڑوں میں تقسیم ہو چکی ہے۔ اور اصل دین سے دور ہو گئے ہیں۔"
تب میں نے پوچھا کہ
"مجھے وضاحت سے بتاو۔"
تب روح نے کہا کہ
"قرآن مجید اسلامی شریعت کا اولین ماخذ ہے، جس میں اللہ تعالیٰ نے انسانیت کے لیے ہدایت فرمائی۔
سنت: نبی کریم ﷺ کے اقوال، افعال اور تصدیقات سنت کا حصہ ہیں، جو قرآن کی وضاحت اور تکمیل کرتے ہیں۔
اجماع علماء کا کسی مسئلے پر اتفاق۔
قیاس: عقل اور اجتہاد کی مدد سے مسائل کا استدلال، جب کوئی واضح نص موجود نہ ہو۔"
تب میں نے روح سے کہا کہ
"میرا عقیدہ قرآن ہے۔ جو امت کے اتحاد کا مستند ذریعہ ہے۔ اس لیے میں اجماع اور قیاس کو قبول نہیں کرتا بلکہ رد کرتا ہوں۔ اس کی کئی وجوہات ہیں۔"
دین کی تکمیل
میں نے روح سے سوال کیا کہ
"کیا دین مکمل ہو چکا ہے؟"
روح نے قرآن کی ایک آیت سنائی
اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ
اَلْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا
(سورۃ المائدہ، آیت 3)
پھر روح نے وضاحت کی
"اے دوست، ذرا غور کرو! جب اللہ نے دین کو مکمل کر دیا، تو پھر اس میں کسی انسانی اضافے کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ دین کامل ہے اور اس میں کسی نئی چیز کی ضرورت نہیں"
قرآن اور سنت کی پیروی
میں نے روح سے سوال کیا کہ
"کیا اللہ کے دین پر قائم رہنے کے لیے ہمیں کسی اور چیز کی ضرورت ہے؟"
روح نے حدیث بیان کی کہ
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ
ترکت فیکم امرین لن تضلوا ما تمسکتم بہما: کتاب اللہ وسنة رسولہ
(مشکوٰۃ المصابیح، حدیث نمبر 186)
یعنی: 'میں تم میں دو چیزیں چھوڑ کر جا رہا ہوں، جب تک تم ان دونوں کو مضبوطی سے تھامے رکھو گے، کبھی گمراہ نہیں ہو گے: اللہ کی کتاب اور اس کے رسول ﷺ کی سنت۔'
قیاس آرائیوں کا نقصان
میں نے سوال کیا
"کیا قیاس آرائیاں امت کو نقصان پہنچا رہی ہیں؟"
روح نے گہری سوچ کے ساتھ جواب دیا کہ
"ہاں، قیاس آرائیاں امت کو حقیقی اسلام سے دور لے جا چکی ہیں، اور لوگ بدعات میں مبتلا ہو گئے ہیں، جو دین میں غیر ضروری اضافے کا سبب بنتی ہیں"
فرقہ واریت اور دعوت
میں نے روح سے سوال کیا کہ
"کیا فرقہ واریت دین کی دعوت میں رکاوٹ بنتی ہے؟"
روح نے کہا:
ہاں، جب کسی غیر مسلم کو اسلام کی دعوت دی جاتی ہے، تو فرقہ واریت کی وجہ سے مسلمان خود اختلافات میں مبتلا ہوتے ہیں۔ اس اختلاف کی وجہ سے غیر مسلم کو مطمئن کرنا مشکل ہو جاتا ہے، اور یہ ایک بڑا نقصان ہے۔
قرآن سے دوری
میں نے روح سے سوال کیا:
"کیا قیاس آرائیوں اور بدعات کی وجہ سے ہم قرآن سے دور ہو گئے ہیں؟"
روح نے افسوس سے کہا کہ
"ہاں، جب لوگ قیاس آرائیوں کو دین میں شامل کر لیتے ہیں، تو اصل اسلام کی روح مجروح ہو جاتی ہے، اور لوگ قرآن سے دور ہو جاتے ہیں"
دین میں نئی باتیں شامل کرنے کا انجام
میں نے روح سے سوال کیا کہ
"کیا دین میں نئی باتیں شامل کرنا خطرناک ہے؟"
روح نے حدیث بیان کی کہ
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا
من قال عليّ ما لم أقل؛ فليتبوأ مقعده من النار
(سلسلہ احادیث صحیحہ، حدیث نمبر 2565)
یعنی: 'جس نے میری طرف ایسی بات منسوب کی جو میں نے نہ کہی ہو، تو وہ جہنم میں اپنا ٹھکانہ بنا لے۔
پھر روح نے وضاحت کی کہ
یہ حدیث واضح کرتی ہے کہ دین میں نئی باتیں شامل کرنا سخت منع ہے، اور جو ایسا کرے گا، اس کا انجام جہنم ہوگا۔
اجماع اور قیاس میں انسانی غلطی کا امکان
میں نے اپنی روح سے سوال کیا کہ
"کیا اجماع اور قیاس دین کا مستند حصہ ہیں؟"
روح نے گہرے لہجے میں جواب دیا کہ
"نہیں! اجماع اور قیاس انسانی عقل پر مبنی ہیں، اور انسانی عقل غلطی کا شکار ہو سکتی ہے۔ دین ایک الٰہی نظام ہے، جس میں صرف وحی کا درجہ حاصل ہے، نہ کہ انسانی رائے کا۔"
میں نے مزید وضاحت طلب کی:
"تو پھر کیا دین میں صرف وحی پر ہی انحصار کرنا چاہیے؟"
روح نے کہا:
"یقیناً! دین صرف قرآن اور سنت پر مبنی ہے، کیونکہ یہ براہِ راست اللہ اور اس کے رسول ﷺ سے آیا ہے، جبکہ انسانی عقل محدود ہے اور غلط فیصلے کر سکتی ہے"
قرآن میں بار بار تاکید
میں نے روح سے سوال کیا کہ
"کیا قرآن ہمیں صرف اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی پیروی کا حکم دیتا ہے؟"
روح نے قرآن کی ایک آیت سنائی کہ
ثُمَّ جَعَلْنَاكَ عَلَىٰ شَرِيعَةٍ مِّنَ ٱلْأَمْرِ فَٱتَّبِعْهَا وَلَا تَتَّبِعْ أَهْوَآءَ ٱلَّذِينَ لَا يَعْلَمُونَ
(سورۃ الجاثیہ، آیت 18)
پھر روح نے وضاحت کی کہ
"دیکھو! اللہ نے ہمیں شریعت پر قائم کیا، اور حکم دیا کہ ہم صرف اس کی پیروی کریں، نہ کہ جاہل لوگوں کی خواہشات کی۔ یہی وہ قرآنی اصول ہے جو ہمیں حقیقی دین کی طرف لے جاتا ہے"
دین سادگی اور وضاحت پر مبنی ہے
میں نے روح سے پوچھا کہ
"کیا دین پیچیدہ ہونا چاہیے یا سادہ؟"
روح نے مسکراتے ہوئے کہا کہ
رسول اللہ ﷺ نے دین کو آسان اور واضح رکھا ہے، تاکہ ہر شخص اسے سمجھ سکے۔ مگر اگر قیاس اور اجماع کو شامل کیا جائے، تو دین پیچیدہ ہو جاتا ہے، اور عام آدمی کے لیے اسے سمجھنا مشکل ہو جاتا ہے۔
بدعات سے حفاظت
میں نے روح سے سوال کیا کہ
"کیا قیاس اور اجماع بدعات کا سبب بنتے ہیں؟"
روح نے حدیث سنائی کہ
من أحدث في أمرنا هذا ما ليس منه فهو رد
(صحیح بخاری، حدیث نمبر 2697)
پھر وضاحت کرتے ہوئے کہا
یہ حدیث بتاتی ہے کہ دین میں نئی چیزیں شامل کرنا ممنوع ہے، اور جو ایسا کرے گا، اس کا عمل رد کر دیا جائے گا۔ بدعات قیاس اور اجماع کے ذریعے پیدا ہوتی ہیں، اور یہی دین میں اضافے کا سب سے بڑا ذریعہ ہیں۔
قرآن ہر دور کے لیے کافی ہے۔
میں نے روح سے پوچھا کہ
"آج کے دور کے خود ساختہ عالم کہتے ہیں۔ کہ اجماع اور قیاس اس دور کی ضرورت ہے۔"
روح نے جواب دیا کہ
"انہوں نے کلام اللہ کو نہیں سمجھا۔ اور وہ کلام اللہ کے بجائے اپنے نظریات کے پیچھے چلتے ہیں۔"
میں نے اپنا سوال جاری رکھا کہ
"کیا قرآن ہر زمانے کے لیے کافی ہے؟"
روح نے پرسکون لہجے میں جواب دیا کہ
"ہاں! قرآن ایک مکمل اور محفوظ کتاب ہے، جو ہر دور کے انسان کی ہدایت کے لیے کافی ہے۔ اس میں کسی اضافے کی ضرورت نہیں۔ جو لوگ کہتے ہیں کہ اجماع اور قیاس سے دین کو جدید دور میں بہتر طور پر سمجھا جا سکتا ہے، وہ قرآن کی اس حقیقت سے غافل ہیں۔
پھر روح نے قرآن کی ایک آیت تلاوت کی۔
إِنَّهُۥ لَقُرْءَانٌ كَرِيمٌۭ فِى كِتَٰبٍۢ مَّكْنُونٍۭ
(سورۃ الواقعہ، آیت 77-78)
پھر روح نے مزید وضاحت کی کہ
"یہ قرآن ایک عظیم کتاب ہے، جو ایک محفوظ صحیفے میں لکھی ہوئی ہے۔ اس کی حفاظت خود اللہ نے فرمائی ہے، اور اس میں کسی انسانی اضافے یا ترمیم کی ضرورت نہیں"
میں نے مزید وضاحت کے لیے پوچھا کہ
"کیا قرآن خود اس بات کی تصدیق کرتا ہے کہ یہ تمام انسانوں کے لیے مکمل ہدایت ہے؟"
روح نے ایک اور آیت تلاوت کی:
مَّا فَرَّطْنَا فِى ٱلْكِتَٰبِ مِن شَىْءٍ
(سورۃ الانعام، آیت 38)
پھر روح نے کہا:
دیکھو! اللہ نے واضح فرما دیا کہ اس کتاب میں کسی چیز کی کمی نہیں کی گئی۔ یعنی قرآن ہر دور اور ہر قوم کے لیے کافی ہے، اور اس میں ہر ضروری بات موجود ہے۔ پھر انسان اپنی طرف سے اضافے کیوں کرتا ہے؟
میں نے سوال کیا:
"تو کیا ہمیں صرف قرآن اور سنت پر چلنا چاہیے؟"
روح نے نرمی سے کہا:
"بالکل! دین کی اصل بنیاد قرآن اور سنت ہیں۔ جب اللہ نے دین کو مکمل کر دیا، تو پھر کسی اور اضافے کی کوئی ضرورت نہیں"
دین کا بنیادی اصول: پیروی، نہ کہ تخلیق
میں نے روح سے سوال کیا کہ
"کیا دین میں نئی چیزیں پیدا کرنے کی اجازت ہے؟"
روح نے گہرے لہجے میں کہا کہ
"نہیں! اسلام میں دین کا اصول اتباع (پیروی) ہے، نہ کہ ابتداع (نئی چیز پیدا کرنا)۔ جب قرآن اور سنت مکمل ہدایت فراہم کرتے ہیں، تو پھر اجماع اور قیاس کی کیا ضرورت رہ جاتی ہے؟"
قرآن میں اختلافات سے بچنے کی تلقین
میں نے روح سے سوال کیا کہ
"کیا قیاس اور اجماع امت میں اختلافات پیدا کر رہے ہیں؟"
روح نے قرآن کی ایک آیت سنائی:
وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوا
(سورۃ آلِ عمران، آیت 103)
پھر روح نے افسوس سے کہا:
"اللہ نے ہمیں اتحاد کا حکم دیا، مگر اجماع اور قیاس کی بنیاد پر نئی تشریحات سامنے آتی ہیں، جو امت میں اختلافات پیدا کرتی ہیں، اور یہی دین کی اصل روح کے خلاف ہے!"
صحابہ کرام کا طرزِ عمل
میں نے اپنی روح سے سوال کیا کہ
"کیا صحابہ کرام اجماع اور قیاس پر انحصار کرتے تھے؟"
روح نے پُر وقار لہجے میں جواب دیا:
نہیں، اے دوست! صحابہ کرام قرآن اور سنت ہی سے فیصلے کرتے تھے، اگر دین میں اجماع اور قیاس لازمی ہوتے، تو صحابہ کرام انہیں زیادہ اہمیت دیتے۔ مگر وہ ہمیشہ وحی کی روشنی میں فیصلے کیا کرتے تھے۔
نجات کا واحد راستہ
میں نے روح سے سوال کیا کہ
"اگر امت فرقوں میں تقسیم ہو چکی ہے، تو نجات کا راستہ کیا ہے؟"
روح نے ایک حدیث مبارکہ بیان کی:
سَتَفْتَرِقُ أُمَّتِي عَلَىٰ ثَلَاثٍ وَسَبْعِينَ فِرْقَةً، كُلُّهَا فِي النَّارِ إِلَّا وَاحِدَةً
(سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر 3992)
پھر روح نے وضاحت کرتے ہوئے کہا:
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ امت 73 فرقوں میں تقسیم ہو جائے گی، اور ان میں سے صرف ایک فرقہ نجات پانے والا ہوگا۔ فرقہ واریت زیادہ تر اجماع اور قیاس کی بنیاد پر پیدا ہوتی ہے، لہٰذا ہمیں اصل دین پر قائم رہنا چاہیے، جو قرآن اور سنت ہیں۔
قرآن ہی مکمل ہدایت ہے
میں نے روح سے پوچھا کہ
"کیا قرآن خود بیان کرتا ہے کہ یہ کامل اور مکمل ہدایت ہے؟"
روح نے قرآن کی آیت تلاوت کی
مَّا فَرَّطْنَا فِى ٱلْكِتَٰبِ مِن شَىْءٍ
(سورۃ الأنعام، آیت 38)
پھر روح نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ
"اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم نے اس کتاب میں کچھ بھی چھوڑا نہیں۔ یعنی قرآن میں مکمل ہدایت موجود ہے، اور دین میں کسی اضافی اصول یا قیاس کی کوئی گنجائش نہیں!"
رسول اللہ ﷺ کا طرزِ عمل
میں نے روح سے سوال کیا کہ
"کیا رسول اللہ ﷺ نے بھی اجماع اور قیاس کو اپنایا تھا؟"
روح نے قرآن کی ایک آیت تلاوت کی
إِنْ أَتَّبِعُ إِلَّا مَا يُوحَىٰ إِلَيَّ
(سورۃ الأحقاف، آیت 9)
پھر روح نے وضاحت کی
رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں: 'میں صرف اس چیز کی پیروی کرتا ہوں جو مجھ پر وحی کی جاتی ہے۔' یعنی نبی ﷺ نے کبھی اپنی طرف سے کوئی چیز دین میں شامل نہیں کی، بلکہ ہمیشہ وحی کی پیروی کی۔ تو جب رسول اللہ ﷺ نے صرف وحی کی پیروی کی، تو ہمیں بھی اسی طرزِ عمل کو اپنانا چاہیے۔
اہلِ قیاس اور اجماع کی مختلف آراء
میں نے روح سے پوچھا کہ
"اگر اجماع اور قیاس واقعی دین کا حصہ ہوتے، تو کیا سب علماء کی رائے ایک جیسی ہوتی؟"
روح نے افسوس سے کہا کہ
نہیں، اے دوست! اگر اجماع اور قیاس واقعی دین کا لازمی جز ہوتے، تو ہر عالم کی رائے ایک جیسی ہوتی، مگر حقیقت یہ ہے کہ ہر دور میں ان کے نظریات مختلف رہے ہیں۔ اگر دین مکمل ہے، تو انسانی رائے کے مطابق کیوں بدلتا ہے؟
دین میں آسانی
میں نے روح سے سوال کیا کہ
"کیا دین پیچیدہ ہے یا سادہ؟"
روح نے حدیث مبارکہ سنائی
إِنَّ الدِّينَ يُسْرٌ
(صحیح بخاری، حدیث نمبر 39)
پھر روح نے وضاحت کی کہ
دین آسان ہے، جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا۔ اگر قیاس اور اجماع کو شامل کر دیا جائے، تو دین پیچیدہ ہو جاتا ہے اور عام انسان کے لیے سمجھنا مشکل ہو جاتا ہے، جو اسلام کی اصل تعلیمات کے خلاف ہے۔
گمراہی کا سب سے بڑا سبب
میں نے روح سے پوچھا کہ
"کیا بدعات اور اختلافات اجماع اور قیاس کی وجہ سے پیدا ہوتے ہیں؟"
روح نے حدیث مبارکہ سنائی:
وَإِيَّاكُمْ وَمُحْدَثَاتِ الأُمُورِ فَإِنَّ كُلَّ مُحْدَثَةٍ بِدْعَةٌ وَكُلَّ بِدْعَةٍ ضَلاَلَةٌ
(سنن ابی داود، حدیث نمبر 4607)
پھر روح نے گہرے لہجے میں کہا کہ
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ دین میں نئی باتوں سے بچو، کیونکہ ہر نئی چیز بدعت ہے، اور ہر بدعت گمراہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اجماع اور قیاس بدعات کو جنم دیتے ہیں، اور لوگوں کو اصل دین سے دور کر دیتے ہیں۔
دین صرف اسلام ہی قبول کیا جائے گا
میں نے اپنی روح سے سوال کیا کہ
"کیا اللہ تعالیٰ نے واضح طور پر فرمایا ہے کہ صرف اسلام ہی قابلِ قبول دین ہے؟"
روح نے قرآن کی ایک آیت تلاوت کی
إِنَّ ٱلدِّينَ عِندَ ٱللَّهِ ٱلْإِسْلَامُ
(سورۃ آلِ عمران، آیت 19)
پھر روح نے وضاحت کرتے ہوئے کہا
"یقیناً! اللہ تعالیٰ کے نزدیک دین صرف اسلام ہے۔ یعنی جو بھی اللہ کی رضا اور قربت چاہتا ہے، اسے اسلام کو اپنانا ہوگا، کیونکہ یہی وہ دین ہے جو اللہ نے پسند فرمایا ہے"
میں نے مزید وضاحت طلب کی
"اگر کوئی شخص اسلام کے علاوہ کسی اور دین کو اختیار کرے، تو کیا وہ اللہ کے ہاں قبول ہوگا؟"
روح نے ایک اور آیت تلاوت کی
وَمَن يَبْتَغِ غَيْرَ ٱلْإِسْلَامِ دِينًۭا فَلَن يُقْبَلَ مِنْهُ وَهُوَ فِى ٱلْآخِرَةِ مِنَ ٱلْخَاسِرِينَ
(سورۃ آلِ عمران، آیت 85)
پھر روح نے وضاحت کی
جو کوئی اسلام کے علاوہ کوئی اور دین چاہے گا، وہ اس سے ہرگز قبول نہ کیا جائے گا، اور وہ آخرت میں نقصان اٹھانے والوں میں سے ہوگا۔ یعنی نجات اور کامیابی کا واحد راستہ اسلام ہے۔
دین کو خالص کرکے اس پر عمل پیرا ہونا
میں نے اپنی روح سے سوال کیا کہ
"کیا اللہ تعالیٰ نے ہمیں حکم دیا ہے کہ ہم دین کو خالص کر کے اس پر عمل کریں؟"
روح نے قرآن کی ایک آیت تلاوت کی
قُلِ ٱللَّهَ أَعْبُدُ مُخْلِصًۭا لَّهُۥ دِينِى
(سورۃ الزمر، آیت 14)
پھر روح نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ
کہہ دو کہ میں اپنے دین کو (شرک سے) خالص کر کے اللہ کی عبادت کرتا ہوں۔ یعنی دین میں کسی بھی قسم کی ملاوٹ، بدعات، یا غیر شرعی اضافے کی گنجائش نہیں، بلکہ دین کو صرف اللہ کے لیے خالص رکھنا ضروری ہے۔"
میں نے مزید وضاحت طلب کی
"کیا اللہ تعالیٰ نے ہمیں خاص طور پر حکم دیا ہے کہ ہم دین کو خالص رکھیں؟"
روح نے ایک اور آیت تلاوت کی
وَمَآ أُمِرُوا۟ إِلَّا لِيَعْبُدُوا۟ ٱللَّهَ مُخْلِصِينَ لَهُ ٱلدِّينَ
(سورۃ البینہ، آیت 5)
پھر روح نے وضاحت کی
حالانکہ انہیں فقط یہی حکم دیا گیا تھا کہ صرف اسی کے لیے اپنے دین کو خالص کرتے ہوئے اللہ کی عبادت کریں۔ یعنی دین میں اخلاص سب سے اہم چیز ہے، اور اللہ تعالیٰ صرف اسی عبادت کو قبول فرماتا ہے جو خالص نیت کے ساتھ کی جائے۔
اجماع اور قیاس کی حدود
میں نے اپنی روح سے سوال کیا کہ
"کیا اجماع اور قیاس دین میں وہی مقام رکھتے ہیں جو قرآن اور سنت کا ہے؟"
روح نے سنجیدگی سے جواب دیا:
"نہیں، اے دوست! اجماع اور قیاس قرآن اور سنت کے برابر نہیں ہو سکتے۔ اجماع صرف علماء کی متفقہ رائے ہے، مگر سوال یہ ہے کہ اگر علماء کسی معاملے پر متفق نہ ہوں تو کیا کیا جائے؟ اسی طرح، قیاس محض ایک اندازہ ہوتا ہے، جبکہ دین وحی پر مبنی ہے، نہ کہ انسانی اندازوں پر۔"
میں نے مزید وضاحت چاہی
"تو پھر اگر کسی معاملے میں اختلاف ہو جائے، تو ہمیں کس طرف رجوع کرنا چاہیے؟"
روح نے قرآن کی آیت تلاوت کی:
وَمَا ٱخْتَلَفْتُمْ فِيهِ مِن شَىْءٍۭ فَحُكْمُهُۥ إِلَى ٱللَّهِ
(سورۃ الشوریٰ، آیت 10)
پھر وضاحت کرتے ہوئے کہا:
اللہ فرماتا ہے کہ جس چیز میں تم اختلاف کرو، اس کا فیصلہ اللہ کے سپرد ہے۔ یعنی جب کوئی اختلاف ہو، تو ہمیں اللہ کے احکام کی طرف رجوع کرنا چاہیے، نہ کہ اجماع اور قیاس کی طرف۔"
دین کی حفاظت کا اصل طریقہ
میں نے اپنی روح سے سوال کیاکہ
"دین کو اختلافات اور بدعات سے کیسے محفوظ رکھا جا سکتا ہے؟"
روح نے حدیث مبارکہ بیان کی
أَفْضَلُ الْحَدِيثِ كِتَابُ اللَّهِ، وَأَفْضَلُ الْهَدْيِ هَدْيُ مُحَمَّدٍ، وَشَرُّ الأُمُورِ مُحْدَثَاتُهَا
(صحیح مسلم، حدیث نمبر 867)
پھر وضاحت کرتے ہوئے کہا
رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں: 'سب سے بہترین بات اللہ کی کتاب ہے، اور سب سے بہترین طریقہ محمد ﷺ کا طریقہ ہے، اور سب سے بری چیز دین میں نئی باتوں کا اضافہ ہے۔' یعنی دین کو بدعات اور اختلافات سے محفوظ رکھنے کا اصل طریقہ صرف قرآن اور سنت پر عمل کرنا ہے۔
قیاس اور اجماع کے عملی اثرات
میں نے روح سے سوال کیا کہ
"اگر اجماع اور قیاس حقیقت میں دین کا حصہ ہوتے، تو کیا ان سے دین میں بہتری آتی؟"
روح نے افسوس سے جواب دیا
"اگر اجماع اور قیاس صحیح ہوتے، تو ان کے ذریعے امت میں اتحاد پیدا ہوتا، مگر حقیقت یہ ہے کہ ان کی وجہ سے امت میں فرقے اور اختلافات بڑھ گئے ہیں۔ جب دین صرف قرآن اور سنت پر قائم تھا، تب امت متحد تھی، مگر قیاس اور اجماع کے اضافے کے بعد امت میں اختلافات پیدا ہو گئے۔"
دین کامل ہے اور اس میں اضافے کی ضرورت نہیں
میں نے اپنی روح سے سوال کیا
"کیا دین میں اضافے کی کوئی گنجائش ہے؟"
روح نے نرمی سے کہا
"نہیں! دین کامل ہے اور اس میں کسی اضافے کی ضرورت نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے دین کو مکمل فرما دیا، اور قرآن و سنت ہی اس کے اصل ماخذ ہیں!"
پھر میں نے مزید وضاحت طلب کی
"اگر دین مکمل ہے، تو اجماع اور قیاس کو کیوں شامل کیا جاتا ہے؟"
روح نے کہا
"اجماع اور قیاس محض انسانی تشریحات ہیں، اور انسان غلطی کر سکتا ہے۔ دین کو سادہ اور واضح رکھا گیا ہے، مگر اجماع اور قیاس اسے پیچیدہ بنا سکتے ہیں!"
رسول اللہ ﷺ نے دین کو مکمل کر دیا
میں نے روح سے سوال کیا کہ
"کیا رسول اللہ ﷺ نے دین کو مکمل کر دیا تھا؟"
روح نے گہرے لہجے میں جواب دیا:
"ہاں، رسول اللہ ﷺ نے دین کو مکمل کر دیا تھا، اور ہمیں حکم دیا کہ ہم اسی اصل پر قائم رہیں۔ دین میں اضافے کی کوئی ضرورت نہیں، کیونکہ دین پہلے ہی مکمل اور محفوظ ہے"
مسلمانوں کی کامیابی
میں نے روح سے پوچھا کہ
"دنیا اور آخرت میں مسلمانوں کی کامیابی کا راز کیا ہے۔"
جواب ملا کہ
"تمام مسلمان ایک ہو جائیں۔"
میں نے مزید پوچھا کہ
"یہ کیسے ممکن ہے؟"
جواب ملا کہ
"قرآن سے۔ تمام مسلمان قرآن کو راہنما بنا لیں۔ آپس کے اختلافات کو اللہ کے سپرد کریں۔"
میں نے مزید پوچھا کہ
"میں قرآن کی ان تعلیمات پر کیسے عمل کروں؟ اور انہیں اپنے آنے والی نسل اور پوری امت مسلمہ تک کیسے پہنچاوں؟"
جواب ملا کہ
"تم اپنا ایک فارمولا بنا لو۔"
میں نے کہا کہ
"میں اس فارمولا کا کیا نام رکھوں؟"
جواب ملا کہ
"ایم ای اے ایس فارمولا۔"
میں نے کہا کہ
"اس کا کیا مطلب ہے؟"
جواب ملا کہ
"ایم کا مطلب مہدی
ای کا مطلب عیسیٰ
اور اے ایس راز ہیں۔"
میں نے مزید پوچھا کہ
"میں اس پر کیسے عمل کروں؟"
جواب ملا کہ
"اپنی آنے والی نسل اور پوری امت مسلمہ کو حضرت امام مہدی اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی آمد کے لیے تیار کرو۔"
ابھی میں فارمولا قرآن اور حدیث کی روشنی میں جدید زمانے کے لیے ایم ای اے ایس فارمولا تیار کر رہا ہوں؟
مناجات: بندگی کی فریاد
یا رب العالمین!
میں نے حق کی تلاش میں اپنی زندگی کا ہر لمحہ گزارا، میں نے آزمائشوں پہ صبر کیا، میں نے دنیا کی حقیقت کو سمجھا، اور اب میں تیرے سامنے کھڑا ہوں، ایک عاجز، ایک محتاج، ایک ایسا بندہ جو تجھ سے تیری رضا، تیری محبت، اور تیری قربت مانگ رہا ہے۔
یا اللہ، مجھے حقیقی دین اسلام پر عمل پیرا کردے۔
تو غالب ہے، تو سب کچھ جانتا ہے، اور تو میری حقیقت سے بھی زیادہ میری حقیقت کو جانتا ہے۔
یا اللہ، میرا سر تیرے سامنے جھکا ہوا ہے۔
تیرا ہر حکم میرے سر آنکھوں پر، تیری اطاعت میری روح ہے، تیرا نور میری بصیرت ہے، تیری سچائی میری حکمت ہے، تیری رضا ہی میری رضا بن جائے۔
یا اللہ، مجھے وہ پسند عطا فرما جو تجھے پسند ہے، اور میری ناپسند وہ بنا دے جو تجھے ناپسند ہے۔
یا اللہ، تو اپنے اس بندے کے سر کو کسی اور کے سامنے نہ جھکانا۔
میرے آنسو تیری گواہی دے رہے ہیں، تو مجھ میں ہے، تو میرا راز ہے، تو میری حقیقت ہے، تو میرے دل کا نور ہے ، جس سے میری ہر دھڑکن سانس لیتی ہے۔
یا اللہ، اپنے نور کو میرے وجود میں اتار دے۔
میرے دائیں نور، میرے بائیں نور، میرے آگے نور، میرے پیچھے نور، میرے اوپر نور، میرے نیچے نور، میرے جسم کے ہر عضو میں نور بھر دے، تاکہ شیطان مردود جل کر راکھ ہو جائے، یا اللہ، مجھے اور میری نسل کو اپنے مخلص بندوں میں شامل فرما۔
ہمیں ہر اس کام کی توفیق دے جو تجھے پسند ہے، اور ہر اس عمل سے محفوظ رکھ جو تجھے ناپسند ہے۔
ہماری روحوں پر قرآن نازل کر دے، ہمیں علم لدنی عطا فرما، ہمارے کردار کو ویسا بنا دے جیسا کہ تیرے محبوب محمد رسول اللہ ﷺ کی سیرت ہے۔
یا اللہ، ہر حقیقت کو ہمارے سامنے اسی طرح ظاہر کر دے، جیسے تو نے اسے تخلیق کیا ہے۔
ہمیں شریعت، طریقت، حقیقت اور معرفت عطا فرما۔
یا اللہ، ہم گمراہ نہیں ہونا چاہتے، ہمیں اپنے مخلص بندوں میں شامل فرما۔
تو ہی ہمیں ہدایت دینے والا ہے، اور بے شک تیرے در سے کوئی خالی نہیں گیا۔
جیسا کہ تو نے قرآن میں فرمایا:
وَقَالَ رَبُّكُمُ ٱدْعُونِىٓ أَسْتَجِبْ لَكُمْ
(سورۃ غافر، آیت 60)
"اور تمہارے رب نے فرمایا کہ مجھے پکارو، میں تمہاری پکار قبول کروں گا۔"
یا اللہ، تو ہمیں اپنا دیدار عطا فرما۔
ہمیں وہ نور دے جس سے ہم تجھے پہچان سکیں، اور ہمیں وہ بصیرت عطا فرما جس سے ہم حق کو حق اور باطل کو باطل دیکھ سکیں۔
یا رب العالمین!
تو پاک ہے، سبحان تیری ذات ہے۔
تو مجھے اور میری نسل کو پاکیزگی عطا فرما۔
تیرے ایک اشارے سے اس نجس کا ہر کام بن جائے گا، تو ہمیں اسی اخلاص کے ساتھ قبول کر لے۔
یا اللہ، مجھے اور میری نسل کو بدنی اور روحانی قوتیں اور خصوصی توفیق عطا فرما کہ ہم پوری دنیا کو حقیقی اسلام کی دعوت دینے کے قابل ہو جائیں۔
یا اللہ، میں تجھ سے اس تحریر کا کوئی عوض نہیں مانگتا، میں تجھے اپنا عمل پیش کر رہا ہوں۔
تو اسے قبول فرما، اسے اپنی رضا کے مطابق بنا دے، اس تحریر کے پڑھنے والے کو اس کے دل میں ہدایت اور نور کا ذریعہ بنا دے۔،
اور اگر اس میں کوئی کمی یا کوتاہی ہو، تو مجھے معاف فرما اور ہر پڑھنے والے کو اس کے شر سے محفوظ رکھ،
آمین، یا رب العالمین!
کیا آپ میری اس رائے سے متفق ہیں؟ کہ اگر اللہ ایک ہے۔ دین ایک ہے۔ رسول ایک ہے۔ کتاب ایک ہے۔ تو پھر تمام مسلمان ایک ہیں۔ بھائی بھائی ہیں۔ فرقے بنانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔
کیا آپ کو میری اس تحریر میں ایمان کی سچائی اور حکمت نظر آئی؟