اللہ کون ہے؟

Abdul Salam Niazi
0

 

اللہ کون ہے؟- meas-momin
Who is Allah?

"بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ" فقط آغاز نہیں، بلکہ میرا پہلا زینہ، اور میری زبان پر رب کے نام سے نکلنے والا پہلا نور ہے۔  

اے نیازی! جب تو سفرِ معرفت میں اپنا پہلا قدم رکھ، تو تجھے تیرے راستے کا کوئی نقشہ نہ دکھے گا۔ بس تو بے اختیار کہتا جا:  

"بسم اللہ!"  

کیونکہ یہ ایک ایسی کنجی ہے جو ہر دروازہ کھولتی ہے، ہر خوف کو سکون دیتی ہے، اور ہر کام کو برکت سے بھر دیتی ہے۔ پھر

"جب میں نے اپنے وجود کے ویرانے میں 'بسم اللہ' کی روشنی ڈالی، تب مجھے یقین آ گیا کہ میرا رب میرے ہر حال میں شریک ہے۔"

"الرَّحْمَـٰنِ"-وہ جو ہر ایک پر مہربان ہے، بغیر کسی شرط کے۔  

"الرَّحِيمِ"-وہ جو اپنے بندوں پر بار بار رحم فرماتا ہے، ہر سجدے، ہر آہ، ہر فریاد کے جواب میں۔

یہ میرے دل کی زبان ہے، کیونکہ مجھے اس کی ادائیگی یاد دلاتی ہے:  

"آغاز تیرا نام ہے، اور انجام تیری رضا!"

اللہ کون ہے؟

اللّٰہ وہ ہے جو ازل میں تھا، جب کچھ نہ تھا، وہی ہوگا جب کچھ نہ ہوگا۔

اس کی ذات نہ جسم ہے، نہ صورت، نہ حدود، نہ زمانے کی قید ۔۔  وہ مکان سے پاک، وقت سے بالا، فہم سے بلند، لیکن دلوں میں ہے۔

وہی "نور علی نور" ہے، وہی "قلب مومن" کا مرکز ہے، وہی "عرش عظیم" کا مالک ہے، وہی "کلام" ہے جو قرآن کی شکل میں نازل ہوا۔

وہی دلوں کی دھڑکنوں کو سنتا ہے، وہی آنکھوں کے آنسو جانتا ہے، وہی تنہائیوں کی دعاؤں کا ہمراز ہے۔

اللہ کی پہچان نہ صرف عقل سے، بلکہ دل کی آنکھ، عشق کی آگ، اور روح کی طلب سے ہوتی ہے۔

تو اگر اللہ کو تلاش کررہا ہے، تو دلوں میں ڈھونڈ۔

اللہ تعالیٰ جیسا کوئی نہیں

اللّٰہ تعالیٰ وہ ذات ہے جو ہر قسم کے قیاس، تصویر اور تشبیہ سے پاک ہے۔ انسان تصور کرے، تخیل میں کوئی شکل لائے، عقل سے کوئی کُل وضع کرے- مگر وہ سب فنائے شعور ہے۔ اللہ کی ذات ان سب سے وراء و بالا ہے۔ نہ اُس جیسا کوئی ہو سکتا ہے، نہ اُس جیسا کبھی کوئی تھا، اور نہ ہوگا۔

اے نیازی! جب تُو ہر شے کو مٹا کر اُسے پکارے گا، تب وہ تجھے پہچاننے دے گا۔ یہی معرفت کا پہلا دروازہ ہے: نفیٔ تشبیہ۔ اللہ کی ذات تو وہ آئینہ ہے جس میں کوئی عکس دکھائی نہیں دیتا، مگر ہر عکس وہ دکھائی دیتا ہے۔ اسی لیے فرمایا:

لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٌ  

"اس جیسا کوئی نہیں"  

(الشورى: 11)

 اللّٰہ کی صفاتِ ذاتیہ اور صفاتِ فعلیہ

اے نیازی! جب تیری نگاہ اس ذات کی تجلی میں جھکے اور صفات کی روشنی میں جلملائے۔ تب تو دل کی آنکھ سے اس کی صفات ذاتیہ اور صفات فعلیہ کا مشاہدہ کرنا۔ تو تجھے محبت خشیت اور پہچان کے رنگ ملیں گے۔

صفاتِ ذاتیہ: وہ صفات ہیں جو اللہ کی ذات سے لازم و ملزوم ہیں۔ وہ جو اللہ تعالیٰ کی ذات کے ساتھ ازل سے وابستہ ہیں، اور کسی مخلوق، فعل یا کُن کی محتاج نہیں۔ یہ وہ نورانی نشانیاں ہیں جن سے تو اللہ کی حقیقت، تنزیہ اور اُلوہیت کو پہچانے گا۔

نیازی کہتا ہے، یااللّٰہ:  

"اگر تُو کسی فعل سے نہ بھی ظاہر ہو، تب بھی تُو ہے۔ کیونکہ تیرا ہونا کسی مظہر کا محتاج نہیں۔"

صفاتِ ذاتیہ میں شامل ہیں:

حیات: اللّٰہ زندہ ہے، ہمیشہ سے اور ہمیشہ کے لیے۔ اس کی حیات لازمی اور کامل ہے۔  

علم: وہ ہر چیز کا جاننے والا ہے، پوشیدہ ہو یا ظاہر، ماضی ہو یا مستقبل۔  

قدرت: ہر شے اُس کے قبضے میں ہے، کوئی کام اُس کے اختیار سے باہر نہیں۔  

ارادہ: جو چاہے، جس طرح چاہے، جب چاہے، ہو جائے؛ یہ اُس کی مرضی پر منحصر ہے۔  

سمع: وہ سب کچھ سنتا ہے، چاہے سرگوشی ہو یا دل کی آہ۔  

بصر: وہ سب کچھ دیکھتا ہے، چاہے اندھیروں میں ہو یا پردوں میں چھپا ہو۔  

کلام: وہ بولتا ہے، جیسے چاہے، جب چاہے؛ مگر تیرے جیسا نہیں۔ اُس کا کلام ازلی، ابدی اور بے مثال ہے۔  

تکوین: وہ خالق ہے، وجود میں لانے والا ہے، بغیر مثال کے پیدا کرنے والا ہے۔ اسی لیے فرمایا:  

اللَّهُ لَا إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ الْحَيُّ الْقَيُّومُ  

(البقرہ: 255)  

"اللّٰہ، جس کے سوا کوئی معبود نہیں، ہمیشہ زندہ اور قائم رکھنے والا ہے۔


صفاتِ فعلیہ: وہ صفات ہیں جو اللہ کے ارادے اور فعل سے متعلق ہیں۔ وہ جو اللہ تعالیٰ کی مشیّت، ارادہ اور فعل سے ظہور پذیر ہوتی ہیں۔ ان کا تعلق مخلوق، وقت، اور حکمتِ الٰہی کے مطابق ظاہر ہونے سے ہے۔

اے نیازی! اِن صفات کو اللہ کی محبت، قہر، عطا، جمال اور جلال کی تموجات کے طور پر دیکھ۔ یہ وہ موجیں ہیں جو ذاتِ حق سے وجود کی سطح پر وارد ہوتی ہیں۔

صفاتِ فعلیہ میں شامل ہیں

خلق: اللّٰہ پیدا کرتا ہے، اُس کا ہر فعل ایک تخلیق ہے۔  

رزق: ہر جاندار کو رزق دینا اُس کا کرم ہے۔  

احیاء و اماتہ: زندگی اور موت دینا اُس کا اختیار ہے، اور دونوں نعمت ہیں۔  

ثواب و عذاب: جزا وہ دیتا ہے جو اُس کی رضا چاہے، اور سزا وہ دیتا ہے جو انکار کرے۔  

ہدیہ و اضلال: اس کا ایک دائرہ مقرر ہے، جسے شریعت کہتے ہیں۔ جو اس میں داخل ہو گیا، وہ ہدایت پا گیا اور جو اس رہ گیا، وہ گمراہ ہو گیا۔ 

عفو و مغفرت: وہ معاف کرنے پر قدرت رکھتا ہے، اور اُس کی مغفرت بے کنار ہے۔  

عطا و منع: جو دے، وہ بھی وہ؛ جو روکے، وہ بھی وہ۔

اے نیازی! جھک جا اس کی پناہ میں اور بے اختیار کہہ دے

"تیرے فعل میں جمال ہے، تیرے منع میں کمال؛ میں جس حال میں ہوں، وہی میرے لیے تیرا بہترین انتخاب ہے۔" اسی لیے فرمایا

إِنَّ رَبَّكَ فَعَّالٌ لِمَا يُرِيدُ  

(ھود: 107)  

"بے شک تیرا رب جو چاہے وہی کرتا ہے"

اللہ تعالیٰ ازل و ابد کا تنہا بادشاہ ہے

اس کائنات کے ذرات اپنی بندگی میں ہمیشہ رواں ہیں، مگر ان میں کوئی نہ اُس کی ابتدا کو پا سکتا ہے، نہ انجام کو۔ وہ نہ وقت کی قید میں ہے، نہ کسی وجود کا محتاج۔ انسان تو آغاز سے جڑا ہے اور انجام کی طرف بڑھتا ہے، مگر اللّٰہ تعالیٰ وہ ہے جو ازل سے ہے، اور ہمیشہ رہے گا۔ بغیر کسی تغیر، بغیر کسی فنا کے۔

اے نیازی! کہہ:  

"وہی اول ہے، وہی آخر، باقی سب افسانہ ہے، لوحِ دل سے تب مٹ جائے، جب دل میں اُس کا نقش جَم جائے۔"

هو الأول والآخر والظاهر والباطن وهو بكل شيء عليم  

"وہی اول ہے، وہی آخر ہے، وہی ظاہر ہے، وہی باطن ہے، اور وہ ہر چیز کو جاننے والا ہے"  

(الحدید: 3)

اللہ تعالیٰ نور ہے- دلوں کو جلانے والا، اندھیروں کو مٹانے والا

آسمانوں کی وسعتیں، زمین کا سکوت، رات کی تنہائیاں اور دن کی چہل پہل۔ ان سب میں ایک نور جاری و ساری ہے۔ وہ نور جو دیکھنے والی آنکھ کی روشنی نہیں، بلکہ بصیرت کی روشنی ہے۔ جب کوئی دل، دنیا کے دھندلکوں سے نجات پا کر اللہ کی طرف جھکتا ہے، تب وہ نور اسے گھیر لیتا ہے۔

یہ نور کتابوں میں نہیں ملتا، یہ دل کی گہرائی میں جا کر ہی چمکتا ہے۔ جس پر اللہ کی نظرِ رحمت پڑ جائے۔

اللَّهُ نُورُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ  

"اللّٰہ آسمانوں اور زمین کا نور ہے"  

(النور: 35)

اللّٰہ تعالیٰ نیند اور تھکن سے پاک ہے۔ ہمیشہ بیدار، ہمیشہ نگہبان

کسی بھی سلطنت کا بادشاہ سوتا ہے، مگر اللّٰہ تعالیٰ تو قیوم ہے۔ خود قائم ہے، اور ہر چیز کو قائم رکھے ہوئے ہے۔ وہ ہمیشہ بیدار، ہوشیار اور متوجہ رہتا ہے۔ نہ اسے اونگھ آتی ہے، نہ تھکن۔ یہی وہ صفت ہے جو ہر سجدے میں بے پناہ سکون عطا کرتی ہے، کہ ہمارا رب کبھی غافل نہیں۔

اے نیازی! کہہ: 

"اے میرے رب! جب ساری دنیا تھک کر سو جاتی ہے، تو مجھے جگا کر اپنے قرب سے نواز، کیونکہ تُو تو کبھی نہیں سوتا۔"

لَا تَأْخُذُهُ سِنَةٌ وَلَا نَوْمٌ  

"اسے نہ اونگھ آتی ہے اور نہ نیند"  

(البقرہ: 255)

اللّٰہ تعالیٰ کی قدرتِ کاملہ-بس "ہو جا" اور وہ ہو جاتا ہے

اللّٰہ تعالیٰ کی قدرت، انسان کی سوچ سے کہیں بلند تر ہے۔ اس کا ارادہ، بس فرما دینے کی دیر ہے، پھر نہ کوئی تاخیر، نہ کوئی حاجت کسی ذریعہ کی۔ جو کچھ اُس نے چاہا، وہ چشمِ زدن میں ہو گیا۔

اے نیازی! خوف میں لپٹی ہوئی محبت سے پکار:  

"اے میرے رب! تیرا 'کُن' میری تقدیر کو بدل دے، اور میرے دل کے خالی حجرے میں اپنے نور کا چراغ رکھ دے۔"

یہ وہ منزل ہے جہاں مخلوق فنا ہو جاتی ہے اور خالق کا ارادہ غالب آتا ہے۔ نہ سبب رہتا ہے، نہ مخلوق کا اختیار۔ صرف حکمِ "کُن" ہوتا ہے اور اس کی تجلی۔ اسی لیے فرمایا:

إِنَّمَا أَمْرُهُ إِذَا أَرَادَ شَيْئًا أَنْ يَقُولَ لَهُ كُنْ فَيَكُونُ  

"اس کا حکم تو بس یہ ہے کہ جب وہ کسی چیز کا ارادہ کرتا ہے تو اسے کہتا ہے 'ہو جا'، اور وہ ہو جاتی ہے"  

(یٰس: 82)

اللّٰہ تعالیٰ وحدہٗ لا شریک- توحید میری صدا

اللّٰہ تعالیٰ اکیلا ہے، بے نیاز، بے مثال، اور بے شریک۔ نہ اس کے سوا کوئی عبادت کے لائق ہے، نہ اس کے برابر کوئی ہو سکتا ہے۔ نہ وہ کسی سے پیدا ہوا، نہ کسی نے اسے جنم دیا۔

اے نیازی! تیری زبان پہ یہ کلمہ جاری رہنا چاہیے: "اَنتَ وَحدَکَ یااللّٰہ!" یعنی: "تو ہی ہے، صرف تو ہی!"  

تاکہ تیرا دل کہے:  

"جو تیرے سوا ہے، وہ پردہ ہے، اور جو تیرے ساتھ شریک ہو، وہ دھوکہ۔"

توحید، فقط علم یا عقیدہ نہیں، بلکہ دل کے اندر سجدہ کرنے والا جذبہ ہے۔

قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ، اللَّهُ الصَّمَدُ، لَمْ يَلِدْ وَلَمْ يُولَدْ، وَلَمْ يَكُنْ لَّهُ كُفُوًا أَحَدٌ  

"کہہ دو، وہ اللّٰہ ایک ہے، اللّٰہ بے نیاز ہے، نہ اس سے کوئی پیدا ہوا۔ اور نہ وہ کسی سے پیدا ہوا، اور نہ کوئی اس کے برابر ہے۔"  

(الاخلاص: 1-4)

اللّٰہ تعالیٰ ہر جگہ، ہر حال میں ہمارے ساتھ ہے

کبھی تنہائی کا زہر دل کو گھیر لے، یا کوئی غم دل میں چھپ کر بیٹھی ہوئی امید کو زائل کر دے۔ تب یہ یقین ایک نعمت بن جاتا ہے کہ اللّٰہ ہمارے ساتھ ہے۔ وہ جو دلوں کے حال جانتا ہے، وہی ہماری خاموشیوں کو سنتا ہے۔

اے نیازی! رات کی خلوت میں سر کو زمین پر رکھ کر پکار:  

"یارب! میں سب سے چھپ سکتا ہوں، تجھ سے نہیں، اور سچ یہ ہے کہ تجھ سے چھپنا نہیں چاہتا، بس تجھے پانا چاہتا ہوں۔"

وَهُوَ مَعَكُمْ أَيْنَ مَا كُنتُمْ  

"اور وہ تمہارے ساتھ ہے جہاں کہیں تم ہو"  

(الحدید: 4)

اللّٰہ تعالیٰ سب کچھ جانتا ہے۔ عِلم جس کی کوئی حد نہیں

اللّٰہ تعالیٰ کا علم ہر ظاہری و باطنی، ہر پوشیدہ و ظاہر، ہر ماضی و مستقبل کو گھیرے ہوئے ہے۔ جو ہو چکا، جو ہو رہا ہے، اور جو ہونے والا ہے، سب اُسی کے علم میں ہے۔ وہ سب جانتا ہے۔

اے نیازی! تو یہ جان لے کہ تو ایک ایسے رب کے سامنے جھکا ہوا ہے، جو تجھے تجھ سے زیادہ جانتا ہے۔  

تاکہ تیرے دل میں کامل اعتماد، شرم اور محبت کا امتزاج پیدا ہو۔ تب تو کہہ:  

"اے میرے ربِّ! مجھے وہی دے، جو تُو جانتا ہے کہ میرے حق میں بہتر ہے، نہ وہ جو میں مانگتا ہوں"

إِنَّ اللَّهَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ  

"بے شک اللّٰہ ہر چیز کا علم رکھتا ہے"  

(البقرہ: 282)

اللّٰہ تعالیٰ ہر چیز کا خالق ہے۔ جو کچھ ہے، وہ اُسی کی صناعی ہے

کائنات کی وسعتوں سے لے کر انسان کے دل کی دھڑکن تک، ہر شے اللّٰہ کی تخلیق ہے۔  

اس نے تخلیق کی، سنوارا، سمت عطا کی، اور اُس پر نگہبان مقرر کیا۔ 

اے نیازی! تو فانی ہے اور وہ باقی ہے۔ تو ناقص ہے اور وہ مختار کل ہے۔ اس لیے تو اپنی فنا میں اس کی بقا شامل کر کے، خود بھی بقا حاصل کر لے۔ کیونکہ تو جس طرف دیکھتا ہے ایک نقاش کا جمال دیکھتا ہے۔ اور ہر شے اس کے ہونے کی گواہی دیتی ہے۔  

اللَّهُ خَالِقُ كُلِّ شَيْءٍ وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ وَكِيلٌ  

"اللّٰہ ہر چیز کا خالق ہے اور وہی ہر چیز پر نگہبان ہے"  

(الزمر: 62)

تمام کائنات تسبیح میں مشغول ہے۔ خامشی بھی نغمہ ہے

نیازی! کیا تو دیکھ رہا ہے کہ ہر ذرے میں ذکرِ الٰہی کی بازگشت چھپی ہوئی ہے۔ چمن کا ہر پھول، درخت کی ہر پتّی، پانی کی ہر بوند، ہوا کی ہر سرسراہٹ، پرندوں کی چہچہاہٹ، سورج کا نور، چاند کی کرنیں، ستارے اور سیارے، رات اور دن، دریا اور پہاڑ، زمین اور آسمان، خوشی اور غم، جاندار اور بے جان، جو کچھ ظاہر ہے اور جو کچھ چھپا ہوا ہے، سب اُس کی تسبیح کرتے ہیں، خواہ دوسروں کے کان نہ سن سکیں۔

ہر لمحے کا بہاؤ، تیرا ظاہر سے باطن کی طرف جھکاؤ، یہاں تک کہ کائنات کے ذرے ذرے میں اس کی تعریف کی مہک گونج رہی ہے۔ جب سب کچھ اللّٰہ کو سجدہ کر رہے ہیں، تو میں کیوں نہ اپنے دل کو اُس کی چوکھٹ پر جھکا دوں؟

يُسَبِّحُ لَهُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ  

"جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے، وہ سب اس کی تسبیح کررہے ہیں"  

(الحشر: 24)

اللّٰہ تعالیٰ نے آسمان و زمین کو حکمت و قدرت سے پیدا کیا

آسمان جو بظاہر ستونوں کے بغیر قائم ہے، اور زمین جو فرشِ سکون کی مانند بچھی ہوئی ہے۔ یہ سب اللّٰہ تعالیٰ کی قدرتِ کاملہ کا مظہر ہے۔  

جو عقلیں حق کو نہ پہچان سکیں، وہ ان نشانیوں سے غافل رہیں، اور جو دل دیدار کے متلاشی ہوئے، وہ ہر ذرے میں اُس کا جلوہ دیکھنے لگے۔

نیازی! آسمان کو دیکھ کر پکار:

"یہ نیلا گنبد میری چھت نہیں، بلکہ تیری قدرت کا کمال ہے، اے میرے رب! میں جہاں سے بھی دیکھوں، تیری کاریگری میں کوئی شگاف نہیں، دراڑ نہیں۔ ہر عیب سے پاک، ہر نقص سے مبراہ، جیسا کہ تو پاک ہے، تو مجھے بھی ویسے پاک بنا دے۔"

اللَّهُ الَّذِي رَفَعَ السَّمَاوَاتِ بِغَيْرِ عَمَدٍ تَرَوْنَهَا  

"اللّٰہ وہ ہے جس نے آسمانوں کو بغیر ستون کے بلند کیا، جیسا کہ تم دیکھ رہے ہو"  

(الرعد: 2)

زمین کو بچھونا بنایا۔ تسکین و سہولت کی نعمت

اللّٰہ تعالیٰ نے زمین کو اس طرح بچھایا کہ انسان اُس پر سکون سے چل سکے، سو سکے، اگا سکے، اور اپنی زندگیاں بسر کر سکے۔  

یہ مٹی صرف مٹی نہیں، یہ رب کا تحفہ ہے، جس سے انسان کے جسم نے جنم لیا، اور جس میں وہ پھر لوٹ کر جائے گا۔

نیازی! تو خاک پہ اپنا سر رکھ، اور سجدہ ریز ہو جا۔ کیونکہ یہ مٹی تیرے رب کی بخشش ہے، اور تو اسی میں اس کے نشان ڈھونڈ۔  

وَاللَّهُ جَعَلَ لَكُمُ الْأَرْضَ بِسَاطًا  

"اور اللّٰہ نے تمہارے لیے زمین کو بچھونا بنایا"  

(نوح: 19)

ہر چیز کا جوڑا بنایا۔ حکمت و توازن کا نظام

کائنات میں ہر شے جوڑے میں ہے۔ رات و دن، نر و مادہ، سچ و جھوٹ، شکر و صبر۔ یہ نہ صرف ظاہری توازن ہے، بلکہ باطنی تربیت بھی ہے کہ انسان کسی ایک حال پر نہ ٹھہرے، بلکہ ہر پہلو سے گزر کر مکمل بنے۔

اے نیازی! تیرے رب نے تجھے ادھورا پیدا کیا ہے، تاکہ تو اسے تلاش کرے۔ اور جب مل جائے، تو تیرا ہر جوڑ مکمل ہو جائے۔

وَمِنْ كُلِّ شَيْءٍ خَلَقْنَا زَوْجَيْنِ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ  

"اور ہم نے ہر چیز کو جوڑوں میں پیدا کیا تاکہ تم نصیحت حاصل کرو"  

(الذاریات: 49)

اللّٰہ کی مشیت کے بغیر کچھ نہیں ہو سکتا۔ ہر ارادہ اُس کی اجازت سے مشروط ہے

انسان خواہ لاکھ منصوبے بنائے، دل میں ہزار تمنائیں پروان چڑھائے۔ مگر وہ صرف تب ممکن ہوتے ہیں جب اللّٰہ چاہے۔  

یہ نہ صرف قضا و قدر کی حقیقت ہے، بلکہ عاجزی کا وہ سبق ہے جو میری ہر سانس کے ساتھ نکلتا ہے۔ اسی لیے دل بے اختیار کہہ اٹھتا ہے کہ" یا ربّ العالمین! میری چاہت کمزور ہے، تیری مشیت کامل ہے؛ جب تو چاہے گا، تب ہوگا۔ جب تو نہ چاہے، تو ساری دنیا بھی کچھ نہیں کر پائے گی۔"

وَمَا تَشَاءُونَ إِلَّا أَنْ يَشَاءَ اللَّهُ رَبُّ الْعَالَمِينَ 

"اور تم کچھ بھی نہیں چاہ سکتے، مگر جو اللہ، رب العالمین چاہے"  

(التکویر: 29)

آزمائش، خلافت، اور اعتماد کا راز

اللّٰہ تعالیٰ نے انسان کو خلافت عطا کی۔ یعنی زمین پر اپنا نمائندہ بنایا۔ تاکہ وہ دی گئی نعمتوں، علم، صلاحیت اور اختیار کو آزمائش کے طور پر استعمال کرے۔  

نیازی کیا تجھے معلوم ہے کہ ہر نعمت ایک امتحان ہے؟ اس لیے اس کی رحمت کا امیدوار بن۔ کیونکہ ہر امتحان میں اُس کی نظر تیرے عمل پر نہیں، بلکہ تیرے اخلاص پر ہے۔

اپنی رضا میں اس کی رضا کو شامل کرکے کہہ: 

"مجھے جو ملا، وہ تیرا کرم ہے؛ مجھ سے جو چھن گیا، وہ تیری حکمت ہے؛ اور جو باقی ہے، وہ بھی تیرا امتحان ہے۔"

وَهُوَ الَّذِي جَعَلَكُمْ خَلَائِفَ فِي الْأَرْضِ لِيَبْلُوَكُمْ فِي مَا آتَاكُمْ  

"اور وہی ہے جس نے تمہیں زمین میں جانشین بنایا تاکہ وہ تمہیں آزمائے جو کچھ اس نے تمہیں دیا ہے"  

(الأنعام: 165)

اللّٰہ جسے عطا کرے، کوئی روک نہیں سکتا۔ اور جس سے روکے، کوئی دے نہیں سکتا

جب اللّٰہ تعالیٰ کسی پر اپنی رحمت کے دروازے کھول دیتا ہے، تو کوئی مخلوق اُسے بند نہیں کر سکتی؛ اور جب وہ روک دے، تو ہزار سفارشیں، ہزار کوششیں، بے معنی ہو جاتی ہیں۔ 

نیازی اپنے دل میں سجدہ ریز ہو جا، تیرا عرض ربّ کی اطاعت ہے۔ 

"اے میرے مولا! تُو وہی دے جو تجھے منظور ہے۔ لیکن دے، کیونکہ تیرے در کے سوا کہیں اور جانے کا دل نہیں۔"

مَا يَفْتَحِ اللَّهُ لِلنَّاسِ مِنْ رَحْمَةٍ فَلَا مُمْسِكَ لَهَا وَمَا يُمْسِكْ فَلَا مُرْسِلَ لَهُ مِنْ بَعْدِهِ  

"جو رحمت اللّٰہ لوگوں کے لیے کھول دے، اسے کوئی روکنے والا نہیں، اور جسے وہ روک لے، اسے کوئی بھیجنے والا نہیں"  

(فاطر: 2)

اللّٰہ عزت دیتا ہے، ذلت دیتا ہے۔ سب کچھ اُسی کے قبضے میں ہے

یہ دنیا کا قانون نہیں، بلکہ اللّٰہ کا فیصلہ ہے کہ جو اس کی پناہ میں جائے، اسے عزت بخشے۔ جو اس کا انکار کرے، اسے ذلیل کرے۔ نہ مال، نہ عہدہ، نہ تعلقات۔ کسی کی خود ساختہ شان میں کوئی بقا نہیں، جب تک اللّٰہ نہ چاہے۔

اے نیازی! اپنے ظاہری جاہ و جلال کو نظر انداز کر، اور صرف اسی کی رضا کو تلاش کر۔ اور عرض کر یااللّٰہ: 

"اگر تُو مجھے اپنے در کے سائے میں رکھے، تو بادشاہی بھی لافانی ہے، اور گمنامی بھی قابلِ شکر۔"

تُعِزُّ مَنْ تَشَاءُ وَتُذِلُّ مَنْ تَشَاءُ  

"تو جسے چاہے عزت دے، اور جسے چاہے ذلت دے"  

(آلِ عمران: 26)

اللّٰہ صابرین کے ساتھ ہے۔ اور صبر دل کی سیڑھی ہے اللہ تک

صبر صرف روک لینا نہیں، بلکہ اُس ربّ پر اعتماد رکھنا ہے جو آزمائش کے ہر لمحے میں قریب ہوتا ہے۔

نیازی! تو صبر کر، اپنی بے بسی کو طاقت میں بدل، اور اللّٰہ کے قربت کو بطور انعام محسوس کر۔ تب دل میں سجدہ کرکے کہہ:  "میں خاموش ہوں، مگر میرا دل تیرا نام دُہرا رہا ہے؛ میں ٹوٹا ہوں، مگر تیری رحمت نے مجھے بکھرنے نہیں دیا۔"

إِنَّ اللَّهَ مَعَ الصَّابِرِينَ 

"بے شک اللّٰہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے"  

(النحل: 126)

اللّٰہ تعالیٰ سب سنتا ہے، سب جانتا ہے، ہر راز سے واقف ہے

جو لفظ زباں پر نہ آ سکیں، وہ بھی اُس کے علم میں ہیں۔ دل کی دھڑکن، آنکھ کا آنسو، دل کی دھیمی سی خلش۔ سب کچھ اُس کے علم میں ہے۔

نیازی جیسا کہ تو ہر خاموشی کو اللّٰہ سے مخاطب جانتا ہے۔ تیری سرگوشی ترا راز ہے۔  

"اے میرے خالق! تُو وہ بھی جانتا ہے جو میں کہنے سے ڈرتا ہوں، اور وہ بھی، جو میں چاہ کر بھی بیان نہیں کر سکتا۔ مجھے اپنے دیدار سے نواز"

وَهُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ  

"اور وہ سب کچھ سننے والا اور دیکھنے والا ہے"  

(الشورى: 11)

اللہ عطا کرنے والا ہے، اور وہی ہر چیز چھیننے والا ہے

دنیا کے جتنے مناصب، مرتبے، رتبے اور بادشاہتیں ہیں، سب اس کے حکم سے ملتی ہیں اور اس کے حکم سے واپس لی جاتی ہیں۔  

نہ کوئی سفارش اثر رکھتی ہے، نہ کوئی تدبیر، جب تک مشیتِ الٰہی موافق نہ ہو۔ 

نیازی اپنے دل کو دنیا کے دھوکے سے آزاد کر۔ صرف اس کی عطا پر نظر رکھ۔ تیرا ربّ بے مثال ہے۔

نیازی خاموشیوں کے پردے ہٹا کر یہ صدا بلند کر دے "یااحکم الحاکمین، جو تجھ سے ملا، وہ نعمت ہے۔ جو تجھ سے نہ ملا، وہ حکمت ہے۔ جو تُو لے لے، وہ آزمائش ہے۔ اور جو بچا رہ جائے، وہ تیری رحمت ہے۔"

تُؤْتِي الْمُلْكَ مَنْ تَشَاءُ وَتَنْزِعُ الْمُلْكَ مِمَّنْ تَشَاءُ  

"تو جسے چاہے بادشاہی دے اور جس سے چاہے بادشاہی چھین لے"  

(آل عمران: 26)

اللّٰہ تعالیٰ ہی اولاد دیتا ہے۔ محبت کی جھلک اور آزمائش کا راز

اولاد، چاہے بیٹے ہوں یا بیٹیاں۔ انسان کے لیے نعمت بھی ہے، محبت بھی، اور ایک عظیم ذمہ داری بھی۔  

یہ عطا نہ محض جینیاتی عمل ہے، نہ حالات و اسباب کا نتیجہ؛ بلکہ ایک ربانی تحفہ ہے جو بندے کو شکر و صبر کا راستہ دکھاتا ہے۔

نیازی! جب تو اپنے بچوں کو دیکھ، تو بھی اللّٰہ کو یاد کر۔ اور بے اولادی میں بھی اسی سے امید رکھ۔     

"تو دے، یا نہ دے۔ میں تجھ ہی کا رہوں گا، کیونکہ تُو دینے سے بڑا خود کافی ہے۔"

يَهَبُ لِمَنْ يَشَاءُ إِنَاثًا وَيَهَبُ لِمَنْ يَشَاءُ الذُّكُورَ  

"وہ جسے چاہے بیٹیاں عطا کرے اور جسے چاہے بیٹے دے"  

(الشورى: 49)

بندگی کا مقصد۔ اللہ تعالیٰ کی عبادت ہی زندگی کا مفہوم ہے

انسان اور جنوں کی تخلیق کا راز نہ دولت ہے، نہ ترقی، نہ اقتدار۔ بلکہ صرف بندگی ہے۔  

یہ عبادت صرف نماز و روزے تک محدود نہیں، بلکہ زندگی کا ہر لمحہ، ہر عمل، ہر جذبہ اس وقت عبادت بنتا ہے، جب وہ اخلاص سے کیا جائے۔  

نیازی! جب سانس بھی عبادت بن جائے، تب بندہ حقیقت میں زندہ ہوتا ہے۔

وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ  

"اور میں نے جنوں اور انسانوں کو صرف اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا"  

(الذاریات: 56)

اللّٰہ قریب ہے۔ پکارنے پر لبّیک کہنے والا ہے

جب دل بے چین ہو، آنکھیں برس رہی ہوں، اور لب خاموش ہوں، تب بھی اگر ایک لمحہ صدق کے ساتھ اللّٰہ کو پکارا جائے تو وہ بندے سے بہت قریب ہو جاتا ہے۔  

اللّٰہ تعالیٰ کی نزدیکی جسمانی نہیں، بلکہ روحانی قرب ہے۔ جس میں دل اُس کی طرف کھنچتا ہے، اور روح میں سکون کی لہر دوڑ جاتی ہے۔

نیازی! تنہائی میں گریہ کر اور دھیمی آواز سے کہہ۔  

"اے ربِّ! میں تیرے سوا کسی کو نہیں جانتا، جسے میں دل کھول کر سنا سکوں۔ اور تُو وہ ہے جو سب کچھ سننے سے پہلے ہی جانتا ہے۔"

فَإِنِّي قَرِيبٌ ۖ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ  

"تو میں قریب ہوں، دعا کرنے والے کی دعا قبول کرتا ہوں جب وہ مجھے پکارتا ہے"  

(البقرہ: 186)

اللّٰہ کا ذکر دلوں کو اطمینان بخشتا ہے

دنیا کی فکریں، زندگی کی بھاگ دوڑ، اور وقت کی تیزی، دل کو بےقراری میں مبتلا کر دیتی ہے، مگر جب بندہ دل کی زبان سے "اللّٰہ" کہتا ہے، تو ایک ماورائی سکون اُس پر اترتا ہے۔ یہ ذکر فقط اسم مبارک نہیں، بلکہ روح کی غذا ہے۔

نیازی! تو اپنے دن بھر کی تھکن کو ایک ہی کلمہ سے دھو سکتا ہے۔  

"اللّٰہ... بس تُو ہے اور تُو ہی کافی ہے!"

أَلَا بِذِكْرِ اللَّهِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوبُ  

"خبردار! اللّٰہ کے ذکر ہی سے دلوں کو اطمینان حاصل ہوتا ہے"  

(الرعد: 28)

اللہ کی یاد رات کی خامشی میں خاص قرب عطا کرتی ہے

رات کی تنہائی، جب سب سوئے ہوں، اور دنیا خاموش ہو، اُس وقت ایک بندہ جب دل سے سجدے میں گرتا ہے، تو آسمان کے دروازے کھلتے ہیں۔  

نیازی! یہی وہ لمحہ ہے جب تو اپنے ربّ سے راز و نیاز کر، اور فریاد کو عبادت بنا۔  

"اے میرے مالک! دن کے ہنگامے میں اگر بکھر گیا تھا، تو اب رات کی خلوت میں تیرے قدموں پر ٹوٹ کر بکھرتا ہوں، مجھے سمیٹ لے۔"

وَمِنَ اللَّيْلِ فَسَبِّحْهُ وَإِدْبَارَ النُّجُومِ  

"اور رات کے وقت اس کی تسبیح کرو، اور جب ستارے ڈوبنے لگیں"  

(الطور: 49)

اللّٰہ کافی ہے۔ جس نے توکل پر سکون عطا فرمایا

جب دنیا کے در بند ہو جائیں، جب ہر دروازہ سائل کو لوٹا دے، تب ایک ہی دروازہ ہے جو بند نہیں ہوتا: اللّٰہ کا۔  

جو دل اللّٰہ پر بھروسہ کرتا ہے، وہ دنیا کی شورشوں میں بھی مطمئن ہوتا ہے، اور جب بھروسہ مکمل ہو جائے، تب حاجت باقی نہیں رہتی۔

اسی لیے اپنے دل کی سرگوشیوں میں پکار:  

"اے میرے مالک! تُو کافی ہے۔ اگر دنیا مجھے چھوڑ دے، تب بھی تُو میرا ہے۔ اور اگر تُو میرا ہو جائے، تو دنیا کی کوئی شے میرے دل میں جگہ نہ پا سکے۔ میرا ہر قدم تیری قربت میں اٹھے۔ میری نظر تیری بصیرت میں مڑے۔ میرا عقل تیری حکمت سے جڑے۔ میرا دل تیری اطاعت میں جھکے۔ میرے لیے تو کافی ہو جا، مجھے اپنے قریب سے نواز"

وَمَن يَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّهِ فَهُوَ حَسْبُهُ  

"اور جو اللّٰہ پر بھروسہ کرے تو اللہ اس کے لیے کافی ہے"  

(الطلاق: 3)

اللّٰہ ہر حال میں دیکھ رہا ہے۔ خامشی بھی گواہی ہے

جب انسان خیال کرتا ہے کہ کوئی نہیں دیکھ رہا، تب بھی ایک نگران ذات ہر شے کو دیکھ رہی ہوتی ہے۔  

اس کی نظر مادی پردوں کو چیر کر نیتوں تک پہنچتی ہے۔

میری عرض، تیری پکار:  

"اے ربِّ! میں گناہوں سے بچتا ہوں نہ کہ تجھ سے، بلکہ تیرے لیے۔ کیونکہ تُو ہر لمحہ دیکھ رہا ہے۔"

أَلَمْ يَعْلَمْ بِأَنَّ اللَّهَ يَرَىٰ  

"کیا وہ نہیں جانتا کہ اللہ دیکھ رہا ہے؟"  

(العلق: 14)

مشکل کے بعد آسانی ہے۔ یقین وہ ہے، جو آزمائش میں روشن ہو

زندگی کے نشیب و فراز میں اللّٰہ تعالیٰ اپنی رحمت کا در کھولتا ہے، مگر آزمائش کے بعد۔  

یہ وعدہ صرف الفاظ میں نہیں، بلکہ وہ یقین ہے جو ہر پریشانی کے بعد در پر دستک دیتی ہے۔  

نیازی کہتا ہے:  

"مشکل جب آئی، میں رویا؛ آسانی جب آئی، میں جھک گیا۔ کیونکہ میں نے جان لیا: تُو مشکل میں آزماتا ہے، اور آسانی میں ظاہر ہو کر بانٹتا ہے۔"

فَإِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْرًا  

"پس یقیناً، ہر مشکل کے ساتھ آسانی ہے"  

(الشرح: 5)

اللّٰہ کی رحمت۔ سب پر چھا جانے والی شفقت

اللّٰہ تعالیٰ کی رحمت لامحدود ہے، محدود نہیں۔ دیواروں کی مقید نہیں۔ یہ رحمت ہر اس دل کے ساتھ ہوتی ہے جو عاجزی سے جھکتا ہے، صدق سے پکارتا ہے، اور یقین سے وابستہ ہوتا ہے۔  

یہی وہ رحمت ہے جو گناہوں میں ڈوبے انسان کو بھی معافی کے ساحل پر پہنچا دیتی ہے، بشرطیکہ اس کا دل پکار میں سچّا ہو۔

نیازی کہتا ہے:  

"میں گناہ گار ہوں، مگر تُو غفور ہے؛ میں بے چین ہوں، مگر تُو ودود ہے؛ جب سب در بند ہو جائیں، تیرے رحم کے در ہمیشہ کھلے رہتے ہیں۔"

وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ  

"اور میری رحمت ہر چیز پر محیط ہے"  

(الأعراف: 156)

الرحمن اور الرحیم۔ محبت کی دو تجلیاں

الرحمن: اللّٰہ کا وہ نام ہے جو اُس کی عام اور وسیع رحمت کو ظاہر کرتا ہے۔ مومن ہو یا کافر، نیک ہو یا بدکار، سب اُس کی نعمتوں سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔

الرحیم: اُس کی خاص رحمت ہے، جو ایمان والوں، اُس کے عاشقوں، اور اس کے احکام پر چلنے والوں پر نازل ہوتی ہے۔ دنیا میں سکون کی صورت، اور آخرت میں جنت کی شکل میں۔

نیازی ان دونوں صفات کو یوں بیان کرتا ہے:  

"الرحمن نے مجھے پیدا کیا، اور الرحیم تو مجھے اپنا بنا لے، کیونکہ میرا دل اخلاص سے اُس کے قدموں میں جھکا ہوا ہے۔"

توبہ کی قبولیت۔ رحمت کی سب سے پیاری جھلک

اللّٰہ تعالیٰ وہ رب ہے جو صرف معاف نہیں کرتا، بلکہ توبہ کرنے والے بندے کو اپنے قریب کر لیتا ہے۔ وہ گناہوں کی سیاہی کو محبت کی روشنی سے دھو دیتا ہے، بشرطیکہ بندہ واقعی دل سے پلٹ آئے۔

نیازی دل میں نادم ہے اور لبوں سے کہتا ہے:  

"اے ربِّ! میں نہیں جانتا کہ میرے گناہوں کی گنتی کتنی ہے، مگر یہ ضرور جانتا ہوں کہ تیری مغفرت بے حساب ہے۔ مجھے معاف فرما"

إِنَّ اللَّهَ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِيعًا 

"بے شک اللہ تمام گناہوں کو بخش دیتا ہے"  

(الزمر: 53)

قرآن۔ ربّ کی طرف سے مبارک نور

اللّٰہ تعالیٰ نے قرآن کو صرف الفاظ کے مجموعے کے طور پر نہیں اتارا، بلکہ ہدایت، نور، اور بیداری کا چراغ بنا کر بھیجا۔  

یہ وہ کتاب ہے جو صرف عقل نہیں جگاتی بلکہ دلوں کو زندہ کرتی ہے، ارادوں کو طاقت دیتی ہے، اور بندے کو ربّ تک لے جاتی ہے۔

نیازی! تو قرآن کے ہر لفظ کو ایسے پڑھ، گویا کہ وہ تجھ پہ نازل ہو رہا ہو۔ اور ہر آیت میں تیرے ربّ کی آواز سنائی دے رہی ہو۔

إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ 

"بے شک ہم نے ہی ذکر (قرآن) کو نازل کیا، اور ہم ہی اس کے نگہبان ہیں"  

(الحجر: 9)

اللّٰہ کے فیصلے، اُس کی حکمت۔ فوق الفہم مگر عین حق

اللّٰہ جو فیصلہ کرتا ہے، وہ صرف عدل پر نہیں، بلکہ حکمت پر بھی مبنی ہوتا ہے۔  

ہم سب کچھ سمجھ نہیں سکتے، مگر یہی ایمان ہے کہ جو اللّٰہ نے چاہا، اُس میں مصلحت چھپی ہے۔  

نیازی کہتا ہے:  

"تیری حکمت میری عقل سے بڑی ہے، تیرا ہر فیصلہ میری سر آنکھوں پر۔ تیرے ہر فیصلے کو میرا دل سجدے میں گر کر تسلیم کر لیتا ہے۔ مجھے ثابت قدم رکھ، میرے ایمان پر"

وَاللَّهُ يَعْلَمُ وَأَنتُمْ لَا تَعْلَمُونَ  

"اور اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے"  

(البقرہ: 216)

قبر۔ پہلا دروازہ ابدی زندگی کا

جب روح جسم سے جدا ہوتی ہے، تو وہ صرف دنیا سے رخصت نہیں ہوتی، بلکہ حقیقت کے پہلے منظر سے ملاقات کرتی ہے۔ قبر وہ جگہ ہے جہاں تنہائی اپنی گہرائی دکھاتی ہے، اور اعمال اپنی حقیقت ظاہر کرتے ہیں۔  

یہاں کسی کا ساتھ نہیں۔ نہ مال، نہ اولاد، نہ نام۔ نہ رتبہ، صرف عمل ہے جو ساتھ جاتا ہے، اور وہی رفیق بنتا ہے۔

نیازی کہتا ہے:  

"اے ربِّ! میں تیرے رحم کا سوالی ہوں، اپنے اعمال کا نہیں۔ اگر تُو مہربان ہو جائے، تو تنگ قبر بھی باغ بن جائے۔"

فَأَمَّا إِن كَانَ مِنَ الْمُقَرَّبِينَ، فَرَوْحٌ وَرَيْحَانٌ وَجَنَّةُ نَعِيمٍ 

"پس اگر وہ مقربین میں سے ہو تو آرام، خوشبو اور نعمت والی جنت ہو گی"  

(الواقعہ: 88-89)

قیامت۔ جب زمین گواہ بنے گی اور آسمان خاموش ہو گا

ایک دن آئے گا جب صور پھونکا جائے گا، زمین لرزے گی، آسمان سمٹ جائے گا، اور ہر نفس اپنے انجام کی طرف رواں ہو گا۔  

یہ وہ دن ہو گا جب ظاہری پردے ہٹ جائیں گے اور اعمال کی حقیقت سامنے آئے گی۔  

یہ نہ محض انجام کا دن ہے، بلکہ عدلِ مطلق کا ظہور ہے۔

نیازی لرزتے دل سے کہتا ہے:  

"اے رب! تُو عدل کرنے والا ہے، مجھے تیرے انصاف سے ڈر لگتا ہے، اور تیری رحمت کی طرف اُمید کے ساتھ لپکتا ہوں۔ تُو حساب لینے سے پہلے معاف کر دے۔"

يَوْمَ لَا تَمْلِكُ نَفْسٌ لِنَفْسٍ شَيْئًا وَالْأَمْرُ يَوْمَئِذٍ لِلَّهِ  

"جس دن کوئی جان کسی جان کے لیے کچھ اختیار نہ رکھے گی، اور اس دن تمام حکم اللہ ہی کا ہو گا"  

(الانفطار: 19)

قیامت کا دن، نہ باپ بیٹے کے کام آئے گا، نہ ماں اولاد کے لیے رکے گی۔ سب کو صرف اپنی فکر ہوگی۔  

یہ دن وہ دن ہو گا جب دل لرزیں گے، آنکھیں بھر آئیں گی، اور صرف ایمان و احسان والے سرخرو ہوں گے۔

نیازی اپنی پوری زندگی کی التجا کو ایک دعا میں سمیٹتا ہے:  

"اے میرے خالق! قیامت کے ہولناک دن، تُو مجھ سے راضی ہو جائے، بس یہی میری سب سے بڑی کامیابی ہے۔"

يَوْمَ يَفِرُّ الْمَرْءُ مِنْ أَخِيهِ، وَأُمِّهِ وَأَبِيهِ، وَصَاحِبَتِهِ وَبَنِيهِ  

"جس دن انسان اپنے بھائی سے، اپنی ماں اور باپ سے، اپنی بیوی اور بیٹوں سے بھاگے گا"  

(عبس: 34-36)

میزان عدل۔ اعمال کا ترازو اور رحمت کا ترازو

قیامت کے دن ہر انسان کے اعمال تولے جائیں گے۔ نیکی اور بدی الگ الگ، نیتیں بھی ماپی جائیں گی، اور آہوں اور آنکھوں کی نمی کو بھی گنا جائے گا۔  

یہاں صرف اعمال نہیں، بلکہ اخلاص اور تقویٰ بھی میزان میں شامل ہوں گے۔ اگر نیکی کا وزن غالب ہو گیا، تو نجات ملے گی۔ اور اگر برائی کا وزن غالب ہو گیا تو عذاب ملے گا۔ اللّٰہ بچائے آمین۔

تمنا ہے:  

"اے مولا! میرے اعمال ہلکے ہیں، مگر تیرے اسم مبارک کا وزن انگنت ہے۔ تُو مجھ پہ اور میری نسل پہ فضل فرما، اور ہمیں بےحساب اپنے دیدار پر انوار سے نواز"

فَأَمَّا مَن ثَقُلَتْ مَوَازِينُهُ، فَهُوَ فِي عِيشَةٍ رَّاضِيَةٍ  

"جس کا ترازو بھاری ہوگا، وہ خوشحال زندگی میں ہوگا"  

(القارعة: 6-7)

پل صراط۔ تیزی سے کاٹنے والی تلوار پر چلنا

یہ وہ راستہ ہے جو دوزخ کی اوپر سطح پر کھینچا جائے گا۔ باریک تر از تلوار، تیز تر از بجلی۔ ہر انسان کو اس پر سے گزرنا ہے۔  

مومن روشنی کی تیزی سے گزر جائے گا، اور منافق اندھیرے میں لڑکھڑائے گا۔ یہاں دل کا وزن، اعمال کی روشنی اور نیتوں کی صداقت ہی سہارا بنے گی۔

نیازی کی دعا ہے:  

"اے ربِّ! جس طرح تو نے دنیا میں لغزشوں پر مجھے تھاما، پل صراط پر بھی تھام لینا، کہ میں پلک جھپکنے میں یہ منزل بھی طے کر لوں۔"

وَإِن مِّنكُمْ إِلَّا وَارِدُهَا ۚ كَانَ عَلَىٰ رَبِّكَ حَتْمًا مَّقْضِيًّا  

"تم میں سے ہر ایک کو اُس (دوزخ) پر وارد ہونا ہے، یہ تیرے رب کے ذمے قطعی بات ہے"  

(مریم: 71)

اللّٰہ کا عدل۔ ذرہ برابر بھی ناانصافی نہیں

اللّٰہ تعالیٰ کا انصاف ایسا ہے کہ وہ ذرہ برابر بھی ظلم نہیں کرتا۔ اس کے میزان میں ہر عمل کا وزن ہے، ہر نیت کی پرکھ ہے، اور ہر دل کی کیفیت کا لحاظ ہے۔  

یہی عدل بندے کو توبہ کی راہ دکھاتا ہے، اور ظالم کو انجام کا پتا دیتا ہے۔

نیازی بے اختیار کہتا ہے:  

"میرے مالک! میں جانتا ہوں کہ تُو ظالم نہیں۔ بلکہ تو عادل ہے۔ میں جانتا ہوں کہ اگر تو نے مجھ سے حساب لیا۔ تو میں تیری نعمتوں اور میری گناہوں کا حساب نہیں دے پاؤں گا۔ یا غفور! مجھے بے حساب اپنی دیدار رحمت سے نواز۔"

إِنَّ اللَّهَ لَا يَظْلِمُ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ  

"بے شک اللہ ذرہ برابر بھی ظلم نہیں کرتا"  

(النساء: 40)

جنت اور جہنم۔ فیصلے کی سچائی اور انجام کی ابدیت

جب ہر کسی کا نامۂ اعمال کھول کر سامنے رکھا جائے گا، تو کچھ وہ ہوں گے جن کے چہرے روشن ہوں گے، اور کچھ وہ جو شرمندگی سے نگاہیں جھکائے ہوں گے۔  

جنت اُس کے لیے ہے جو رب کو رازی کر گیا، اور جہنم اُس کے لیے جو انکار میں ڈوبا رہا۔  

 نیازی عرض کرنا چاہتا ہے:  

"میں تیری رضا کے لیے جینا چاہتا ہوں۔ اور تیری رضا کے لیے مرنا چاہتا ہوں۔ تو مجھے جہاں بھی، جیسے بھی رکھ۔ بس میری ظاہر اور میری باطن یعنی میرے جسم اور میری روح میں "اللّٰہُ" جاری رہے۔ مجھے نہ قبر چاہیے نہ حشر، نہ پل صراط چاہیے نہ میزان عدل، نہ جنت چاہیے نہ جہنم۔ مجھے بس چاہیے، تو صرف تو چاہیے۔ اور تیرا اسم مبارک "اللّٰہُ" چاہیے۔ لیکن پھر بھی اگر جنت تیرے دیدار کا وسیلہ بنے تو میں اُس کا طلبگار ہوں!"

فَرِيقٌ فِي الْجَنَّةِ وَفَرِيقٌ فِي السَّعِيرِ  

"ایک گروہ جنت میں ہو گا اور ایک گروہ جہنم میں"  

(الشورى: 7)

مؤمنین کا انجام۔ رضائے الٰہی کی معراج

جو دنیا میں ایمان، تقویٰ، اخلاص اور عبادت کے ساتھ جیتے ہیں، اُن کے لیے آخرت محبت کی وادی ہے۔  

جنت صرف باغ و بہار نہیں، بلکہ وہ مقام ہے جہاں اللّٰہ کی رضا اور دیدار بندے کی سب سے بڑی نعمت بن جاتے ہیں۔

نیازی کہتا ہے:  

"اگر جنت میں درخت نہ ہوں، حوریں نہ ہوں، نہریں نہ ہوں۔ بلکہ صرف تُو ہو، تو میرے لیے وہی جنت ہے!"

رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ ۚ ذَٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ  

"اللہ ان سے راضی ہوا، اور وہ اللہ سے راضی ہوئے، یہی سب سے بڑی کامیابی ہے"  

(المائدہ: 119)

اللہ تعالیٰ کا دیدار۔ عشق کی انتہا، جنت کی روشنی

جب تمام پردے ہٹ جائیں، دل کے حجاب چھٹ جائیں، اور انسان اپنی عبدیت کی گہرائی تک جھک جائے، تب جو نعمت اسے ملتی ہے، وہ اللّٰہ تعالیٰ کا دیدار ہے۔  

یہ صرف ایک بصری تجربہ نہیں۔ بلکہ وہ لمحہ ہے جب روح حقیقتِ محبوب سے آشنا ہوتی ہے۔  

یہ وہ مقام ہے جہاں بندہ ساری زندگی کی مشقت، سجدے، دعائیں اور آنسو ایک طرف رکھ دیتا ہے، اور صرف ایک لمحۂ دیدار کو کافی جانتا ہے۔

نیازی کہتا ہے:  

"اے ربِّ! اگر تیرے چہرے کی ایک جھلک مل جائے، تو وقت رک جائے، اور کائنات خاموش ہو جائے، تب اس مردہ نیازی میں جان آئے۔"

وُجُوهٌ يَوْمَئِذٍ نَاضِرَةٌ، إِلَىٰ رَبِّهَا نَاظِرَةٌ  

"اس دن کچھ چہرے روشن ہوں گے، اپنے رب کی طرف دیکھ رہے ہوں گے"  

(القیامہ: 22-23)


اللّٰہ بخشنے والا، محبت کرنے والا، سچّا محبوب


اللّٰہ تعالیٰ نہ صرف گناہوں کو معاف کرتا ہے بلکہ محبت سے اپنا بناتا ہے۔ اس کی مغفرت میں عفو ہے، اور اس کی محبت میں حضوری۔  

وہ جب معاف کرتا ہے، تو گناہوں کے باوجود بخش دیتا ہے۔ اور جب محبت کرتا ہے، تو بندے کے لیے کائنات کے در نرم کر دیتا ہے۔

نیازی دل کے درد سے کہتا ہے:  

"میں دنیا کے لیے بیکار سہی، لوگوں میں، لیکن اگر تجھے محبوب ہو جاؤں، تو یہ عشق میرے لیے کافی ہے!"

إِنَّ اللَّهَ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِيعًا  

"بے شک اللہ تمام گناہوں کو بخش دیتا ہے"  

(الزمر: 53)

وَهُوَ الْغَفُورُ الْوَدُودُ  

"اور وہ بخشنے والا اور محبت کرنے والا ہے"  

(البروج: 14)

کفار کا انجام۔ انکار کی تاریکی میں خالی پلٹنا

جنہوں نے حق کو جانتے بوجھتے جھٹلایا، غرور کو اپنا رہنما بنایا، اور ربّ کی پکار پر کان بند کیے۔ اُن کے لیے قیامت کا دن حسرت کا دن ہو گا۔  

نہ کوئی نفع ہو گا، نہ سفارش کام آئے گی، اور نہ کوئی سایہ نصیب ہو گا۔

نیازی اس انجام کو خوف کے ساتھ بیان کرتا ہے:  

"وہ جس نے دنیا میں کان بند کیے، قیامت میں پکارے گا، مگر آواز اُس تک نہ پہنچے گی؛ کیونکہ اُس نے خود ہی راستہ بند کر دیا تھا۔"

وَالَّذِينَ كَفَرُوا لَهُمْ نَارُ جَهَنَّمَ ۖ لَا يُقْضَىٰ عَلَيْهِمْ فَيَمُوتُوا وَلَا يُخَفَّفُ عَنْهُم مِّنْ عَذَابِهَا  

"اور جنہوں نے کفر کیا ان کے لیے جہنم کی آگ ہے، نہ اُن پر موت آئے گی کہ مر جائیں، اور نہ اُن پر سے عذاب ہلکا کیا جائے گا"  

(فاطر: 36)

نیازی کی دعا۔ رب کی رضا میں فنا ہو جانا

اے نیازی! دنیا کی زیبائش سے گزر کر صرف ایک چیز مانگ۔ "رب کی رضا اور نظر"۔  

تیری تمنا نہ جنت کی لذت ہے، نہ دنیا کی راحت، بلکہ محبوب کا قرب۔

نیازی کہتا ہے:  

"اے مالک! میں عمل نہیں رکھتا، مگر امید رکھتا ہوں۔ تُو اگر صرف اپنی رحمت سے فیصلہ کرے، تو مجھے اپنے اُن بندوں میں شامل کر لے جو تیرے دیدار سے سیراب ہوں گے، اور جن کے چہرے اُس دن چمکتے ہوں گے۔"


کیا آپ میری رائے سے مقفق ہیں؟ اگر نہیں تو، آپ مجھ سے پوچھ سکتے ہیں۔ اور میں مزید وضاحت کرسکتا ہوں۔


اب میں آپ کو بتاوں گا کہ دنیا کے مختلف مذاہب میں اللہ تبارک و تعالیٰ کا کیا تصور ہے؟



ایک تبصرہ شائع کریں

0تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں (0)