سورۃ الشرح آسان اردو تفسیر

0

 

surah_ash_sharh_asaan_urdu_tafseer_meas_momin
Surah Ash-Sharh Asaan Urdu Tafseer 


اب آپ آسان اردو زبان میں سورۃ الشرح کی مکمل تفسیر ملاحظہ فرمائیں 


سورۃ نمبر 94 الشرح

آیت نمبر 1


أَعُوذُ بِاللّٰهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ


اَلَمۡ نَشۡرَحۡ لَـكَ صَدۡرَكَۙ ۞


ترجمہ:

کیا ہم نے نہیں کھول دیا تیرا سینہ


تفسیر:

 

کیا ہم نے آپ کی خاطر آپ کا سینہ (علم و حلم سے) کشادہ نہیں کردیا (یعنی علم بھی وسیع عطا فرمایا اور تبلیغ میں جو مخالفین کی مزاحمت سے ایذا پش آتی ہے اس میں تحمل اور حلم بھی دیا کذا قال احلسن کما فی الدرالمنشور) اور ہم نے آپ پر سے آپ کا وہ بوجھ اتار دیا جس نے آپ کی کمر توڑی رکھی تھی (وزر سے مراد وہ مباح اور جائز امور ہیں جو کبھی کبھی کسی حکمت و مصلحت کے پیش نظر آپ سے صادر ہوجاتے تھے اور بعد میں ان کا خلاف حکمت و خلاف اولیٰ ہونا ثبات ہوتا تھا اور آپ بوجہ علوشان وغایت قرب کے اس سے ایسے مغموم ہوتے تھے جس طرح گناہ سے کوئی مغموم ہوتا ہے، اس میں بشارت ہے ایسے امور پر مواذہ نہ ہونے کی کذا فی الدار المنشور عن مجاہد و شریح بن عبید الحضرمی پس اس بناء پر یہ بشارت آپ کو دوبارہ ہوئی، اول مکہ میں اس سورت کے ذریعہ، دوسری مدینہ میں سورة فتح میں اس کی تاکید و تکمیل اور تجدید و تفصیل کے لئے) اور ہم نے آپ کی خاطر آپ کا آوازہ بلند کیا (یعنی اکثر جگہ شریعت میں اللہ تعالیٰ کے نام کے ساتھ آپ کا نام مبارک مقرون کیا گیا، کذا فی الدار المنشور مرفوعاً قال اللہ تعالیٰ اذا ذکرت ذکرت معی یعنی اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جہاں میرا ذکر ہوگا آپ کا ذکر بھی میرے ساتھ ہوگا ( رواہ ابن جریر و ابن ابی حاتم) جیسے خطبہ میں تشہد میں نماز میں اذان میں اقامت میں اور اللہ کے نام کی رفعت اور شہرت ظاہر ہے پس جو اس کے قرین ہوگا رفعت و شہرت میں وہ بھی تابع رہے گا اور چونکہ مکہ میں آپ اور مؤمنین طرح طرح کی تکالی فو شدائد میں گرفتار تھے اس لئے آگے ان کے ازالہ کا بطریق تفریع علی السابق کے وعدہ فرماتے ہیں کہ جب ہم نے آپ کو روحانی راحت دی اور روحانی کلفت رفع کردی جیسا الم نشرح الخ سے معلوم ہوا) سود اس سے دنیوی راحت و محنت میں بھی ہمارے فضل و کرم کا امیدوار رہنا چاہئے چناچہ ہم وعدہ کرتے ہیں کہ) بیشک موجودہ مشکلات کے ساتھ (یعنی عنقرب ہی جو حکماً ساتھ ہونے کے معنے میں ہے) آسانی (ہونے والی) ہے (اور چونکہ ان مشکلات کے انواع و اعداد کثیر تھے اس لئے اس وعدہ کو مکرر تاکید کے لئے فرماتے ہیں کہ) بیشک موجودہ مشکلات کے ساتھ آسانی (ہونیوالی) ہے (چنانچہ وہ مشکلات ایک ایک کر کے سب رفع ہوگئیں جیسا روایات احادیث و سیروتواریخ اس پر متفق ہیں، آگے ان نعمتوں پر شکر کا حکم ہے کہ جب ہم نے آپ کو ایسی ایسی نعمتیں دی ہیں) تو آپ جب (تبلغی احکام سے دوسروں کی نفع رسانی کی وجہ سے عبادت ہے) فارغ ہوجایا کریں تو (دوسری عابدات متعلقہ بذات خاص میں) محنت کیا کیجئے (مراد کثرت عبادت و ریاضت ہے کہ آپ کی شان کے یہی مناسب ہے) اور (جو کچھ مانگنا ہو اس میں) اپنے رب ہی کی طرف توجہ رکھئے (یعنی اسی سے مانگئے اور اس میں بھی ایک حیثیت سے بشارت ہے۔ زوال عسر کی کہ خود درخواست کرنے کا حکم گویا درخواست پورا کرنے کا وعدہ ہے۔ ) 

 

جیسا کہ سورة ضحیٰ کے آخر میں بیان ہوچکا ہے کہ سورة ضحیٰ سے آخر قرآن تک بائیس سورتوں میں بیشتر ذکر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر انعامات الٰیہ اور آپ کی عظمت شان سے متعلق مضامین ہیں، صرف چند سورتیں احوال قیامت یا بعض دوسرے مضامین سے متعلق آئی ہیں۔ سورة انشراح میں بھی ان خاص خاص نعمتوں کا ذکر ہے جو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر حق تعالیٰ نے مبذول فرمائیں اور اس کے بیان میں اسی عنوان استفہام کو اختیار فرمایا ہے جو سورة ضحیٰ میں الم یجدک الخ میں تھا فرمایا ،

الم نشرح لک صدرک شرح کے لفظی معنے کھولنے کے ہیں اور سینہ کو کھولدینا اس کو علوم و معارف اور اخلاق حسنہ کے لئے وسیع کردینے کے معنے میں استعمال ہوتا ہے جیسا کہ ایک دوسری آیت میں ہے فمن یرد اللہ ان یھدیہ یشرح صدرہ لسلام رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سینہ مبارک کو حق تعالیٰ نے علوم و معارف اور اخلاق کریمہ کے لئے ایسا وسیع بنادیا تھا کہ آپ کے علم و حکمت کو بڑے بڑے عقلاء بھی نہ پا سکے اور اسی شرح صدر کا نتیجہ تھا کہ آپ کو مخلوق کی طرف توجہ کرنا حق تعالیٰ کی طرف توجہ میں مخل نہ ہوتا تھا اور بعض احادیث صحیحہ میں آیا ہے کہ فرشتوں نے بحکم الٰٓہی آپ کا سینہ مبارک ظاہری طور پر بھی چاک کر کے صاف کیا، بعض حضرات مفسرین نے شرح صدر سے اس جگہ وہ ہی شق صدر کا معجزہ مراد لیا ہے، کما فی ابن کثیر وغیرہ واللہ اعلم


آیت نمبر 2


وَوَضَعۡنَا عَنۡكَ وِزۡرَكَۙ ۞


ترجمہ:

اور اتار رکھا ہم نے تجھ پر سے بوجھ


تفسیر:

ووضعنا عنک وزرک الذی انقص ظہرک وزر کے لفظی معنے بوجھ کے ہیں اور نقض ظہر کے لفظیم عنے کم رتوڑ دینے یعنی کمر کو جھکا دینے کے ہیں جیسا کوئی بڑا بوجھ انسان پر لاد دیا جائے تو اس کی کمر جھک جاتی ہے، اس آیت میں ارشاد یہ ہے کہ وہ بوجھ جس نے آپ کی کمر جھکا دی تھی ہم نے اس کو آپ سے ہٹا دیا۔ وہ بوجھ کیا تھا اس کی ایک تفسیر تو وہ ہے جو اوپر خلاصہ تفسیر میں آچکی ہے کہ اس سے وہ جائز اور مباح کام ہیں جن کو بعض اوقات رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قرین حکمت و مصلحت سمجھ کر اختیار کرلیا بعد میں معلوم ہوا کہ وہ مصلحت کیخلاف یا خلاف اولیٰ تھے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اپنی علوشان اور تقریب الٰہی میں خاص مقام حاصل ہونے کی بناء پر ایسی چیزوں پر بھی سخت رنج و ملال اور صدمہ ہوتا تھا۔ حق تعالیٰ نے اس آیت میں بشارت سنا کر وہ بوجھ آپ سے ہٹا دیا کہ ایسی چیزوں پر آپ سے مواخذہ نہ ہوگا۔

اور بعض حضرات مفسرین نے وزر یعنی بوجھ کی مراد اس جگہ یہ لکھی ہے کہ ابتداء نبوت میں وحی کا اثر بھی آپ پر شدید ہوتا تھا اور اس میں آپ پر جو ذمہ داری ساری دنیا میں کلمہ حق پھیلانے اور کفر و شرک کو مٹا کر خلق خدا کو توحید پر جمع کرنے کی ڈالی گئی تھی اور اس سب کام میں حکم یہ تھا کہ فاستقم کما امرت یعنی آپ امر الٰہی کے مطابق استقامت پر رہیں جس میں کسی طرف جھکاؤ نہ ہو، اس کا بار عظیم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) محسوس فرماتے تھے اور بعض روایات حدیث میں آی ہے کہ آپ کی لحیہ مبارک میں کچھ سفید بال آگئے تو آپ نے فرمایا کہ اس آیت فاستقم کما امرت نے بوڑھا کردیا۔

یہ وہ بوجھ تھا جس کو آپ کے قلب سے ہٹا دینے کی بشارت اس آیت میں دی گئی ہے اور اس کے ہٹا دینے کی صورت اگلی آیات میں یہ آئی ہے کہ آپ کی ہر مشکل کے بعد آسانی ہونیوالی ہے حق تعالیٰ نے شرح صدر کے ذریعہ آپ کا حوصلہ اتنا بنلد فرما دیا کہ یہ سب مشکلات آسان نظر آنے لگیں اور وہ بوجھ بوجھ نہ رہا، واللہ اعلم


آیت نمبر 3


الَّذِىۡۤ اَنۡقَضَ ظَهۡرَكَۙ‏ ۞


لفظی ترجمہ:

الَّذِيْٓ اَنْقَضَ : جس نے توڑدی | ظَهْرَكَ : آپ کی پشت


ترجمہ:

تیرا جس نے جھکا دی تھی پیٹھ تیری



آیت نمبر 4


وَرَفَعۡنَا لَـكَ ذِكۡرَكَؕ ۞


ترجمہ:

اور بلند کیا ہم نے مذکور تیرا


تفسیر:

ورفعنا لک ذکر ک، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا رفع ذکر یہ ہے کہ تمام اسلامی شعائر میں اللہ تعالیٰ کے نام کے ساتھ آپ کا نام مبارک لیا جاتا ہے جو ساری دنیا میں مناروں اور منبروں پر اشھد ان لا الہ الہ اللہ کے ساتھ اشھد ان محمداً رسول اللہ پکارا جاتا ہے اور دنیا میں کوئی سمجھدار انسان آپ کا نام بغیر تعظیم کے نہی لیتا اگرچہ وہ مسلمان بھی نہ ہو۔ 

فائدہ۔ یہاں تین نعمتوں کا ذکر ہے شرح صدر، وضع وزر، رفع ذکر، ان تینوں کو تین جملوں میں ذکر فرمایا ہے اور سب میں فعل اور مفعول کے درمیان ایک حرف لک یا عنک لایا گیا ہے اس میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خصوصیت اور خاص عظمت کی طرف اشارہ ہے کہ یہ سب کام آپ کی خاطرکئے گئے ہیں۔



آیت نمبر 5


فَاِنَّ مَعَ الۡعُسۡرِ يُسۡرًا ۞


ترجمہ:

سو البتہ مشکل کے ساتھ آسانی ہے


تفسیر:

فان مع العسر یسرٰ ، ان مع العسر یسراً ، عربی زبان کا قاعدہ یہ ہے کہ جس کلمہ کے شروع میں الف لام ہوتا ہے جس کو اصطلاح میں لام تعریف کہتے ہیں۔ اگر اسی کلمہ کو الف لام ہی کیساتھ مکرر لایا جائے تو اس کا مصداق وہی ہی ہوتا ہے جو پہلے کلمہ کا تھا اور اگر بغیر الف لام تعریف کے مکرر لایا جائے تو دونوں کے مصداق الگ الگ ہوتے ہیں۔ اس آیت میں العسر جب مکرر آیا تو معلوم ہوا کہ اس سے وہ پہلا ہی عسر مراد ہے کوئی نیا نہیں اور لفظ یسراً دونوں جگہ بغیر الف لام کے لایا گیا، اس سے معلوم ہوا کہ یہ دوسرا یسر پہلے یسر کے علاوہ ہے تو اس آیت میں ان مع العسر یسراً کے تکرار سے یہ نتیجہ نکلا کہ ایک ہی عسر و مشکل کے لئے دو آسانیوں کا وعدہ ہے اور دو سے مراد بھی خاص دو کا عدد نہیں بلکہ متعدد ہونا مراد ہے۔ مطلب یہ ہوا کہ ایک عسر یعنی تنگی اور مشکل جو آپ کو پیش آءیا آئے گی۔ اس کے ساتھ بہت سی آسانیاں آپ کو دی جائیں گی۔

حضرت حسن بصری سے مرسلاً روایت ہے وہ فرماتے ہیں کہ ہم سے بیان کیا گیا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے صحابہ کرام کو اس آیت سے بشارت سنائی اور فرمایا لن یغلب عسر یسرین یعنی ایک عسر دو یسروں پر (ایک مشکل دو آسانیوں پر) غالب نہیں آسکتی۔ چناچہ تاریخ و سیرت کی سب کتابیں جو اپنوں اور غیروں مسلم و غیر مسلم نے لکھی ہیں وہ اس پر شاہد ہیں کہ جو کام مشکل سے مشکل بلکہ لوگوں کی نظر میں ناممکن نظر آتے تھے آپ کے لئے وہ سب آسان ہوتے چلے گئے۔ روایت مذکورہ سے یہ بھی معلوم ہوگیا کہ اس آیت میں العسر کا الف لام عہد کے لئے ہے اور مراد آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) صحابہ کرام کا عسر ہے، یعنی یہ وعدہ کہ ہر مشکل کے ساتھ بہت سی آسانیاں دی جائیں گی، آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ کرام کا عسر ہے، یعنی یہ وعدہ کہ ہر مشکل کے ساتھ بہت سی آسانیاں دی جائیں گی، آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحاب کرام کا عسر ہے، یعنی یہ وعدہ کہ ہر مشکل کے ساتھ بہت سی آسانیاں دی جائیں گی، آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ کرام کے لئے ہے جس کو حق تعالیٰ نے ایسا پورا فرمایا کہ دنیا نے آنکھوں سے دیکھ لیا اب اگر دنیا میں کسی شخص کو عسر کے بعد یسر نصیب نہ ہو تو وہ اس آیت کے منافی نہیں، البتہ عادة اللہ اب بھی یہی ہے کہ جو شخص سختی پر صبر کرے اور سچے دل سے اللہ پر اعتماد رکھے اور ہر طرف سے ٹوٹ کر اسی سے لو لگائے اور اسی کے فضل کا امیدوار رہے اور کامیابی میں دیر ہونے سے آس نہ توڑ بیٹھے تو ضرور اللہ تعالیٰ اس کے حق میں آسانی کر دے گا (فوائد عثمانیہ) بعض روایات حدیث سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے۔


آیت نمبر 6


اِنَّ مَعَ الۡعُسۡرِ يُسۡرًا ؕ‏ ۞


لفظی ترجمہ:

اِنَّ : بیشک | مَعَ : ساتھ | الْعُسْرِ : دشواری | يُسْرًا : آسانی


ترجمہ:

البتہ مشکل کے ساتھ آسانی ہے


آیت نمبر 7


فَاِذَا فَرَغۡتَ فَانۡصَبۡۙ ۞


ترجمہ:

پھر جب تو فارغ ہو تو محنت کر


تفسیر:

تعلیم و تبلیغ کرنے والوں کو خلوص میں ذکر اللہ اور توجہ الی اللہ بھی ضروری ہے

 فاذا فرغت فانصب، والی ربک فارغب یعنی جب آپ ایک محنت یعنی دعوت حق اور تبلیغ احکام سے فارغ ہوں تو (دوسری) محنت کے لئے تیار ہو جایئے وہ یہ کہ نماز اور ذکر اللہ اور دعا و استغفار میں لگ جائیں۔ اکثر حضرات مفسرین نے اس آیت کی یہی تفسیر کی ہے۔ بعض حضرات نے دوسری تفسیریں بھی لکھی ہیں مگر اقرب وہی ہے جو اوپر لکھی گئی۔ اس کا حاصل یہ ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعوت و تبلیغ اور خلق خدا کو راستہ دکھانا ان کی اصلاح کی فکر یہ آپ کی سب سے بڑی عبادت تھی مگر یہ عبادت بواسطہ مخلوق ہے کہ ان کی اصلاح پر توجہ دیں اور اس کی تدبیر کریں، آیت کا مقصود یہ ہے کہ صرف اس عبادت بالواسطہ پر آپ قناعت نہ کریں بلکہ جب اس سے فرصت ملے تو بلاواسطہ خلوت میں حق تعالیٰ کی طرف متوجہ ہوں اسی سے ہر کام میں کامیابی کی دعا کریں کہ اصل مقصود جس کے لئے انسان پیدا کیا گیا ہے وہ ذکر اللہ اور عبادت بلاواسطہ ہی ہے اور شاید اسی لئے پہلی قسم یعنی عبادت بالواسطہ سے فراغت کا ذکر فرمایا کہ وہ کام ایک ضرورت کے لئے ہے اس سے فراغت ہو سکتی ہے اور دوسرا کام یعنی توجہ الی اللہ ایسی چیز ہے کہ اس سے فراغت مومن کو کبھی نہیں ہو سکتی بلکہ اپنی ساری عمر اور توانائی کو اس میں صرف کرنا ہے۔

فائدہ۔ اس سے معلوم ہوا کہ علماء جو تعلیم و تبلیغ اور اصلاح خلق کا کام کرنے والے ہیں ان کو اس سے غفلت نہ ونا چاہئے کہ انکا کچھ وقت خلوت میں توجہ الی اللہ اور ذکر اللہ کے لئے بھی مخصوص ہنا چاہئے جیسا کہ علماء سلف کی سیرتیں اس پر شاید ہیں اس کے بغیر تعلیم و تبلیغ بھی موثر نہیں ہوتی ان میں نور و برکت نہیں ہوتی۔

فائدہ۔ لفظ فانصب، نصب سے مشتق ہے جس کے اصلی معنے تعب اور تکان کے ہیں اس میں اشارہ پایا جاتا ہے کہ عبادت اور ذکر اللہ اس حد تک جاری رکھا جائے کہ کچھ مشقت اور تکان محسوس ہونے لگے صرف نفس کی راحت و خوشی ہی پر اس کا مدارنہ رہے اور کسی وظیفہ اور معمول کی پابندی خود ایک مشقت اور تعجب ہے، خواہ کام مختصر ہی ہو۔ 

تمت سورة الانشراح والحمد للہ


آیت نمبر 8


وَاِلٰى رَبِّكَ فَارْغَبْ  ۞


لفظی ترجمہ:

وَ : اور | اِلٰى رَبِّكَ : اپنے رب کی طرف | فَارْغَبْ : رغبت کریں


ترجمہ:

اور اپنے رب کی طرف دل گا۔  ؏



ایک تبصرہ شائع کریں

0تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں (0)