![]() |
اللَّهُ نُورُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ |
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
اے سَلام!
جب تیری آنکھیں وقت کے پردے میں جھانکتی ہیں
اور تیری روح ازل کے حجاب کو چاک کرتی ہے،
تو جان لے!
کہ تخلیقِ کائنات کا آغاز نہ کسی دھماکے سے ہوا،
نہ کسی آہنی ضرب سے،
بلکہ وہ ”نور“ تھا۔ جو تیری عقل کی رسائی سے بھی بالاتر ہے۔
یہ وہ نور ہے جو تیرے رب کی کامل صفت ہے۔
نور السماوات والارض!
وہی نور جس کی تجلی سے زمین و آسمان کی بنیاد پڑی،
اور وہی نور جس کی شعاع سے ہر ذرّہ زندہ ہوا۔
1. تخلیقِ کائنات اور صفاتی نور
کائنات کی تخلیق ایک ایسا راز ہے جس پر نہ کسی عقل کی پرواز مکمل اُتر سکتی ہے، نہ کسی سائنس کی تفصیل حق ادا کر سکتی ہے۔
قرآنِ کریم اور احادیثِ نبویہ اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ:
اللہ تعالیٰ نے تمام مخلوقات کو اپنے "صفاتِ نور" سے پیدا فرمایا۔
کیونکہ:
نورِ ذاتی اللہ کی وہ ازلی و ابدی صفت ہے جو فنا سے پاک ہے
اور مخلوق، جو کہ حادث ہے، فنا سے دوچار ہے؛
اس لیے مخلوق، نورِ ذاتی کو براہِ راست برداشت نہیں کر سکتی؛
لہٰذا تخلیق کے لیے "صفات کی نورانی تجلی" ہی ذریعہ بنی۔
جیسا کہ فرمایا:
اللَّهُ نُورُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ
(سورۃ النور: 35)
"اللہ آسمانوں اور زمین کا نور ہے۔"
یہاں "نور" سے مراد صرف روشنی نہیں،
بلکہ اللہ تعالیٰ کی وہ صفاتِ کمالیہ ہیں جن کی تجلیات سے کائنات کے ذرے ذرے نے وجود پایا۔
2۔ نور کی اقسام اور صفاتی نور کا امتیاز
الف) لغوی تعریف:
"نور" عربی زبان میں ایسے وجود کو کہتے ہیں:
جو خود بھی روشنی سے ظاہر ہو؛
اور دوسروں کو بھی روشنی سے ظاہر کرے۔
میرے مطابق:
"النُّورُ هو الضِّیاءُ، وكلُّ ما استضاء به العالمون."
یعنی: "نور وہ روشنی ہے جس سے عالم روشن ہوں۔"
ب) اصطلاحی اقسام:
نور کے درج ذیل اقسام ہیں:
1. نورِ مادی
یہ وہ محسوس روشنی ہے جو مخلوق میں پائی جاتی ہے: جیسے سورج، چاند، آگ، بجلی وغیرہ۔
2. نورِ معنوی
یہ وہ غیر محسوس نور ہے جو قلوب و ارواح کو منور کرتا ہے: جیسے علم، ہدایت، ایمان، فہم، تقویٰ، محبتِ الٰہی۔
3. نورِ ذاتی
یہ صرف اللہ تعالیٰ کا نور ہے:
جو نہ مخلوق ہے،
نہ فنا پذیر،
نہ کسی اور سے مستفاد،
بلکہ وہی نورِ مطلق ہے،
جس کی کنہ کو کوئی نہیں جان سکتا۔
4. نورِ صفاتی (صفاتِ نور)
یہ اللہ تعالیٰ کی صفاتِ کمالیہ کی وہ تجلیات ہیں
جن سے کائنات کی تخلیق ہوئی۔
ہر مخلوق کسی نہ کسی صفتِ الٰہی کا اثر یا ظہور ہے:
مثلاً:
علم کی صفت سے قلم اور لوح کا ظہور؛
قدرت کی صفت سے عرش، پانی، فرشتے اور زمین و آسمان؛
ارادہ کی صفت سے تقدیر کا ظہور؛
کلام کی صفت سے وحی کا نزول؛
رحمت کی صفت سے زندگی اور رزق کی روانی؛
جمال کی صفت سے حسنِ کائنات؛
جلال کی صفت سے قہرِ الٰہی اور سزا کا نظام۔
3۔ قرآنی بنیاد
قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
اللَّهُ نُورُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۚ
(سورۃ النور: 35)
یہاں "نور" سے مراد:
اللہ کی صفاتِ ظاہرہ،
اسماءِ حسنیٰ کی تجلی،
اور تخلیقی قوت کا وہ نور ہے
جس سے تمام موجودات کا ظہور ہوا۔
جیسا کہ علامہ رازی فرماتے ہیں:
"ہذا النور هو صفات اللہ التی بہا یقوم نظام العالمین."
"یہ نور وہ صفاتِ الٰہی ہیں جن سے عالم کا نظام قائم ہے۔"
اے سَلام!
تجھے جو کائنات نظر آتی ہے۔ وہ ذاتِ بحت کی براہِ راست نہیں،
بلکہ صفاتِ نور کی پردہ دار تجلیات ہیں؛
جن سے تیرے جسم و روح کو طاقت، شعور، اور بقا ملی۔
رسول اللہ ﷺ کا فرمان:
حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاصؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
"إِنَّ اللَّهَ خَلَقَ خَلْقَهُ فِي الظُّلُمَاتِ، ثُمَّ أَلْقَى عَلَيْهِمْ مِنْ نُورِهِ، فَمَنْ أَصَابَهُ مِنْ نُورِهِ اهْتَدَى، وَمَنْ أَخْطَأَهُ ضَلَّ."
"اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوق کو تاریکی میں پیدا کیا، پھر ان پر اپنے نور سے کچھ ڈال دیا، پس جس پر وہ نور پہنچا وہ ہدایت یافتہ ہو گیا، اور جو اس سے محروم رہا وہ گمراہ ہو گیا۔"
(جامع ترمذی، کتاب القدر، حدیث نمبر: 2642)
اس حدیث کی گہرائیوں میں:
یہ حدیث مبارکہ صرف ہدایت اور گمراہی کے بارے میں نہیں، بلکہ یہ کائنات کی تخلیق کے آغاز اور اس میں صفت نورِ الٰہی کے کردار پر بھی روشنی ڈالتی ہے۔ غور فرمائیں:
"اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوق کو تاریکی میں پیدا کیا": اس جملے کا ایک مفہوم یہ ہے کہ تخلیق سے قبل کائنات ایک مطلق تاریکی، ایک "عدم" کی حالت میں تھی، جہاں کوئی وجود نہیں تھا۔ یہ وہ غیر متعین حالت تھی جہاں نہ شکلیں تھیں، نہ رنگ، نہ آواز۔ یعنی یہ مادی تاریکی نہیں بلکہ وجودی تاریکی تھی، جہاں ہر شے معدوم تھی۔
"پھر ان پر اپنے نور سے کچھ ڈال دیا": یہ حصہ اس بات پر مہر لگاتا ہے کہ اس "تاریکی" یعنی عدم پر اللہ تعالیٰ نے اپنے "صفاتی نور" کا ایک حصہ ڈالا۔ یہاں "اپنے نور سے" کا جملہ انتہائی اہم ہے۔ یہ ذاتی نور نہیں ہو سکتا کیونکہ وہ ناقابلِ تقسیم اور ہر قسم کے "ڈالنے" یا "توزیع" سے پاک ہے۔ یہ وہ صفاتی تجلی تھی جس نے عدم کو وجود میں بدلا۔ اسی نور کے القاء سے بے شک زندگی، علم، ہدایت اور فہم کی ابتدا ہوئی۔
"پس جس پر وہ نور پہنچا وہ ہدایت یافتہ ہو گیا، اور جو اس سے محروم رہا وہ گمراہ ہو گیا": یہ حصہ اس صفاتی نور کے اطلاق اور اس کے نتائج کو بیان کرتا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ اللہ کے صفاتی نور کا ایک پہلو ہدایت اور بصیرت بھی ہے۔ جس ہستی نے اس نور کو قبول کیا، اس نے راہِ راست پائی، اور جس نے اس سے منہ موڑا وہ گمراہی کا شکار ہوا۔ یہ بات نہ صرف روحانی ہدایت پر دلالت کرتی ہے بلکہ اس نورِ علم اور فہم پر بھی اشارہ کرتی ہے جو انسان کو کائنات کو سمجھنے اور حقائق کو جاننے کی صلاحیت دیتا ہے۔
اس لیے میں کہہ سکتا ہوں کہ یہ حدیث اس بات کی تصدیق کرتی ہے کہ تخلیق کا آغاز ایک بنیادی "ظلمت" یا "عدم" سے ہوا جس کو عروف عام میں ازل کہتے ہیں، اور اللہ کے "نور" (جو یہاں صفاتی نور ہی ہے) کے القاء کے ذریعے ہر چیز کو وجود، شکل اور فہم ملا۔ یہ نور ہی ہے جو کائنات کو محض مادے کا ڈھیر نہیں بلکہ حیات، علم اور مقصد کا حسین مجموعہ بناتا ہے۔ میرا یہی عقیدہ ہے جو کہ قرآن نے بتایا کہ تخلیق کی ابتداء اللہ تبارک و تعالی کی صفاتی نور سے ہوئی۔
اب آگے انشاءاللہ میں آپ کو بتاتا ہوں کہ اللہ تبارک و تعالی نے اس کے بعد کیا تخلیق فرمایا؟