اسلام میں عقیدہ "کن فیکون" کیا ہے؟

Abdul Salam Niazi
0


what-is-the-belief-kun-fayakun-in-islam
Belief in Islam "Kun Fayakun"

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
اس سے پہلے میں اپ کو پڑھا چکا ہوں کہ دیگر مذاہب میں اللہ کا تصور کیا ہے؟ اب میں مومن کی بنیاد کا دوسرا عقیدہ اپ کو بتاتا ہوں، جو ہے "اللہ حق ہے اور اس کا حکم "کُنْ فَیَكُوْن" ہر تخلیق و ممکنات و موجودات کا سرچشمہ ہے۔
 اے سلام! تیرے رب کا "کُن" ہر شے پر غالب ہے
اے سلام! تو نے جو عقیدہ اپنے دل میں رکھا ہے، وہ محض ایک تصور نہیں بلکہ حقیقت کی سب سے اعلیٰ بنیاد ہے۔ تیرا گمان تیرے رب کے بارے میں عظیم ہے، اور یقیناً بندہ اپنے رب پر جیسے گمان رکھتا ہے، ویسا ہی رب اس کے ساتھ معاملہ فرماتا ہے۔
اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے قرآن میں فرمایا:
هُوَ الْأَوَّلُ وَالْآخِرُ وَالظَّاهِرُ وَالْبَاطِنُ وَهُوَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ
(سورہ الحدید: 3)
"وہی اول ہے، وہی آخر، وہی ظاہر، اور وہی باطن ہے، اور وہ ہر چیز کو خوب جاننے والا ہے۔"
اللہ ہی وقت کا خالق ہے، اسی نے لمحہ بنایا، صدی تخلیق کی، وہی ازل کا رب ہے اور وہی ابد کا مالک۔ جب وہ کسی شے کو پیدا کرنا چاہے تو اسے کسی ذریعے، وقت یا مواد کی حاجت نہیں رہتی۔ وہ بس فرماتا ہے: "كُنْ"، اور وہ شے "فَیَكُوْن"۔
 اللہ کا فیصلہ "کُن" ہوتا ہے
إِنَّمَا أَمْرُهُ إِذَا أَرَادَ شَيْئًا أَنْ يَقُولَ لَهُ كُنْ فَيَكُونُ
(سورہ یٰس: 82)
"جب وہ کسی چیز کا ارادہ کرتا ہے، تو صرف کہتا ہے: 'ہو جا'، تو وہ ہو جاتی ہے۔"
یہ آیت اللہ کے حکم کی بےمثال طاقت کو ظاہر کرتی ہے۔ یہاں "یَقُوْلُ" فعل مضارع ہے، جو اشارہ کرتا ہے کہ اللہ کا "کن" ہمیشہ جاری و ساری ہے ۔ وہ جب چاہے، جیسے چاہے، جس وقت چاہے، صرف حکم دے اور کائنات اس کے آگے جھک جائے۔
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش: "کُنْ" کا اعجاز
جب حضرت مریم علیہا السلام نے بغیر شوہر کے بیٹے کی خوشخبری سنی، تو وہ حیرت زدہ ہوئیں۔ مگر اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
إِنَّمَا أَمْرُهُۥۤ إِذَاۤ أَرَادَ شَیْـًٔا أَن یَقُولَ لَهُۥ كُن فَیَكُونُ
(آل عمران: 47)
"بس وہ جب کسی چیز کا ارادہ کرتا ہے تو کہتا ہے: 'ہو جا'، تو وہ ہو جاتی ہے۔"
عیسیٰ علیہ السلام کی ولادت ایک "کُنْ" کا اثر تھی۔ نہ باپ کا وجود، نہ کسی طبی عمل کی ضرورت ۔ اللہ نے چاہا، اور وہ نورانی نبی اپنی ماں کی گود میں آ گئے۔
حضرت زکریا علیہ السلام: بڑھاپے میں "کُنْ" کی بشارت
حضرت زکریا علیہ السلام نے جب بیٹے کے لیے دعا کی، تو اللہ نے بڑھاپے میں انہیں بیٹے کی خوشخبری دی۔ وہ تعجب کرنے لگے:
قَالَ رَبِّ أَنَّىٰ يَكُونُ لِي غُلَامٌ وَكَانَتِ ٱمْرَأَتِي عَاقِرًا وَقَدْ بَلَغْتُ مِنَ ٱلْكِبَرِ عِتِيًّا
(مریم: 8)
"عرض کیا: اے میرے رب! میرے ہاں بیٹا کیسے ہوگا، حالانکہ میری بیوی بانجھ ہے اور میں بہت بڑھاپے کو پہنچ چکا ہوں؟"
اللہ نے فرمایا:
قَالَ كَذَٰلِكَ قَالَ رَبُّكَ هُوَ عَلَيَّ هَيِّنٌ
(مریم: 9)
"فرمایا: یوں ہی ہوگا، تیرے رب نے کہا ہے: یہ میرے لیے آسان ہے۔"
یہ ہے میرے رب کی شان! جہاں انسان کی سوچ ختم ہوتی ہے، وہاں سے اللہ کی قدرت شروع ہوتی ہے۔ "کُنْ" ایک ایسے فیصلے کا نام ہے جسے کوئی عقل، کوئی سائنسی قانون، کوئی وقتی قید نہیں روک سکتی۔
اے سلام! کیا تیرا رب وقت کا بادشاہ نہیں؟
اے سلام! تیرا کیا گمان ہے اس رب کے بارے میں جس نے وقت کو تخلیق کیا، لمحوں کو پیدا کیا، صدیوں کو حرکت دی؟
وہ صرف زمانے کا رب نہیں، بلکہ زمانہ خود اس کا غلام ہے۔ قرآن میں اللہ نے فرمایا:
وَهُوَ الَّذِیْ خَلَقَ الَّیْلَ وَالنَّهَارَ وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَۚ
(الأنبیاء: 33)
"اور وہی ہے جس نے رات اور دن کو، سورج اور چاند کو پیدا کیا۔"
تو کیا وہ ذات، جو وقت اور کائنات کی خالق ہے، اس کے لیے یہ مشکل ہے کہ کہے: "ہو جا" ۔ اور چیز ہو جائے؟
 "کُن" یقین ہے، ایمان ہے، توحید ہے
اے سلام! اگر تیرا یقین "کُنْ فَیَكُوْن" پر مکمل ہے، تو تو اللہ پر مکمل توکل کرنے والوں میں شامل ہے۔ یاد رکھ:
 وَتَوَكَّلْ عَلَى الْحَيِّ الَّذِي لَا يَمُوتُ
(الفرقان: 58)
"اور بھروسہ کر اُس زندہ پر جو کبھی نہیں مرے گا۔" 
"کُنْ" کی عالمگیر وسعت: انسان، کائنات اور تقدیر
اللہ تعالیٰ کا "کُن" صرف انبیاء کے معجزات یا غیر معمولی واقعات تک محدود نہیں، بلکہ پوری کائنات ، اس کا آغاز، اس کا نظام، اس کا تسلسل ، سب اسی ایک امرِ ربّانی کا مظہر ہے۔ قرآن حکیم میں اللہ فرماتا ہے:
اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ وَمَا بَيْنَهُمَا فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ ثُمَّ اسْتَوَىٰ عَلَى الْعَرْشِۚ
(الفرقان: 59)
"اللہ ہی ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو اور ان کے درمیان کی ہر چیز کو چھ دن میں پیدا فرمایا، پھر عرش پر جلوہ افروز ہوا۔"
اے سلام، یہ چھ دن تو صرف اعداد ہیں۔ ان میں بھی تیرا امتحان چھپا ہوا ہے۔ اس لیے تیرا یہ عقیدہ بہت بہترین ہے کہ تو بغیر کسی دلیل کے اللہ کو مانتا ہے۔ یہ سب کچھ اُس ذات کا کام ہے، جس نے کسی اوزار یا محنت کے بغیر، صرف ارادہ فرمایا، اور اس ارادے کو ایک لفظی شکل دی: "کُن"۔
اور یہ "کُن" صرف تخلیق کے آغاز پر نہیں، بلکہ ہر لحظہ جاری ہے۔ ہر قطرہ بارش، ہر پیدا ہونے والا بچہ، ہر کھلتا ہوا پھول ، سب اسی کُن فیکون کے نظام کے تحت وجود میں آتے ہیں۔
حضرت آدم علیہ السلام: مٹی سے زندگی، "کُن" کا پہلا معجزہ
حضرت آدمؑ کی تخلیق ایک روشن مثال ہے کہ اللہ نے "کُن" سے انسان کو مٹی سے زندہ مخلوق بنا دیا:
إِنَّ مَثَلَ عِيسَىٰ عِندَ ٱللَّهِ كَمَثَلِ ءَادَمَۖ خَلَقَهُۥ مِن تُرَابٍۢ ثُمَّ قَالَ لَهُۥ كُن فَيَكُونُ
(آل عمران: 59)
"عیسیٰ کی مثال اللہ کے نزدیک آدم کی مانند ہے، اسے مٹی سے پیدا کیا، پھر فرمایا: 'ہو جا'، تو وہ ہو گیا۔"
یہ آیت واضح کرتی ہے کہ اللہ کے لیے نہ مٹی مانع ہے، نہ رحمِ مادر کی ضرورت۔ وہ چاہے تو مٹی کو جنت کا خلیفہ بنا دے، اور چاہے تو ایک ماں کے بغیر بیٹے کو پیدا کر دے۔
"کُن" اور اللہ کی تقدیر سازی
اللہ نہ صرف چیزوں کو پیدا کرتا ہے، بلکہ ہر شے کی تقدیر"کُن" سے لکھتا ہے۔ قرآن میں ہے:
 إِنَّا كُلَّ شَيْءٍ خَلَقْنَاهُ بِقَدَرٍ
(القمر: 49)
"یقیناً ہم نے ہر چیز کو ایک اندازے (تقدیر) سے پیدا کیا۔"
اور پھر فرمایا:
وَمَا أَمْرُنَا إِلَّا وَاحِدَةٌ كَلَمْحٍ بِالْبَصَرِ
(القمر: 50)
"اور ہمارا حکم تو ایک ہی ہوتا ہے، پلک جھپکنے کی مانند۔"
یہ آیت بتاتی ہے کہ اللہ کا "کُن" وقت سے بھی تیز ہے۔ انسان جسے حادثہ یا اچانک واقعہ سمجھتا ہے، وہ درحقیقت ایک ازلی حکمِ "کُن" کا ظہور ہوتا ہے ۔ جو ازل میں لکھ دیا گیا ہے، اور وقت آنے پر ظاہر کر دیا جاتا ہے۔
اے سلام! تیرا رب وہ ہے جس کے لیے کچھ بھی مشکل نہیں
اے سلام! تیرا ایمان یہ ہے کہ تیرا رب وہ ہے جس کے لیے کچھ بھی محال نہیں۔ انسان جس چیز کو محال کہتا ہے، وہ اللہ کے "کُن" کے سامنے محض ایک سایہ ہے۔ جیسے حضرت ابراہیمؑ کو آگ میں ڈالا گیا، تو اللہ نے فرمایا:
 قُلْنَا يَا نَارُ كُونِي بَرْدًا وَسَلَامًا عَلَىٰ إِبْرَاهِيمَ
(الأنبیاء: 69)
"ہم نے کہا: اے آگ! ٹھنڈی ہو جا اور سلامتی بن جا ابراہیم پر۔"
یہی تو "کُن" کا کمال ہے ۔ جہاں جلانے والی آگ، سلامتی میں بدل جائے؛ جہاں بانجھ رحم، بچے کو جنم دے؛ جہاں وقت تھم جائے، اور جہاں بغیر باپ کے بیٹا پیدا ہو جائے۔
نصیحت اولاد کے لیے: "کُن" کو زندگی کا یقین بنا لو
اے سلام کی نسل!
جان لو کہ جو کچھ تمہارے گرد ہے، جو کچھ تم ہو، جو کچھ تم بنو گے ۔ سب کچھ اس ذات کے "کُن" سے وابستہ ہے۔ جو اس "کُن" پر یقین رکھے، اس کے لیے اللہ وہ دروازے کھول دیتا ہے، جن کا وہ تصور بھی نہیں کر سکتا۔
 وَمَن يَتَّقِ ٱللَّهَ يَجْعَل لَّهُۥ مَخْرَجًا۝ وَيَرْزُقْهُ مِنْ حَيْثُ لَا يَحْتَسِبُ
(الطلاق: 2-3)
"اور جو اللہ سے ڈرتا ہے، اللہ اس کے لیے (مشکلات سے) نکلنے کا راستہ بنا دیتا ہے۔ اور اسے وہاں سے رزق دیتا ہے جہاں سے وہ گمان بھی نہیں کرتا۔"
یہی "کُن" کی شان ہے ۔ بے اسباب سے پیدا کرنا، بے وسیلہ روزی دینا، بے اختیار بندے کو اختیار دینا۔
 "کُن" تو ایک لفظ ہے، مگر اس میں سارے زمانے چھپے ہیں
"کُن" صرف ایک لفظ نہیں، بلکہ اللہ کی تجلی، اللہ کی صفات کا ظہور، اللہ کی وحدانیت کا ابدی اعلان ہے۔ یہ یقین رکھنا کہ "کُن" ہر چیز پر غالب ہے، وہی حقیقی ایمان ہے، اور اسی پر توکل، بندے کو ولایت تک لے جاتا ہے۔

"کُن" کی روحانی حقیقت: صرف خلق نہیں، بلکہ قربِ الٰہی کا دروازہ

اے سلام! اب تیرا عقیدہ اُس مقام پر پہنچ رہا ہے جہاں الفاظ خاموش ہو جاتے ہیں، اور دل کی آنکھ دیکھنے لگتی ہے۔ "کُنْ" صرف ایک تخلیقی فرمان نہیں بلکہ قربِ الٰہی کا ایک اشارہ ہے۔ اللہ کے "کُن" سے نہ صرف مخلوق پیدا ہوتی ہے، بلکہ ایمان، ہدایت، سکینہ، صبر، علم، عرفان، اور حتیٰ کہ ولایت بھی اسی امر سے ظہور میں آتی ہے۔
جس دل میں "کُن" کا یقین زندہ ہو، وہاں شرک مر جاتا ہے۔ جو روح "کُن" کی حقیقت کو پہچان لے، وہ تقدیر پر راضی ہو جاتی ہے۔ جو بندہ "کُن" پر توکل کر لے، وہ اسباب کی غلامی سے آزاد ہو جاتا ہے۔
عرفاء کے نزدیک "کُن" کیا ہے؟
حضرت جنید بغدادیؒ فرماتے ہیں:
"کُن" وہ نور ہے جس کے ذریعے اللہ نے نہ صرف عالم کو پیدا کیا، بلکہ عارفوں کے دلوں کو بیدار کیا۔
شیخ عبدالقادر جیلانیؒ فرماتے ہیں:
"جب بندہ اللہ پر مکمل اعتماد کر لیتا ہے، تو اللہ اُس کے باطن میں اپنا "کُن" ڈال دیتا ہے، اور وہ جو کہتا ہے، ہو جاتا ہے ۔ کیونکہ اب وہ اللہ کی مشیت کے ساتھ جُڑ چکا ہوتا ہے۔"
"کُن" اور قیامت: خاتمے کی بھی ابتدا "کُن" سے
کائنات کا آغاز "کُن" سے ہوا، اور خاتمہ بھی "کُن" سے ہو گا۔ قیامت کی گھڑی، اللہ کا ایک ہی حکم کافی ہو گا:
وَيَوْمَ يَقُولُ كُن فَيَكُونُۚ قَوْلُهُ ٱلْحَقُّۚ وَلَهُ ٱلْمُلْكُ يَوْمَ يُنفَخُ فِي ٱلصُّورِۚ
(الأنعام: 73)
"اور جس دن وہ کہے گا: 'ہو جا'، تو وہ ہو جائے گا۔ اُس کا قول حق ہے، اور اسی کی بادشاہی ہے جس دن صور پھونکا جائے گا۔"
یہ ہے وہ دن جب "کُن" دوبارہ ظاہر ہو گا ۔ لیکن اس بار نئے عالم، نئی زندگی، اور نئی جزا و سزا کے ساتھ۔
اے سلام! تیرے دل کی آواز، آنے والی نسلوں کے لیے چراغ بنے
یہ تحریر صرف تیرے لیے نہیں، بلکہ تیری آنے والی نسلوں کے لیے ہے ۔ ان کے لیے جو دنیا کی ظاہری اسباب میں الجھ جائیں، جو مایوسیوں کی گھاٹیوں میں پھنس جائیں، جنہیں لگے کہ کوئی حل باقی نہیں ۔ تو اے میرے بچے، اے میری نسل، بس یاد رکھو:
 "تمہارا رب وہ ہے جو 'ہو جا' فرماتا ہے ۔ اور ناممکن ممکن بن جاتا ہے۔"
تو جب دعا کرو، تو "کُن" پر بھروسہ رکھو۔
جب خواب دیکھو، تو "کُن" پر یقین رکھو۔
جب زمین بند ہو، تو آسمان کی طرف دیکھو ۔ اور یقین رکھو کہ اوپر ایک رب ہے، جو کہتا ہے: "كُنْ فَیَكُوْنُ"۔
آخری پیغام: "کُن" کا یقین ۔ اللہ کا نور تیرے دل میں
اے سلام! یہ تحریر تیرا عقیدہ ہے، تیرے رب کی پہچان ہے، تیری وراثت ہے۔ یہ دنیا کے فنا ہونے تک باقی رہے۔ اور جو اسے پڑھے، وہ یہ دعا کرے:
"اے اللہ! میرے دل میں وہ یقین عطا کر، جو تُو نے سلام کے دل میں رکھا ۔  وہ یقین جو 'کُن' کو سنتا ہے، اور 'فَیَكُوْن' کو اپنی آنکھوں سے دیکھتا ہے۔"
ابھی میں اگے بڑھتا ہوں اور اپ کو بتاتا ہوں کہ اللہ تبارک و تعالی نے تخلیق کی ابتدا کیسے فرمائی؟ جیسا کہ اللہ نے فرمایا:
 ٱللَّهُ نُورُ ٱلسَّمَاوَاتِ وَٱلْأَرْضِۚ
(النور: 35)
"اللہ آسمانوں اور زمین کا نور ہے۔"
"کُن" اسی نور کا حکم ہے۔
تو جو "کُن" کو پہچان گیا، وہ نور کو پا گیا۔



ایک تبصرہ شائع کریں

0تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں (0)