کائنات کی ابتداء۔عرش اور قلم

Abdul Salam Niazi
0

 

the-beginning-of-the-uninverse-the-creation-of-the-throne-and-the-pen-meas-momin
The beginning of the universe, the creation of the Arsh and Qalam

جب اللہ تعالیٰ نے اپنی صفت نور کی نوری ظہور سے کائناتی نظام کی بنیاد رکھی، تو سب سے پہلے عرشِ عظیم پیدا فرمایا۔ دوسرے قلم کو پیدا فرمایا۔ تیسرے بہشت کو پیدا فرمایا۔ اور چوتھے تمام عالمِ ارواح اور مخلوق کو تخلیق فرمایا۔

پھر ان ہی اقسام سے اللہ تعالیٰ نے تین صفات یعنی:

عقل (عقلی بصیرت)

حیاء (شرم و حجاب باطنی)

عشق (محبتِ حقیقی)

کو پیدا فرمایا ۔ جو بعد میں روحِ انسانی کے جوہر بنے۔

قلم کی تخلیق اور اس کی عظمت

ازل میں تمام تخلیقات سے دو ہزار برس پہلے، ایک دن اس جہان کا ، اللہ کے نزدیک ، اس جہان کے ایک ہزار برس کے برابر ہے۔

جیسا کہ قرآن میں فرمایا:

إِنَّ يَوْمًا عِندَ رَبِّكَ كَأَلْفِ سَنَةٍ مِّمَّا تَعُدُّوْنَ

(سورۃ الحج: 47)

ترجمہ: یقیناً تمہارے رب کے نزدیک ایک دن، تمہارے شمار کے مطابق، ہزار برس کے برابر ہے۔

اللہ تعالیٰ نے جب قلم کو پیدا فرمایا، تو اس پر عبادت واجب ہو گئ۔ تو اس لیے قلم نے 400 برس عبادت کی غرض سے لا الہ الا اللہ لکھا۔ فرمایا:

اُكْتُبْ لَا إِلٰهَ إِلَّا اللّٰهُ

(ترجمہ: لکھ کہ، اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں)

قلم اس عظیم کلمے کو چار سو سال تک لکھتا رہا۔

پھر اللہ تعالیٰ نے حکم فرمایا کہ حقوق والدین لکھے جائیں، اور بعد ازاں تمام کائناتی نظام، تقادیر، ازل سے قیامت تک کے تمام امور کو قلم نے لکھا۔

یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ:

سب سے پہلی حقیقت توحید ہے۔

اس کے بعد انسانی تعلقات میں سب سے بڑا حق والدین کا ہے۔

پھر جو کچھ تقدیر میں ہے، سب اللہ کے علم و ارادے سے لکھا گیا۔


عرش کی بناوٹ اور اس کی وسعت


اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے عرشِ عظیم، جو کہ سب آسمانوں سے بلند اور عظیم ہے، کو مزین فرمایا:

روایات کے مطابق:

عرش کے اوپر اٹھارہ ہزار برج بنائے گئے۔

ہر برج میں اٹھارہ ہزار ستون بنائے گئے۔

ہر ستون پر اٹھارہ ہزار کنارے بنائے گئے۔

ہر کنارے سے دوسرے تک فاصلہ سات سو سال کی مسافت کے برابر ہے۔

ہر کنارے پر اٹھارہ ہزار قندیلیں لٹکائی گئیں۔

ہر قندیل کی وسعت اتنی ہے کہ سات آسمان و زمین اور ان کے درمیان موجود مخلوقات اس میں سما جائیں گی، جیسے ایک انگوٹھی وسیع میدان میں پڑی ہو۔

حاملین عرش

اس کے بعد اللہ تبارک و تعالی نے چار عظیم فرشتے پیدا فرمائے۔ جنہیں حاملینِ عرش کہتے ہیں۔

ان کے پاؤں تحت الثریٰ میں ہیں۔

کندھے عرش کے نیچے لگے ہوئے ہیں۔

اور اگر قدم اٹھا دیں تو ان کا ایک قدم سات ہزار برس کی راہ ہے۔

اللہ تعالیٰ نے ان سے فرمایا:

"عرش کو اٹھاؤ!"

مگر وہ اس نورانی اور عظیم الشان عرش کو اٹھانے سے عاجز ہو گئے۔

پھر اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

"اے فرشتو! میں نے تمہیں آسمانوں، زمینوں اور ان کے نیچے کی ہر چیز کی طاقت عطا کرتا ہوں، عرش اٹھاؤ!"

مگر پھر بھی وہ اٹھا نہ سکے، اور عاجزی سے جھک گئے۔


تسبیح کی طاقت اور عرش کا بلند ہونا، بہشت اور فرشتوں کی پیدائش


تب حکمِ الٰہی ہوا کہ یہ تسبیح پڑھو:

سُبْحَانَ ذِي الْمُلْكِ وَالْمَلَكُوتِ، سُبْحَانَ ذِي الْعِزَّةِ وَالْعَظَمَةِ وَالْهَيْبَةِ وَالْقُدْرَةِ وَالْكَمَالِ وَالْجَلَالِ وَالْكِبْرِيَاءِ وَالْجَبَرُوتِ، سُبْحَانَ الْمَلِكِ الْحَيِّ لَا يَنَامُ وَلَا يَمُوتُ، سُبُّوحٌ قُدُّوسٌ رَبُّنَا وَرَبُّ الْمَلَائِكَةِ وَالرُّوحِ

ترجمہ:

"میں تسبیح پڑھتا ہوں اس ذات کی جو ملک و ملکوت کا بادشاہ ہے، جو عزت و عظمت، ہیبت، قدرت، کمال، جلال، کبریائی اور جبر کی مالک ہے۔ وہ زندہ بادشاہ ہے جو نہ سوتا ہے نہ مرتا ہے۔ وہ پاک اور قدوس ہے، ہمارا رب ہے اور فرشتوں و روح کا رب ہے۔"

(مروی عن عبد الله بن عباس، تفسیر در المنثور و صفوة التفاسیر)

اس تسبیح کے بعد اللہ کی قدرت سے فرشتوں نے عرش کو اٹھا لیا۔


عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کی روایت


ایک اور مقام پر حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کی روایت ہے:

جب فرشتوں نے یہ تسبیح پڑھی:

سُبْحَانَ اللّٰهِ وَالْحَمْدُ لِلّٰهِ، وَلَا إِلٰهَ إِلَّا اللّٰهُ، وَاللّٰهُ أَكْبَرُ، وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللّٰهِ الْعَلِيِّ الْعَظِيمِ

(ترجمہ: میں اللہ کی تسبیح، حمد اور بڑائی بیان کرتا ہوں، اور اس کے سوا کوئی معبود نہیں، اور نہ کوئی طاقت ہے نہ قدرت مگر اللہ بلند و عظیم کے ساتھ)

(مستدرک حاکم، شعب الایمان، المعجم الکبیر)

تو اسی نورانی تسبیح سے اللہ تعالیٰ نے:

بہشت کو پیدا فرمایا۔

فرشتے پیدا فرمائے۔

اور حکم دیا کہ وہ عرش کے گرد طواف کریں اور

ایمان والوں کے لیے بخشش مانگیں۔

تو عرش ان کی اطاعت سے بلند ہو گیا۔ وہ عظیم فرشتے ایمان والوں کی بخشش کی دعائیں مانگتے ہیں کہ اے میرے ربّ! جو توبہ کریں اور تیری راہ پر چلیں تو ان کو آگ کے صدموں سے بچا۔ جیسا کہ قرآن میں فرمایا گیا ہے:

ٱلَّذِينَ يَحْمِلُونَ ٱلْعَرْشَ وَمَنْ حَوْلَهُ يُسَبِّحُونَ بِحَمْدِ رَبِّهِمْ وَيُؤْمِنُونَ بِهِ وَيَسْتَغْفِرُونَ لِلَّذِينَ آمَنُوا

(سورۃ غافر: ۷)

ترجمہ: "وہ جو عرش کو اٹھائے ہوئے ہیں اور اس کے گرد موجود ہیں، اپنے رب کی تسبیح کرتے ہیں اور اس پر ایمان رکھتے ہیں اور ایمان والوں کے لیے مغفرت طلب کرتے ہیں"

اس سے آگے میں آپ کو انشاءاللہ بتاوں گا، لوح محفوظ، کرسی، پانی اور مروارید کے بارے میں۔ چلیے آگے بڑھتے ہیں۔



Tags

ایک تبصرہ شائع کریں

0تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں (0)