اس سے پہلے میں تمھیں "لوح محفوظ، کرسی، پانی، مروارید اور سات آسمانوں کی تخلیق مختلف عناصر سے" کے بارے میں بتا چکا ہوں۔ اب میں آپ کو تقدیر کے بارے میں مکمل مگر مختصر بتاتا ہوں۔
تقدیر - ایک سادہ سوال، ایک گہری حقیقت
ہر انسان اپنی زندگی میں ایک لمحے پر ضرور یہ سوال کرتا ہے:
"کیا میری تقدیر لکھی جا چکی ہے؟ کیا میں کچھ بھی کر لوں، کچھ نہیں بدل سکتا؟"
لیکن میرا دل، میرا وجدان، اور میرا ایمان قرآنِ مجید کی آیات سے ایک اور حقیقت پر روشنی ڈالتا ہے۔
تقدیر بدل سکتی ہے، اگر دل بدل جائے۔
تقدیر اور ارادۂ الٰہی - سورہ الرعد کی آیت 39 کی روشنی میں
"يَمْحُو اللَّهُ مَا يَشَاءُ وَيُثْبِتُ ۖ وَعِندَهُ أُمُّ الْكِتَابِ"
(سورۃ الرعد: آیت 39)
ترجمہ: "اللہ جو چاہے مٹا دیتا ہے اور جو چاہے باقی رکھتا ہے، اور اسی کے پاس اصل کتاب (امّ الکتاب) یعنی لوح محفوظ ہے۔"
یہ وہ آیت ہے جو میرے عقیدے کی بنیاد ہے۔ ربّ کریم خود فرما رہا ہے کہ وہ تقدیروں کو "مٹا" بھی سکتا ہے اور "ثابت" بھی رکھ سکتا ہے۔
تو پھر یہ کہنا کہ تقدیر قطعی، ناقابلِ تغیر ہے۔ کہاں کا یقین ہے؟ یہ قرآن کی روشنی سے محرومی ہے۔
تقدیر کی تبدیلی کی شرط - سورہ نوح کی آیتوں سے روحانی بصیرت
اللّٰہ سورہ نوح کی ایت نمبر 3 میں فرماتا ہے:
"أَنِ ٱعْبُدُوا۟ ٱللَّهَ وَٱتَّقُوهُ وَأَطِيعُونِ"
(سورۃ نوح: آیت 3)
ترجمہ: "کہ تم اللہ کی عبادت کرو، اُس سے ڈرو اور میری اطاعت کرو۔"
یہی وہ شرطِ اوّل ہے جس پر تقدیر کا باب کھلتا ہے۔
جب بندہ اللہ کی عبادت، پرہیزگاری اور اطاعت کو اختیار کرتا ہے۔ تب:
"يَغْفِرْ لَكُم مِّن ذُنُوبِكُمْ وَيُؤَخِّرْكُمْ إِلَىٰٓ أَجَلٍۢ مُّسَمًّى"
(سورۃ نوح: آیت 4)
ترجمہ: "وہ تمہارے گناہوں کو بخش دے گا، اور تمہیں ایک مقررہ وقت تک مہلت دے گا۔"
یہاں "يُؤَخِّرْكُمْ" کا لفظ - یعنی تمہیں دیر دے گا، تمہاری اجل کو پیچھے کر دے گا ۔ میرے یقین کو ثابت کرتا ہے کہ:
موت بھی مؤخر ہو سکتی ہے!
میرے ایمان کی گواہی ۔ دل کی پکار تقدیر بدل سکتی ہے
میں اللہ پر یقینِ کامل رکھتا ہوں۔
میری روح نے یہ دیکھا، محسوس کیا، اور جذب کیا کہ:
جب دل سچے اخلاص سے رب کی طرف جھکتا ہے۔
جب انسان "اُس" دروازے پر روتا ہے جہاں دیر ہے، اندھیرا نہیں۔
تو وہ رب "الرحمن"، "المجیب"، "الحی" تقدیر کے قفل کو کھول دیتا ہے۔
دل جب آسمان کی طرف اٹھتا ہے، وہ شعائیں جو نکلتی ہیں، وہ دعا بن کر عرش تک جاتی ہیں۔ اور لوحِ محفوظ میں ترمیم ہو جاتی ہے۔ کیوں؟ کیونکہ:
"ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ"
(سورۃ غافر: آیت 60)
ترجمہ: "مجھے پکارو، میں تمہاری دعا قبول کروں گا۔"
تقدیر کے بدلنے کے عملی اسباب۔ قرآن اور روحانیت کی روشنی میں
1. صدقِ دل سے توبہ اور استغفار
"استغفار کی کثرت تقدیر کو نرمی عطا کرتی ہے۔"
حضرت علی (رضی اللہ عنہ) فرماتے ہیں: "گناہوں کی کثرت سے روزی، عزت، حتیٰ کہ عمر بھی گھٹ جاتی ہے۔"
2. دعا میں تسلسل
حضور اکرم ﷺ نے فرمایا:
"دعا تقدیر کو بدل دیتی ہے، اگرچہ وہ اتر چکی ہو۔"
(ترمذی شریف)
3. صدقہ و خیرات
حدیث: "صدقہ بری تقدیر کو ٹال دیتا ہے۔"
(مسند احمد)
4. والدین کی خدمت اور عاجزی
روحانی طور پر یہ دل کی گہرائیوں میں ایسی لَے پیدا کرتا ہے جس سے اللہ کی رحمت کھنچی چلی آتی ہے۔
تقدیر وقت کی قید میں نہیں
اللہ کا نظام "کن فیکون" ہے۔ وہ وقت سے ماورا ہے۔
نہ دعا میں وقت لگتا ہے، نہ عطا میں دیر ہوتی ہے اگر دل گواہی دے دے۔
وقت، فرشتے، قلم ۔ سب اس کے امر کے محتاج ہیں۔
اگر اللہ چاہے، تو لکھی ہوئی موت بھی مؤخر ہو جاتی ہے۔
تمہاری تقدیر تمہارے دل کے اندر ہے
تمہاری آنکھیں بند ہیں، ورنہ تم دیکھ سکتے تھے
کہ تمہاری تقدیر ہر سجدے میں لکھی جا رہی ہے۔
اگر تم اللہ کی عبادت، تقویٰ اور اطاعت میں اپنی زندگی ڈھال لو،
اگر تمہارا دل اخلاص سے پکارے۔
تو اللہ وہ ہے جو:
"يَمْحُو اللَّهُ مَا يَشَاءُ وَيُثْبِتُ"
"جو چاہے مٹا دے، جو چاہے باقی رکھے"
ایک آخری پکار - اے میرے رب!
"اے میرے رب!
اگر میری موت قریب ہے، اور میری خطائیں کثیر
تو میں تیرے در پر حاضر ہوں،
میرا دل گواہی دیتا ہے کہ تو سننے والا ہے،
میرے دل کی پکار تقدیر کا رُخ موڑ دے۔
کیونکہ تو ہی ہے جو لکھتا بھی ہے اور مٹا بھی دیتا ہے!"
اس سے آگے انشاءاللہ میں تمھیں سات زمینوں کی تخلیق اور جبل قاف کے بارے میں بتاوں گا۔