![]() |
hinduism's-beliefs-about-the-creation-of-the-universe-vs-Islam |
انشاءاللہ اب میں تمھیں ہندووں کے تخلیق کائنات کے عقائد کو تفصیلی بتاؤں گا۔ اور انشاءاللہ میں تمھیں ہندو مت کی مقدس کتابوں (جیسے وید، اپنشد، پران، اور بھگوت گیتا) اور اس کے فلسفیانہ نظام (جیسے ویدانتی، سانکھیا، یوگ، اور شیو ازم) کی روشنی میں میں بتاؤں گا۔ پہلے میں تمھیں کائنات کی ابتدا میں برہما، وشنو اور شیو کا کردار بتانا ضروری سمجھتا ہوں۔
کائنات کی ابتدا ۔ برہما، وشنو اور شیو کا کردار
1. ہندو تخلیقِ کائنات کا عمومی عقیدہ:
ہندو مت کے مطابق کائنات ایک مرتبہ پیدا نہیں ہوئی بلکہ یہ دورانیاتی (Cyclical) انداز سے بار بار پیدا ہوتی اور فنا ہوتی ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ تخلیق، بقا اور فنا کا ایک مسلسل چکر ہے، جسے "سنسار کا چکر" (Cycle of Creation) کہا جاتا ہے۔
2. پرم برہمن (Ultimate Reality):
ہندو مت کے مطابق ہر چیز کا ماخذ ایک غیر محدود، غیر مرئی اور غیر مادی ہستی ہے جسے پرم برہمن یا برہما (Brahman) کہا جاتا ہے۔ برہمن نہ مرد ہے نہ عورت، نہ وہ مخلوق ہے نہ تخلیق کار بلکہ وہ "سچدانند" (Sat-Chit-Ananda: حق، شعور، سرور) کی تجسیم ہے۔ کائنات اسی برہمن کی ذات سے ظہور پذیر ہوئی۔
3. تین مرکزی دیوتا (Trimurti):
ہندو تخلیق کے نظریے کے مطابق، برہمن نے اپنے نور سے تین اہم قوتیں پیدا کیں:
الف۔ برہما (Brahma)۔ تخلیق کرنے والا
ب۔ وشنو (Vishnu)۔ حفاظت کرنے والا
ت۔ شیو (Shiva یا Mahesh)۔ فنا دینے والا
یہ تینوں مل کر کائنات کی تخلیق، بقا اور فنا کے مظاہر ہیں۔
4. برہما کی تخلیق:
الف۔ برہما کا ظہور:
کئی پرانوں (جیسے وشنو پران اور برہما پران) کے مطابق، برہما کا جنم وشنو کی ناف سے نکلنے والے ایک کمل (کنول) کے پھول پر ہوتا ہے۔
وشنو کائناتی سمندر (کشر ساگر) پر ایک سانپ (شیش ناگ) پر لیٹے ہوتے ہیں۔ جب وہ یوگ نیدرا میں ہوتے ہیں، تو ان کی ناف سے ایک کنول نمودار ہوتا ہے جس پر برہما کا ظہور ہوتا ہے۔
ب۔ برہما کی تخلیق:
برہما اپنے اندر تخلیق کا بیج لے کر آتے ہیں اور وہ سب سے پہلے چار ویدوں (رگ وید، یجر وید، سام وید، اتھر وید) کو پیدا کرتے ہیں۔ پھر وہ کائناتی اشیاء جیسے آکاش (خلاء)، وايو (ہوا)، اگنی (آگ)، جل (پانی)، اور پرتھوی (زمین) کو ترتیب دیتے ہیں۔
ان پانچ عناصر (پنج مہابھوت) سے ساری مخلوقات، دیوتا، انسان، جانور اور سب کچھ تخلیق کیا جاتا ہے۔
5. سانکھیا فلسفہ اور کائنات کی تخلیق:
سانکھیا، ہندو فلسفے کا ایک قدیم ترین نظام ہے جو تخلیق کو دو ازلی حقیقتوں کے ملاپ سے سمجھاتا ہے:
الف۔ پرکرتی (Prakriti) ۔ مادہ، فطرت، غیر شعوری طاقت
ب۔ پوروش (Purusha) ۔ شعور، روح، تماشائی
سانکھیا کے مطابق جب پرکرتی اور پوروش ایک دوسرے سے تعلق بناتے ہیں تو پوری کائنات، زمان و مکان، ذہن، عقل، انا، عناصر، اور مخلوق وجود میں آتے ہیں۔
6. ویدوں کے مطابق تخلیق:
ناسدیہ سوکت (Nasadiya Sukta ۔ رگ وید 10.129):
یہ ویدوں کا سب سے مشہور اور فلسفیانہ تخلیقی بیان ہے، جو سوالات سے بھرپور ہے۔ اس میں کہا گیا:
"نہ تو اس وقت آسمان تھا، نہ زمین، نہ دن، نہ رات۔
نہ ہوا تھی، نہ روشنی، نہ اندھیرا۔
نہ کچھ تھا، نہ کچھ نہیں تھا۔
پھر، کسی چیز نے، شاید خواہش نے، پہلا ارتعاش پیدا کیا،
اور وہی سب کچھ بن گیا۔
کیا خود خالق کو بھی معلوم ہے کہ یہ سب کیسے ہوا؟"
یہ سوکت اس بات پر زور دیتا ہے کہ تخلیق کی اصل راز صرف پرم برہمن ہی جانتا ہے۔ شاید وہ بھی نہیں۔
حاصل کلام یہ ہے:
الف۔ ہندو مت کے مطابق کائنات کی تخلیق ایک ازلی اور دائرہ نما عمل ہے۔
ب۔ ایک غیر شخصی الٰہی حقیقت (برہمن) سب کچھ کی اصل ہے۔
ت۔ برہما، وشنو، اور شیو اس کائناتی عمل کے تخلیق، حفاظت اور فنا کے نمائندے ہیں۔
ث۔ سانکھیا فلسفہ اور ویدوں کے اقوال تخلیق کو مختلف زاویوں سے بیان کرتے ہیں۔
اب انشاءاللہ ، میں تمھیں ہندووں کے مزید عقائد، تخلیقی مراحل اور وقت کا چکر بتاوں گا۔
کائنات کے تخلیقی مراحل، وقت کا چکر (یُگ)، اور مہا پرلہ (کائناتی فنا)
1. ہندو مت میں "وقت" کا تصور ۔ یُگ (Yuga) کا نظام
ہندو مت میں کائنات صرف ایک بار تخلیق نہیں ہوتی بلکہ یہ مسلسل "پیدائش، اس کے بعد بقا اور پھر فنا" کے چکروں سے گزرتی رہتی ہے۔ اس وقت کے چکر کو "کلپ" (Kalpa) اور "یُگ" (Yuga) کہا جاتا ہے، جو سنسار (جہان) کی روحانی و جسمانی تبدیلیوں کا احاطہ کرتا ہے۔
2. چار یُگ کا نظام:
الف۔ ستر یُگ (Satya Yuga)
اس یُگ کو کرتیا یُگ بھی کہا جاتا ہے۔ یہ سب سے پہلا اور طویل ترین دور ہے جس میں صداقت، نیکی اور روحانیت اپنے عروج پر ہوتے ہیں۔ اس دور میں انسان لمبی عمر پاتے ہیں (ہزاروں سال)، جھوٹ و گناہ ناپید ہوتا ہے۔
ب۔ تریتا یُگ (Treta Yuga)
اس میں نیکی کم ہوتی ہے، اور گناہ کا آغاز ہوتا ہے۔ رام چندر جی اسی یُگ میں آئے۔ دھرم چار پاؤں سے تین پاؤں پر آ جاتا ہے۔
ت۔ دوآپَر یُگ (Dvapara Yuga)
نیکی اور بدی تقریباً برابر ہو جاتی ہے۔ کرشن جی اسی یُگ میں ظاہر ہوتے ہیں۔
ث۔ کلی یُگ (Kali Yuga)
موجودہ یُگ کو کہتے ہیں۔ گناہ، دھوکہ، ظلم اور مادیت کا دور ہے۔ نیکی کمزور اور بدی طاقتور ہو جاتی ہے۔ اس یُگ میں انسان کی عمر، طاقت، سچائی اور روحانیت سب کم ہو جاتے ہیں۔
3. ایک مکمل چکر (مہا یُگ / Chatur Yuga):
ایک ستر یُگ = 1,728,000 انسانی سال
ایک تریتا یُگ = 1,296,000 سال
ایک دوآپَر یُگ = 864,000 سال
ایک کلی یُگ = 432,000 سال
کل مہا یُگ = 4,320,000 سال
4. کلپ (Kalpa) اور برہما کا دن:
ہندو روایات کے مطابق:
برہما کا ایک دن = 1,000 مہا یُگ = 4.32 بلین انسانی سال
برہما کی ایک رات بھی اتنی ہی طویل ہوتی ہے۔
اس ایک دن میں کائنات تخلیق کی جاتی ہے، اور رات میں فنا (مہا پرلہ) ہو جاتی ہے۔
ایک برہما کی زندگی = 100 برہما سال = 311.04 کھرب (trillion) انسانی سال۔
اس کے بعد بھی ایک نئی کائنات پیدا ہوتی ہے، اور یہ سلسلہ لامتناہی ہے۔
5. تخلیق کے مراحل (برہما کا تخلیقی نظام):
الف۔ سروجا جنم (Sarga)
یہ وہ مرحلہ ہے جب برہما "پرجاپتی" (تمام مخلوقات کے باپ) کے طور پر کائنات کے بنیادی اصول، دیوتاؤں، رشیوں (صوفیوں)، گندھرووں (روحانی گلوکاروں)، ناگوں (سانپوں)، اور انسانوں کو تخلیق کرتے ہیں۔
ب۔ ویسرگا (Visarga)
برہما نے جن مخلوقات کو پیدا کیا، وہ خود بھی تخلیق کے قابل ہو جاتے ہیں۔ جیسے منو، جو انسانوں کی نسل شروع کرتے ہیں۔ رشی، جو وید اور روحانی تعلیمات پھیلاتے ہیں۔ دیوتا، جو فطرت کے عناصر کے محافظ ہیں۔
ت۔ ستھی (Sthiti)
یہ وہ مرحلہ ہے جب وشنو مخلوقات کے نظام کو برقرار رکھتے ہیں۔ جیسے برسات کا نظام، روشنی، موت و زندگی، کارما، جنم و پونرجنم (punarjanma – دوبارہ جنم) وغیرہ۔
6. مہا پرلہ (Maha Pralaya) ۔ کائناتی فنا:
جب برہما کا دن ختم ہوتا ہے تو ساری مخلوق، ساری کائنات، دیوتا، زمین، آسمان سب فنا ہو جاتے ہیں۔ اسے کہتے ہیں"مہا پرلہ" یعنی کائناتی فنا۔ یہ فنا کسی عذاب کی شکل میں نہیں آتی بلکہ یہ فطری چکر کا ایک مرحلہ ہے۔ سب کچھ "برہمن" میں واپس جذب ہو جاتا ہے۔
لیکن فنا کا مطلب مکمل ختم ہونا نہیں، بلکہ نیند میں جانا ہے۔ برہما کے دن کی طرح، جب وہ نیند سے اٹھتے ہیں تو نئی تخلیق کا عمل پھر سے شروع ہوتا ہے۔
حاصل کلام یہ ہے کہ
الف۔ ہندو مت کے مطابق وقت ایک دائرہ ہے، لکیر نہیں۔
ب۔ کائنات کئی بار پیدا ہوتی، فنا ہوتی، اور دوبارہ وجود میں آتی ہے
ت۔ ہر دور (یُگ) میں روحانیت کی سطح بدلتی ہے۔
ث۔ برہما، وشنو، اور شیو تخلیق، حفاظت اور فنا کے نمائندے ہیں۔
ج۔ "مہا پرلہ" کے بعد کائنات ایک نئے چکر میں داخل ہو جاتی ہے۔
اب میں تمھیں ہندوؤں کے روح، کرم (کارما)، اور پونرجنم (Punrajanma یعنی دوبارہ جنم) کا نظام کے بارے میں سمجھاتا ہوں۔
روح، کرم (کارما)، اور پونرجنم (Punrajanma۔ دوبارہ جنم) کا نظام
1. روح (آتما) کا مقام
ہندو مت میں انسان صرف جسم نہیں بلکہ ایک روحانی وجود ہے۔ ہر انسان، ہر جاندار میں ایک آتما (Ātman) موجود ہے، جو نہ پیدا ہوتی ہے، نہ مرتی ہے، نہ فنا ہوتی ہے۔ بلکہ یہ ابدی (ازلی و ابدی) ہے۔
یہی آتما برہمن (Ultimate Reality) کا ایک جزو ہے۔ آتما کی اصلی منزل موکش (Moksha ۔ نجات، برہمن میں دوبارہ واپسی) ہے۔ لیکن آتما اس دنیا میں بار بار آتی ہے کیونکہ اس پر کرم (عمل) کے اثرات باقی ہوتے ہیں۔
2. کرم (Karma) ۔ عمل کا قانون
ہندو عقیدے کے مطابق "کرم کا قانون" سب سے بنیادی اصول ہے جو تخلیق اور زندگی کو چلاتا ہے۔ اور کہتے ہیں کہ جیسے کرم، ویسا پھل۔ یعنی نیک اعمال ہوں گے۔ ان کے اچھے نتائج ملیں گے۔ اور پھر اعلیٰ جنم یا جنت جیسی حالت میں جنم ہو گا۔ اگر برے اعمال ہوں گے تو دکھ مصیبت اور نچلے درجے کا جنم ملے گا۔
کرم کے اثرات مرنے کے بعد بھی ساتھ جاتے ہیں۔ یہی اثرات انسان کو اگلے جنم میں ایک خاص جسم، خاندان، حالات اور مقام عطا کرتے ہیں۔
3. پونرجنم (Punrajanma) ۔ دوبارہ جنم کا قانون
ہندو مت کے مطابق روح مرنے کے بعد فنا نہیں ہوتی بلکہ ایک جسم سے نکل کر دوسرے جسم میں داخل ہو جاتی ہے۔ یہی عمل پونرجنم (Rebirth/Transmigration of Soul) کہلاتا ہے۔ روح کا نیا جنم انسان، جانور، پرندہ، یا کسی اور صورت میں ہو سکتا ہے۔ یہ سب کرم اور سنکارا (چھپے ہوئے ذہنی اثرات) پر منحصر ہے۔
4. جنم کا دائرہ (Samsara):
سنسار وہ دائروی چکر ہے جس میں روح مسلسل جنم اور مرنے کا سلسلہ جاری رکھتی ہے۔ ہر جنم میں روح کو یہ موقع دیا جاتا ہے کہ وہ اپنے کرم بہتر کرے۔ سچائی اور عبادت کی طرف لوٹے اور آخرکار "موکش" حاصل کرے۔
5. موکش (Moksha) ۔ نجات
ہندو تخلیق کے نظام کا مقصد صرف جنم لینا یا دنیا میں کامیابی حاصل کرنا نہیں بلکہ سنسار کے چکر سے نکل کر پرم برہمن میں دوبارہ شامل ہو جانا ہے۔
یہی نجات ہے: موکش۔
جس انسان نے سچائی کو پایا۔ روحانی تعلیمات کو اپنایا۔ دنیاوی خواہشات کو ترک کیا۔ اپنی آتما کو پاک کر لیا تو وہ اس چکر سے آزاد ہو جاتا ہے اور پرم شانتی (Ultimate Peace) کو پا لیتا ہے۔
6. یوگ اور گیان کے ذریعے نجات کا راستہ
ہندو مت میں روح کی پاکیزگی اور نجات کے کئی راستے بیان کیے گئے ہیں:
الف۔ کرما یوگ۔ نیک عمل کا راستہ
ب۔ بھکتی یوگ۔ اللہ (بھگوان) سے محبت اور عبادت
ت۔ گیان یوگ۔ علم، مراقبہ، اور اندرونی معرفت
ث۔ راجہ یوگ۔ ذہنی کنٹرول، آسن، پرانایام، دھیان
یہ راستے انسان کو بتاتے ہیں کہ وہ اس تخلیق میں اپنے وجود کو کیسے پہچانے اور برہمن سے دوبارہ کیسے ملے۔
حاصل کلام یہ ہے کہ:
الف۔ ہر انسان میں آتما موجود ہے، جو ازلی و ابدی ہے۔
ب۔ کرم انسان کے اعمال کا ذخیرہ ہے جو جنم در جنم ساتھ رہتا ہے
ت۔ پونرجنم اس کرم کا نتیجہ ہے
ث۔ انسان بار بار پیدا ہوتا ہے جب تک موکش حاصل نہ کرے
ج۔ تخلیق کا مقصد صرف مادی دنیا نہیں بلکہ روحانی نجات ہے۔
اب انشاءاللہ ، میں تمھیں ہندووں کے مختلف مکاتب فکراور اساطیری عقائد بتاوں گا۔
مختلف مکاتبِ فکر، دیومالائی حکایات، اور تخلیق کے علامتی اساطیری عقائد
1. ہندو مت کے مختلف مکاتبِ فکر میں تخلیق کا تصور:
ہندو مت کوئی ایک جامد نظام نہیں بلکہ ایک وسیع و متنوع دینی، فلسفیانہ اور ثقافتی روایت ہے۔ اس کے مختلف مکاتبِ فکر میں تخلیقِ کائنات کے بارے میں الگ الگ تشریحات ملتی ہیں:
الف۔ ویدانتی فکر (Vedanta School):
ویدانت کا مرکز "برہمن" ہے۔ یعنی ایک غیر شخصی، ابدی حقیقت۔ اس فکر کے مطابق پوری کائنات برہمن کی ایک "مایا" (مایہ ۔ یعنی ظاہری مظاہر) ہے۔ دنیا کا وجود برہمن کی شعور سے ظہور پذیر ہوا، لیکن یہ حقیقت کا صرف ایک عکس ہے۔ تخلیق کو یہاں سچ اور مایہ کے درمیان جدوجہد کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔
ب۔ سانکھیا فلسفہ (Sāṅkhya Philosophy):
یہ دو ازلی عناصر کا قائل ہے یعنی پوروش (روح) پرکرتی (مادہ / فطرت)۔ پرکرتی کے اندر تین "گن" (صفات) ہیں:
1. ستوگن (روشنی، علم)
2. رجوگن (حرکت، خواہش)
3. تموگن (تاریکی، جہالت)
ان تینوں کے ملاپ سے کائنات کے اجزاء اور مظاہر پیدا ہوتے ہیں۔
ت۔ شیو مت (Shaivism):
اس مکتبِ فکر میں تخلیق کی ابتدا شیو (Mahesh) سے مانی جاتی ہے۔ شیو بذاتِ خود ساکت (static) ہیں، اور ان کی بیوی شکتی (توانائی، عمل کی قوت) کے ذریعے کائنات تخلیق ہوتی ہے۔ شیو اور شکتی کے اتحاد کو تخلیقِ کائنات کا منبع سمجھا جاتا ہے۔
ث۔ وشنو مت (Vaishnavism):
وشنو اس مکتب میں اعلیٰ ہستی ہیں جو تخلیق، حفاظت اور فنا پر قابو رکھتے ہیں۔ برہما، وشنو کی ناف سے پیدا ہوتے ہیں؛ اور شیو وشنو کی خواہش سے تخریبی قوت کے طور پر کام کرتے ہیں۔
2. دیومالائی (Mythological) حکایات میں تخلیق
ہندو دیو مالا میں تخلیق کو تمثیلی و استعارہاتی انداز میں بیان کیا جاتا ہے:
الف۔ پرجاپتی کی قربانی (Creation through Sacrifice):
رت وید میں بیان آتا ہے کہ کائنات کی تخلیق ایک کائناتی قربانی کے ذریعے ہوئی، جسے "پرجاپتی" نے خود کو قربان کر کے انجام دیا۔ اس قربانی سے سورج، چاند، آکاش، زمین، وید، اور ذاتیں (ورنا) نکلیں۔ یہ حکایت تخلیق کو ایک روحانی و اخلاقی عمل کے طور پر بیان کرتی ہے۔
ب۔ کششِ سمندر (Samudra Manthan):
ایک مشہور دیومالائی واقعہ جس میں دیوتا اور راکشس (دیوتا کے دشمن) مل کر "کشیر ساگر" (دودھ کا سمندر) کو مَنتھن (بل) کرتے ہیں تاکہ امرت (امر ہونے کی دوا) حاصل کریں۔ اس عمل سے لکشمی دیوی (دولت)، کامدھینو (معجزاتی گائے)، ایراوت (ہاتھی)، اور وشنو کا اوتار نکلتا ہے۔ اس حکایت میں تخلیق کو کششِ باطن، جدوجہد، اور توازن سے جوڑا گیا ہے۔
ج۔ ہنسا (Hans – راج ہنس) کی پرواز:
بعض اپنشدوں میں کائنات کی تخلیق کی تمثیل راج ہنس (Hans) کے ذریعے کی جاتی ہے جو برہما کا مظہر ہوتا ہے اور خلا میں پرواز کرتا ہے۔ اس کی "آواز" (اوَم – Om) سے ساری کائنات کی لہریں اور ارتعاشات پیدا ہوتے ہیں۔
اب میں تمھارے سامنے ہندو مت اور اسلام کے تصورِ تخلیق کائنات کا ایک جامع، تحقیقی اور روحانی تقابلی جائزہ پیش کرتا ہوں۔ یہ جائزہ درج ذیل پہلوؤں پر مشتمل ہوگا:
1. تخلیق کی اصل (منبع)
2. ذات الٰہی اور صفات کا عقیدہ
3. کائنات کی تخلیق کا طریقہ
4. وقت (یُگ یا زمان) کا عقیدہ
5. روح اور دوبارہ جنم یا آخرت
6. زندگی کا مقصد اور نجات
7. تقابلی جدول
8. نتیجہ: وحدانیت اور وحدت میں فرق
اب انشاءاللہ میں تمھیں ہندووں کے مذہب اور اسلام کے درمیان اپنا جائزہ بتاتا ہوں۔
اسلام اور ہندو مت کے درمیان تخلیقِ کائنات کا تقابلی جائزہ
1. تخلیق کی اصل (منبع)
اسلام اور ہندو مت دونوں مذاہب تخلیقِ کائنات کو ایک عظیم اور روحانی حقیقت مانتے ہیں، لیکن دونوں کا نقطۂ نظر، طریقہ کار، اور روحانی مفہوم ایک دوسرے سے بہت مختلف ہے۔ جہاں اسلام ایک مطلق اور ذات اللّٰہ کے خالص تصور پر قائم ہے، وہیں ہندو مت ایک کثیرالوجود، تمثیلی اور روحانی مظاہر پر مبنی نظام رکھتا ہے۔
اسلام کے مطابق، تخلیقِ کائنات کا آغاز اللہ تعالیٰ کی قدرتی صفات اور اس کے حکم "کُن فَیَکُونُ" سے ہوا۔ قرآن مجید اس بات کی وضاحت کرتا ہے کہ اللہ نے آسمان و زمین کو چھ دنوں میں پیدا کیا، اور وہ ہر شے پر قادر ہے۔ اس کے برعکس ہندو مت میں تخلیق کو ایک دائرہ نما تسلسل تصور کیا جاتا ہے، جس میں کائنات بار بار پیدا ہوتی، بگڑتی اور فنا ہو کر پھر نئے سرے سے تخلیق ہوتی ہے۔
2. ذات الٰہی اور صفات کا عقیدہ
اسلام میں خدا یعنی "اللہ" ایک واحد، لاشریک، ازلی اور ابدی ہستی ہے جو نہ پیدا ہوا ہے نہ پیدا کیا گیا ہے۔ اسے کسی چیز کی ضرورت نہیں، اور وہ ہر چیز سے بلند و برتر ہے۔ ہندو مت میں تخلیق کا منبع ایک غیر شخصی حقیقت ہے جسے "برہمن" کہا جاتا ہے۔ برہمن نہ مذکر ہے، نہ مؤنث، نہ مخلوق ہے، نہ خالق، کے طور پر روایتی معنوں میں بیان کیا جاتا ہے، بلکہ اسے ہر چیز کی جڑ مانا جاتا ہے۔
3. کائنات کی تخلیق کا طریقہ
اسلام میں اللہ نے براہِ راست کائنات کو پیدا کیا۔ اس کے حکم سے عرش، قلم، لوح محفوظ، پانی، آسمان و زمین، اور پھر انسان تخلیق کیے گئے۔ قرآن کے مطابق انسان مٹی سے پیدا ہوا اور اسے علم، روح، اور خلافت عطا کی گئی۔ ہندو مت میں تخلیق کا عمل کئی دیوی دیوتاؤں کی صورتوں میں بیان کیا جاتا ہے۔ برہما کو تخلیق کنندہ، وشنو کو محافظ، اور شیو کو فنا کرنے والا سمجھا جاتا ہے۔ ہندو اساطیر میں برہما وشنو کی ناف سے پیدا ہوتے ہیں اور تخلیق کا کام سنبھالتے ہیں۔
4. وقت (یُگ یا زمان) کا عقیدہ
اسلام وقت کو ایک خطی ترتیب میں دیکھتا ہے۔ یعنی ابتدا، وسط، اور اختتام۔ تخلیق کے بعد ایک مقررہ وقت پر قیامت آئے گی، اور پھر آخرت کا ابدی نظام شروع ہوگا۔ اس کے برعکس ہندو مت میں وقت کا تصور دائرہ نما ہے۔ وہاں "یُگ" کہلاتے ادوار ہیں: ست یُگ، تریتا یُگ، دوآپَر یُگ، اور کلی یُگ، جن کا مجموعہ ایک مہا یُگ کہلاتا ہے۔ ان یُگوں کے دہرائے جانے سے کائنات کی تخلیق، بقا اور فنا بار بار ہوتی ہے۔
5. روح اور دوبارہ جنم یا آخرت
روح کے بارے میں بھی دونوں مذاہب میں بنیادی فرق پایا جاتا ہے۔ اسلام میں روح کو اللہ کی مخلوق سمجھا جاتا ہے جو مرنے کے بعد قبر اور قیامت سے گزرتی ہے، اور پھر ابدی جنت یا جہنم میں داخل ہوتی ہے۔ ہندو مت میں روح (آتما) کو برہمن کا جزو مانا جاتا ہے، جو نہ پیدا ہوتی ہے نہ مرتی، بلکہ "پونرجنم" یعنی دوبارہ جنم کے عمل سے بار بار دنیا میں آتی ہے، یہاں تک کہ وہ "موکش" حاصل کر کے دوبارہ برہمن میں جذب ہو جائے۔
6. زندگی کا مقصد اور نجات
اسلام میں نجات (نجات) کا عقیدہ ایمان، عمل صالح، تقویٰ، اور اللہ کی رضا پر مبنی ہے۔ بندہ اللّٰہ کی بندگی کرے، نبیوں کی اطاعت کرے، اور دنیا میں اچھا عمل کرے تو وہ جنت کا حقدار بنتا ہے۔ ہندو مت میں نجات یعنی "موکش" اس وقت حاصل ہوتی ہے جب آتما دنیا کے بندھنوں، خواہشات، اور کرم کے اثرات سے مکمل آزاد ہو کر دوبارہ برہمن میں جذب ہو جاتی ہے۔ یہ آزادی یوگ، گیان، ترک دنیا، اور بھگتی کے راستے سے حاصل کی جاتی ہے۔
7. میرا جائزہ
اسلام میں خدا کا کوئی شریک، اوتار، یا مادی مظہر نہیں۔ "اللہ" نہ کسی میں حلول کرتا ہے، نہ کسی انسان یا دیوی دیوتا کی شکل اختیار کرتا ہے۔ اس کے برعکس ہندو مت میں برہمن مختلف دیوی دیوتاؤں، اوتاروں، اور علامتی مظاہر کے ذریعے ظاہر ہوتا ہے، جیسے کرشن، رام، دیوی لکشمی، اور شیو۔
اسلام کا مقصد انسان کو اللہ کی بندگی، اخلاص، اور ابدی کامیابی کی طرف لانا ہے، جبکہ ہندو مت روح کو سنسار (دنیاوی چکر) سے نکال کر "موکش" کی طرف گامزن کرتا ہے۔
8. وحدانیت اور وحدت میں فرق
آخر میں، اسلام اور ہندو مت دونوں روحانیت، اخلاق، اور انسانی ارتقاء پر زور دیتے ہیں، لیکن ان کی بنیادیں، الٰہی تصور، اور تخلیقِ کائنات کی تشریحیں ایک دوسرے سے جدا ہیں۔ اسلام توحید محض اور یگانگت کی تعلیم دیتا ہے، جب کہ ہندو مت میں کثرت میں وحدت (Unity in Diversity) کی جھلک ملتی ہے۔
یہ فرق نہ صرف مذہبی تعلیمات کا ہے، بلکہ کائنات، انسان، اور آخرت کے بارے میں ایک الگ روحانی شعور کی بھی نمائندگی کرتا ہے۔
آپ کا فیصلہ؟
اب آپ اپنا فیصلہ فرمائیں کہ اس زندگی کے بعد آپ کہاں جائیں گے، جنت یا جہنم؟ آپ کو کونسا مذہب حق پر لگا؟
وما علینا الاالبلاغ المبین
اور میرے ذمے تو صاف صاف پہنچا دینا ہے۔
اس کے بعد انشاءاللہ میں تمہیں عیسائیت کے تخلیق کائنات کے بارے میں عقائد کو تفصیل سے بتاؤں گا۔