سورۃ الجمعہ 62 ۔ آسان اردو تفسیر

0


surah_al_jummah_asaan_urdu_tafseer_meas_momin
Surah Al-Jummah Asaan Urdu Tafseer


 سورۃ نمبر 62 الجمعة آسان اردو تفسیر 


آپ سورۃ الجمعہ کی آسان اردو میں تفسیر کو یہاں ملاحظہ فرمائیں ۔


أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ


آیت نمبر 1

يُسَبِّحُ لِلّٰهِ مَا فِى السَّمٰوٰتِ وَمَا فِى الۡاَرۡضِ الۡمَلِكِ الۡقُدُّوۡسِ الۡعَزِيۡزِ الۡحَكِيۡمِ ۞ 


ترجمہ:

الله کی پاکی بولتا ہے جو کچھ کہ ہے آسمانوں میں اور جو کچھ کہ ہے زمین میں بادشاہ پاک ذات زبردست حکمتوں والا


آسان اردو تفسیر:

 سب چیزیں جو آسمانوں میں ہیں اور جو کچھ زمین میں ہیں (قلاً یا حالاً) الله کی پاکی بیان کرتی ہیں، جو کہ بادشاہ ہے (عیبوں سے) پاک ہے زبردست ہے حکمت والا ہے وہی ہے جس نے (عرب کے) ناخواندہ لوگوں میں انہی (کی قوم) میں سے (یعنی عرب میں سے) ایک پیغمبر بھیجا جو ان کو الله کی آیتیں پڑھ پڑھ کر سناتے ہیں اور ان کو (عقائد باطلحہ اور اخلاق ذمیمہ سے) پاک کرتے ہیں اور ان کتاب اور دانشمندی (کی باتیں جس میں سب علوم ضروریہ دینیہ آگئے) سکھلاتے ہیں اور یہ لوگ (آپ کی بعثت کے) پہلے سے کھلی گمراہی میں تھے (یعنی شرک و کفر میں اور مراد اکثر ہیں کیونکہ جاہلیت میں بھی بعضے موحد تھے، مگر تاہم تکمیل ہدایت کے وہ بھی مداح تھے) اور (علاوہ ان موجودین کے) دوسروں کے لئے بھی (آپکو مبعوث فرمایا) جو (اسلام لا کر) ان میں سے ہونے والے ہیں لیکن ہنوز ان میں شامل نہیں ہوئے (خواہ بوجہ اس کے کہ موجود ہیں مگر اسلام نہیں لائے یا بوجہ اس کے کہ ابھی پیدا ہی نہیں ہوئے اس میں تمام امت قیامت تک عربی و عجمی سب آگئے اور ان کو منہم اس لئے فرمایا، کیونکہ مسلمان سب رشتہ اسلام میں منسلک اور متحد ہیں کذافی الخازن) اور وہ زبردست حکمت والا ہے (کہ اپنی قدرت اور حکمت ایسا نبی بھیجا اور پہلی آیت میں فی نفسہ ان صفات کا اثبات مقصود تھا پس تکرار نہ رہا اور) یہ (رسول کے ذریعہ سے ضلال سے نکل کر کتاب و حکمت و ہدایت کی طرف آنا) خدا کا فضل ہے وہ فضل جس کو چاہتا ہے دے دیتا ہے اور الله بڑے فضل والا ہے (اگر سب کو بھی عنایت کرے تو وسعت ہے مگر وہ اپنی حکمت سے جس کو چاہے تخصیص فرماتا ہے اور جس کو چاہے بےبہرہ رکھتا ہے، جیسا کہ اوپر امیین کے ایمان لانے سے اور آئندہ کی آیت میں علماء یہود کے ایمان نہ لانے سے یہ امر ظاہر ہے، آگے بعض مکذبین رسالت کی تقبیح ہے کہ) جن لوگوں کو تورات پر عمل کرنے کا حکم دیا گیا پھر انہوں نے اس پر عمل نہیں کیا ان کی حالت اس گدھے کی سی حالت ہے جو بہت سی کتابیں لادے ہوئے ہے (مگر ان کتب کے نفع سے محروم ہے، اسی طرح اصل مقصود اور نفع علم کا عمل ہے جب یہ نہ ہوا اور صرف تحصیل و حفظ علم میں تعب ہوا تو بالکل ایسی ہی مثال ہوگئی اور گدھے کی تخصیص اس لئے کہ وہ جانوروں میں بیوقوف مشہور ہے تو اس میں زیادہ تنفیر ہوگئی غرض) ان لوگوں کی بری حالت ہے، جنہوں نے خدا کی آیتوں کو جھٹلایا (جیسے یہ یہود ہیں) اور الله تعالیٰ ایسے ظالموں کو (توفیق) ہدایت (کی) نہیں دیا کرتا (کیونکہ جان کر عناد کرتے ہیں اور اگر ہدایت ہوگی تو بعد ترک عنا کے ہوگی اور تورات پر عمل کرنے کے لوازم میں سے ہے ایمان لانا آنحضرت پر جیسا کہ اس میں حکم ہے، پس ایمان نہ لانا مستلزم ہے ترک عمل بالتوراة کو اور اگر یہ لوگ یہ کہیں کہ ہم باوجود اس حالت کے بھی الله کے مقبول ہیں تو) آپ (ان سے) کہہ دیجئے کہ اے یہودیوں اگر تمہارا یہ دعویٰ ہے کہ تم بلا شرکت غیرے الله کے مقبول (محبوب) ہو تو تم (اس کی تصدیق کے لئے ذرا) موت کی تمنا کر (کے دکھلا) دو اگر تم (اس دعوے میں) بچے ہو اور (ہم ساتھ ہی یہ کہہ دیتے ہیں کہ) وہ (خاص مدعی) کبھی اس (موت) کی تمنا نہ کریں بوجہ (خوف سزا) ان اعمال (کفریہ) کے جو اپنے ہاتھوں سمیٹے ہیں اور الله تعالیٰ کو خوب اطلاع ہے ان ظالموں (کے حال) کی (جب تاریخ مقدمہ کی آوے گی، فرد قرار داد جرم سنا کر سزا کا حکم کردیا جائے گا اور اس وعدہ سزا کی تاکید کیلئے) آپ (ان سے یہ بھی) کہہ دیجئے کہ جس موت سے تم بھاگتے ہو (اور اس کی تمنا باوجود دعویٰ ولایت کے اس لئے نہیں کرتے ہو کہ سزا بھگتنا ہوگی) وہ (موت ایک روز) تم کو آپکڑے گی پھر تم پوشیدہ اور ظاہر کے جاننے والے (خدا) کے پاس لے جائے جاؤ گے پھر وہ تم کو تمہارے سب کئے ہوئے کام بتلا دے گا (اور سزا دے گا)۔

 

(آیت) يُسَـبِّحُ لِلّٰهِ مَا فِي السَّمٰوٰتِ وَمَا فِي الْاَرْض، قرآن کریم کی جو سورتیں سبح یا یسبح سے شروع ہوتی ہیں ان کو مسبحات کہا جاتا ہے، ان سب میں تمام زمین و آسمان اور جو کچھ ان میں ہے سب کیلئے الله تعالیٰ کی تسبیح خوانی ثابت کی گئی ہے، یہ تسبیح حالی یعنی بزبان حال تو ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ الله تعالیٰ کی مخلوقات کا ذرہ ذرہ اپنے صانع حکیم کی حکمت وقدرت پر گواہی دیتا ہے یہی اس کی تسبیح ہے اور صحیح بات یہ ہے کہ ہر چیز اپنے اپنے طرز میں حقیقی تسبیح کرتی ہے، کیونکہ حقیقت یہ ہے کہ شعور و ادراک الله تعالیٰ نے ہر شجر و حجر اور ہر چیز میں اس کے حوصلے کے مطابق رکھا ہے اس عقل و شعور کا لازمی تقاضا تسبیح ہے مگر ان چیزوں کی تسبیح کو لوگ سنتے نہیں، اسی لئے قرآن کریم میں فرمایا (آیت) ولکن لاتفقہون تسبیحہم، اکثر سورتوں کے شروع میں سبح بصیغہ ماضی آیا ہے، صرف سورة جمعہ اور سورة تغابن میں بلفظ مضارع یسبح لایا گیا ہے، تیغیر عنوان میں ایک بلاغت و لطافت بھی اس کا سبب ہوگئی ہے وہ یہ ہے کہ صیغہ ماضی قطعیت اور یقین پر دلالت کرتا ہے اس لئے اکثر وہی استعمال فرمایا اور رصیغہ مضارع کی دلالت اسمرار و دوام پر ہے، دو جگہ اس فائدہ کے لئے صیغہ مضارع استعمال فرمایا۔


آیت نمبر 2

هُوَ الَّذِىۡ بَعَثَ فِى الۡاُمِّيّٖنَ رَسُوۡلًا مِّنۡهُمۡ يَتۡلُوۡا عَلَيۡهِمۡ اٰيٰتِهٖ وَيُزَكِّيۡهِمۡ وَيُعَلِّمُهُمُ الۡكِتٰبَ وَالۡحِكۡمَةَ وَاِنۡ كَانُوۡا مِنۡ قَبۡلُ لَفِىۡ ضَلٰلٍ مُّبِيۡنٍۙ ۞ 


ترجمہ:

وہی ہے جس نے اٹھایا ان پڑھوں میں ایک رسول انہی میں کا پڑھ کر سناتا ہے ان کو اس کی آیتیں اور ان کو سنوارتا ہے اور سکھلاتا ہے ان کو کتاب اور عقلمندی اور اس سے پہلے وہ پڑے ہوئے تھے صریح بھول میں


آسان اردو تفسیر:

(آیت) هُوَ الَّذِيْ بَعَثَ فِي الْاُمِّيّٖنَ رَسُوْلًا مِّنْهُم، امیین، امی کی جمع ہے، ناخواندہ شخص کو کہا جاتا ہے، عرب کے لوگ اس لقب سے معروف ہیں، کیونکہ ان میں نوشت و خواند کا رواج نہیں تھا بہت آدمی لکھے پڑھے ہوتے تھے، اس آیت میں حق تعالیٰ کی عظیم قدرت کے اظہار کے لئے خاص طور پر عربوں کے لئے یہ لقب اختیار فرمایا اور یہ بھی کہ جو رسول بھیجا گیا وہ بھی انہی میں سے ہے یعنی امی ہے، اس لئے یہ معاملہ بڑا حیرت انگیز ہے کہ قوم ساری امی اور جو رسولبھیجا گیا وہ بھی امی اور جو فرائض اس رسول کے سپرد کئے گئے جن کا ذکر اگلی آیت میں آ رہا ہے وہ سب علمی تعلیمی اصلاحی ایسے ہیں کہ نہ کوئی امی ان کو سکھا سکتا ہے اور نہ امی قوم ان کو سیکھنے کے قابل ہے۔

یہ صرف حق تعالیٰ جل شانہ کی قدرت کا ملہ سے رسول الله ﷺ کا اعجاز ہی ہوسکتا ہے کہ آپ نے جب تعلیم و اصلاح کا کام شروع فرمایا تو انہی امیین میں وہ علماء اور حکماء پیدا ہوگئے جن کے علم و حکمت، عقل و دانش اور ہر کام کی عمدہ صلاحیت نے سارے جہان سے اپنا لوہا منوالیا۔

بعثت نبوی کے تین مقصد

(آیت) يَتْلُوْا عَلَيْهِمْ اٰيٰتِهٖ وَيُزَكِّيْهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتٰبَ وَالْحِكْمَةَ۔ اس آیت میں رسول الله ﷺ کے تین وصف نعمائے الٰہیہ کے ضمن میں بتلائے گئے ہیں ایک تلاوت آیات قرآن یعنی قرآن پڑھ کر امت کو سنانا، دوسرے ان کو ظاہری اور باطنی ہر طرح کی گندگی اور نجاست سے پاک کرنا، جس میں بدن اور لباس وغیرہ کی ظاہری پاکی بھی داخل ہے اور عقائد و اعمال اور اخلاق و عادات کی پاکیزگی بھی، تیسرے تعلیم کتاب و حکمت۔

یہ تینوں چیزیں امت کے لئے حق تعالیٰ کے انعامات میں ہیں اور رسول الله ﷺ کی بعثت کے مقاصد بھی۔

 يَتْلُوْا عَلَيْهِمْ اٰيٰتِه، تلاوت کے اصل معنی اتباع و پیروی کے ہیں، اصطلاح میں یہ لفظ کلام الله کے پڑھنے کے لئے استعمال ہوتا ہے اور آیات سے آیات قرآن کریم مراد ہیں، لفظ علیہم سے یہ بتلایا گیا کہ رسول الله ﷺ کا ایک منصب اور مقصد بعثت یہ ہے کہ آیات قرآن لوگوں کو پڑھ کر سنا دیں۔

آیت مذکورہ میں بعثت نبوی کا دوسرا مقصد یزکیھم بتلایا ہے، یہ تزکیہ سے مشتق ہے، جس کے معنی پاک کرنے کے ہیں، بیشتر مغوی اور باطنی پاکی کے لئے بولا جاتا ہے، یعنی کفر و شرک اور برے اخلاق و عادات سے پاک ہونا اور کبھی مطلقاً ظاہری اور باطنی پاکی کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے، یہاں بظاہر یہی عام معنی مراد ہیں۔

تیسرا مقصد يُعَلِّمُهُمُ الْكِتٰبَ وَالْحِكْمَةَ ، کتاب سے مراد قرآن کریم اور حکمت سے مراد وہ تعلیمات و ہدایات ہیں جو رسول الله ﷺ سے قولاً یا عملاً ثابت ہیں، اسی لئے بہت سے حضرات مفسرین نے یہاں حکمت کی تفسیر سنت سے فرمائی ہے۔

ایک سوال و جواب

 یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ بظاہر ترتیب کا تقاضا یہ تھا کہ تلاوت کے بعد تعلیم کا ذکر کیا جاتا اس کے بعد تزکیہ کا، کیونکہ ان تینوں وظائف کی ترتیب طبعی یہی ہے کہ پہلے تلاوت یعنی تعلیم الفاظ پھر تعلیم معانی اور ان دونوں کے نتیجے میں اعمال و اخلاق کی درستی جو تزکیہ کا مفہوم ہے، مگر قرآن کریم میں یہ آیت کئی جگہ آئی ہے، اکثر جگہوں میں ترتیب بدل کر تلاوت اور تعلیم کے درمیان تزکیہ کا ذکر فرمایا ہے۔

 روح المعانی میں اس کی یہ کیفیت بتلائی ہے کہ اگر ترتیب طبعی کے مطابق رکھا جاتا تو یہ تینوں چیزیں مل کر ایک ہی چیز ہوتی جیسے معالجات کے نسخوں میں کئی دوائیں مل کر مجموعہ ایک ہی دوا کہلاتی ہے اور یہاں اسی حقیقت کو واضح کرنا ہے کہ یہ تینوں چیزیں الگ الگ مستقل نعمت خداوندی ہیں اور تینوں کو الگ الگ فرائض رسالت قرار دیا گیا ہے، اس ترتیب کے بدلنے سے اس طرف اشارہ ہوسکتا ہے۔

 اس آیت کی مکمل تفسیر و تشریح بہت سے اہم مسائل و فوائد پر مشتمل سورة بقرہ میں گزر چکی ہے اس کو دیکھ لیا جائے، معارف القرآن جلد اول صفحہ 272 سے 284 تک یہ مضامین آئے ہیں۔


آیت نمبر 3

وَّاٰخَرِيۡنَ مِنۡهُمۡ لَمَّا يَلۡحَقُوۡا بِهِمۡؕ وَهُوَ الۡعَزِيۡزُ الۡحَكِيۡمُ ۞ 


ترجمہ:

اور (اٹھایا اس رسول کو ایک) دوسرے لوگوں کے واسطے بھی انہی میں سے جو ابھی نہیں ملے ان میں اور وہی ہے زبردست حکمت والا


آسان اردو تفسیر:

(آیت) وَّاٰخَرِيْنَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوْا بِهِمْ ۭ وَهُوَ الْعَزِيْزُ الْحَكِيم، آخرین کے لفظی معنی ”دوسرے لوگ“ لَمَّا يَلْحَقُوْا بِهِمْ کے معنی جو ابھی تک ان لوگوں یعنی امیین کے ساتھ نہیں ملے، مراد ان سے وہ تمام مسلمان ہیں جو قیامت تک اسلام میں داخل ہوتے رہیں گے (کماروی عن ابن زید و مجاہد و غیر ہما) اس میں اشارہ ہے کہ قیامت تک آنے والے مسلمان سب کے سب مومنین اولین یعنی صحابہ کرام ہی کے ساتھ ملحق سمجھے جائیں گے، یہ بعد کے مسلمانوں کیلئے بڑی بشارت ہے (روح) 

لفظ آخرین کے عطف میں دو قول ہیں، بعض حضرات نے اس کو امیین پر عطف قرار دیا ہے، جس کا حاصل یہ ہوتا ہے کہ بھیجا الله نے اپنا رسول امیین میں اور ان لوگوں میں جو ابھی ان سے نہیں ملے، اس پر جو یہ شبہ ہوتا ہے کہ امیین یعنی موجودین میں رسول بھیجنا تو ظاہر ہے، جو لوگ ابھی آئے ہی نہیں ان میں بھیجنے کا کیا مطلب ہوگا، اس کا جواب بیان القرآن میں یہ دیا ہے کہ ان میں بھیجنے سے مراد ان کیلئے بھیجنا ہے کیونکہ لفظ فی عربی زبان میں اس معنے کے لئے بھی آتا ہے۔

اور بعض حضرات نے فرمایا کہ اخرین کا عطف یعلمہم کی ضمیر منصوب پر ہے، جس کا مطلب یہ ہوگا کہ آنحضرت ﷺ تعلیم دیتے ہیں امیین کو بھی اور ان لوگوں کو بھی جو ابھی ان کے ساتھ ملے نہیں (اختارہ فی المظہری) 

 صحیح بخاری و مسلم میں حضرت ابوہریرہ کی روایت ہے کہ ہم رسول الله ﷺ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ سورة جمعہ آپ پر نازل ہوئی (اور آپ نے ہمیں سنائی) جب آپ نے یہ آیت پڑھی وّاٰخَرِيْنَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوْا بِهِمْ ، تو ہم نے عرض کیا یا رسول الله ﷺ یہ کون لوگ ہیں جن کا ذکر آخرین کے لفظ سے کیا گیا ہے، آپ نے اس وقت سکوت فرمایا، مکرر سکرر سوال کیا گیا تو رسول الله ﷺ نے اپنا دست مبارک حضرت سلمان فارسی پر رکھ دیا (جو اس وقت مجلس میں موجود تھے) اور فرمایا کہ اگر ایمان ثریا ستارہ کی بلندی پر بھی ہوگا تو ان کی قوم کے کچھ لوگ وہاں سے بھی ایمان کو لے آئیں گے (مظہری) 

اس روایت میں بھی اہل فارس کی تخصیص کا کوئی ثبوت نہیں بلکہ اتنا ثابت ہوا کہ یہ بھی آخرین کے مجموعہ میں داخل ہیں، اس حدیث میں اہل عجم کی بڑی فضیلت ہے (مظہری)


آیت نمبر 4

ذٰ لِكَ فَضۡلُ اللّٰهِ يُؤۡتِيۡهِ مَنۡ يَّشَآءُ ؕ وَاللّٰهُ ذُو الۡفَضۡلِ الۡعَظِيۡمِ ۞ 


لفظی ترجمہ:

ذٰلِكَ: یہ | فَضْلُ اللّٰهِ: اللہ کا فضل ہے | يُؤْتِيْهِ: دیتا ہے اسے | مَنْ يَّشَآءُ: جس کو وہ چاہتا ہے | وَاللّٰهُ: اور اللہ | ذُو الْفَضْلِ: فضل والا ہے | الْعَظِيْمِ: بڑے


ترجمہ:

یہ بڑائی الله کی ہے دیتا ہے جس کو چاہئے اور الله کا فضل بڑا ہے


 

آیت نمبر 5

مَثَلُ الَّذِيۡنَ حُمِّلُوا التَّوۡرٰٮةَ ثُمَّ لَمۡ يَحۡمِلُوۡهَا كَمَثَلِ الۡحِمَارِ يَحۡمِلُ اَسۡفَارًا ؕ بِئۡسَ مَثَلُ الۡقَوۡمِ الَّذِيۡنَ كَذَّبُوۡا بِاٰيٰتِ اللّٰهِ ؕ وَاللّٰهُ لَا يَهۡدِى الۡقَوۡمَ الظّٰلِمِيۡنَ ۞ 


ترجمہ:

مثال ان لوگوں کی جن پر لادی توریت پھر نہ اٹھائی انہوں نے جیسے مثال گدھے کی پیٹھ پر لے چلتا ہے کتابیں بری مثال ہے ان لوگوں کی جنہوں نے جھٹلایا الله کی باتوں کو اور الله راہ نہیں دیتا بےانصاف لوگوں کو


تفسیر:

(آیت) مَثَلُ الَّذِيْنَ حُمِّلُوا التَّوْرٰىةَ ثُمَّ لَمْ يَحْمِلُوْهَا كَمَثَلِ الْحِمَارِ يَحْمِلُ اَسْفَارًا، اسفار، سفر بکسر سین کی جمع ہے، بڑی کتاب کو کہا جاتا ہے، سابقہ آیات میں رسول الله ﷺ کی بعثت و نبوت امیین میں ہونا اور آپ کی بعثت کے تین مقاصد کا ذکر جن الفاظ میں آیتا ہے، پچھلی آسمانی کتاب تورات میں بھی آپ کا ذکر تقریباً انہی الفاظ وصفات کے ساتھ آیا ہے، جس کا مقتضیٰ یہ تھا کہ یہود آنحضرت ﷺ کو دیکھتے ہی آپ پر ایمان لے آتے، مگر ان کو دنیا کے جاہ و مال نے تورات کے احکام سے اندھا کردیا اور باوجود تورات کا علم ہونے کے عمل کے اعتبار سے ایسے ہوگئے جیسے بالکل جاہل ناواقف ہوں ان لوگوں کی مذمت مذکورہ آیت میں اس طرح کی گئی کہ یہ لوگ جن پر تورات لاد دی گئی تھی، یعنی ان کو بےمانگے الله کی یہ نعمت دے دیگئی تھی، مگر انہوں نے اس کے اٹھانے کا حق ادا نہ کیا یعنی تورات کے احکام کی پروانہ کی، ان کی مثال ایسی ہے جیسے گدھے کی پشت پر علوم و فنون کی بڑی بڑی کتابیں لاد دی جاتی ہیں، یہ گدھا ان کا بوجھ تو اٹھاتا ہے مگر ان کے مضامین کی نہ اس کو کچھ خبر ہے نہ ان سے کوئی فائدہ اس کو پہنچتا ہے، یہود کا بھی یہی حال ہے کہ دنیا سازی کے لئے تورات تو لئے پھرتے ہیں اور لوگوں میں اس کے ذریعہ جاہ اور اپنا مقام بھی پیدا کرنا چاہتے ہیں مگر اس کی ہدایت سے کوئی فائدہ نہیں اٹھاتے۔

عالم بےعمل کی مثال

حضرت مفسرین نے فرمایا کہ جو مثال یہود کی دی گئی ہے، یہی مثال اس عالم دین کی ہے جو اپنے علم پر عمل نہ کرے۔

نہ محقق بودنہ دانش مند چار پائے بروکتا بےچند



آیت نمبر 6

قُلۡ يٰۤاَيُّهَا الَّذِيۡنَ هَادُوۡۤا اِنۡ زَعَمۡتُمۡ اَنَّكُمۡ اَوۡلِيَآءُ لِلّٰهِ مِنۡ دُوۡنِ النَّاسِ فَتَمَنَّوُا الۡمَوۡتَ اِنۡ كُنۡتُمۡ صٰدِقِيۡنَ ۞ 


ترجمہ:

تو کہہ اے یہودی ہونے والو ! اگر تم کو دعویٰ ہے کہ تم دوست ہو الله کے سب لوگوں کے سوائے تو مناؤ اپنے مرنے کو اگر تم سچے ہو


آسان اردو تفسیر:

قُلْ يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ هَادُوْٓا اِنْ زَعَمْتُمْ اَنَّكُمْ اَوْلِيَاۗءُ لِلّٰهِ مِنْ دُوْنِ النَّاسِ فَتَمَنَّوُا الْمَوْتَ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِيْنَ ، یہود اپنے کفر و شرک اور ساری بد اخلاقیوں کے باوجود یہ دعویٰ بھی رکھتے تھے (آیت) نحن ابنآو الله و احبآوہ، یعنی ہم تو الله کی اولاد اور محبوب ہیں اور اپنے سوا کسی کو جنت کا مستحق نہ کہتے تھے بلکہ یوں کہا کرتے تھے (آیت) لن یدخل الجنة الامن کان ھودا، گویا وہ آخرت کے عذاب سے اپنے آپ کو بالکل محفوظ و مامون سمجھتے اور جنت کی نعمتوں کو اپنی ذاتی جاگیر سمجھتے تھے اور یہ ظاہر ہے کہ جس شخص کا یہ ایمان ہو کہ آخرت کی نعمتیں دنیا کی نعمتوں سے ہزاروں درجے افضل و بہتر ہیں اور دنیا میں ہر وقت یہ بھی دیکھتا رہتا ہے کہ یہاں کی زندگی رنج و غم اور تکلیفوں سے اور محنتوں سے خالی نہیں اور بیماریاں بھی آتی ہی رہتی ہیں اور اس کو یہ بھی یقین ہو کہ موت آتے ہی مجھے وہ عظیم اور دائمی نعمتیں ضرور مل ہی جائیں گی، تو اس کا مقتضا یہ ہے کہ اگر اس میں ذرا بھی عقل و فہم ہے تو اس کے دل میں موت کی تمنا پیدا ہو اور وہ دل سے چاہے کہ موت جلد آجائے تاکہ دنیا کی مکدر اور رنج و غم سے بھری ہوئی زندگی سے نکل کر خالص راحت اور آرام کی دائمی زندگی میں پہنچ جائے۔

 اس لئے آیت مذکورہ میں رسول الله ﷺ کو ہدایت کی گئی کہ آپ یہود سے فرمائیں کہ اگر تمہارا یہ دعویٰ کہ ساری مخلوق میں تم ہی الله کے محبوب اور لاڈلے ہو اور تمہیں یہ خطرہ بالکل نہیں کہ آخرت میں تمہیں کوئی عذاب ہوسکتا ہے تو پھر عقل کا تقاضا یہ ہے کہ تم موت کی تمنا کرو اور اس کے مشتاق رہو۔



آیت نمبر 7

وَلَا يَتَمَنَّوۡنَهٗۤ اَبَدًۢا بِمَا قَدَّمَتۡ اَيۡدِيۡهِمۡؕ وَاللّٰهُ عَلِيۡمٌۢ بِالظّٰلِمِيۡنَ ۞ 


ترجمہ:

اور وہ کبھی نہ منائیں گے اپنا مرنا ان کاموں کی وجہ سے جن کو آگے بھیج چکے ہیں ان کے ہاتھ اور الله کو خوب معلوم ہیں سب گنہگار


آسان اردو تفسیر:

پھر قرآن نے خود ان کی تکذیب کردی اور فرمایا 

(آیت) وَلَا يَتَمَنَّوْنَهٗٓ اَبَدًۢا بِمَا قَدَّمَتْ اَيْدِيْهِمْ یعنی یہ لوگ ہرگز موت کی تمنا نہ کریں گے بوجہ اس کے کہ ان کے ہاتھوں نے (آخرت کے لئے کفر و شرک اور اعمال بد) آگے بھیج رکھے ہیں وہ خوب جانتے ہیں کہ آخرت میں ہمارے لئے عذاب جہنم کے سوا کچھ نہیں اور یہ دعوے الله کے مقبول و محبوب ہونے کے بالکل جھوٹ ہیں جن کا جھوٹ ہونا خود ان پر بھی واضح ہے، مگر دنیا کے کچھ فوائد حاصل کرنے کے لئے ایسے دعوے کرتے ہیں اور وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ اگر ہم نے رسول الله ﷺ کے فرمانے پر موت کی تمنا ظہر کردی تو وہ ضرور قبول ہوجائے گی اور ہم مر جائیں گے، اس لئے فرمایا کہ وہ ہرگز ایسی تمنا نہیں کرسکتے۔

 ایک حدیث میں ہے کہ رسول الله ﷺ نے فرمایا کہ اگر اس وقت ان میں کوئی موت کی تمنا کرتا تو اسی وقت مر جاتا (روح) 

موت کی تمنا جائز ہے یا نہیں

 یہ بحث مفصل سورة بقرہ میں گزر چکی ہے، حدیث میں موت کی تمنا کرنے سے منع فرمایا گیا ہے، اس کا بڑا سب یہ ہے کہ کسی شخص کو دنیا میں یہ یقین کرنے کا حق نہیں ہے کہ وہ مرتے ہی جنت میں ضرور جائے گا اور کسی قسم کے عذاب کا اس کو خطرہ نہیں تو ایسی حالت میں موت کی تمنا کرنا الله تعالیٰ کے سامنے اپنی بہادری جتانے کے مترادف ہے۔


آیت نمبر 8

قُلۡ اِنَّ الۡمَوۡتَ الَّذِىۡ تَفِرُّوۡنَ مِنۡهُ فَاِنَّهٗ مُلٰقِيۡكُمۡ ثُمَّ تُرَدُّوۡنَ اِلٰى عٰلِمِ الۡغَيۡبِ وَالشَّهَادَةِ فَيُنَبِّئُكُمۡ بِمَا كُنۡتُمۡ تَعۡمَلُوۡنَ  ۞ 


ترجمہ:

تو کہہ موت وہ جس سے تم بھاگتے ہو سو وہ تم سے ضرور ملنے والی ہے پھر تم پھیرے جاؤ گے اس چھپے اور کھلے جاننے والے کے پاس پھر جتلا دے گا تم کو جو تم کرتے تھے۔ ؏


آسان اردو تفسیر:

قل ان الموت الذی تفرون منہ فانہ ملقیکم، یعنی یہود جو اس دعوے کے باوجود موت کی تمنا سے گریز کرتے ہیں اس کا حاصل موت سے گریز کرنا اور بھاگنا ہے، ان کو آپ فرما دیں کہ جس موت سے تم بھاگتے ہو وہ تو آ کر رہے گی، اس وقت نہیں تو پھر بعد چند روز کے، اس لئے موت سے فرار بالکلیہ کسی کے بس ہی میں نہیں۔

اسباب موت سے فرار کے احکام

 جو چیزیں عادةً موت کا سبب ہوتی ہیں، ان سے فرار مقتضائے عقل بھی ہے، مقتضائے شرع بھی، رسول الله ﷺ ایک جھکی ہوتی دیوار کے نیچے سے گزرے تو تیزی کے ساتھ نکل گئے، اسی طرح کہیں آگ لگ جائے وہاں سے نہ بھاگنا، عقل و شرع دونوں کے خلاف ہے، مگر وہ فرار من الموت جس کی مذمت آیت مذکورہ میں وارد ہوئی ہے اس میں داخل نہیں، جبکہ عقیدہ سالم ہو اور یہ جانتا ہو کہ جس وقت موت آجائے گی تو میرا بھاگنا مجھے بچا نہ سکے گا مگر چونکہ اس کو معلوم نہیں کہ یہ آگ یاز ہر یا کوئی دوسری مہلک چیز متعین طور پر میری موت اس میں لکھدی گئی ہے، اس لئے اس سے بھاگنا فرار من الموت جو مذموم ہے اس میں داخل نہیں۔

 باقی رہا طاعون یا وبا جس بستی میں آجائے اس سےباقی رہا طاعون یا وبا جس بستی میں آجائے اس سے بھاگنا یہ ایک مستقل مسئلہ ہے، جس کی تفصیلات کتب فقہ و حدیث میں مذکور ہیں وہاں دیکھی جاسکتی ہیں اور تفسیر روح المعانی میں اس آیت کے ذیل میں بھی اس پر کافی بحث کر کے مسئلہ کو واضح کردیا ہے، یہاں اس کے نقل کی گنجائش نہیں۔



آیت نمبر 9
يٰۤاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِذَا نُوۡدِىَ لِلصَّلٰوةِ مِنۡ يَّوۡمِ الۡجُمُعَةِ فَاسۡعَوۡا اِلٰى ذِكۡرِ اللّٰهِ وَذَرُوا الۡبَيۡعَ‌ ؕ ذٰ لِكُمۡ خَيۡرٌ لَّـكُمۡ اِنۡ كُنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ ۞

ترجمہ:
اے ایمان والو ! جب اذان ہو نماز کی جمعہ کے دن تو دوڑو الله کی یاد کو اور چھوڑ دو خریدو فروخت یہ بہتر ہے تمہارے حق میں اگر تم کو سمجھ ہے

آسان اردو تفسیر:
اے ایمان والو ! جب جمعہ کے روز نماز (جمعہ) کے لئے اذان کہی جایا کرے تو تم الله کی یاد (یعنی نماز و خطبہ) کی طرف (فوراً) چل پڑا کرو اور خریدو فروخت (اور اسی طرح دوسرے مشاغل مانعہ عن السعی کمافی رد المحتار) چھوڑ دیا کرو (اور تخصیص بیع کی بوجہ زیادہ اہتمام کے ہے کہ اس کے ترک کو فوت نفع سمجھا جاتا ہے) یہ (چل پڑنا مشاغل بیع وغیرہ کو چھوڑ کر) تمہارے لئے زیادہ بہتر ہے، اگر تم کو کچھ سمجھ ہو (کیونکہ اس کا نفع باقی ہے اور بیع وغیرہ کا نفع فانی) پھر جب نماز (جمعہ کی) پوری ہوچکے (اور اگر ابتداء میں خطبہ موخر تھا تو نماز پورا ہونے سے مراد اس کا مع متعلقات کے پورا ہونا ہے، جس کا حاصل نماز اور خطبہ کا پورا ہو چکنا ہے) تو (اس وقت تم کو اجازت ہے کہ) تم زمین پر چلو پھرو اور خدا کی روزی تلاش کرو (یعنی اس وقت دنیا کے کاموں کے لئے چلنے پھرنے کی اجازت ہے) اور (اس میں بھی) الله کو بکثرت یاد کرتے رہو (یعنی اشغال دنیویہ میں ایسے منہمک مت ہوجاؤ کہ احکام و عبادات ضروریہ سے غافل ہوجاؤ) تاکہ تم کو فلاح ہو اور (بعضے لوگوں کا یہ حال ہے کہ) وہ لوگ جب کسی تجارت یا مشغولی کی چیز کو دیکھتے ہیں تو اس کی طرف دوڑنے کے لئے بکھر جاتے ہیں اور آپ کو کھڑا ہوا چھوڑ جاتے ہیں، آپ فرما دیجئے کہ جو چیز (از قسم ثواب و قرب) خدا کے پاس ہے وہ ایسے مشغلہ اور تجارت سے بدر جہا بہتر ہے اور (اگر اس سے افزونی رزق کی طمع ہو تو سمجھ لو کہ) الله سب سے اچھا روزی پہنچانے والا ہے (اس کی طاعات ضروریہ میں مشغول رہنے پر رزق مقدر دیتا ہے، پھر کیوں اس کے احکام کو ترک کیا جاوے)۔
معارف و مسائل
يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اِذَا نُوْدِيَ للصَّلٰوةِ مِنْ يَّوْمِ الْجُمُعَةِ فَاسْعَوْا اِلٰى ذِكْرِ اللّٰهِ وَذَرُوا الْبَيْعَ۔ ، یوم الجمعہ، اس دن کو یوم جمعہ اس لئے کہا جاتا ہے کہ یہ مسلمانوں کے اجتماع کا دن ہے اور آسمان و زمین اور تمام کائنات کی تخلیق جو حق تعالیٰ نے چھ دن میں فرمائی ہے ان چھ میں سے آخری دن جمعہ ہے جس میں تخلیق کی تکمیل ہوئی، اسی دن میں آدم ؑ پیدا کئے گئے، اسی روز میں ان کو جنت میں داخل کیا گیا، پھر اسی دن میں ان کو زمین کی طرف اتارا گیا، اسی دن میں قیامت قائم ہوگی اور اسی دن میں ایک گھڑی ایسی آتی ہے کہ اس میں انسان جو بھی دعا کرے قبول ہوتی ہے یہ سب باتیں احادیث صحیحہ سے ثابت ہیں (ابن کثیر)
الله تعالیٰ نے لوگوں کے لئے اجتماع اور عید کا ہر ہفتہ میں یہ دن جمعہ کا رکھا تھا، مگر پچھلی امتوں کو اس کی توفیق نہ ہوئی، یہود نے یوم السبت (سنیچر کے دن) کو اپنا یوم اجتماع بنا لیا، نصاریٰ نے اتوار کو، الله تعالیٰ نے اس امت کو اس کی توفیق بخشی کہ انہوں نے یوم جمعہ کا انتخاب کیا (کمارواہ البخاری و مسلم عن ابی ہریرة، ابن کثیر) زمانہ جاہلیت میں اس دن کو ”یوم عروبہ“ کہا جاتا تھا، سب سے پہلے عرب میں کعب بن لوئی نے اس کا نام جمعہ رکھا اور قریش اس دن جمع ہوتے اور کعب بن لوئی خطبہ دیتے تھے، یہ واقعہ رسول الله ﷺ کی بعثت سے پانسو ساٹھ سال پہلے کا ہے۔
کعب بن لوئی آنحضرت ﷺ کے اجداد میں سے ہیں، ان کو حق تعالیٰ نے زمانہ جاہلیت میں بھی بت پرستی سے بچایا اور توحید کی توفیق عطا فرمائی تھی، انہوں نے نبی کریم ﷺ کی بعثت کی خوشخبری بھی لوگوں کو سنائی تھی، قریش میں ان کی عظمت کا عالم یہ تھا کہ ان کی وفات جو رسول الله ﷺ کی بعثت سے پانسو ساٹھ سال پہلے ہوئی، اسی سے اپنی تاریخ شمار کرنے لگے، عرب کی تاریخ ابتداء میں بنا کبعہ سے لی جاتی تھی کعب بن لوئی کی وفات کے بعد اس سے تاریخ جاری ہوگئی، پھر جب واقعہ فیل آنحضرت ﷺ کی ولادت کے سال میں پیش آیا تو اس واقعہ سے عرب کی تاریخ کا سلسلہ جاری ہوگیا، خلاصہ یہ ہے کہ جمعہ کا اہتمام عرب میں قبل از اسلام بھی کعب بن لوئی کے زمانہ میں ہوچکا تھا اور اس دن کا نام جمعہ رکھنا بھی انہی کی طرف منسوب ہے (مظہری)
بعض روایت میں ہے کہ انصار مدینہ نے قبل از ہجرت فرضیت جمعہ نازل ہونے سے پہلے اپنے اجہتاد سے جمعہ کے روز جمع ہونے اور عبادت کرنے کا اہتمام کر رکھا تھا (کمار واہ عبدالرزاق باسنا صحیح عن محمد بن سیرین از مظہری)
نُوْدِيَ للصَّلٰوةِ مِنْ يَّوْمِ الْجُمُعَةِ ، نداء صلوٰة سے مراد اذان ہے اور من یوم الجمعہ بمعنی فی یوم الجمعہ ہے، فَاسْعَوْا اِلٰى ذِكْرِ الله، سعی کے معنی دوڑنے کے بھی آتے ہیں اور کسی کام کو اہتمام کے ساتھ کرنے کے بھی، اس جگہ یہی دوسرے معنی مراد ہیں کیونکہ نماز کے لئے دوڑتے ہوئے آنے کو رسول الله ﷺ نے منع فرمایا اور یہ ارشاد فرمایا ہے کہ جب نماز کے لئے آؤ تو سکینت اور وقار کے ساتھ آؤ، آیت کے معنی یہ ہیں کہ جب جمعہ کے دن جمعہ کی اذان دی جائے تو الله کے ذکر کی طرف دوڑو، یعنی نماز و خطبہ کے لئے مسجد کی طرف چلنے کا اہتمام کرو، جیسا دوڑنے والا کسی دوسرے کام کی طرف توجہ نہیں دیتا، اذان کے بعد تم بھی کسی اور کام کی طرف بجز نماز و خطبہ کے توجہ نہ دو (ابن کثیر) ذکر الله سے مراد نماز جمعہ بھی ہو سکتی ہے اور خطبہ جمعہ جو نماز جمعہ کے شرائط و فراض میں داخل ہے وہ بھی، اس لئے مجموعہ دونوں کا مراد لیا جائے یہ بہتر ہے (مظہری وغیرہ) r
ٰهِ وَذَرُوا الْبَيْعَ ، یعنی چھوڑ دوبیع (فروخت کرنے کو) صرف بیع کہنے پر اکتفا کیا گیا اور مراد بیع و شرائ (یعنی خریدو فروخت) دونوں ہیں، وجہ اکتفا کی یہ ہے کہ ایک کے چھوٹنے سے دوسرا خود بخود چھوٹ جائے گا، جب کوئی فروخت کرنے والا فروخت نہ کرے گا تو خرید والے کے لئے خریدنے کا راستہ ہی نہ رہے گا۔
اس میں اشارہ اس طرف معلوم ہوتا ہے کہ اذان جمعہ کے بعد جو خریدو فروخت کو اس آیت نے حرام کردیا ہے اس پر عمل کرنا تو بیچنے والوں اور خریداروں سب پر فرض ہے مگر اس کا عملی انتظام اس طرح کیا جائے کہ دکانیں بند کردی جائیں تو خریداری خود بخود بند ہوجائے گی، اس میں حکمت یہ ہے کہ گاہکوں اور خریداروں کی تو کوئی حدو شمار نہیں ہوتی ان سب کے روکنے کا انتظام آسان نہیں، فروخت کرنے والے دکاندار متعین اور معدود ہوتے ہیں ان کو فروخت سے روک دیا جائے تو باقی سب خرید سے خود رک جائیں گے اس لئے ذروا البیع میں صرف بیع چھوڑ دینے کے حکم پر اکتفا کیا گیا۔
فائدہاذان جمعہ کے بعد سارے ہی مشاغل کا ممنوع کرنا مقصود تھا جن میں زراعت، تجارت، مزدوری سبھی داخل ہیں، مگر قرآن کریم نے صرف بیع کا ذکر فرمایا، اس سے اس طرف بھی اشارہ ہوسکتا ہے کہ جمعہ کی نماز کے مخاطب شہروں اور قصبوں والے ہیں، چھوٹے دیہات اور جنگوں میں جمعہ نہیں ہوگا، اس لئے شہروں اور قصبوں میں جو مشاغل عام لوگوں کو پیش آتے ہیں ان کی ممانعت فرمائی گئی وہ بیع و شراء کے ہوتے ہیں، بخلاف گاؤں والوں کے کہ ان کے مشاغل کاشت اور زمین سے متعلق ہوتے ہیں اور باتفاق فقہا امت یہاں بیع سے مراد فقط فروخت کرنا نہیں بلکہ ہر وہ کام جو جمعہ کی طرف جانے کے اہتمام میں مخل ہو وہ سب بیع کے مفہوم میں داخل ہے اس لئے اذان جمعہ کے بعد کھانا پینا، سونا، کسی سے بات کرنا، یہاں تک کہ کتاب کا مطالعہ کرنا وغیرہ سب ممنوع ہیں، صرف جمعہ کی تیاری کے متعلق جو کام ہوں وہ کئے جاسکتے ہیں۔
اذان جمعہ شروع میں صرف ایک ہی تھی جو خطبہ کے وقت امام کے سامنے کہی جاتی ہے، رسول الله ﷺ کے زمانے میں پھر صدیق اکبر اور فاروق اعظم کے زمانے میں اسی طرح رہا، حضرت عثمان غنی کے زمانے میں جب مسلمانوں کی تعداد زیادہ ہوگئی اور اطراف مدینہ میں پھیل گئے امام کے سامنے والی خطبہ کی اذان دور تک سنائی نہ دیتی تھی، تو عثمان غنی نے ایک اور اذان مسجد سے باہر اپنے مکان زوراء پر شروع کرا دی جس کی آواز پورے مدینہ میں پہنچنے لگی، صحابہ کرام میں سے کسی نے اس پر اعتراض نہیں کیا، اس لئے یہ اذان اول باجماع صحابہ مشروع ہوگئی اور اذان جمعہ کے وقت بیع و شراء وغیرہ تمام مشاغل حرام ہوجانے کا حکم جو پہلے اذان خطبہ کے بعد ہوتا تھا اب پہلی اذان کے بعد سے شروع ہوگیا کیونکہ الفاظ قرآن (نودی للصلوٰة من یوم الجمعتہ) اس پر بھی صادق ہیں، یہ تمام باتیں حدیث و تفسیر اور فقہ کی عام کتابوں میں بلا اختلاف مذکور ہیں۔
اس پر پوری امت کا اجماع و اتفاق ہے کہ جمعہ کے روز ظہر کے بجائے نماز جمعہ فرض ہے اور اس پر بھی اجماع و اتفاق ہے کہ نماز جمعہ عام پانچ نمازوں کی طرح نہیں اس کے لئے کچھ مزید شرائط ہیں، پانچوں نمازیں تنہا بلا جماعت کے بھی پڑھی جاسکتی ہیں، دو آدمی کی بھی جماعت سے اور جمعہ بغیر جماعت کے ادا نہیں ہوتا اور جماعت کی تعداد میں فقہاء کے اقوال مختلف ہیں اسی طرح نماز پنجگانہ ہر جگہ دریا، پہاڑ، جنگل میں ادا ہوجاتی ہے، مگر جمعہ جنگ، صحراء میں کسی کے نزدیک ادا نہیں ہوتا، عورتوں، مریضوں، مسافروں پر جمعہ فرض نہیں، وہ جمعہ کی بجائے ظہر کی نماز پڑھیں، جمعہ کس قسم کی بستی والوں پر فرض ہے اس میں ائمہ فقہاء کے اقوال مختلف ہیں، امام شافعی ؒ کے نزدیک جس بستی میں چالیس مرد احرار، عاقل، بالغ بستے ہوں اس میں جمعہ ہوسکتا ہے اس سے کم میں نہیں، امام مالک ؒ کے نزدیک ایسی بستی کا ہونا ضروری ہے جس کے مکانات متصل ہوں اور اس میں بازار بھی ہو، امام عظم ابوحنیفہ ؒ کے نزدیک جمعہ کے لئے یہ شرط ہے کہ وہ شہر یا قصبہ یا بڑا گاؤں ہو جس میں گلی کوچے اور بازار ہوں اور کوئی قاضی حاکم فیصلہ معاملات کے لئے ہو، مسئلہ اور اس کے دلائل کی تفصیل کا یہ موقع نہیں، حضرات علماء نے اس موضوع پر مستقل کتابیں لکھ کر سب کچھ واضح کردیا ہے۔
خلاصہ یہ ہے کہ ۧيٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اور فاسعوا باتفاق جمہور امت عام مخصوص البعض ہے، علی الاطلاق ہر مسلمان پر جمعہ فرض نہیں بلکہ کچھ قیود و شرائط سب کے نزدیک ہیں، اختلاف صرف شرائط کی تعیین میں ہے، البتہ جہاں فرض ہے ان کے لئے اس فرض کی بڑی اہمت و تاکید ہے۔ ان لوگوں میں بلا عذر شرعی کوئی جمعہ چھوڑ دے تو احادیث صحیحہ میں اس پر سخت وعیدیں آئی ہیں اور نماز جمعہ اس کے شرائط و آداب کے ساتھ ادا کرنے والوں کے مخصوص فضائی و برکات کا وعدہ ہے۔

آیت نمبر 10
فَاِذَا قُضِيَتِ الصَّلٰوةُ فَانْتَشِرُوۡا فِى الۡاَرۡضِ وَابۡتَغُوۡا مِنۡ فَضۡلِ اللّٰهِ وَاذۡكُرُوا اللّٰهَ كَثِيۡرًا لَّعَلَّكُمۡ تُفۡلِحُوۡنَ ۞

ترجمہ:
پھر جب تمام ہوچکے نماز تو پھیل پڑو زمین میں اور ڈھونڈو فضل الله کا اور یاد کرو الله کو بہت سا تاکہ تمہارا بھلا ہو

آسان اردو تفسیر:
(آیت) فَاِذَا قُضِيَتِ الصَّلٰوةُ فَانْتَشِرُوْا فِي الْاَرْضِ وَابْتَغُوْا مِنْ فَضْلِ اللّٰهِ ، سابقہ آیات میں اذان جمعہ کے بعد بیع و شراء وغیرہ کے تمام دنیوی امور کو ممنوع کردیا گیا تھا، اس آیت میں اس کی اجازت دے دیگئی کہ نماز جمعہ سے فارغ ہونے کے بعد تجارتی کاروبار اور اپنا اپنا رزق حاصل کرنے کا اہتمام سب کرسکتے ہیں۔
جمعہ کے بعد تجارت و کسب میں برکت
حضرت عراک بن مالک جب نماز جمعہ سے فارغ ہو کر باہر آتے تو دروازہ مسجد پر کھڑے ہو کر یہ دعا کرتے تھے۔
اللھم انی اجبت دعوتک وصلیت فریضتک وانتشرت کما امرتنی فارزقنی من فضلک و انت خیر الراز قین (رواہ ابن ابی حاتم، از ابن کثیر)
”یعنی یا الله میں نے تیرے حکم کی اطاعت کی اور تیرا فرض ادا کیا اور جیسا کہ تو نے حکم دیا ہے نماز پڑھ کر میں باہر جاتا ہوں تو اپنے فضل سے مجھے رزق عطا فرما اور تو تو سب سے بہتر رزق دینے والا ہے“
اور بعض سلف صالحین سے منقول ہے کہ جو شخص نماز جمعہ کے بعد تجارتی کاروبار کرتا ہے الله تعالیٰ اس کے لئے ستر مرتبہ برکات نازل فرماتے ہیں۔ (ابن کثیر)
وَاذْكُرُوا اللّٰهَ كَثِيْرًا لَّعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ ، یعنی نماز جمعہ سے فارغ ہو کر کسب معاش تجارت وغیرہ میں لگو، مگر کفار کی طرح خدا سے غافل ہو کر نہ لگو، عین خریدو فروخت اور مزدوری کے وقت بھی الله کی یاد جاری رکھو۔

سورۃ نمبر 62 الجمعة
آیت نمبر 11
وَاِذَا رَاَوۡا تِجَارَةً اَوۡ لَهۡوَا۟ اۨنْفَضُّوۡۤا اِلَيۡهَا وَتَرَكُوۡكَ قَآئِمًا‌ ؕ قُلۡ مَا عِنۡدَ اللّٰهِ خَيۡرٌ مِّنَ اللَّهۡوِ وَمِنَ التِّجَارَةِ‌ ؕ وَاللّٰهُ خَيۡرُ الرّٰزِقِيۡنَ  ۞

ترجمہ:
اور جب دیکھیں سودا بکتا یا کچھ تماشا متفرق ہوجائیں اس کی طرف اور تجھ کو چھوڑ جائیں کھڑا تو کہہ جو الله کے پاس ہے سو بہتر ہے تماشے سے اور سوداگری سے اور الله بہتر ہے روزی دینے والا۔ ؏

تفسیر:
(آیت) وَاِذَا رَاَوْا تِجَارَةً اَوْ لَهْوَۨا انْفَضُّوْٓا اِلَيْهَا وَتَرَكُوْكَ قَاۗىِٕمًا ۭ قُلْ مَا عِنْدَ اللّٰهِ خَيْرٌ مِّنَ اللَّهْوِ وَمِنَ التِّجَارَةِ ۭ وَاللّٰهُ خَيْرُ الرّٰزِقِيْنَ
اس آیت میں ان لوگوں کو تنبیہ کی گئی ہے جو جمعہ کا خطبہ چھوڑ کر تجارتی کا مکی طرف متوجہ ہوگئے تھے، امام ابن کثیر ؒ نے فرمایا کہ یہ واقعہ اس وقت کا ہے جبکہ نبی کریم ﷺ خطبہ جمعہ نماز جمعہ کے بعد دیا کرتے تھے جیسا کہ عیدین میں اب بھی یہی معمول ہے، ایک جمعہ کے روز یہ واقعہ پیش آیا کہ نماز جمعہ سے فارغ ہو کر رسول الله ﷺ خطبہ دے رہے تھے کہ اچانک ایک تجارتی قافلہ مدینہ طیبہ کے بازار میں پہنچا اور ڈھول باجہ وغیرہ سے اس کا اعلان ہونے لگا، اس وقت نماز جمعہ سے فراغت ہوچکی تھی، خطبہ ہو رہا تھا، بہت سے حضرات صحابہ بازار چلے گئے اور آپ کے ساتھ تھوڑے سے حضرات رہ گئے جن کی تعداد بارہ بتلائی گئی ہے (یہ روایت ابوداؤد نے مراسیل میں بیان فرمائی ہے) بعض روایات حدیث میں ہے کہ رسول الله ﷺ نے اس واقعہ پر فرمایا کہ اگر تم سب کے سب چلے جاتے تو مدینہ کی ساری وادی عذاب کی آگ سے بھر جاتی (رواہ ابو یعلی، ابن کثیر)
امام تفسیر مقاتل کا بیان ہے کہ یہ تجارتی قافلہ دحیہ بن خلف کلبی کا تھا، جو ملک شام سے آیا تھا اور تجار مدینہ میں اس کا قافلہ عموماً تمام ضروریات لے کر آیا کرتا تھا اور جب مدینہ کے لوگوں کو اس کی آمد کی خبر ملتی تھی تو سب مرد و عورت اس کی طرف دوڑتے تھے، یہ دحیہ بن خلف اس وقت تک مسلمان نہ تھے بعد میں داخل اسلام ہوئے۔
اور حسن بصری ؒ اور ابو مالک ؒ نے فرمایا کہ یہ وہ زمانہ تھا جبکہ مدینہ میں اشیاء ضرورت کی کمی اور سخت گرانی تھی (تفسیر مظہری) یہ اسباب تھے کہ حضرات صحابہ رضوان الله علیہم اجمعین کی بڑی جماعت تجارتی قافلہ کی آواز پر مسجد سے نکل گئی، اول تو نماز فرض ادا ہوچکی تھی، خطبہ کے متعلق یہ معلوم نہ تھا کہ جمعہ میں وہ بھی فرض کا جز ہے، دوسرے اشیاء کی گرانی، تیسرے تجارتی قافلہ پر لوگوں کا ٹوٹ پڑنا، جس سے ہر ایک کو یہ خیال ہوسکتا تھا کہ دیر کروں گا تو اپنی ضروریات نہ پا سکوں گا۔
بہر حال ان اسباب کے تحت صحابہ کرام یہ لغزش ہوئی جس پر حدیث مذکور میں وعید کے الفاظ آئے کہ سب کے سب چلے جاتے تو الله کا عذاب آجاتا، اسی پر عار دلانے اور تنبیہ کرنے کے لئے آیت مذکورہ نازل ہوئی اذا راوا تجارة اور اسی کے سبب رسول الله ﷺ نے خطبہ کے معاملے میں اپنا طرز بدل دیا کہ نماز جمعہ سے پہلے خطبہ دینے کا معمول بنا لیا اور یہی اب سنت ہے (ابن کثیر)
آیت مذکورہ میں رسول الله ﷺ کو حکم دیا گیا ہے کہ آپ ان لوگوں کو بتلا دیں کہ جو کچھ الله کے پاس ہے وہ اس تجارت اور ڈھول ڈھما کہ سے بہتر ہے جس میں آخرت کا ثواب تو مراد ہے ہی یہ بھی بعید نہیں کہ نماز و خطبہ کی خاطر تجارت و کسب معاش کو چھوڑنے والوں کے لئے الله تعالیٰ کی طرف سے دنیا میں بھی خاص برکات نازل ہوں، جیسا کہ اوپر سلف صالحین سے بروایت ابن کثیر نقل کیا گیا ہے۔
تمت
الحمد للہ سورة الجمعة



 

ایک تبصرہ شائع کریں

0تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں (0)