سورہ اعلیٰ آسان اردو تفسیر

0


surah_al_ala_asaan_urdu_tafseer_quran_meas_momin
Surah Al-Ala


سورۃ نمبر 87 الأعلى


اب شروع سے لے کر آخر تک سورۃ الاعلیٰ کی آسان اردو تفسیر یہاں ملاحظہ فرمائیں


آیت نمبر 1


سَبِّحِ اسۡمَ رَبِّكَ الۡاَعۡلَىۙ‏ ۞ 


لفظی ترجمہ:

سَبِّحِ: پاکی بولو | اسْمَ: نام کی | رَبِّ: رب کے | كَ: اپنے | الْاَعْلَی: سب سے بلند


ترجمہ:

پاکی بیان کر اپنے رب کے نام کی جو سب سے اوپر


آسان اردو تفسیر: 

(اے پیغمبر ﷺ آپ (اور جو مومن آپ کے ساتھ ہیں) اپنے پروردگار عالیشان کے نام کی تسبیح (و تقدیس) کیجئے جس نے (ہر شی کو) بنایا پھر (اس کو) ٹھیک بنایا (یعنی ہر شی کو مناسب طور پر بنایا) اور جس نے (جانداروں کے لئے ان کے مناسب چیزوں کو) تجویز کیا پھر (ان جانداروں کو ان چیزوں کی طرف) راہ بتلائی (یعنی ان کی طبائع میں ان اشیاء کا تقاضا پیدا کردیا) اور جس نے (سبز خوشنما) چارہ (زمین سے) نکالا پھر اس کو سیاہ کوڑا کردیا (اول عام تصرفات مذکور ہیں، پھر حیوانات کے متعلق پھر نباتات کے متعلق مطلب یہ ہے کہ طاعات کے ذریعہ آخرت کی تیاری کرنا چاہئے جہاں اعمال پر جزا و سزا ہونے والی ہے اور اسی اطاعت کا طریقہ بتلانے کے لئے ہم نے قرآن نازل کیا ہے اور آپ کو اس کی تبلیغ کے لئے مامور کیا ہے سو اس قرآن کی نسبت ہم وعدہ کرتے ہیں کہ) ہم (جتنا) قرآن (نازل کرتے جاویں گے) آپ کو پڑھادیا کریں گے (یعنی یاد کرادیا کریں گے) پھر آپ (اس میں سے کوئی جز) نہیں بھولیں گے مگر جسقدر (بھلانا) اللہ کو منظور ہو (کہ نسخ کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ کما قال تعالیٰ ما ننسخ من ایة اوننسھا سو وہ البتہ آپ کے اور سب کے ذہنوں سے فراموش کردیا جاوے گا، اور یہ یاد رکھانا اور فراموش کردینا سب قرین حکمت ہوگا کیونکہ) وہ ہر ظاہر اور مخفی کو جانتا ہے (اس لئے اس سے کسی چیز کی مصلحت مخفی نہیں، تو جب کسی چیز کا محفوظ رکھنا مصلحت ہوتا ہے محفوظ رکھتے ہیں، اور جب بھلادینا مصلحت ہوتا ہے تو بھلا دیتے ہیں) اور (جیسا ہم آپ کے لئے قرآن کا یاد ہونا آسان کردیں گے اسی طرح) ہم اس آسان (شریعت کے ہر حکم پر چلنے) کے لئے آپ کو سہولت دیدیں گے (یعنی سمجھنا بھی آسان ہوگا اور عمل بھی آسان ہوگا اور تبلیغ بھی آسان ہوجاوے گی اور مزاحمتوں کو دفع کردیں گے، اور شریعت کی صفت یسری لانا بطور مدح کے ہے یا اسلئے کہ وہ سبب ہے یسر کا، اور جب ہم آپ کے لئے وحی کے متعلق ہر کام آسان کردینے کا وعدہ کرتے ہیں) تو آپ (جس طرح خود تسبیح و تقدیس کرتے ہیں اس طرح دوسروں کو بھی) نصیحت کیا کیجئے اگر نصیحت کرنا مفید ہوتا ہو (مگر جیسا کہ ظاہر اور معلوم ہے کہ نصیحت اپنی ذات میں ہمیشہ مفید ہی ہوتی ہے کما قال تعالیٰ فان الذکری تنفع المومنین حاصل یہ ہوا کہ جب نصیحت نفع کی چیز ہے تو آپ نصیحت کرنے کا اہتمام کریں، مگر باوجود اسکے کہ نصیحت اپنی ذات میں نافع و مفید ہے اس سے یہ نہ سمجھئے کہ وہ سب ہی کے لئے مفید ہوگی اور سب ہی اس کو مان لیں گے بلکہ) وہی شخص نصیحت مانتا ہے جو (خدا سے) ڈرتا ہے اور جو سخت بدنصیب ہے وہ اس سے گریز کرتا ہے جو (آخر کار) بڑی آگ میں (یعنی آتش دوزخ میں جو دنیا کی سب آگوں سے بڑی ہے) داخل ہوگا پھر (اس سے بڑھ کر یہ کہ) نہ اس میں مرہی جاوے گا اور نہ (آرام کی زندگی) جئے گا (یعن یجس جگہ نصیحت قبول کرنے کی شرط موجود نہیں ہوتی وہاں اگرچہ اس کا اثر ظاہر نہ ہو مگر نصیحت فی نفسہ نافع ومفید ہی ہے، اور آپ کے ذمہ اسکے واجب ہونے کے لئے یہی کافی ہے۔ خلاصہ اول سورت سے یہاں تک کا یہ ہوا کہ آپ اپنی بھی تکمیل کیئجے اور دوسروں کو بھی اس کی تبلیغ کیجئے کہ ہم آپ کے معاون ہیں۔ آگے اس کی تفصیل ہے کہ اللہ سے ڈرنے والے نصیحت سے فائدہ اٹھاتے ہیں) بامراد ہوا جو شخص (قرآن سنکر عقائد باطلہ اور اخلاق ذیلہ سے) پاک ہوگیا اور اپنے رب کا نام لیتا اور نماز پڑھتا رہا (مگر اے منکرو تم قرآن سن کر اس کو نہیں مانتے اور آخرت کا سامان نہیں کرتے) بلکہ تم دنیوی زندگی کو مقدم رکھتے ہو حالانکہ آخرت (دنیا سے) بدر جہابہتر اور پائیدار ہے (اور یہ مضمون صرف قرآن ہی کا دعویٰ نہیں بلکہ) یہ مضمون اگلے صحیفوں میں بھی ہے، یعنی ابراہیم و موسیٰ (علیہما السلام) کے صحیفوں میں (روح المعافی میں عبدبن حمید کی روایت سے حدیث مرفوع مذکور ہے کہ ابراہیم ؑ پر دس صحیفے نازل ہوئے اور موسیٰ ؑ پر تورات کے نزول سے پہلے دس صحیفے نازل ہوئے) 

 

مسئلہ علماء نے فرمایا ہے کہ قاری جب سبح اسم ربک الاعلے ٰ کی تلاوت کرے تو مستحب ہے کہ یہ کہے سبحان ربی الاعلی، صحابہ کرام حضرت عبداللہ بن عباس، ابن عمر، ابن زبیر، ابو موسیٰ اور عبداللہ بن مسعود ؓ اجمعین کا یہی معمول تھا کہ جب یہ سورت شروع کرتے تو سبحان ربی الاعلیٰ کہا کرتے تھے (قرطبی) یعنی نماز کے سوا جب تلاوت کریں تو ایسا کہنا مستحب ہے۔

مسئلہحضرت عقبہ بن عامرجہنی سے روایت ہے کہ جب سورة سبح اسم ربک الاعلی نازل ہوئی تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اجعلوھا فی سجود کم یعنی یہ کلمہ سبحان ربی الاعلیٰ اپنے سجدہ میں کہا کرو سبح اسم ربک الاعلیٰ ، تسبیح کے معنی پاک رکھنے اور پاکی بیان کرنے کے ہیں، سبح اسم ربک کے معنی یہ ہیں کہ اپنے رب کے نام کو پاک رکھئے، اور ہر ایسی چیز سے اس کے نام کو پاک رکھئے جو اسکے شایاں نہیں، اس میں یہ بھی داخل ہے کہ اللہ تعالیٰ کو صرف ان ناموں سے پکاریئے جو خود اللہ تعالیٰ نے اپنے لئے بیان فرمائے ہیں یا اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول ﷺ کو بتلائے ہیں ان کے سوا کسی اور نام سے اس کو پکارنا جائز نہیں۔

مسئلہ اسی طرح اس حکم میں یہ بھی داخل ہے کہ جو نام اللہ تعالیٰ کے ساتھ مخصوص ہے وہ کسی مخلوق کیلئے استعمال کرنا اس کی تنزیہہ و تقدیس کے خلاف ہے اسلئے جائز نہیں (قرطبی) جیسے رحمن، رزاق، غفار، قدوس وغیرہ آجکل اس معاملے میں غفلت بڑھتی جارہی ہے، لوگوں کو ناموں کے اختصار کا شوق ہے، عبدالرحمن کو رحمن، عبدالرزاق کو رزاق، عبدالغفار کو غفار بےتکلف کہتے رہتے ہیں اور یہ نہیں سمجھتے کہ اس کا کہنے والا اور سننے والا دونوں گنہگار ہوتے ہیں اور یہ گناہ بےلذت رات دن بلاوجہ ہوتا رہتا ہے۔ اور بعض حضرات مفسرین نے اس جگہ اسم سے مراد خود مسمی کو ذات مراد لی ہے اور عربی زبانکے اعتبار سے اس کی گنجائش بھی ہے اور قرآن کریم میں بھی اس معنے کے لئے استعمال ہوا ہے، اور حدیث میں جو رسول اللہ ﷺ نے اس کلمہ کو نماز کے سجدے میں پڑھنے کا حکم دیا اس کی تعمیل میں جو کلمہ اختیار کیا گیا وہ سبحان اسم ربک الاعلیٰ نہیں بلکہ سبحان ربی الاعلیٰ ہے اس سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ اسم اس جگہ مقصود نہیں خود مسمیٰ مراد ہے۔ (قرطبی) واللہ اعلم


آیت نمبر 2


الَّذِىۡ خَلَقَ فَسَوّٰى ۞ 

لفظی ترجمہ:

الَّذِیْ: جس نے | خَلَقَ: پیدا کیا | فَ: پھر | سَوّٰی: برابر کیا

ترجمہ:

جس نے بنایا پھر ٹھیک کیا


آسان اردو تفسیر:

تخلیق کائنات میں لطیف اور دقیق حکمتیں 

الذی خلق فسوی۔ والذی قدر رفھدی، یہ سب رب اعلیٰ کی صفات کا ذکر ہے جو تخلیق کائنات میں اس کی حکمت بالغہ اور قدرت کاملہ کے مشاہدہ سے متعلق ہیں ان میں پہلی صفت خلق ہے خلق کے معنے محض صنعت گری کے نہیں بلکہ عدم سے بغیر کسی مادہ سابقہ کے وجود میں لانا ہے اور یہ کام کسی مخلوق کے بس میں نہیں صرف حق تعالیٰ شانہ کی قدرت کاملہ ہے کہ بغیر کسی سابق مادہ کے جب چاہتے ہیں اور جس چیز کو چاہتے ہیں عدم سے وجود میں لے آتے ہیں۔ دوسری صفت اس تخلیق ہی کے ساتھ وابستہ فسویٰ ہے جو تسویہ سے مشتق ہے اور اس کے لفظی معنی برابر کرنے کے ہیں اور مراد برابر کرنے سے یہ ہے کہ ہر چیز کو جو وجود عطا فرمایا اس کی جسامت اور شکل و صورت اور اعضاء واجزاء کی وضع وہیت میں ایک خاص تناسب ملحوظ رکھ کر یہ وجود بخشا گیا ہے، انسان اور ہر جانور کو اس کی ضروریات کے مناسب بنائی گئی ہیں، ہاتھ پاؤں اور ان کی انگلیوں کے پوروں میں ایسے جوڑ رکھے اور قدرتی اسپرنگ لگائے کہ وہ ہر طرف موڑے توڑے اور تہ کئے جاسکتے ہیں، اسی طرح دوسرے ایک عضو کو دیکھو یہ حیرت انگیز تناسب خود انسان کو خالق کائنات کی حکمت وقدرت پر ایمان لانیکے لئے کافی ہے۔

تیسری چیز اسی سلسلے میں فرمائی قدر، تقدیر کے معنے کسی چیز کو خاص اندازے پر بنانے اور باہمی موازنت کے بھی آئے ہیں اور بمعنے قضاء وقدر بھی استعمال ہوتا ہے جس کے معنے ہر چیز کے متعلق اللہ تعالیٰ کا فیصلہ اور خاص تجویز کے ہیں، اس آیت میں یہی معنے مراد ہیں، اور مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے چیزوں کو صرف پیدا کرکے اور بناکر نہیں چھوڑ دیا بلکہ ہر چیز کو کسی خاص کام کے لئے پیدا کیا اور اسکے مناسب اس کو وسائل دیئے اور اسی کام میں اس کو لگا دیا، غور کیا جائے تو یہ بات کسی خاص جنس یا نوع مخلوق کے لئے مخصوص نہیں، ساری ہی کائنات اور مخلوقات ایسی ہیں کہ ان کو اللہ تعالیٰ نے خاص خاص کاموں کے لئے بنایا ہے اور ان کو اسی کام میں لگادیا ہے، ہر چیز اپنے رب کی مقرر کردہ ڈیوٹی پر لگی ہوئی ہے۔ آسمان اور اس کے ستارے، برق و باراں سے لے کر انسان وحیوان اور نباتات و جمادات سب میں اس کا مشاہدہ ہوتا ہے کہ جسکو جس کام پر خالق نے لادیا ہے اور اس پر لگا ہوا ہے۔ ابروبادومہ خورشید وفلک درکارند اور مولانا رومی ؒ نے فرمایا۔

 خاک وباد وآب وآتش بندہ اند بامن وتو مردہ باحق زندہ اند 

خصوصاً انسان وحیوان کے ہر نوع وصنف کو حق تعالیٰ نے جن خاص خاص کاموں کے لئے پیدا فرمایا ہے وہ قدرتی طور پر اسی کام میں لگے ہوئے ہیں، ان کی رغبت وشوق سب اسی کام کے گرد گھومتا ہے۔

ہر یکے رابہر کارے ساختند میل اور ادروش انداختند 

چوتھی چیز یہ فرمائی فھدی یعنی خالق کائنات نے جس چیز کو جس کام کے لئے پیدا فرمایا اس کو اس کی ہدایت بھی فرما دی کہ وہ کس کس طرح اس کام کو انجام دے۔ حقیقیت تو یہ ہے کہ یہ ہدایت تمام کائنات و مخلوقات کو شامل ہے آسمان اور آسمانی مخلوقات ہوں یا زمین اور اس کی مخلوقات کیونکہ ایک خاص قسم کی عقل و شعور اللہ تعالیٰ نے ان کو بھی دیا ہے گو وہ انسان کے عقل و شعور سے کم ہو جیسا کہ قرآن کریم کی دوسری آیت میں ارشاد ہے اعطی کل شی خلقہ ثم ھدی یعنی اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کو پیدا کرکے ایک وجود بخشا پھر اس کو اسکے متعلقہ کام کی ہدایت کردی اسی ہدایت عامہ کا اثر ہے کہ آسمان و زمین ستارے اور سیارات پہاڑ اور دریا سب کے سب جس خدمت پر اول خلقت سے مامور کردیئے گئے اس خدمت کو ٹھیک ٹھیک اسی طرح بغیر کسی کمی کوتاہی یا سستی کے بجالاتے ہیں خصوصاً انسان اور حیوانات جن کا عقل و شعور ہر وقت مشاہدہ میں آتا ہے ان میں بھی غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ ان میں سے ہر نوع ہر صنف بلکہ ہر ہر فرد کو حق تعالیٰ نے اپنی اپنی ضروریات زندگی حاصل کرنے اور اپنے مخالف چیزوں کو دفع کرنے کے لئے کیسے کیسے دقیق ہنر سکھائے ہیں کہ عقل حیران رہ جاتی ہے، انسان تو سب سے زیادہ عقل و شعور والا ہے، جنگل کے جانوروں، درندوں، پرندوں اور حشرات الارض کو دیکھو کر ہر ایک کو اپنی ضروریات زندگی حاصل کرنے اور رہنے بسنے اور اپنی انفرادی اور جنسی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے کیسے کیسے ہنر سکھائے ہیں اور یہ سب بلا واسطہ تعلیم خالق کائنات کی طرف سے ہے، انہوں نے کسی کالج میں رہ کر یا کسی استاد سے یہ چیزیں نہیں سکھیں بلکہ یہ سب اسی ہدایت عامہ اور تلقین ربانی کے ثمرات ہیں جسکا ذکر آیت اعطی کل شیء خلقہ ثم ھدی اور اس سورت کی قدر فھدی میں فرمایا ہے۔

انسان کو سائنسی تعلیم بھی درحقیقت عطائے ربانی ہے 

انسان جس کو حق تعالیٰ نے عقل و شعور سب سے زیادہ مکمل عطا فرمایا اور اس کو مخدوم کائنات بنایا ہے تمام زمین اور پہاڑ اور دریا اور ان میں پیدا ہونے والی اشیاء انسان کی خدمت اور اسکے نفع کے لئے پیدا ہوئی ہیں مگر ان سے پورا پورا فائدہ اٹھانا اور مختلف قسم کے منافع حاصل کرنا اور مختلف چیزوں کو جوڑ کر ایک نئی چیز پیدا کرلینا یہ بڑے علم وہنرکو چاہتا ہے قدرت نے انسان کے اندر فطری طور پر یہ عقل وفہم رکھا ہے کہ پہاڑوں کو کھود کر دریاؤں میں غوطہ لگا کر سیکڑوں معدنی اور دریائی چیزیں حاصل کرلیتا ہے اور پھر لکڑی، لوہے، تانبے، پیتل وغیرہ کو بامہم جوڑ کر ان سے نئی نئی چیزیں اپنی ضروریات کو بنا لیتا ہے اور یہ علم وہنر فلاسفہ کی تحقیقات اور کالجوں کی تعلیمات پر موقوف نہیں، ابتدائے دنیا سے ان پڑھ جاہل یہ سب کام کرتے آئے ہیں، اور یہی فطری سائنس ہے جو حق تعالیٰ نے انسان کو فطرة بخشی ہے آگے فنی اور علمی تحقیقات کے ذریعہ اس میں ترقی کرنے کی استعداد بھی اسی قدرت ربانی کا عطیہ ہے۔

یہ سب جانتے ہیں کہ سائنس کسی چیز کو پیدا نہیں کرتی بلکہ قدرت کی پیدا کردہ اشیاء کا استعمال سکھاتی ہے اور اس استعمال کا ادنی درجہ تو حق تعالیٰ نے انسان کو فطرة سکھادیا ہے، آگے اس میں فنی تحقیقات اور ترقی کا بڑا وسیع میدان رکھا ہے اور انسان کی فطرت میں اسکے سمجھنے کی استعداد و صلاحیت رکھی ہے جس کے مظاہر اس سائنسی دور میں روز نئے نئے سامنے آرہے ہیں اور معلوم نہیں آگے اس سے بھی زیادہ کیا کیا سامنے آئے گا غور کرو تو یہ سب ایک لفظ قرآن فھدی کی شرح ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو ان سب کاموں کا راستہ دکھایا اور اس میں ان کے پورا کرلینے کی استعداد عطا فرمائی مگر افسوس ہے کہ سائنس میں ترقی کرنے والے اس حقیقت سے زیادہ ناآشنا بلکہ اندھے ہوتے جارہے ہیں۔


آیت نمبر 3


وَالَّذِىۡ قَدَّرَ فَهَدٰى ۞ 


لفظی ترجمہ:

وَ: اور | الَّذِیْ: جس نے | قَدَّرَ: اندازے پر رکھا | فَ: پھر | ھَدٰی: راہ دی


ترجمہ:

اور جس نے ٹھہرا دیا پھر راہ بتلائی


آیت نمبر 4


وَالَّذِىۡۤ اَخۡرَجَ الۡمَرۡعٰى ۞ 


لفظی ترجمہ:

وَ: اور | الَّذِیْۤ: جس نے | اَخْرَ جَ: نکالا | الْمَرْعٰی: چارہ


ترجمہ:

اور جس نے نکالا چارا


آسان اردو تفسیر:

والذی اخرج المرعی۔ فجعلہ غثاء احوی، مرعی کے معنی چراگاہ کے ہیں جہاں چوپائے جانور چرتے ہیں اور غثاء اس کوڑے کرکٹ کو کہتے ہیں جو پانی کے سیلاب میں اوپر آجاتا ہے۔ احویٰ ، حوة سے مشتق ہے گہری سبزی میں جو ایک قسم کی سیاہی آجاتی ہے اس کو حوت کہتے ہیں، اس آیت میں حق تعالیٰ نے بناتات سے متعلق کچھ اپنی قدرت و حکمت کا بیان فرمایا ہے کہ زمین سے سر سبز گھاس نکالی پھر اس کو خشک کرکے سیاہ رنگ کردیا وہ سر سبزی جاتی رہی، اس میں انسان کو اسکے انجام کی طرف بھی اشارہ ہے کہ یہ جسم کی شادابی خوبصورتی اور چشتی چالاکی حق تعالیٰ کا عطیہ ہے مگر انجام کار پھر اس سب کو ختم ہونا ہے۔


آیت نمبر 5


فَجَعَلَهٗ غُثَآءً اَحۡوٰىؕ ۞ 


لفظی ترجمہ:

فَجَعَلَ: پھرکردیا | ہٗ: اسے | غُثَآءً: خشک | اَحْوٰی: سیاہ


ترجمہ:

پھر کر ڈالا اس کو کوڑا سیاہ


آیت نمبر 6


سَنُقۡرِئُكَ فَلَا تَنۡسٰٓىۙ ۞ 


لفظی ترجمہ:

سَنُقْرِءُ: ہم پڑھائینگے | كَ: تمہیں | فَ: پھر | لَا: نہیں | تَنْسٰۤی: آپ بھولیںگے


ترجمہ:

البتہ ہم پڑھائیں گے تجھ کو پھر تو نہ بھولے گا


آسان اردو تفسیر:

سنقرئک فلاتنسی، الا ماشاء اللہ، سابقہ آیات میں حق تعالیٰ نے اپنی قدرت و حکمت کے چند مظاہر بیان فرمانیکے بعد رسول اللہ ﷺ کو انکے فریضہ پیغمبری کی طرف چند ہدایات دی ہیں اور ہدایات سے پہلے آپ کے کام کو آسان کردینے کی خوشخبری سنائی ہے وہ یہ کہ ابتداء میں جب آپ پر قرآن نازل ہوتا اور جبرئیل امین کوئی آیت قرآن سناتے تو آپ کو یہ فکر ہوتی تھی کہ ایسا نہ ہو کہ الفاظ آیت ذہن سے نکل جائیں اسلئے جبرئیل امین کے پڑھنے کے ساتھ ساتھ آپ بھی الفاظ قرآن پڑھتے جاتے تھے۔ اس آیت میں حق تعالیٰ نے یہ کام یعنی قرآن کا یاد کرادینا اپنے ذمہ لے لیا اور آپکو بےفکر کردیا کہ جبرئیل امین کے چلے جانے کے بعد آیات قرآن کا آپ سے صحیح صحیح پڑھو اور دینا پھر ان کو یاد میں محفوظ کرادینا ہماری ذمہ داری ہے آپ فکر نہ کریں جسکا نتیجہ یہ ہوگا کہ فلا تنسی الا ماشاء اللہ یعنی آپ قرآن کی کوئی چیز بھولینگے نہیں بجز اسکے کہ کسی چیز کو اللہ تعالیٰ ہی اپنی حکمت و مصلحت کی بنا پر آپ کے ذہن سے بھلا دینا اور محو کردینا چاہیں، مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ جو بعض آیات قرآن کو منسوخ فرماتے ہیں اس کا ایک طریقہ تو معروف ہے کہ صاف حکم پہلے حکم کیخلاف آگیا، اور ایک صورت منسوخ کرنے کی یہ بھی ہے کہ اس آیت ہی کو رسول اللہ ﷺ اور سب مسلمانوں کے ذہنوں سے محو اور فراموش کردیا جائے جیسا کہ نسخ آیات قرآنی کے بیان میں فرمایا مانسخ من ایت اوننسھا یعنی ہم جو آیت منسوخ کرتے ہیں یا آپ کے ذہن سے بھلادیتے ہیں الخ اور بعض حضرات نے الا ماشاء اللہ کے استثناء کا یہ مفہوم قرار دیا ہے کہ یہ ہوسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی مصلحت اور حکمت کی بناء پر عارضی طور پر سے کوئی آیت آپ کے ذہن سے بھلادیں پھر یاد آجائے جیسا کہ بعض روایات حدیث میں ہے کہ ایک روز رسول اللہ ﷺ نے کوئی سورت سلاوت فرمائی جس میں ایک آیت پڑھنے سے رہ گئی، حضرت ابی بن کعب جو کاتب وحی تھے انہوں نے یہ سمجھا کہ شاید یہ آیت منسوخ ہوگئی مگر جب آپ سے دریافت کیا تو آپ نے فرمایا کہ منسوخ نہیں مجھ سے سہواً ترک ہوگئی (قرطبی) تو حاصل اس استثناء کا یہ ہوگا کہ وقتی اور عارضی طور پر کسی آیت کا بھول جانا اور پھر بدستور یاد آجانا اس وعدے کے منافی نہیں، واللہ اعلم


آیت نمبر 7


اِلَّا مَا شَآءَ اللّٰهُؕ اِنَّهٗ يَعۡلَمُ الۡجَهۡرَ وَمَا يَخۡفٰىؕ ۞ 


لفظی ترجمہ:

اِلَّا: مگر | مَا: جو | شَآءَ: چاہا | اللّٰہُ: اللہ نے | اِ نَّ: بیشک | ہٗ: وہ | یَعْلَمُ: جانتاہے | الْجَھْرَ: ظاہر کو | وَ: اور | مَا: جو | یَخْفٰی: پوشیدہ ہے


ترجمہ:

مگر جو چاہے اللہ وہ جانتا ہے پکارنے کو اور جو چھپا ہوا ہے


آیت نمبر 8


وَنُيَسِّرُكَ لِلۡيُسۡرٰى ۞ 


لفظی ترجمہ:

وَ: اور | نُیَسِّرُ: ہم آسان کریں | كَ: تجھے | لِ: واسطے | لْیُسْرٰی: آسانی


ترجمہ:

اور سہج سہج پہنچائیں گے ہم تجھ کو آسانی تک


آسان اردو تفسیر:

ونسیرک للیسری، لفظی ترجمہ اس کا یہ ہے کہ ہم آپکو طریقہ یسریٰ کے لئے آسان کردینگے، طریقہ یسریٰ سے مراد شریعت اسلام ہے بظاہر مقتضائے مقام یہ تھا کہ یہ فرمایا جاتا کہ ہم اس طریقہ اور شریعت کو آپ کے لئے آسان کردینگے مگر قرآن کریم نے اس کو چھوڑ کر یہ فرمایا کہ ہم آپ کو اس طریقہ کے لئے آسان کردینگے۔ حکمت اسی میں یہ بتلانا ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کو طبعی اور مادی طور پر ایسا بنادیں گے کہ شریعت آپکی طبیعت بنجائے اور آپ شریعت کے سانچہ میں ڈھل جائیں۔


آیت نمبر 9


فَذَكِّرۡ اِنۡ نَّفَعَتِ الذِّكۡرٰىؕ ۞ 


لفظی ترجمہ:

فَ: تو | ذَ کِّرْ: نصیحت فرماؤ | اِنْ: اگر | نَّفَعَتِ: نفع دے | الذِّکْرٰی: نصیحت



ترجمہ:

ہو تو سمجھا دے اگر فائدہ کرے سمجھانا


آسان اردو تفسیر:

فذکر ان نعفت الذکری، سابقہ آیات میں رسول اللہ ﷺ کو آپ کے فریضہ پیغمبری کے ادا کرنے میں حق تعالیٰ کیطرف سے دی ہوئی سہولتوں کا بیان تھا، اس آیت میں آپکو اس فریضہ کی ادائیگی کا حکم ہے اور معنے الفاظ آیت کے یہ ہیں کہ آپ لوگوں کو تبلیغ و نصیحت کیجئے اگر نصیحت نفع دیتی ہو، یہ الفاظ اگرچہ شرط کے آئے ہیں مگر درحقیقت مقصود کوئی شرط نہیں بلکہ اس کا تاکیدی حکم دینا ہے جس کی مثال ہمارے عرف میں یہ ہے کہ کسی شخص کو بطور تنبیہ کے کہا جائے کہ اگر تو ادمی ہے تو فلاں کام کرنا ہوگا یا اگر توفلاں کا بیٹا ہے تو تجھے ایسا کرنا چاہئے۔ یہاں مقصود شرط نہیں ہوتی بلکہ اس کا اظہار ہوتا ہے کہ جب تو آدمی زاد ہے یا جبکہ تو فلاں بزرگ یا شریف آدمی کا بیٹا ہے تو تجھ پر یہ کلام لازم ہے مطلب یہ ہے کہ نصیحت و تبلیغ کا نافع ومفید ہونا تو متعین اور متیقن ہے اسلئے اس نافع چیز کو آپ کسی وقت نہ چھوڑیں



آیت نمبر 10


سَيَذَّكَّرُ مَنۡ يَّخۡشٰىۙ ۞ 


لفظی ترجمہ:

سَیَذَّکَّرُ: جلدنصیحت لیگا | مَنْ: جو | یَّخْشٰی: ڈرتاہے


ترجمہ:

سمجھ جائے گا جس کو ڈر ہوگا


آیت نمبر 11


وَيَتَجَنَّبُهَا الۡاَشۡقَىۙ ۞ 


لفظی ترجمہ:

وَ: اور | یَتَجَنَّبُ: ایک طرف رہیگا | ھَا: اس سے | الْاَشْقَی: بڑابدبخت


ترجمہ:

اور یکسور رہے گا اس سے بڑا بدقسمت


آیت نمبر 12



الَّذِىۡ يَصۡلَى النَّارَ الۡكُبۡرٰىۚ ۞ 


لفظی ترجمہ:

الَّذِیْ: جو | یَصْلَی: جائے گا | النَّا رَ: آگ کو | الْکُبْرٰی: بڑی


ترجمہ:

وہ جو داخل ہوگا بڑی آگ میں


آیت نمبر 13


ثُمَّ لَا يَمُوۡتُ فِيۡهَا وَلَا يَحۡيٰىؕ ۞ 


لفظی ترجمہ:

ثُمَّ: پھر | لَا: نہ | یَمُوْتُ: مرے گا | فِیْ: میں | ھَا: اس | وَ: اور | لَا: نہ | یَحْیٰی: جئے گا


ترجمہ:

پھر نہ مرے گا اس میں اور نہ جئے گا


آیت نمبر 14


 اَفۡلَحَ مَنۡ تَزَكّٰىۙ ۞ 


لفظی ترجمہ:

قَدْ: تحقیق | اَفْلَحَ: کامیاب ہوا | مَنْ: جس نے | تَزَ کّٰی: تزکیہ کرلیا


ترجمہ:

بیشک بھلا ہوا اس کا جو سنورا


آسان اردو تفسیر:

زکوة کہتے ہیں کہ وہ باقی مال کو انسان کے لئے پاک کردیتی ہے یہاں لفظ تزکی کا مفہوم عام ہے جس میں ایمانی اور اخلاقی تزکیہ و طہارت بھی داخل ہے اور مال کی زکوٰة دینا بھی ہے۔ وذکر اسم ربہ فصلی، یعنی اپنے رب کا نام لیتا اور نماز پڑھتا ہے۔ ظاہر یہ ہے کہ اس میں ہر قسم کی نماز فرض ونفل شامل ہے، بعض مفسرین نے جو خاص نماز عید سے اس کی تفسیر کی ہے وہ بھی اس میں داخل ہے۔ بل تو ثرون الحیوة الدنیا، حضرت عبداللہ بن مسعود نے فرمایا کہ عام لوگوں میں دنیا کو آخرت پر ترجیح دینے کیوجہ یہ ہے کہ دنیا کی نعمت و راحت تو نقد و حاضر ہے اور آخرت کی نعمت و راحت نظروں سے غائب اور ادھار ہے۔ حقیقیت سے ناآشنا لوگوں نے حاضر کو غائب پر اور نقد کو ادھار پر ترجیح دے دیجو انکے لئے دائمی خسارہ کا سبب بنی، اسی خسارے سے بچانے کے لئے اللہ تعالیٰ نے اپنی کتابوں اور رسولوں کے ذریعہ آخرت کی نعمتوں، راحتوں کو ایسا واضح کردیا کہ گویا وہ حاضر موجود ہیں اور یہ بتلا دیا کہ جس چیز کو تم نقد سمجھ کر اختیار کرتے ہو یہ متاع کا سدوناقص اور بہت جلد فنا ہوجانیوالا ہے عقلمند کا کام نہیں کہ ایسی چیز پر اپنا دل ڈالے اور اس کے لئے اپنی توانائی صرف کرے اسی حقیقیت کو واضح کرنے کے لئے آگے ارشاد فرمایا والاخرة خیروابقی، دنیا کو آخرت پر ترجیح دینے والوں کو تنبیہ ہے کہ ذرا عقل سے کام لو، کس چیز کو اختیار کر رہے اور کس کو چھوڑ رہے ہو دنیا جس پر تم فریفتہ ہو اول تو اس کی بڑی سے بڑی راحت و لذت بھی رنج وغم اور کلفت ومشقت کی آمیزش سے خالی نہیں دوسرے اس کا کوئی قرار وثبات نہیں، آج کا بادشاہ کل کا فقیر، آج کا جوان شہ زور کل کا ضعیف و عاجز ہونا رات دن دیکھتے ہو۔ نجلاف آخرت کے کہ وہ ان دونوں عیبوں سے پاک ہے اس کی ہر نعمت و راحت خیر ہی خیر ہے اور دنیا کی نعمت و راحت سے اس کو کوئی نسبت نہیں اور اس سے بڑی بات یہ ہے کہ وہ القی ہے یعنی ہمیشہ رہنے والی ہے۔ انسان ذرا غور کرے کہ اگر اس کو کہا جائے کہ تمہارے سامنے دو مکان ہیں، ایک عالیشان محل اور بنگلہ تمام سازو سامان سے آراستہ ہے اور دوسرا ایک معمولی کچا مکان ہے اور یہ سامان بھی اس میں نہیں تمہیں ہم اختیار دیتے ہیں کہ یا تو یہ بنگلہ لے لو مگر صرف مہینہ دو مہینہ کیلئے اسکے بعد اسے خالی کرنا ہوگا، یا یہ کچا مکان لیلو جو تمہاری دائمی ملکیت ہوگی تو عقلمند انسان ان دونوں میں کس کو ترجیح دے گا، اس کا مقتضا تو یہ ہے کہ آخرت کی نعمتیں اگر بالفرض ناقص اور دنیا سے کم درجہ کی بھی ہوتیں مگر انکے دائمی ہونے کی وجہ سے وہی قابل ترجیح تھیں اور جبکہ وہ نعمتیں دنیا کی نعمتوں کے مقابلے میں خیر اور افضل اور اعلیٰ بھی ہیں اور دائمی بھی تو کوئی احمق بدنصیب ہی انکو چھوڑ کر دنیا کی نعمت کو ترجیح دے سکتا ہے۔


آیت نمبر 15


وَذَكَرَ اسۡمَ رَبِّهٖ فَصَلّٰى ۞ 


لفظی ترجمہ:

وَ: اور | ذَکَرَ: یادکیا | اسْمَ: نام | رَبِّ: رب کا | ہٖ: اپنے | فَصَلّٰی: تونمازپڑھی


ترجمہ:

اور لیا اس نے نام اپنے رب کا پھر نماز پڑھی


آیت نمبر 16


بَلۡ تُؤۡثِرُوۡنَ الۡحَيٰوةَ الدُّنۡيَا ۞ 


لفظی ترجمہ:

بَلْ: بلکہ | تُـؤْثِرُوْنَ: تم ترجیح دیتے | الْحَیٰوۃَ: زندگی | الدُّ نْیَا: دنیا کی


ترجمہ:

کوئی نہیں تم بڑھاتے ہو دنیا کے جینے کو


آیت نمبر 17


وَالۡاٰخِرَةُ خَيۡرٌ وَّ اَبۡقٰىؕ‏ ۞ 


لفظی ترجمہ:

وَ: اور | الْاٰ خِرَ ۃُ: آخرت کی | خَیْرٌ: بہتر | وَّ: اور | اَبْقٰی: باقی


ترجمہ:

اور پچھلا گھر بہتر ہے اور باقی رہنے والا



آیت نمبر 18


اِنَّ هٰذَا لَفِى الصُّحُفِ الۡاُوۡلٰىۙ ۞ 


لفظی ترجمہ:

اِنَّ: بیشک | ھٰذَا: یہ | لَ: ضرور | فِی: میں | الصُّحُفِ: صحیفے | الْاُوْلٰی: پہلے


ترجمہ:

یہ لکھا ہوا ہے پہلے ورقوں میں


آسان اردو تفسیر:

ان ھذا لفی الصحف الاولی۔ صحف ابراہیم وموسی، یعنی اس سورت کے سب مضامین یا آخری مضمون یعنی آخرت کا بہ نسبت دنیا کے خیر اور بقیٰ ہونا پچھلے صحیفوں میں بھی موجود تھا جسکا بیان آگے یہ فرمایا کہ حضرت ابراہیم اور موسیٰ ؑ کے صحیفوں میں یہ مضومن تھا، حضرت موسیٰ ؑ کو تورات سے پہلے کچھ صحیفے بھی دیئے گئے تھے وہ مراد ہیں اور ہوسکتا ہے کہ صحف موسیٰ سے تورات ہی مراد ہو۔ 

صحف ابراہیمی کے مضامین 

آجری نے حضرت ابوذرغفاری سے روایت کیا ہے کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے دریافت کیا کہ ابراہیم ؑ کے صحیفے کیسے اور کیا تھے آپ نے فرمایا کہ ان صحیفوں میں امثال عبرت کا بیان تھا، ان میں سے ایک مثال میں ظالم بادشاہ کو مخاطب کرکے فرمایا کہ اے لوگوں پر مسلط ہوجانے والے مغرور مبتلی میں نے تجھے حکومت اس لئے نہیں دی تھی کہ تو دنیا کا مال پر مال جمع کرتا چلا جائے بلکہ میں نے تو تجھے اقتدار اس لئے سونپا تھا کہ تو مظلوم کی بددعا مجھ تک نہ پہنچنے دے کیونکہ میرا قانون یہ ہے کہ میں مظلوم کی دعا کو رد نہیں کرتا اگرچہ وہ کافر کی زبان سے نکلی ہو۔ 

اور ایک مثال میں عام لوگوں کو خطاب کرکے فرمایا کہ عقلمند آدمی کا کام یہ ہے کہ اپنے اوقات کے تین حصے کرے ایک حصہ اپنے رب کی عبادت اور اس سے مناجات کا ہو، دوسرا حصہ اپنے اعمال کا محاسبہ کا اور اللہ تعالیٰ کی عظیم قدرت وصنعت میں غو وفکر کا، تیسرا حصہ اپنی ضروریات معاش حاصل کرنے اور طبعی ضرورتیں پورا کرنے کا۔ 

اور فرمایا کہ عقلمند آدمی پر لازم ہے کہ اپنے زمانے کے حالات سے واقف رہے اور اپنے مقصود کام میں لگا رہے اپنی زبان کی حفاظت کرے، اور جو شخص اپنے کلام کو اپنا عمل سمجھ لیگا اس کا کلام بہت کم صرف ضروری کاموں میں رہ جائیگا۔

صحف موسیٰ ؑ کے مضامین 

حضرت ابوذر فرماتے ہیں کہ پھر میں نے عرض کیا کہ صحف موسیٰ ؑ میں کیا تھا تو آپ نے فرمایا کہ ان میں سب عبرتیں ہی عبرتیں تھیں جن میں سے چند کلمات یہ ہیں۔

مجھے تعجب ہے اس شخص پر جس کو مرنے کا یقین ہو پھر وہ کیسے خوش رہتا ہے، اور مجھے تعجب ہے، اس شخص پر جو تقدیر پر ایمان رکھتا ہو وہ کیسے عاجز و درماندہ اور غمگین ہو اور مجھے تعجب ہے، اس شخص پر جو دنیا اور اسکے انقلابات اور لوگوں کے عروج ونزول کو دیکھتا ہے وہ کیسے دنیا پر مطمئن ہو بیٹھتا ہے، اور مجھے تعجب ہے اس شخص پر جس کو آخرت کے حساب پر یقین ہو وہ کیسے عمل کو چھوڑ بیٹھتا ہے، حضرت ابوذر فرماتے ہیں کہ میں پھر یہ سوال کیا کہ کیا ان صحیفوں میں سے کوئی چیز آپ کے پاس آنیوالی وحی میں بھی ہے آپ نے فرمایا اے ابوذر یہ آیتیں پڑھو قد افلح من تزکی۔


آیت نمبر 19


صُحُفِ اِبۡرٰهِيۡمَ وَمُوۡسٰى  ۞ 


لفظی ترجمہ:

صُحُفِ: صحیفے | اِبْرٰھِیْمَ: ابراہیم کے | وَ: اور | مُوْسٰی: موسیٰ کے


ترجمہ:

صحیفوں میں ابراہیم کے اور موسیٰ کے۔  ؏

ایک تبصرہ شائع کریں

0تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں (0)