سورۃ البلد آسان اردو تفسیر

0


surah_al_balad_asaan_urdu_tafseer_meas_momin


سورۃ نمبر 90 البلد


آپ سورۃ البلد کی تفسیر کو آسان اردو میں یہاں ملاحظہ فرمائیں


آیت نمبر 1


لَاۤ اُقۡسِمُ بِهٰذَا الۡبَلَدِۙ ۞


لفظی ترجمہ:
لَاۤ اُقْسِمُ: قسم ہے مجھے | بِ: کی | ھٰذَا: اس | الْبَلَدِ: شہر


ترجمہ:
قسم کھاتا ہوں میں اس شہر کی


آسان اردو تفسیر:
میں قسم کھاتا ہوں اس شہر (مکہ) کی اور (جواب قسم سے پہلے آنحضرت ﷺ کے حق میں ایک بشارت دی گئی کہ) آپ کو اس شہر میں لڑائی حلال ہونے والی ہے (چناچہ فتح مکہ کے روز آپ کے لئے قتال جائز کردیا گیا تھا۔ احکام حرم باقی نہیں رہے تھے) اور قسم ہے باپ کی اور اولاد کی (ساری اولاد کے باپ آدم ؑ ہیں پس آدم اور بنی آدم سب کی قسم ہوئی آگے جواب قسم ہے) کہ ہم نے انسان کو بڑی مشقت میں پیدا کیا ہے (چنانچہ عمر بھر کہیں مرض میں کہیں رنج میں کہیں فکر میں اکثر اوقات مبتلا رہتا ہے اور اس کا مقتضاد یہ تھا کہ اس میں عجز ودرماندگی پیدا ہوتی اور اپنے کو بستہ حکم تقدیر سمجھ کر مطیع امر وتابع رضا ہوتا لیکن انسان کافر کی یہ حالت ہے کہ بالکل بھول میں پڑا ہے تو) کیا وہ یہ خیال کرتا ہے کہ اس پر کسی کا بس نہ چلے گا (یعنی کیا اللہ کی قدرت سے اپنے کو خارج سمجھتا ہے جو اسقدر بھول میں پڑا ہے اور) کہتا ہے کہ میں نے اتنا وافر مال خرچ کرڈالا (یعنی ایک تو شیخی بھگارتا ہے پھر عداوت رسول و مخالفت اسلامی و معاصی میں خرچ کرنے کو ہنر سمجھتا ہے پھر جھوٹ بھی بولتا ہے کہ اس کو مثال کثیر بتلاتا ہے) کیا وہ یہ خیال کرتا ہے کہ اس کو کسی نے دیکھا نہیں (یعنی اللہ تعالیٰ نے تو دیکھا ہے اور وہ جانتا ہے کہ معصیت میں خرچ کیا ہے پس اس پر سزا دے گا نیز مقدار بھی دیکھی ہے کہ اسقدر نہیں ہے جس قدر لوگوں کو یقین دلانا چاہتا ہے یہ حال مطلق کافر کا ہے کہ اس وقت آپ کے مخالفین کے یہی اقوال و احوال تھے، غرض یہ شخص نہ تو محن یعنی تکلیف ونجم سے متاثر ہوا اور نہ منن یعنی انعامات و احسانات سے جسکا آگے بیان ہے کہ) کیا ہم نے اس کو دو آنکھیں اور زبان اور دو ہونٹ نہیں دیئے اور (پھر) ہم نے اس کو دونوں رستے (خیروشر) کے بتلا دیئے (تاکہ طریق مضر سے بچے اور نافع پر چلے سو اس کا بھی مقتضا یہ تھا کہ احکام الٰہی کا تابع ہوتا مگر) سو وہ شخص (دین کی) گھاٹی میں سے ہو کر نہ نکلا (دین کے کاموں کو اس لئے گھاٹی کہا کہ نفس پر شاق ہے) اور آپ کو معلوم ہے کہ گھاٹی (سے) کیا (مراد) ہے وہ کسی (کی) گردن کا (غلامی سے) چھڑا دینا ہی یا کھانا کھلانا فاقہ کے دن میں کسی رشتہ دار یتیم کو یا کسی خاک نشین محتاج کو (یعنی ان احکام الہیہ کو بجالانا چاہئے تھا) پھر (سب سے بڑھ کر یہ کہ) ان لوگوں میں سے نہ ہوا جو ایمان لائے اور ایک دوسرے کو (ایمان کی) پابندی کی فہمائش کی اور ایک دوسرے کو ترحم (علی الخلق) کی (یعنی ترک ظلم) کی فہمائش کی (ایمان تو سب سے مقدم ہے پھر امر بالثبات علی الایمان اوروں سے افضل ہے، پھر لوگوں کی ایذاء سے بچنا بقیہ سے اہم ہے پھر ان اعمال کا رتبہ ہے جو فک رقبة سے متربة تک مذکور ہیں پس یہ ثم تفیخم رتبہ کے لئے ہے، مطلب یہ کہ جمیع اصول و فروع میں اطاعت کرنا چاہئے تھا، آگے الذین امنو کی جزا کا بیان ہے یعنی) یہی لوگ دہانے والے ہیں (جن کی تفصیل جزا سورة واقعہ میں ہے اور یہاں اس میں مطلق اہل ایمان خواص وعوام سب داخل ہیں) اور (آگے انکے مقابلین کا بیان ہے کہ) جو لوگ ہماری آیتوں کے منکر ہیں (خود اصول ہی میں مخالف ہیں فروع کا تو کہنا کیا) وہ لوگ بائیں والے ہیں، ان پر آگ محیط ہوگی جس کو بند کردیا جاوے گا (یعنی دوزخیوں کو دوزخ میں بھر کر آگے سے دروازہ بند کردیں گے کیونکہ اس وجہ سے نکلنا تو ملے گا ہی نہیں)

لا اقسم بھذا البلد، حرف لا اس جگہ زائد ہے اور قسموں میں یہ حرف زائد لانا عرب کے محاورہ میں معروف ہے اور زیادہ صح یہ ہے کہ یہ حرف لامخاطب کے باطل خیال کی تردید کے لئے شروع قسم میں لایا جاتا ہے جس کے معنے یہ ہوتے ہیں کہ جو تم نے خیال باندھ رکھا ہے وہ نہیں بلکہ ہم قسم کیساتھ کہتے ہیں کہ حقیقت وہ ہے جو ہم بیان کرتے ہیں۔ اور البلد سے مکہ مکرمہ مراد ہے جیسا کہ سورة والتین میں بھی شہر مکہ کی قسم کھائی ہے اور اسکے ساتھ اس کی صفت امین بھی بیان فرمائی۔
وھذا البلد الامین، شہر مکہ کی قسم کھانا اس شہر کی بہ نسبت دوسرے شہروں کے شرافت وافضلیت کو بتلانا ہے۔ حضرت عبداللہ بن عدی سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ہجرت کے وقت شہر مکہ کو خطاب کرکے فرمایا کہ (خدا تعالیٰ کی قسم ہے کہ تو ساری زمین میں اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ بہتر اور محبوب ہے اور اگر مجھے یہاں سے نکلنے پر مجبور نہ کردیا جاتا تو میں تیری زمین سے نہ نکلتا (رواہ الترمذی وابن ماجہ، مظہری)

آیت نمبر 2


وَاَنۡتَ حِلٌّ ۢ بِهٰذَا الۡبَلَدِۙ ۞

لفظی ترجمہ:
وَ: اور | اَنْتَ: آپ | حِلٌّۢ: رہتے ہو | بِ: میں | ھٰذَا: اس | الْبَلَدِ: شہر


ترجمہ:
اور تجھ پر قید نہیں رہے گی اس شہر میں


آسان اردو تفسیر:

وانت حل بھذا البلد لفظ حل میں دو احتمال میں ایک یہ کہ حلول سے مشتق ہو جس کے معنے کسی شئی کے اندر سمانے اور رہنے اور اترنے کے آتے ہیں، اس اعتبار سے حل کے معنے اترنے والے اور رہنے والے کے ہوں گے۔ اور مرد آیت کی یہ ہوگی کہ شہر مکہ خود بھی محترم اور مقدس ہے خصوصاً جبکہ آپ بھی اس شہر میں رہتے ہیں تو مکین کی فضیلت سے بھی مکان کی فضیلت بڑھ جاتی ہے اسلئے شہر کی عظمت و حرمت آپ کے اس میں مقیم ہونے سے دوہری ہوگئی۔ دوسرا احتمال یہ ہے کہ لفظ حل مصدر حلت سے مشتق ہو جس کے معنے کسی چیز کے حلال ہونے کے ہیں، اس اعتبار سے لفظ حل کے دو معنے ہوسکتے ہیں ایک یہ کہ آپ کو کفار مکہ نے حلال سمجھ رکھا ہے کہ آپ کے قتل کے درپے ہیں حالانکہ وہ خود بھی شہر مکہ میں کسی شکار کو بھی حلال نہیں سمجھتے مگر ان کا ظلم و سرکشی اس حد تک بڑھ گیا ہے کہ جس مقدس مقام پر کسی جانور کا قتل بھی جائز نہیں اور خود ان لوگوں کا بھی یہی عقیدہ ہے وہاں انہوں نے اللہ کے رسول کا قتل وخون حلال سمجھ لیا ہے دوسرے معنے حل کے یہ بھی ہوسکتے ہیں کہ آپ کی یہ خصوصیت ہے کہ آپ کے لئے حرم مکہ میں قتال کفار حلال ہونے والا ہے جیسا کہ فتح مکہ میں ایک روز کے لئے آپ سے احکام حرم اٹھا لئے گئے تھے اور کفار کا قتل حلال کردیا گیا تھا۔ خلاصہ تفسیر مذکور میں یہی تیسرے معنے لے کر تفسیر کی گئی۔ مظہری میں تینوں احتمال مذکور ہیں اور تینوں معنے کی گنجائش ہے ووالد وماولد، والد سے مراد حضرت آدم ؑ ہیں جو سب انسانوں کے باپ ہیں اور ماولد سے ان کی اولاد مراد ہے جو ابتداء دنیا سے قیامت تک ہوگی۔ اس طرح اس لفظ میں حضرت آدم اور تمام بنی آدم کی قسم ہوگئی۔ آگے جواب قسم مذکور ہے۔


آیت نمبر 3


وَوَالِدٍ وَّمَا وَلَدَ ۞


لفظی ترجمہ:
وَ: اور | وَالِدٍ: باپ | وَّ: اور | مَا: جو | وَلَدَ: جنا

ترجمہ:
اور قسم ہے جنتے کی اور جو اس نے جنا


آیت نمبر 4

لَقَدۡ خَلَقۡنَا الۡاِنۡسَانَ فِىۡ كَبَدٍؕ ۞

لفظی ترجمہ:
لَقَدْ: تحقیق | خَلَقْنَا: ہم نے پیدا کیا | الْاِ نْسَانَ: انسان کو | فِیْ: میں | کَبَدٍ: مشقت

ترجمہ:
تحقیق ہم نے بنایا آدمی کو محنت میں


آسان اردو تفسیر:

لقد خلقنا الانسان فی کبد، کبد کے لفظی معنے محنت ومشقت کے ہیں۔ معنے یہ ہیں کہ انسان اپنی فطرت سے ایسا پیدا کیا گیا ہے کہ اول عمر سے آخر تک محنتوں اور مشقتوں میں رہتا ہے۔ حضرت ابن عباس نے فرمایا کہ ابتدائے حمل سے رحم مادر میں محبوس رہا پھر ولادت کے وقت کی محنت ومشقت برداشت کی، پھر ماں کا دودھ پینے پھر اسکے چھوٹنے کی محنت اور پھر اپنے معاش اور ضروریات زندگی فراہم کرنے کی مشقت پھر بڑھاپے کی تکلیفین پھر موت پھر قبر، پھر حشر اور اس میں اللہ تعالیٰ کے سامنے اعمال کی جوابدہی پھر جزا وسزا، یہ سب دور اس پر محنتوں ہی کے آتے ہیں، اور یہ محنت ومشقت اگرچہ انسان کے ساتھ مخصوص نہیں سب جانور بھی اس میں شریک ہیں مگر اس حال کو انسان کے لئے بالخصوص اسلئے فرمایا کہ اول تو وہ سب جانوروں سے زیادہ شعور و ادراک رکھتا ہے اور محنت کی تکلیف بھی بقدر شعور زیادہ ہوتی ہے، دوسرے آخری اور سب سے بڑی محنت محشر میں دوبارہ زندہ ہو کر عمر بھر کے اعمال کا حساب دینا ہے وہ دوسرے جانوروں میں نہیں۔
بعض علماء نے فرمایا کہ کوئی مخلوق اتنی مشقتیں نہیں جھیلتی جتنی انسان برداشت کرتا ہے باوجود یکہ وہ جسم اور جثہ میں اکثر جانوروں کی نسبت ضعیف و کمزور ہے۔ ظاہر یہ ہے کہ انسان کی دماغی قوت سب سے زیادہ ہے اس لئے اس کی تخصیص کی گئی۔ مکہ مکرمہ اور آدم واولاد آدم ؑ کی قسم کھا کر حق تعالیٰ نے اس حقیقت کو بیان فرمایا کہ انسان کو ہم نے شدت و محنت اور مشقت ہی میں اور اسی کے لئے پیدا کیا ہے جو اس کی دلیل ہے کہ انسان خود بخود پیدا نہیں ہوگیا یا اس کو کسی دوسرے انسان نے جنم نہیں دیا بلکہ اس کا پیدا کرنے والا ایک قادر مختار ہے جس نے اپنی حکمت سے ہر مخلوق کو خاص خاص مزاج اور خاص اعمال و افعال کی استعداد دے کر پیدا کیا ہے اگر انسان کی تخلیق میں خود انسان کو کچھ دخل ہوتا تو وہ اپنے لئے یہ محنتیں مشقتیں کبھی تجویز نہ کرتا (قرطبی)
دنیا میں مکمل راحت جس میں کوئی تکلیف نہ ہو کسی کو حاصل نہیں ہوسکتی اسلئے انسان کو چاہئے کہ مشقت کیلئے تیار رہے
اس قسم اور جواب قسم میں انسان کو اس پر متنبہ کیا گیا ہے کہ تمہاری جو یہ خواہش ہے کہ دنیا میں ہمیشہ راحت ہی راحت ملے کسی تکلیف سے سابقہ نہ پڑے یہ خیال خام ہے جو کبھی حاصل نہیں ہوگا اسلئے ضروری ہے کہ ہر شخص کو دنیا میں محنت ومشقت اور رنج و مصیبت پیش آئے اور جب ممشقت وکلفت پیش آنا ہی ہے تو عقلمند کا کام یہ ہے کہ یہ محنت ومشقت اس چیز کیلئے کرے جو اس کو ہمیشہ کام آوے اور دائمی راحت کا سامان بنے اور وہ صرف ایمان اور اطاعت حق میں منحصر ہے۔ آگے غافل اور آخرت کے منکر انسان کی چند جاہلانہ خصلتوں کا ذکر کرکے فرمایا ایحسب ان لم یرہ احد یعنی کیا یہ بیوقوف سمجھتا ہے کہ اس کے اعمال بد کو کسی نے دیکھا نہیں اس کو جاننا چاہئے کہ اس کا خالق اس کے ہر عمل کو دیکھ رہا ہے۔


آیت نمبر 5

اَيَحۡسَبُ اَنۡ لَّنۡ يَّقۡدِرَ عَلَيۡهِ اَحَدٌ‌ ۘ‏ ۞

لفظی ترجمہ:
اَ: کیا | یَحْسَبُ: وہ گمان کرتا ہے | اَنْ: کہ | لَّنْ: نہیں | یَّقْدِرَ: قدرت رکھتا | عَلَیْ: اوپر | ہِ: اسکے | اَحَدٌ: کوئی بھی


ترجمہ:
کیا خیال رکھتا ہے وہ کہ اس پر بس نہ چلے گا کسی کا


آیت نمبر 6


يَقُوۡلُ اَهۡلَكۡتُ مَالًا لُّبَدًا ۞

لفظی ترجمہ:
یَقُوْلُ: کہتاہے | اَھْلَکْتُ: میں نے ہلاک کیا | مَالًا: مال | لُّبَدًا: کثیر

ترجمہ:
کہتا ہے میں نے خرچ کر ڈالا مال ڈھیروں


آیت نمبر 7


اَيَحۡسَبُ اَنۡ لَّمۡ يَرَهٗۤ اَحَدٌ ۞

لفظی ترجمہ:
اَ: کیا | یَحْسَبُ: گمان کرتاہے | اَنْ: کہ | لَّمْ یَرَ: بالکل نہ دیکھا | ہٗۤ: اسے | اَحَدٌ: کسی نے

ترجمہ:
کیا خیال رکھتا ہے کہ دیکھا نہیں اس کو کسی نے


آیت نمبر 8


اَلَمۡ نَجۡعَلۡ لَّهٗ عَيۡنَيۡنِۙ‏ ۞

لفظی ترجمہ:
اَ: کیا | لَمْ نَجْعَلْ: نہ بنائےہم نے | لَّ: واسطے | ہٗ: اسکے | عَیْنَیْنِ: دوآنکھیں


ترجمہ:
بھلا ہم نے نہیں دیں اس کو دو آنکھیں


آسان اردو تفسیر:
آنکھ اور زبان کی تخلیق میں چند حکمتیں
الم نجعل لہ عینین ولسانا وشفتین وھدینہ النجدین، نجدین نثنیہ نجد کا ہے جس کے لفظی معنے اس راستے کے ہیں جو اوپر بلندی کی طرف جاتا ہے مراد اس سے کھلا واضح راستہ ہے اور ان دو راستوں میں ایک خیر و فلاح کا دوسرا شرو ہلاکت کا راستہ ہے۔
سابقہ آیت میں انسان کی اس غفلت و جہالت پر تنبیہ تھی کہ وہ سمجھتا ہے کہ میرے اوپر اللہ تعالیٰ کو بھی قدرت نہیں، اور یہ کہ اس کے اعمال و افعال کو کوئی دیکھنے والا نہیں۔ اس آیت میں چند ان نعمتوں کا ذکر ہے جو اللہ تعالیٰ نے اس کے وجود میں ایسی عطا فرمائی ہیں کہ خود ان کی صنعت و حکمت ہی پر غور کرے تو حق تعالیٰ کی بےمثال حکمت وقدرت کا نظارہ انہیں چیزوں میں کرے، ان میں پہلے دو آنکھوں کا ذکر فرمایا کہ آنکھ کے نازک پردے نازک شراین (رگیں) انمیں قدرتی روشنی، پھر آنکھ کی وضع ہیت کہ نازک ترین عضو ہے اس کی حفاظت کا کیا سامان خود اس کی خلقت میں کیا گیا کہ اسکے اوپر ایسے پردے ڈال دیئے جو خود کار مشین کی طرح جب کوئی مضر چیز سامنے سے آتی دکھائی دے خود بخود بغیر کسی اختیار کے بند ہوجاتے ہیں ان پردوں کے اوپر پلکوں کے بال کھڑے کردیئے کہ گردوغبار کو روک لیں، اسکے اوپر بھو وں کے بال رکھے کے اوپر سے آنیوالی چیز براہ راست آنکھ میں نہ پہچے، اس کو چہرے کے اندر اس طرح فٹ کیا گیا کہ اوپر سخت ہڈی ہے، نیچے رخسار کی سخت ہڈی ہے آدمی کہیں چہرے کے بل گر جائے یا اس کے چہرے پر کوئی چیز آپڑے تو اوپر نیچے کی ہڈیاں آنکھ کو بچالیں گی۔
دوسری چیز زبان ہے اس کی عجیب و غریب تخلیق اور دل کی باتوں کی ترجمانی جو اس پر اسرار اور خود کار مشین کے ذریعہ ہوتی ہے اسکے حیرت انگیز طریقہ کار کو دیکھو کہ دل میں ایک مضمون آیا دماغ نے اس پر غور کیا اس کیلئے عنوان اور الفاظ تیار کئے وہ الفاظ اس زبان کی مشین سے نکلنے لگے۔ یہ اتنا بڑا کام کیسی سرعت کیساتھ ہو رہا ہے کہ سننے والے کو یہ احساس بھی نہیں ہوسکتا کہ ان الفاظ کے زبان پر آنے میں اسکے پیچھے کتنی مشینری نے کام کیا ہے تب یہ کلمات زبان پر آئے ہیں۔ زبان کے ساتھ شفتین یعنی ہونٹوں کا ذکر اسلئے بھی کہ قدرت نے زبان کو ایسی سریع العمل مشین بنایا ہے کہ آدھے منٹ میں اس سے ایسا کلمہ بھی بولا جاسکتا ہے جو اس کو جہنم سے نکال کر جنت میں پہنچا دے جیسے کلمہ ایمان یا دنیا میں دشمن کی نظر میں بھی اس کو محبوب بنا دے جیسے پچھلے قصور کی معانی اور اسی زبان سے اتنے ہی وقفہ میں ایسا کلمہ بھی بولا جاسکتا ہے جو اس کو جہنم میں پہنچا دے جیسے کلمہ کفر یا دنیا میں اسکے بڑے سے بڑے مہربان دوست کو اس کا دشمن بنا دے جیسے گالی گلوچ وغیرہ، جس طرح زبان کے منافع بیشمار ہیں اس کی ہلاکت آفرینی بھی اسی انداز کی ہے گویا یہ ایک تلوار ہے جو دشمن پر بھی چل سکتی ہے اور خود اپنا گلا بھی کاٹ سکتی ہے اسلئے حق تعالیٰ جل شانہ نے اس تلوار کو دو ہونٹوں کے غلاف میں مستور کرکے عطا فرمایا اور اس جگہ ہونٹوں کا ذکر کرنا اسطرف اشارہ ہوسکتا کہ جس مالک نے انسان کو زبان دی اس نے اس کو روکنے بند کرنے کے لئے ہونٹ بھی دیئے ہیں اسلئے اسکے استعمال میں سوچ سمجھ سے کام لے، بےموقع اس کو ہونٹوں کی میان سے نہ نکالے، تیسری چیز دو راستوں کی ہدایت ہے یعنی اللہ تعالیٰ نے انسان کو خیر وشر اور بھلے برے کی پہچان کے لئے ایک استعداد اور مادہ خود اسکے وجود میں رکھد دیا ہے جیسا کہ قرآن کریم نے فرمایا، فالھمھا فجورھا وتقوھا یعنی نفس انسانی کے اندر اللہ تعالیٰ نے فجور اور تقویٰ دونوں کے مادے رکھ دیئے ہیں تو اس طرح ایک ابتدائی ہدایت انسان کو خود اسکے ضمیر سے ملتی ہے پھر اس ہدایت کی تائید کے لئے انبیاء (علیہم السلام) اور آسمانی کتابیں آتی ہیں جو انکو بالکل واضح کردیتی ہیں۔ خلاصہ یہ ہے کہ جاہل اور غافل انسان قدرت حق کے منکر ذرا اپنے ہی وجود کی چند نمایاں چیزوں میں غور کرے تو قدرت و حکمت حق کے کمال کا مشاہدہ ہوجائیگا۔ آنکھوں سے دیکھو پھر زبان سے اقرار کرو پھر دو راستوں میں سے خیر کے راستے کو اختیار کرو۔
آگے پھر اس کی غفلت شعاری اور بےفکری پر تنبیہ ہے کہ ان روشن دلائل سے اللہ تعالیٰ کی قدرت کاملہ کا اور اسکے ذریعہ قیامت میں دوبارہ زندہ ہونے اور حساب دینے کا یقین ہوجانا چاہئے اس یقین کا متقضایہ یہ تھا کہ یہ خلق خدا کو نفع اور راحت پہنچاتا، ان کی ایذاؤں سے بچتا اور اللہ تعالیٰ پر ایمان لانا اور خود اپنی اصلاح کرتا اور دوسرے لوگوں کی اصلاح کی فکر کرتا تاکہ قیامت میں وہ اصحاب یمین یعنی اہل جنت میں شامل ہوجائے مگر اس بدنصیب نے ایسا نہ کیا بلکہ کفر قائم رہا جسکا انجام جن ہم کی آگ ہے۔ آخر سورت تک یہ مضمون بیان ہوا ہے اس میں چند نیک اعمال کے اختیار نہ کرنے کو ایک خاص انداز سے بیان فرمایا ہے۔


آیت نمبر 9

وَلِسَانًا وَّشَفَتَيۡنِۙ ۞

لفظی ترجمہ:
وَ: اور | لِسَانًا: زبان | وَّ: اور | شَفَتَیْنِ: دوہونٹ


ترجمہ:
اور زبان اور دو ہونٹ


آیت نمبر 10

وَهَدَيۡنٰهُ النَّجۡدَيۡنِ‌ۚ ۞

لفظی ترجمہ:
وَ: اور | ھَدَیْنَا: ہم نے بتایا | ہُ: اسے | النَّجْدَیْنِ: دوبلندیاں

ترجمہ:
اور دکھلا دیں اس کو دو گھاٹیاں


آیت نمبر 11

فَلَا اقۡتَحَمَ الۡعَقَبَةَ ۞

لفظی ترجمہ:
فَ: تو | لَا: نہ | اقْتَحَمَ: گذرا | الْعَقَبَۃَ: گھاٹی سے


ترجمہ:
سو نہ دھمک سکا گھاٹی پر


آسان اردو تفسیر:
فلا اقتحم العقبة۔ وما ادرک مالعقبة۔ فل رقبة، عقبہ پہاڑ کی بڑی چٹان کو بھی کہتے ہیں اور دو پہاڑوں کے درمیانی راستہ کو یعنی گھاٹی کو بھی اور دشمن سے نجات حاصل کرنے میں عقبہ انسان کی مدد کرتا ہے کہ پہاڑ کے اوپر چڑھ کر دشمن سے اپنے کو بچا لے یا پھر گھاٹی میں داخل ہو کر یہاں سے نکل جائے۔ اس جگہ طاعات و عبادات کو ایک عقبہ سے تعبیر فرمایا ہے کہ جس طرح دشمن سے نجات دلانے کا سبب ہوتا ہے اعمال صالحہ آخرت کے عذاب سے نجات کا ذریعہ بنتے ہیں پھر ان اعمال صالحہ میں پہلے فک رقبة فرمایا، یعنی کسی غلام کو آزاد کرنا بکہ بہت بڑی عبادت اور ایک انسان کی زندگی کو بنادینا ہے۔ دوسری چیز اواطعم بیان فرمائی کہ بھوکے کو کھانا کھلانا بہت بڑا ثواب ہے اور کھانا کھلانا کسی کو بھی ہو ثواب سے خالی نہیں مگر بعض کو کھلانا بہت بڑا ثواب بن جاتا ہے اس لئے اس بڑے ثواب کے حاصل کرنے کے لئے فرمایا یتیما ذا مقربة۔ اومسکینا ذامتربة، یعنی خصوصاً جب کھانا کسی ایسے یتیم کو کھلایا جائے جس کے ساتھ تمہاری قرابت و رشتہ داری بھی ہے تو اس میں دوہرا ثواب ہوگیا، ایک بھوکے کا پیٹ بھرنا دوسرے رشتہ دار کا صلہ رحمی اور اس کا حق ادا کرنا، فی یوم ذی مسبغة، یعنی بالخصوص ایسے دن میں اس کو کھانا کھلانا جس میں وہ بھوکا ہو اور بھی زیادہ موجب ثواب ہے۔ اسی طرح یتیم رشتہ دار نہ ہو تو ایسا مسکین ہو جس کی مسکنت نے اس کی خاک نشین بنا رکھا ہے مراد بہت زیادہ مفلس و محتاج ہے اور جس پر خرچ کیا جائے وہ جتنا زیادہ محتاج ہوگا اتنا ہی خرچ کرنے والے کا ثواب بڑھے گا۔
ایمان کا تقاضا ہے کہ انسان صرف اپنی نیکی پر اکتفا نہ کرے دوسروں کو بھی نیکی کی ہدایت کرتا رہے۔


آیت نمبر 12


وَمَاۤ اَدۡرٰٮكَ مَا الۡعَقَبَةُ ۞

لفظی ترجمہ:
وَ: اور | مَاۤ: کیا | اَدْرٰىكَ: تونے جانا | مَا: کیا | الْعَقَبَۃُ: عقبہ

ترجمہ:
اور تو کیا سمجھا کیا ہے وہ گھاٹی


آیت نمبر 13


فَكُّ رَقَبَةٍ ۞

لفظی ترجمہ:
فَكُّ: چھڑانا | رَقَبَۃٍ: گردن کا

ترجمہ:
چھڑنا گردن کا


آیت نمبر 14

اَوۡ اِطۡعٰمٌ فِىۡ يَوۡمٍ ذِىۡ مَسۡغَبَةٍ ۞

لفظی ترجمہ:
اَوْ: یا | اِطْعٰمٌ: کھلانا | فِیْ: میں | یَـوْمٍ: دن | ذِیْ: والا | مَسْغَبَۃٍ: بھوک

ترجمہ:
یا کھلانا بھوک کے دن میں


آیت نمبر 15


يَّتِيۡمًا ذَا مَقۡرَبَةٍ ۞

لفظی ترجمہ:
یَّـتِیْمًا: یتیم کو | ذَا: والا | مَقْرَبَۃٍ: قریب

ترجمہ:
یتیم کو جو قرابت والا ہے


آیت نمبر 16


اَوۡ مِسۡكِيۡنًا ذَا مَتۡرَبَةٍ ۞

لفظی ترجمہ:
اَوْ: یا | مِسْکِیْنًا: مسکین کو | ذَا: والا | مَتْرَبَۃٍ: مٹی

ترجمہ:
یا محتاج کو جو خاک میں رل رہا ہے


آیت نمبر 17

ثُمَّ كَانَ مِنَ الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا وَتَوَاصَوۡا بِالصَّبۡرِ وَتَوَاصَوۡا بِالۡمَرۡحَمَةِ ۞

لفظی ترجمہ:
ثُمَّ: پھر | کَانَ: ہوگیا | مِنَ: سے | الَّذِیْنَ: جولوگ | اٰمَنُوْا: ایمان لائے | وَ: اور | تَـوَاصَوْا: باہم وصیت کی | بِ: ساتھ | الصَّبْرِ: صبر | وَ: اور | تَـوَاصَوْا: باہم وصیت کی | بِ: ساتھ | الْمَرْحَمَۃِ: مہربانی

ترجمہ:
پھر ہو وے ایمان والوں میں جو تاکید کرتے ہیں آپس میں تحمل کی اور تاکید کرتے ہیں رحم کھانے کی


آسان اردو تفسیر:

ثم کان من الذین امنو وتواصو بالصبر وتواصوا بالمرحمة۔ اس آیت میں ایمان کے بعد مومن کا یہ فرض بتلایا گیا کہ وہ دوسرے مسلمان بھائیوں کو بھی صبر اور رحمت کی تلقین کرتا رہے۔ صبر سے مراد نفس کو برائیوں سے روکنا اور بھلائیوں پر عمل کرنا ہے اور رحمت سے مراد دوسروں کے حال پر رحم کھانا، ان کی تکلیف کو اپنی تکلیف سمجھ کر ان کی ایذا اور ان پر ظلم سے بچنا، اس میں تقریباً دین کے سارے ہی احکام آگئے۔
تمت سورة البلد


آیت نمبر 18


اُولٰٓئِكَ اَصۡحٰبُ الۡمَيۡمَنَةِ ۞

لفظی ترجمہ:
اُ ولٰٓىِٕكَ: وہ سب | اَصْحٰبُ: والے | الْمَیْمَنَۃِ: دائیں

ترجمہ:
وہ لوگ ہیں بڑے نصیب والے


آیت نمبر 19


وَالَّذِيۡنَ كَفَرُوۡا بِاٰيٰتِنَا هُمۡ اَصۡحٰبُ الۡمَشۡئَـمَةِ ۞

لفظی ترجمہ:
وَ: اور | الَّذِیْنَ: جولوگ | کَفَرُوْا: کافرہوئے | بِ: سے | اٰیٰـتِنَا: ہماری آیات | ھُمْ: وہ | اَ صْحٰبُ: والے | الْمَشْئَمَۃِ: بائیں

ترجمہ:
اور جو منکر ہوئے ہماری آیتوں سے وہ ہیں کمبختی والے


آیت نمبر 20


عَلَيۡهِمۡ نَارٌ مُّؤۡصَدَةٌ  ۞

لفظی ترجمہ:
عَلَیْ: اوپر | ھِمْ: انکے | نَا رٌ: آگ | مُّؤْصَدَ ۃٌ: بند کی گئی

ترجمہ:
انہی کو آگ میں موند دیا ہے۔  ؏


 

ایک تبصرہ شائع کریں

0تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں (0)