 |
Surah at-Tariq Asaan Urdu Tafseer |
اب انشاءاللہ، ہم سورۃ الطارق کی مکمل تفسیر پڑھیں گے۔
سورۃ نمبر 86 الطارق
أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
آیت نمبر 1
وَالسَّمَآءِ وَالطَّارِقِۙ ۞
لفظی ترجمہ:
وَ: قسم | السَّمَآءِ: آسمان کی | وَ: اور | الطَّارِقِ: نمودارہونیوالا
ترجمہ:
قسم ہے آسمان کی اور اندھیرے میں آنے والے کی
آسان اردو تفسیر:
قسم ہے آسمان کی اور اس چیز کی جو رات کو نمودار ہونے والی ہے اور آپ کو کچھ معلوم ہے وہ رات کو نمودار ہونے والی چیز کیا ہے؟ وہ روشن ستارہ ہے (کوئی ستارہ ہو قولہ تعالیٰ والنجم اذا ھوی آگے جو اب قسم ہے کہ) کوئی شخص ایسا نہیں کہ جس پر کوئی اعمال کا یاد رکھنے والا (فرشتہ) مقرر نہ ہو (کقولہ تعالیٰ و ان علیکم لحفظین کراماً کتبین یعلمون ماتفعلون، مطلب یہ کہ ان اعمال پر محاسبہ ہونے والا ہے اور اس قسم کو مقصود سے مناسبت یہ ہے کہ جیسے آسمان پر ستارے ہر وقت محفوظ ہیں مگر ظہور ان کا خاص شب میں ہوتا ہے۔ اسی طرح اعمال سب نامہ اعمال میں اس وقت بھی محفوظ ہیں مگر ظہور ان کا خاص قیامت میں ہوگا جب یہ بات ہے) تو انسان کو (قیامت کی فکر چاہئے اور اگر اس کے استبعاد کا شبہ ہو تو اس کو) دیکھنا چاہئے کہ وہ کس چیز سے پیدا کیا گیا ہے، وہ ایک اچھلتے پانی سے پیدا کیا گیا ہے جو پشت اور سینہ (یعنی تمام بدن) کے درمیان سے نکلتا ہے (مراد اس پانی سے منی ہے خواہ صرف مرد کی یا مرد و عورت دونوں کی اور عورت کی منی میں گوا ند فاق (اچھلنا) مرد کی منی کی برابر نہیں ہوتا لیکن کچھ اندفاق ضرور ہوتا ہے اور دوسری تقدیر پر یعنی جبکہ مار سے مراد و عورت دونوں کا نطقہ .... ہو تو لفظ ماء کا مفرد لانا اس بناء پر ہے کہ دونوں مادے مخلوط ہو کر مثل شئی واحد کے ہوجاتے ہیں اور پشت اور سینہ چونکہ بدن کے دو طرفین ہیں اس لئے کنایہ جمیع بدن سے ہوسکتا ہے۔ حاصل یہ ہے کہ نطفہ سے انسان بنادینا زیادہ عجیب ہے یہ نسبت دوبارہ بنانے کے اور جب عجیب تر امر اس کی قدرت سے ظاہر ہو رہا ہے تو اس سے ثابت ہوا کہ) وہ اس کے دوبارہ پیدا کرنے پر ضرور قادر ہے (پس وہ استبعاد قیامت کا شبہ دفع ہوگیا اور یہ دوبارہ پیدا کرنا اس روز ہوگا) جس روز سب کی قلعی کھل جاوے گی (یعنی سب مخفی باتیں عقائد باطلہ دنیات فاسدہ ظاہر ہوجاویں گی اور دنیا میں جس طرح موقع پر جرم سے مکر جاتے ہیں اس کو چھپا لیتے ہیں یہ بات وہاں ممکن نہ ہوگی) پھ رسا انسان کہ امکان قیامت کا گوعقلی ہے مگر وقوع نقلی ہے اور دلیل نقلی قرآن ہے اور وہ ہنوز محتاج اثبات ہے تو اس کے متعلق سنو کہ) قسم ہے آسمان کی جس سے پیالے بارش ہوتی ہے اور زمین کی جو (بیج نکلنے کے وقت) پھٹ جاتی ہے (ٓگے جواب قسم ہے) کہ یہ قرآن حق و باطل میں ایک فیصلہ کردینے الا کلام ہے اور وہ کوئی لغو چیز نہیں ہے (اس سے قرآن کا کلام حق منجانب اللہ ہونا ثابت ہوگیا مگر باوجود اثبات حق کے ان لوگوں کا حال یہ ہے کہ) یہ لوگ (نفی حق کے لئے) طرح طرح کی تدبیریں کر رہغے ہیں اور میں بھی (ان کی ناکامی اور سزا کے لئے) طرح طرح کی تدبیریں کر رہا ہوں (اور ظاہر ہے کہ میری تدبیر غالب آوے گی اور جب میرا تدبیر کرنا سن لیا) تو آپ ان کافروں (کی مخالفت سے گھبرائیے نہیں اور ان پر جلدی عذاب آنے کی خواہش نہ کیجئے بلکہ ان) کو یوں ہی رہنے دیجئے (اور زیادہ دن نہیں بلکہ) ان کو تھوڑے ہی دنوں رہنے دیجئے (پھر میں ان پر عذاب نازل کر دوں گا، خواہ قبل الموت یا بعد الموت، اخیر کی قسم کو اخیر کے مضمون سے یہ مناسبت ہے کہ قرآن آسمان سے آتا ہے اور جس میں قابلیت ہوتی ہے اس کو مالا مال کرتا ہے جیسے بارش آسمان سے آتی ہے اور عمدہ زمین کو فیضیاب کرتی ہے۔
اس سورت میں حق تعالیٰ نے آسمان اور ستاروں کی قسم کھا کر یہ ارشاد فرایا ہے کہ ہر انسان پر ایک محافظ نگراں ہے جو اس کے تمام افعال و اعمال اور حرکات و سکنات کو دیکھتا جانتا ہے اس کا تقاضائے عقلی یہ ہے کہ انسان اپنے انجام پر غور کرے کہ دنیا میں و جو کچھ کر رہا ہے وہ اللہ کے یہاں محفوظ ہے اور یہ محفوظ کھنا حساب کے لئے ہے جو قیامت میں ہوگا، اس لئے کسی وقت آخرت اور قیامت کی فکر سے غافل نہ ہو، اس کے بعد اس شبہ کا جواب ہے جو شیطان لوگوں کے دلوں میں ڈالتا ہے کہ مر کرمٹی اور ذرہ ہوجانے کے بعد پھر سب اجزاء کا جمع ہونا اور اس میں زندگی پیدا ہونا ایک موہوم خیال بلکہ عوام کی نظر میں محال و ناممکن ہے۔ جواب میں انسان کی ابتدائی تخلیق پر غور کرنے کی ہدایت ہے کہ وہ کس طرح مختلف ذرات اور مختلف مواد سے ہوتی ہے جیسے ابتدائی تخلیق میں دنیا بھر کے مختلف ذرات کو جمع کر کے ایک زندہ سمیع وبصیر انسان بنادیا، اس کو اس پر بھی قدرت کیوں نہ ہوگی کہ پھر اس کو اسی طرح لوٹاوے، اس کے بعد کچھ حال قیامت کا بیان فرما کر دوسری قسم زمین اور آسمان کی کھا کر غافل انسان کو یہ جتلایا کہ جو کچھ اس کو فکر آخرت کی تلقین کی گئی ہے اس کو مذاق ودل لگی نہ سمجھے یہ ایک حقیقت ہے جو سامنے آکر رہے گی۔ آخر میں کفار کے اس شبہ کا جواب دیا گیا کہ کفر و شرک اور معاصی اگر اللہ تعالیٰ کو پسند نہیں تو پھر دنیا ہی میں ان پر عذاب کیوں نہیں آجاتا، اس پر سورت ختم کی گئی ہے۔
پہلی قسم میں آسمان کے ساتھ طارق کی قسم ہے، طارق کے معنے رات کو آنے والے کے ہیں، ستارے چونکہ دن کو چھپے رہتے ہیں اس لئے ستارہ کو طارق فرمایا اور خود قرآن نے اس کی تفسیر کردی وما ادرٰک ما الطارق، یعنی تمہیں کیا خبر کہ طارق کیا چیز ہے پھر فرمایا النجم الثاقب، یعنی ستارہ روشن، نجم کے معنی ستارہ کے ہیں، قرآن نے کوئی ستارہ متعین نہیں کیا، اس لئے ہر ستارہ اس کا مصداق ہوسکتا ہے، بعض حضرات مفسرین نے نجم سے خاص ستارہ ثریا یا زحل مراد لیا ہے اور کلام عرب سے لفظ نجم کا اسپراطلاق ثابت کیا ہے ثاقب کے معنے روشن چکمدار کے ہیں۔
آیت نمبر 2
وَمَاۤ اَدۡرٰٮكَ مَا الطَّارِقُۙ ۞
لفظی ترجمہ:
وَ: اور | مَاۤ: کیا | اَدْ رٰىكَ: تم جانو | مَا: کیا | الطَّارِقُ: نمودارہونیوالا
ترجمہ:
اور تو نے کیا سمجھا کیا ہے اندھیرے میں آنے والا
آیت نمبر 3
النَّجۡمُ الثَّاقِبُۙ ۞
لفظی ترجمہ:
النَّجْمُ: ستارہ | الثَّاقِبُ: چمکدار
ترجمہ:
اور تارا چمکتا ہوا
آیت نمبر 4
اِنۡ كُلُّ نَفۡسٍ لَّمَّا عَلَيۡهَا حَافِظٌؕ ۞
لفظی ترجمہ:
اِنْ: نہیں | کُلُّ: کوئی | نَفْسٍ: نفس | لَّـمَّا: مگر | عَلَیْ: اوپر | ھَا: اس کے | حَافِظٌ: نگہبان
ترجمہ:
کوئی جی نہیں جس پر نہیں ایک نگہبان
آسان اردو تفسیر:
ان کل نفس لما علیھا حافظ، یہ جواب قسم ہے، اس میں شروع کا حرف ان نافیہ ہے اور حرف لما بتشدید میم بمعنے الا ہے جو قبیلہ ہذیل کے لغت میں استشناء کے معنے دیتا ہے اور معنے آخرت کے یہ ہیں کہ کوئی نفس ایسا نہیں جس ہر حافظ نہ ہو، حافظ کے معنے نگراں کے بھی آتے ہیں جو کسی کے اعمال کو نظر میں رکھے تاکہ ان کا حساب لے، اور حافظ بمعنے محافظ بھی آتا ہے جس کے معنے مصائب وآفات سے حفاظت کرنے والے کے ہیں، پہلے معنے کے اعتبار سے حافظ سے مراد فرشتہ کا تب اعمال ہے، اور یہاں اگرچہ اس کو بلفظ مفرد بمعنی جنس بیان کیا ہے مگر ان کا متعدد ہونا دوسری آیت سے ثابت ہے ان علیکم لحفظین کراما کتبین
اور دوسرے معنے کے اعتبار سے وہ فرشتے مراد ہیں جو اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کی حفاظت کے لئے مقرر کئے ہیں وہ دن رات تمام آفات و مصائب سے انسان کی حفاظت کرتے ہیں، بجزا اس مصیبت وآفت کے جو اللہ تعالیٰ نے اس کے لئے مقدر کردی ہے جیسا کہ ایک دوسری آیت میں اس کا صراحة بیان آیا ہے لہ معقبیت من بین یدیہ ومن خلفہ یحفظونہ من امر اللہ، یعنی انسان کے لئے نوبت بہ نوبت آنے والے محافظ فرشتے مقرر ہیں جو اس کے آگے اور پیچھے سے اس کی حفاظت بامرالٰہی کرتے ہیں۔
ایک حدیث میں ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ ہر مومن پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک سو ساٹھ فرشتے اس کی حفاظت کے لئے مقرر ہیں جو انسان کے ہر ہر عضو کی حفاظت کرتے ہیں ان میں سے سات فرشتے صرف انسان کی آنکھ کی حفاظت کے لئے مقرر ہیں، یہ فرشتے انسان سے ہر بلاومصیبت جو اس کے لئے مقدر نہیں اس طرح انسان سے دفع کرتے ہیں جیسے شہد کے برتن پر آنے والی مکھیوں کو پنکھے وغیرہ سے دفع کیا جاتا ہے۔ اور اگر انسان پر یہ حفاظتی پہرہ نہ ہو تو شیاطین اس کو اچک لیں
آیت نمبر 5
فَلۡيَنۡظُرِ الۡاِنۡسَانُ مِمَّ خُلِقَؕ ۞
لفظی ترجمہ:
فَ: پس | الْیَنْظُرِ: غور کرے | الْاِنْسَانُ: انسان | مِمَّ: کس سے | خُلِقَ: پیداکیاگیا
ترجمہ:
اب دیکھ لے آدمی کہ کا ہے سے بنا ہے
آیت نمبر 6
خُلِقَ مِنۡ مَّآءٍ دَافِقٍۙ ۞
لفظی ترجمہ:
خُلِقَ: پیداکیاگیا | مِنْ: سے | مَّآءٍ: پانی | دَافِقٍ: اچھلتا
ترجمہ:
بنا ہے ایک اچھلتے ہوئے پانی سے
آسان اردو تفسیر:
خلق من ماء عافق، یعنی انسان پیدا کیا گیا ہے ایک اچھلنے والے پانی سے جو نکلتا ہے پشت اور سینے کی ہڈیوں کے درمیان سے۔ عام طور سے حضرات مفسرین نے اس کا یہ مفہوم قرار دیا ہے کہ نطفہ مرد کی پشت اور عورت کے سینہ سے نکلتا ہے مگر اعضائے انسانی کے ماہر اطبا کی تحقیق اور تجربہ یہ ہے کہ نطفہ درحقیقت انسان کے ہر ہر عضو سے نکلتا ہے اور بچے کا ہر عضو اس جز نطفہ سے بنتا ہے جو مرد و عورت کے اسی عضو سے نکلا ہے۔ البتہ دماغ کو اس معاملے میں سب سے زیادہ دخل ہے اسی لئے مشاہدہ ہوتا ہے کہ جماع کی کثرت کرنے والے اکثر صعف دماغ میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ اسی کے ساتھ انکی تحقیق یہ بھی ہے کہ نطفہ تمام اعضا سے منفصل ہو کر نخاع کے ذریعہ خصیتین میں جمع ہوتا اور پھر وہاں سے نکلتا ہے۔
اگر یہ تحقیق صحیح ہے تو حضرات مفسرین نے جو نطفہ کا خروج مرد کی پشت اور عورت کے سینے کے متعلق قرار دیا ہے اس کی توجیہ بھی کچھ بعید نہیں کیونکہ اس پر اطبا کا اتفاق ہے کہ نطفہ کی تولید میں سب سے بڑا دخل دماغ کو ہے اور دماغ کا خلیفہ و قائم مقام نخاع ہے جو ریڑھ کی ہڈی کے اندر دماغ سے پشت اور پھر خصیتین تک آیا ہوا ہے، اسی کے کچھ شعبے سینے کی ہڈیوں میں آئے ہوئے ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ عورت کے نطفہ میں سینے کی ہڈیوں سے آنیوالے نطفہ کا اور مرد کے نطفہ میں پشت سے آنیوالے نطفہ کا دخل زیادہ ہو (ذکرہ البیضاوی)
اور اگر قرآن کریم کے الفاظ پر غور کیا جائے تو ان میں مرد و عورت کی کوئی تخصیص نہیں، صرف اتنا ہے کہ نطفہ پشت اور سینے کے درمیان سے نکلتا ہے۔ اس کا یہ مطلب بےتکلف ہوسکتا ہے کہ نطفہ مرد و عورت دونوں کے سارے بدن سے نکلتا ہے اور سارے بدن کی تعبیر آگے پیچھے کے اہم اعضاء سے کردی گئی سامنے کے حصہ میں سینہ اور پیچھے کے حصہ میں پشت سب سے اہم عضا ہیں۔ ان دونوں کے اندر سے نکلنے کا مطلب یہ لیا جائے کہ سارے بدن سے نکلتا ہے جیسا کہ خلاصہ تفسیر میں لکھا گیا ہے۔
آیت نمبر 7
يَّخۡرُجُ مِنۡۢ بَيۡنِ الصُّلۡبِ وَالتَّرَآئِبِؕ ۞
لفظی ترجمہ:
یَّخْرُ جُ: نکلتا ہے | مِنْۢ: سے | بَیْنِ: درمیان | الصُّلْبِ: پُشت | وَ: اور | التَّرَآ ىِٕبِ: سینے کی ہڈیاں
ترجمہ:
جو نکلتا ہے پیٹھ کے بیچ سے اور چھاتی کے بیچ سے
آیت نمبر 8
اِنَّهٗ عَلٰى رَجۡعِهٖ لَقَادِرٌؕ ۞
لفظی ترجمہ:
اِ نَّ: بے شک | ہٗ: وہ | عَلٰی: اوپر | رَجْعِ: لوٹانے | ہٖ: اس کے | لَقَادِرٌ: قادر
ترجمہ:
بیشک وہ اس کو پھیر لا سکتا ہے
آسان اردو تفسیر:
انہ علی رجعہ لقادر، رجع کے معنے لوٹا دینے کے ہیں مطلب یہ ہے کہ جس خالق کائنات نے اول انسان کو نطفہ سے پیدا کیا ہے وہ اس کو دوبارہ لوٹا دینے یعنی مرنیکے بعد زندہ کردینے پر بدرجہ اولیٰ قادر ہے۔
یوم تبلی السرائر، تبلی کے لفظی معنے امتحان لینے اور آزمانے کے ہیں اور سرائر کے معنی ہیں مخفی امور مطلب یہ ہے کہ قیامت کے روز انسان کے تمام عقائد و خیالات اور نیت وعزم جو دل میں پوشیدہ تھی دنیا میں اس کو کوئی نہ جانتا تھا اسی طرح وہ اعمال و افعال جو اس نے چھپ کر کئے دنیا میں کسی کو ان کی خبر نہیں، محشر میں سب کا امتحان لیا جائے گا یعنی سب کو ظاہر کردیا جائے گا، حضرت عبداللہ بن عمر نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ قیامت کے روز انسان کے ہر مخفی راز کو کھول دے گا۔ ہر اچھے برے عقیدے اور عمل کی علامت انسان کے چہرہ پر یا زینت ہو کر یا ظلمت و سیاہی کی صورت میں ظاہر کردی جائے گی۔
آیت نمبر 9
يَوۡمَ تُبۡلَى السَّرَآئِرُۙ ۞
لفظی ترجمہ:
یَـوْمَ: اس دن | تُبْلَی: ظاہرہونگے | السَّرَآىِٕرُ: پوشیدہ راز(جمع)
ترجمہ:
جس دن جانچے جائیں بھید
آیت نمبر 10
فَمَا لَهٗ مِنۡ قُوَّةٍ وَّلَا نَاصِرٍؕ ۞
لفظی ترجمہ:
فَ: پھر | مَا: نہیں | لَ: واسطے | ہٗ: اسکے | مِنْ: کچھ | قُـوَّ ۃٍ: طاقت | وَّ: اور | لَا: نہ | نَاصِرٍ: کوئی مددگار
ترجمہ:
تو کچھ نہ ہوگا اس کو زور اور نہ کوئی مدد کرنے والا
آیت نمبر 11
وَالسَّمَآءِ ذَاتِ الرَّجۡعِۙ ۞
لفظی ترجمہ:
وَ: اور | السَّمَآءِ: آسمان | ذَاتِ: والا | الرَّجْعِ: لوٹانا
ترجمہ:
قسم ہے آسمان چکر مارنے والے کی
آسان اردو تفسیر:
والسماء ذات الرجع، رجع کے معنے اس بارش کے ہیں جو پے درپے ہو کہ ایک مرتبہ بارش ہو کر ختم ہوجائے اور پھر لوٹے۔
آیت نمبر 12
وَالۡاَرۡضِ ذَاتِ الصَّدۡعِۙ ۞
لفظی ترجمہ:
وَ: اور | الْاَ رْضِ: زمین | ذَاتِ: والی | الصَّدْعِ: شگاف
ترجمہ:
اور زمین پھوٹ نکلنے والی کی
آیت نمبر 13
اِنَّهٗ لَقَوۡلٌ فَصۡلٌۙ ۞
لفظی ترجمہ:
اِنَّ: بیشک | ہٗ: وہ | لَقَـوْلٌ: بات ہے | فَصْلٌ: فیصلہ والی
ترجمہ:
بیشک یہ بات ہے دو ٹوک
آسان اردو تفسیر:
انہ لقول فصل، یعنی قرآن کریم ایک فیصلہ کن قول ہے جو حق و باطل میں فیصلہ کرتا ہے اور اس میں کسی شک وشبہ کی گنجائش نہیں۔
حضرت علی فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا کہ قرآن کے متعلق فرمایا کتاب فیہ خبر ما قبلکم وحکم ما بعد کم وھو الفصل لیس بالھزل یعنی یہ ایک ایسی کتاب ہے جس میں تم سے پہلی امتوں کے حالات واخبار ہیں اور تمہارے بعد آنیوالوں کے لئے احکام ہیں وہ فیصلہ کن قول ہے ہنسی مذاق نہیں۔
آیت نمبر 14
وَّمَا هُوَ بِالۡهَزۡلِؕ ۞
لفظی ترجمہ:
وَّ: اور | مَا: نہیں | ھُـوَ: وہ | بِ: کوئی | الْھَزْلِ: کھیل
ترجمہ:
اور نہیں یہ بات ہنسی کی
آیت نمبر 15
اِنَّهُمۡ يَكِيۡدُوۡنَ كَيۡدًا ۞
لفظی ترجمہ:
اِنَّ: بیشک | ھُمْ: وہ ہیں | یَکِیْدُوْنَ: داؤ چلاتے ہیں | کَیْدًا: داؤ
ترجمہ:
البتہ وہ لگے ہوئے ہیں ایک داؤ کرنے میں
آیت نمبر 16
وَّاَكِيۡدُ كَيۡدًا ۞
لفظی ترجمہ:
وَّ: اور | اَ کِیْدُ: خفیہ تدبیر کرتاہوں | کَیْدًا: تدبیر
ترجمہ:
اور میں لگا ہوا ہوں ایک داؤ کرنے میں
آیت نمبر 17
فَمَهِّلِ الۡكٰفِرِيۡنَ اَمۡهِلۡهُمۡ رُوَيۡدًا ۞
لفظی ترجمہ:
فَ: تو | مَھِّلِ: مہلت دو | الْکٰفِرِیْنَ: کافروں کو | اَمْھِلْ: مہلت دو | ھُمْ: ان کو | رُوَیْدًا: مہلت دینا
ترجمہ:
سو ڈھیل دے منکروں کو ڈھیل دے ان کو تھوڑے دنوں۔ ؏
الحمدللہ سورہ الطارق مکمل