سورۃ التغابن 64۔ آسان اردو تفسیر

0


surah_at_taghabun_asaan_urdu_tafseer_meas_momin
surah-at-taghabun-asaan-urdu-tafseer


سورۃ التغابن 64۔ آسان اردو تفسیر


اب سورۃ التغابن آسان اردو میں تفسیر کو شروع سے لے کر آخر تک یہاں ملاحظہ فرمائیں 


أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ


آیت نمبر 1

يُسَبِّحُ لِلّٰهِ مَا فِى السَّمٰوٰتِ وَمَا فِى الۡاَرۡضِۚ لَهُ الۡمُلۡكُ وَلَهُ الۡحَمۡدُۖ  وَهُوَ عَلٰى كُلِّ شَىۡءٍ قَدِيۡرٌ ۞ 


ترجمہ:

پاکی بول رہا ہے الله کی جو کچھ ہے آسمانوں میں اور جو کچھ ہے زمین میں اسی کا راج ہے اور اسی کی تعریف ہے اور وہی ہر چیز کرسکتا ہے


آسان اردو تفسیر: 

 سب چیزیں جو کچھ کہ آسمانوں میں ہیں اور جو کچھ کہ زمین میں ہیں الله کی پاکی (قالاً یا حالاً) بیان کرتی ہیں اسی کی سلطنت ہے اور وہی تعریف کے لائق ہے اور وہ ہر شے پر قادر ہے (یہ تمہید اگلے بیان کی ہے کہ وہ ایسے صفات کمال کے ساتھ متصف ہے تو اس کی اطاعت واجب اور معصیت قبیح ہے) وہی ہے جس نے تم کو پیدا کیا (جو مقتضی اس کا تھا کہ سب ایمان لاتے) سو (باوجود اس کے بھی) تم میں بعضے کافر ہیں اور بعضے مومن ہیں، الله تعالیٰ تمہارے اعمال (ایمانیہ و کفریہ) کو دیکھ رہا ہے (بس ہر ایک کے مناسب جزا دے گا) اسی نے آسمانوں اور زمین کو ٹھیک طور پر (یعنی پر حکمت و پر منفعت) پیدا کیا اور تمہارا نقشہ بنایا سو عمدہ نقشہ بنایا (کیونکہ اعضاء انسانی کے برابر کسی حیوان کے اعضاء میں تناسب نہیں) اور اس کے پاس (سب کو) لوٹنا ہے (اور) وہ سب چیزوں کو جانتا ہے جو آسمانوں اور زمین میں ہیں اور سب چیزوں کو جانتا ہے جو تم پوشیدہ کرتے ہو اور جو علانیہ کرتے ہو اور الله تعالیٰ دلوں تک کی باتوں کو جاننے والا ہے اور یہ تمام امور مقتضی اس کو ہیں کہ تم اس کی اطاعت کیا کرو اور علاوہ ان مقتضیات کے کیا تم کو ان لوگوں کی خبر نہیں پہنچی (کہ وہ خبر پہنچنا بھی مقتضی و جوب اطاعت کو ہے) جنہوں نے (تم سے) پہلے کفر کیا، پھر انہوں نے اپنے (ان) اعمال کا وبال (دنیا میں بھی) چکھا اور (اس کے علاوہ آخرت میں بھی) ان کے لئے عذاب درد ناک ہونے والا ہے یہ (وبال عاجل و عذاب آ جل) اس سبب سے ہے کہ ان لوگوں کے پاس ان کے پیغمبر دلائل واضحہ لے کر آئے تو ان لوگوں نے (ان رسولوں کی نسبت) کہا کہ کیا آدمی ہم کو ہدایت کریں گے (یعنی بشر کہیں پیغمبر یا ہادی ہوسکتا ہے) غرض انہوں نے کفر کیا اور اعراض کیا اور خدا نے (بھی ان کی کچھ) پرواہ نہ کی (بلکہ مقہور کردیا) اور الله (سب سے) بےنیاز (اور) ستودہ صفات ہے (اس کو نہ کسی معصیت سے ضرر اور نہ کسی کی اطاعت سے نفع، خود مطیع و عاصی ہی کا نفع اور ضرر ہے اور) یہ کافر (مضمون عذاب آخرت کا سن کر جیسا کہ لہم عذاب الیم میں مذکور ہے) یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ ہرگز دوبارہ زندہ نہ کئے جاویں گے (جس کے بعد عذاب الیم کا وقوع بتلایا جاتا ہے) آپ کہہ دیجئے کہ کیوں نہیں، والله ضرور دوبارہ زندہ کئے جاؤ گے پھر جو کچھ تم نے کیا ہے تم سب کو جتلا دیا جاوے گا (اور اس پر سزا دی جاوے گی) اور یہ (بعث و جزاء) الله کو (بوجہ کمال قدرت) بالکل آسان ہے سو (جب یہ مقتضیات ایمان کے مجتمع ہیں تو تم کو چاہئے کہ) تم الله پر اور اس کے رسول پر اور اس نور پر (یعنی قرآن پر) جو ہم نے نازل کیا ہے ایمان لاؤ اور الله تمہارے سب اعمال کی پوری خبر رکھتا ہے (اور اس دن کو یاد کرو) جس دن کہ تم سب کو اس جمع ہونے کے دن میں جمع کرے گا یہی دن ہے سو دوزیاں (کے ظاہر ہونے) کا (یعنی مسلمانوں کا نفع اور کافروں کا نقصان اس روز عملاً ظاہر ہوجاوے گا) اور (بیان اس کا یہ ہے کہ) جو شخص الله پر ایمان رکھتا ہوگا اور نیک کام کرتا ہوگا الله اس کے گناہ دور کرے دے گا اور اس کو (جنت کے) ایسے باغون میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی جن میں ہمیشہ ہمیشہ کیلئے رہیں گے (اور) یہ بڑی کامیابی ہے اور جن لوگوں نے کفر کیا ہوگا اور ہماری آیتوں کو جھٹلایا ہوگا یہ لوگ دوزخی ہیں اس میں ہمیشہ رہیں گے اور وہ برا ٹھکانا ہے۔


آیت نمبر 2

هُوَ الَّذِىۡ خَلَقَكُمۡ فَمِنۡكُمۡ كَافِرٌ وَّمِنۡكُمۡ مُّؤۡمِنٌؕ وَاللّٰهُ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ بَصِيۡرٌ ۞ 


ترجمہ:

وہی ہے جس نے تم کو بنایا پھر کوئی تم میں منکر ہے اور کوئی تم میں ایمان دار اور الله جو تم کرتے ہو دیکھتا ہے


آسان اردو تفسیر: 

(آیت) خَلَقَكُمْ فَمِنْكُمْ كَافِرٌ وَّمِنْكُمْ مُّؤْمِنٌ، یعنی الله تعالیٰ نے تم کو پیدا کیا پھر تم میں بعض کافر ہوگئے بعض مومن رہے، اس میں لفظ فمنکم کا حرف فا جو تعقیب (یعنی ایک چیز کا دوسرے کے بعد ہونے) پر دلالت کرتا ہے، اس سے معلوم ہوا کہ اول تخلیق و آفرینش میں کوئی کافر نہیں تھا، یہ کافر مومن کی تقسیم بعد میں اس کسب و اختیار کے تابع ہوئی جو الله تعالیٰ نے ہر انسان کو بخشا ہے اور اسی کسب و اختیار کی وجہ سے اس پر گناہ وثواب عائد ہوتا ہے، ایک حدیث سے بھی اس مفہوم کی تائید ہوتی ہے جس میں رسول الله ﷺ کا ارشاد ہے (کل مولود یولد علی الفطرة فابو اہ یھودانہ وینصرانہ الحدیث) ”یعنی ہر پیدا ہونے والا انسان فطرت سلیمہ پر پیدا ہوتا ہے (جس کا تقاضا مومن ہونا ہے) مگر پھر اس کے ماں باپ اس کو یہودی یا نصرانی وغیرہ بنا دیتے ہیں (قرطبی) 

دو قومی نظریئے

 قرآن حکیم نے اس جگہ انسان کو دو گروہوں میں تقسیم کیا ہے، کافر، مومن جس سے معلوم ہوا کہ اولاد آدم ؑ سب ایک برادری ہے اور دنیا کے پورے انسان اس برادری کے ارفاد ہیں، اس برادری کو قطع کرنے اور ایک الگ گروہ بنانے والی چیز صرف کفر ہے جو شخص کافر ہوگیا، اس نے انسانی برادری کا رشتہ توڑ دیا، اس طرح پوری دنیا میں انسانوں میں تحزب اور گروہ بندی صرف ایمان و کفر کی بنا پر ہو سکتی ہے، رنگ اور زبان، نسب و خاندان، وطن اور ملک میں سے کوئی چیز ایسی نہیں جو انسانی برادری کو مختلف گروہوں میں بانٹ دے، ایک باپ کی اولاد اگر مختلف شہروں میں بسنے لگے یا مختلف زبانیں بولنے لگے یا ان کے رنگ میں تفاوت ہو تو وہ الگ الگ گروہ نہیں ہو جاتے، اختلاف رنگ و زبان اور وطن و ملک کے باوجود یہ سب آپس میں بھائی ہی ہوتے ہیں، کوئی سمجھدار انسان ان کو مختلف گروہ نہیں قرار دے سکتا۔

 زمانہ جاہلیت میں نسب اور قبائل کی تفریق کو قومیت اور گروہ بندی کی بنیاد بنادیا گیا، اسی طرح ملک و وطن کی بنیاد پر کچھ گروہ بندی ہونے لگی تو رسول الله ﷺ نے ان سب بتوں کو توڑا اور مسلمان خواہ کسی ملک اور کسی خطہ کا ہو کسی رنگ اور خاندان کا ہو، کوئی زبان بولتا ہو، ان سب کو ایک برادری قرار دیا بنص قرآن (آیت) انما المؤ منون اخوة (مومنین سب کے سب آپس میں بھائی بھائی ہیں) اسی طرح کفار کسی ملک و قوم کے ہوں وہ اسلام کی نظر میں ملت واحدہ ہیں یعنی ایک قوم ہیں۔

قرآن کریم کی مذکورة الصدر آیت بھی اس پر شاہد ہے کہ الله تعالیٰ نے کل بنی آدم کو صرف کافر مومن دو گروہوں میں تقسیم فرمایا، اختلاف رنگ و زبان کو قرآن کریم نے الله تعالیٰ کی قدرت کا ملہ کی نشانی اور انسانی کے لئے بہت سے معاشی فوائد پر مشتمل ہونے کی بنا پر ایک عظیم نعمت تو قرار دیا ہے مگر اس کو بنی آدمی میں گروہ بندی کا ذریعہ بنانے کی اجازت نہیں دی۔

 اور ایمان و کفر کی بنا پر دو قوموں کی تقسیم یہ ایک امر اختیاری پر مبنی ہے، کیونکہ ایمان بھی اختیاری امر ہے اور کفر بھی، اگر کوئی شخص ایک قومیت چھوڑ کر دوسری میں شامل ہونا چاہئے تو بڑی آسانی سے اپنے عقائد بدل کر دوسرے میں شامل ہوسکتا ہے، بخلاف نسب و خاندان، رنگ اور زبان اور ملک و وطن کے کہ کسی انسان کے اختیار میں نہیں کہ اپنا نسب بدل دے یا رنگ بدل دے، زبان اور وطن اگرچہ بدلے جاسکتے ہیں مگر زبان و وطن کی بنیاد پر بننے والی قومیں دوسروں کو عادةً اپنے اندر جذب کرنے پر کبھی آمادہ نہیں ہوتیں خواہ ان کی ہی زبان بولنے لگے اور ان کے وطن میں اباد ہو جائے۔

یہی وہ اسلامی برادری اور ایمانی اخوت تھی جس نے تھوڑے ہی عرصہ میں مشرق و مغرب، جنوب و شمال، کالے گورے، عرب عجم کے بیشمار افراد کو ایک لڑی میں پرو دیا تھا جس کی قوت و طاقت کا مقابلہ دنیا کی قومیں نہ کرسکیں تو انہوں نے پھر ان بتوں کو زندہ کیا جن کو رسول الله ﷺ اور اسلام نے پاش پاش کردیا تھا، مسلمانوں کی عظیم ترین ملت واحدہ کو ملک و وطن اور زبان اور رنگ اور نسب اور خاندان کے مختلف ٹکڑوں میں تقسیم کر کے ان کو باہم ٹکرا دیا، اس طرح دشمنان اسلام کی یلغار کے لئے میدان صاف ہوگیا جس کا نتیجہ آنکھیں آج دیکھ رہی ہیں کہ مشرق و مغرب کے مسلمان جو ایک قوم، ایک دل تھے اب چھوٹے چھوٹے گروہوں میں منحصر ہو کر ایک دوسرے سے برسر پیکار ہیں اور ان کے مقابلہ پر کفر کی طاغوتی قوتیں باہمی اختلاف رکھنے کے باوجود مسلمانوں کے مقابلہ میں ملت واحدہ ہی معلوم ہوتی ہیں۔


آیت نمبر 3

خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرۡضَ بِالۡحَـقِّ وَصَوَّرَكُمۡ فَاَحۡسَنَ صُوَرَكُمۡۚ وَاِلَيۡهِ الۡمَصِيۡرُ ۞ 


ترجمہ:

بنایا آسمانوں کو اور زمین کو تدبیر سے اور صورت کھینچی تمہاری پھر اچھی بنائی تمہاری صورت اور اس کی طرف سب کو پھرجانا ہے


آسان اردو تفسیر:

(آیت) وَصَوَّرَكُمْ فَاَحْسَنَ صُوَرَكُمْ ، (اس نے تمہاری صورت بنائی پھر تمہاری صورتوں کو بہتر بنایا) صورت گری در حقیقت خالق کائنات کی مخصوص صفت ہے، اسی لئے اسماء الٰہیہ میں الله تعالیٰ کا نام مصور آیا ہے اور غور کرو کہ کائنات میں کتنی اجناس مختلفہ ہیں اور ہر جنس میں کتنی انواع مختلفہ، ہر نوح میں اصناف مختلفہ اور ہر صنف میں لاکھوں کروڑوں افراد مختلفہ پائے جاتے ہیں، ایک کی صورت دوسرے سے نہیں ملتی، ایک نوع انسانی میں ملکوں اور خطوں کے اختلاف سے نسلوں اور قوموں کے اختلاف سے شکل و صورت میں کھبے ہوئے امتیازات، پھر ان میں ہر فرد کی شکل و صورت کا دوسرے سب سے ممتاز ہونا ایک ایسی حیرت انگیز صنعت و صورت گری ہے کہ عقل حیران رہ جاتی ہے، انسانی چہرہ جو کچھ سات مربع انچ سے زیادہ نہیں، اربوں، پدموں انسانوں میں ایک ہی طرح کا چہرہ ہونے کے باوجود ایک کی صورت بالکلیہ دوسرے سے نہیں ملتی کہ پہچاننا دشوار ہوجائے، آیت مذکورہ میں ایک نعمت صورت گری ہے اس کا ذکر فرمایا اس کے بعد فرمایا فاحسن صور کم، یعنی شکل انسانی کو ہم نے تمام کائنات و مخلوقات کی صورتوں سے زیادہ حسین اور بہتر بنایا ہے، کوئی انسان اپنی جماعت میں کتنا ہی بدشکل بدصورت سمجھا جاتا ہو مگر باقی تمام حیوانات وغیرہ کے اشکال کے اعتبار سے وہ بھی حسین ہے، فتبارک الله احسن الخالقین۔


آیت نمبر 4

يَعۡلَمُ مَا فِى السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرۡضِ وَيَعۡلَمُ مَا تُسِرُّوۡنَ وَمَا تُعۡلِنُوۡنَؕ وَاللّٰهُ عَلِيۡمٌۢ بِذَاتِ الصُّدُوۡرِ ۞ 


لفظی ترجمہ:

يَعْلَمُ: وہ جانتا ہے | مَا فِي السَّمٰوٰتِ: جو کچھ آسمانوں میں ہے | وَالْاَرْضِ: اور زمین میں | وَيَعْلَمُ مَا تُسِرُّوْنَ: اور وہ جانتا ہے جو تم چھپاتے ہو | وَمَا تُعْلِنُوْنَ: اور جو تم ظاہر کرتے ہو | وَاللّٰهُ: اور اللہ تعالیٰ | عَلِيْمٌۢ: جاننے والا ہے | بِذَاتِ الصُّدُوْرِ: سینوں کے بھید


ترجمہ:

جانتا ہے جو کچھ ہے آسمانوں میں اور زمین میں اور جانتا ہے جو تم چھپاتے ہو اور جو کھول کر کرتے ہو اور الله کو معلوم ہے جیوں کی بات


آیت نمبر 5

اَلَمۡ يَاۡتِكُمۡ نَبَـؤُا الَّذِيۡنَ كَفَرُوۡا مِنۡ قَبۡلُ  فَذَاقُوۡا وَبَالَ اَمۡرِهِمۡ وَلَهُمۡ عَذَابٌ اَلِيۡمٌ ۞ 


لفظی ترجمہ:

اَلَمْ يَاْتِكُمْ: کیا نہیں آئی تمہارے پاس | نَبَؤُا الَّذِيْنَ: خبر ان لوگوں کی | كَفَرُوْا: جنہوں نے کفر کیا | مِنْ قَبْلُ: اس سے پہلے | فَذَاقُوْا: تو انہوں نے چکھا | وَبَالَ اَمْرِهِمْ: وبال اپنے کام کا | وَلَهُمْ عَذَابٌ: اور ان کے لیے عذاب | اَلِيْمٌ: دردناک


ترجمہ:

کیا پہنچی نہیں تم کو خبر ان لوگوں کی جو منکر ہوچکے ہیں پہلے پھر انہوں نے چکھی سزا اپنے کام کی اور ان کو عذاب درد ناک ہے


آیت نمبر 6

ذٰ لِكَ بِاَنَّهٗ كَانَتۡ تَّاۡتِيۡهِمۡ رُسُلُهُمۡ بِالۡبَيِّنٰتِ فَقَالُوۡۤا اَبَشَرٌ يَّهۡدُوۡنَـنَا فَكَفَرُوۡا وَتَوَلَّوْا وَّاسۡتَغۡنَى اللّٰهُ ؕ وَاللّٰهُ غَنِىٌّ حَمِيۡدٌ ۞ 


ترجمہ:

یہ اس لئے کہ لاتے تھے ان کے پاس ان کے رسول نشانیاں پھر کہتے کیا آدمی ہم کو راہ سمجھائیں گے پھر منکر ہوئے اور منہ موڑ لیا اور الله نے بےپروائی کی اور الله بےپرواہ ہے سب تعریفوں والا


آسان اردو تفسیر:

(آیت) فَقَالُوْٓا اَبَشَرٌ يَّهْدُوْنَنَا، لفظ بشر اگرچہ مفرد ہے مگر معنی میں جمع کے ہے، اس لئے یہدون جمع کا لفظ اس کے لئے استعمال فرمایا گیا، بشریت کو نبوت و رسالت کے منافی سمجھنا سبھی کفار کا خیال باطل تھا جس پر قرآن میں جابجا رد کیا گیا ہے، افسوس ہے کہ اب مسلمانوں میں بھی بعض لوگ نبی کریم ﷺ کی بشریت کے منکر پائے جاتے ہیں، انہیں سوچنا چاہئے کہ وہ کدھر جا رہے ہیں، بشر ہونا نہ نبوت کے منافی ہے نہ رسالت کے بلند مقام کے منافی ہے اور نہ رسول کے نور ہونے کے منافی ہے، وہ نور بھی ہیں بشر بھی، ان کے نور کو چراغ اور آفات و ماہتاب کے نور پر قیاس کرنا غلطی ہے۔


آیت نمبر 7

زَعَمَ الَّذِيۡنَ كَفَرُوۡۤا اَنۡ لَّنۡ يُّبۡـعَـثُـوۡا ؕ قُلۡ بَلٰى وَرَبِّىۡ لَـتُبۡـعَـثُـنَّ ثُمَّ لَـتُنَـبَّـؤُنَّ بِمَا عَمِلۡـتُمۡؕ وَذٰ لِكَ عَلَى اللّٰهِ يَسِيۡرٌ ۞ 


لفظی ترجمہ:

زَعَمَ: دعوی کیا | الَّذِيْنَ كَفَرُوْٓا: ان لوگوں نے جنہوں نے کفر کیا | اَنْ لَّنْ: کہ ہرگز نہ | يُّبْعَثُوْا: اٹھائے جائیں گے | قُلْ: کہہ دیجئے | بَلٰى وَرَبِّيْ: کیوں نہیں ، میرے رب کی قسم | لَتُبْعَثُنَّ: البتہ تم ضرور اٹھائے جاؤ گے | ثُمَّ لَتُنَبَّؤُنَّ: پھر البتہ تم ضرور بتائے جاؤ گے | بِمَا عَمِلْتُمْ: ساتھ اس کے جو تم نے عمل کیے | وَذٰلِكَ: اور یہ بات | عَلَي: پر | اللّٰهِ يَسِيْرٌ: اللہ (پر) بہت آسان ہے


ترجمہ:

دعویٰ کرتے ہیں منکر کہ ہرگز ان کو کوئی نہ اٹھائے گا تو کہہ کیوں نہیں قسم ہے میرے رب کی تم کو بیشک اٹھانا ہے پھر تم کو جتلانا ہے جو کچھ تم نے کیا اور یہ الله پر آسان ہے۔


آیت نمبر 8

فَاٰمِنُوۡا بِاللّٰهِ وَرَسُوۡلِهٖ وَالنُّوۡرِ الَّذِىۡۤ اَنۡزَلۡنَاؕ وَاللّٰهُ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ خَبِيۡرٌ ۞ 


ترجمہ:

سو ایمان لاؤ الله پر اور اس کے رسول پر اور نور پر جو ہم نے اتارا اور الله کو تمہارے سب کام کی خبر ہے


آسان اردو تفسیر:

(آیت) فَاٰمِنُوْا باللّٰهِ وَرَسُوْلِهٖ وَالنُّوْرِ الَّذِيْٓ اَنْزَلْنَا (تو ایمان لاؤ الله پر اور اس کے رسول پر، اور اس نور پر جو ہم نے نازل کیا ہے) نور سے مراد اس جگہ قرآن ہے، کیونکہ نور کی حقیقت یہ ہے کہ وہ خود بھی ظاہر اور روشن ہو اور دوسری چیزوں کو بھی ظاہر و روشن کر دے، قرآن کا اپنے اعجاز کی وجہ سے خود روشن اور ظاہر ہونا کھلی بات ہے اور اس کے ذریعہ الله تعالیٰ کے راضی ہونے اور ناراض ہونے کے اسباب اور احکام و شرائع اور تمام حقائق عالم آخرت جن کے جاننے کے انسان کو ضرورت ہے وہ روشن ہو جاتے ہیں۔


آیت نمبر 9

يَوۡمَ يَجۡمَعُكُمۡ لِيَوۡمِ الۡجَمۡعِ ذٰ لِكَ يَوۡمُ التَّغَابُنِ ؕ وَمَنۡ يُّؤۡمِنۡۢ بِاللّٰهِ وَيَعۡمَلۡ صَالِحًـا يُّكَفِّرۡ عَنۡهُ سَيِّاٰتِهٖ وَيُدۡخِلۡهُ جَنّٰتٍ تَجۡرِىۡ مِنۡ تَحۡتِهَا الۡاَنۡهٰرُ خٰلِدِيۡنَ فِيۡهَاۤ اَبَدًا ؕ ذٰ لِكَ الۡفَوۡزُ الۡعَظِیْمُ ۞ 


ترجمہ:

جس دن تم کو اکٹھا کرے گا جمع ہونے کے دن وہ دن ہے ہار جیت کا اور جو کوئی یقین لائے الله پر اور کرے کام بھلا اتار دے گا اس پر سے اس کی برائیاں اور داخل کرے گا اس کو باغوں میں جن کے نیچے بہتی ہیں ندیاں رہا کریں ان میں ہمیشہ یہی ہے بڑی مراد ملنی


آسان اردو تفسیر:

قیامت کو یوم تغابن کہنے کی وجہ

(آیت) يَوْمَ يَجْمَعُكُمْ لِيَوْمِ الْجَمْعِ ذٰلِكَ يَوْمُ التَّغَابُنِ ”جس روز تم کو الله تعالیٰ جمع کرے گا جمع کرنے کے دن میں، یہ دن ہوگا تغابن کا یعنی خسارہ کا“ یوم الجمع اور یوم التغابن دونوں قیامت کے نام ہیں، یوم الجمع ہونا اس دن کا تو ظاہر ہے کہ تمام مخلوق اولین و آخرین کو اس روز حساب کتاب اور جزاء و سزا کے لئے جمع کیا جائے گا اور یوم التغابن اس لئے کہ تغابن غبن سے مشتق ہے جس کے معنی خسارے اور نقصان کے ہیں، مالی نقصان اور خسارہ کو بھی غبن کہا جاتا ہے اور رائے اور عقل کے نقصان کو بھی، امام راغب اصفہانی نے مفردات القرآن میں فرمایا کہ مالی خسارے کے لئے یہ لفظ بصیغہ مجہول غبن فلان فہومغبون استعمال کیا جاتا ہے اور عقل و رائے کے نقصان کے لئے باب سمع سے غبن استعمال کیا جاتا ہے، لفظ تغابن اصل کے اعتبار سے دو طرفہ کام کے لئے بولا جاتا ہے کہ ایک آدمی دوسرے کو اور دوسرا اس کو نقصان پہنچائے یا اس کے نقصان و خسارہ کو ظاہر کرے، یہاں مراد یک طرفہ اظہار غبن ہے، جیسا کہ یک طرفہ استعمال بھی اس لفظ کا معروف و مشہور ہے، قیامت کو یوم تغابن کہنے کی وجہ یہ ہے کہ احادیث صحیحہ میں ہے کہ الله تعالیٰ نے ہر انسان کے لئے آخرت میں دو گھر پیدا کئے ہیں، ایک جہنم میں دوسرا جنت میں، اہل جنت کو جنت میں داخل کرنے سے پہلے ان کا وہ مقام بھی دکھلایا جائے گا جو ایمان اور عمل نہ ہونے کی صورت میں اس کے لئے مقرر تھا تاکہ اس کو دیکھنے کے بعد جنت کے مقام کی اور زیادہ قدر اس کے دل میں پیدا ہو اور الله تعالیٰ کو مزید شکر گزار ہو، اسی طرح اہل جہنم کو جہنم میں داخل کرنے سے پہلے ان کا جنت کا وہ مقام دکھلایا جائے گا جو ایمان اور عمل صالح کی صورت میں ان کے لئے مقرر تھا تاکہ ان کو اور زیادہ حسرت ہو، ان روایات میں یہ بھی ہے کہ پھر جنت میں جو مقامات اہل جہنم کے تھے وہ بھی اہل جنت کو مل جائیں گے اور جہنم میں جو مقامات اہل جنت کے تھے وہ بھی اہل جہنم کے حصہ میں آجائیں گے، یہ روایات حدیث صحیحین اور دوسری کتب حدیث میں مختلف الفاظ سے مفصل آئی ہیں، اس وقت جبکہ کفار فجار اور اشقیاء کے جنتی مقامات بھی اہل جنت کے قبضہ میں آئیں گے تو ان کو اپنے غبن اور خسارے کا احساس ہوگا کہ کیا چھوڑ اور کیا پایا۔

صحیح مسلم اور ترمذی وغیرہ میں حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول الله ﷺ نے صحابہ کرام سے سوال فرمایا کہ تم جانتے ہو مفلس کون شخص ہے ؟ صحابہ نے عرض کیا کہ جس شخص کے پاس مال متاع نہ ہو، اس کو مفلس سمجھتے ہیں، آپ نے فرمایا کہ میری امت کا مفلس وہ شخص ہے جو قیامت میں اپنے اعمال صالحہ نماز، روزہ، زکوٰة وغیرہ کا ذخیرہ لے کر آئے گا مگر اس کا حال یہ ہوگا کہ دنیا میں کسی کو گالی دی، کسی پر بہتان باندھا، کسی کو مارا یا قتل کیا، کسی کا مال ناحق لے لیا (تو یہ سب جمع ہوں گے اور اپنے حقوق کا مطالبہ کریں گے) کوئی اس کی نماز لے جائے گا، کوئی روزہ، کوئی زکوٰة اور دوسری حسنات اور جب حسنات ختم ہو جائیں گی تو مظلوموں کے گناہ اس ظالم پر ڈال کر بدلہ چکایا جائے گا جس کا انجام یہ ہوگا کہ یہ جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔

 اور صحیح بخاری میں ہے کہ رسول الله ﷺ نے فرمایا کہ جس شخص کے ذمہ کسی کا کوئی حق ہو اس کو چاہئے کہ دنیا ہی میں اس کو ادا یا معاف کرا کر سبکدوش ہو جائے، ورنہ قیامت کے دن درہم و دینار تو ہوں گے نہیں جس کا مطالبہ ہوگا اس کو اس شخص کے اعمال صالحہ دے کر بدلہ چکایا جائے گا، اعمال صالحہ ختم ہو جائینگے تو بقدر اس کے حق کے مظلوم کا گناہ اس پر ڈال دیا جائے گا (مظہری) 

حضرت ابن عباس اور دوسرے ائمہ تفسیر نے قیامت کو یوم التغابن کہنے کی یہی وجہ بیان کی ہے اور بہت سے ائمہ تفسیر نے فرمایا کہ اس دن غبن اور خسارے کا احساس صرف کفار فجار اور اشقیاء ہی کو نہیں بلکہ صالحین مومنین کو بھی اس طرح ہوگا کہ کاش ہم عمل اور زیادہ کرتے تاکہ جنت کے مزید درجات حاصل کرتے، اس روز ہر شخص کو اپنی عمر کے اوقات پر حسرت ہوگی، جو فضول ضائع کئے، جیسا کہ حدیث میں ہے۔

من جلس مجلسالم یذ کر الله فیہ کان علیہ ترة یوم القیامة

”جو شخص کسی مجلس میں بیٹھا اور پوری مجلس میں الله کا ذکر نہ کیا تو یہ مجلس قیامت کے روز اس کے لئے حسرت بنے گی“

 قرطبی میں ہے کہ ہر مومن اس روز احسان عمل میں اپنی کوتاہی پر اپنے غبن و خسارہ کا احساس کرے گا قیامت کا نام یوم تغابن رکھنا ایسا ہی ہے جیسا کہ سورة مریم میں اس کا نام یوم الحسرة آیا ہے۔

(آیت) و انذر ھم یوم الحرة اذقضی الامر، روح المعانی میں اس آیت کی تفسیر یہ لکھی ہے کہ اس روز ظالم اور بدعمل لوگ اپنی تقصیرات پر حسرت کریں گے اور مومنین صالحین نے بھی جو احسان عمل میں کوتاہی کی ہے اس پر ان کو حسرت ہوگی اس طرح قیامت کے روز سبھی اپنی اپنی کوتاہی پر نادم اور عمل کی کمی پر غبن و خسارہ کا احساس کریں گے، اس لئے اس کو یوم التغابن کہا گیا۔


آیت نمبر 10

وَالَّذِيۡنَ كَفَرُوۡا وَكَذَّبُوۡا بِاٰيٰتِنَاۤ اُولٰٓئِكَ اَصۡحٰبُ النَّارِ خٰلِدِيۡنَ فِيۡهَا ؕ وَبِئۡسَ الۡمَصِيۡرُ  ۞ 


لفظی ترجمہ:

وَالَّذِيْنَ: اور وہ لوگ | كَفَرُوْا: جنہوں نے کفر کیا | وَكَذَّبُوْا: اور جھٹلایا | بِاٰيٰتِنَآ: ہماری آیات کو | اُولٰٓئِكَ: یہی لوگ | اَصْحٰبُ: والے | النَّارِ: آگ (والے ہیں) | خٰلِدِيْنَ فِيْهَا: ہمیشہ رہنے والے ہیں اس میں | وَبِئْسَ الْمَصِيْرُ: اور کتنا برا ٹھکانہ ہے


ترجمہ:

اور جو لوگ منکر ہوئے اور جھٹلائیں انہوں نے ہماری آیتیں وہ لوگ ہیں دوزخ والے رہا کریں اسی میں اور بری جگہ جا پہنچے۔ ؏


آیت نمبر 11

مَاۤ اَصَابَ مِنۡ مُّصِيۡبَةٍ اِلَّا بِاِذۡنِ اللّٰهِؕ وَمَنۡ يُّؤۡمِنۡۢ بِاللّٰهِ يَهۡدِ قَلۡبَهٗؕ وَاللّٰهُ بِكُلِّ شَىۡءٍ عَلِيۡمٌ ۞ 


ترجمہ:

نہیں پہنچتی کوئی تکلیف بدون حکم الله کے اور جو کوئی یقین لائے الله پر وہ راہ بتلائے اس کے دل کو اور الله کو ہر چیز معلوم ہے


آسان اردو تفسیر: 

جس طرح کفر آخرت کی فلاح سے کلیتہً مانع ہے، اسی طرح اموال و اولاد اور بیوی وغیرہ میں مشغول ہو کر خدائے تعالیٰ کے احکام میں کوتاہی کرنا بھی ایک درجہ میں فلاح آخرت سے مانع ہے اس لئے مصیبت میں تو یہ سمجھنا چاہئے کہ کوئی مصیبت بدون خدا کے حکم کے نہیں آتی اور یہ سمجھ کر صبر و رضا اختیار کرنا چاہئے اور جو شخص الله پر پورا ایمان رکھتا ہے الله تعالیٰ اس کے قلب کو صبر و رضا کی راہ دکھا دیتا ہے اور الله ہر چیز کو خوب جانتا ہے کہ کس نے صبر و رضا اختیار کیا اور کس نے نہیں کیا اور ہر ایک کو حسب حکمت جزاء و سزا دیتا ہے اور خلاصہ کلام یہ ہے کہ ہر امر میں جس میں مصائب بھی داخل ہیں الله کا کہنا مانو اور رسول کا کہنا مانو اور اگر تم اطاعت سے اعراض کرو گے تو یاد رکھو کہ ہمارے رسول کے ذمہ صرف صاف صاف پہنچا دینا ہے جس کو وہ با حسن وجوہ کر چکے ہیں، اس لئے ان کا تو کوئی ضرر نہیں تمہارا ہی ضرر ہوگا اور چونکہ الله کو ضرر ہونے کا احتمال ہی نہیں، اس لئے اس کو یہاں بیان نہیں کیا اور تم لوگوں کو اور خصوص اہل مصیبت کو یوں سمجھنا چاہئے کہ الله کے سوا کوئی معبود بننے کے قابل نہیں اور مسلمانوں کو الله ہی پر مصائب وغیرہ میں تو کل رکھنا چاہئے، اے ایمان والو ! جیسا مصیبت میں تم کو صبر و رضا کا حکم کیا گیا ہے اسی طرح نعمت کے بارے میں تم کو منہمک نہ ہونے کا حکم کیا جاتا ہے پس نعمت کے بارے میں یوں سمجھنا چاہئے کہ تمہاری بعض بیبیاں اور اولاد تمہارے دین کے دشمن ہیں جبکہ وہ اپنے نفع دنیوی کے واسطے تم کو ایسی بات کا حکم کریں جو تمہارے لئے مضر آخرت ہو سو تم ان سے یعنی ایسوں سے ہوشیار رہو اور ان کے ایسے امر پر عمل مت کرو اور اگر تم کو ایسی فرمائشوں پر غصہ آئے اور تم ان پر تشدد کرنے لگو اور وہ اس وقت معذرت اور توبہ کریں اور تم (اس وقت ان کی وہ خطا معاف کردو یعنی سزا نہ دو اور درگزر کر جاؤ یعنی زیادہ ملامت نہ کرو اور بخش دو یعنی اس کو دل سے اور زبان سے بھلا دو تو الله تعالیٰ تمہارے گناہوں کا بخشنے والا اور تمہارے حال پر رحم کرنے والا ہے اس میں ترغیب ہے عفو کی اور یہ بعض اوقات واجب ہے جبکہ عقوبت سے احتمال غالب بے باکی کا ہو اور بعض اوقات مستحب ہے، آگے اولاد کے ساتھ اموال کے متعلق بھیاسی قسم کا مضمون ہے کہ تمہارے اموال اور اولاد بس تمہارے لئے ایک آزمائش کی چیز ہے (کہ دیکھیں کون ان پر پڑھ کر خدا کے احکام کو بھول جاتا ہے اور کون یاد رکھتا ہے اور جو شخص ان میں پڑھ کر الله کو یاد رکھے گا تو الله کے پاس اس کے لئے بڑا اجر ہے تو ان سب باتوں کو سن کر جہاں تک تم سے ہو سکے الله سے ڈرتے رہو اور اس کے احکام سنو اور مانو اور بالخصوص مواقع حکم میں خرچ بھی کیا کرو یہ تمہارے لئے بہتر ہوگا (غالباً اس کی تخصیص اس لئے ہے کہ یہ نفس پر زیادہ شاق ہے) اور جو شخص نفسانی حرص سے محفوظ رہا ایسے ہی لوگ آخرت میں فلاح پانے والے ہیں آگے اس کے بہتر اور اور موجب فلاح ہونے کا بیان ہے کہ اگر تم الله کو اچھی طرح خلوص کے ساتھ قرض دو گے تو وہ اس کو تمہارے لئے بڑھا تا چلا جائے گا اور تمہارے گناہ بخش دے گا اور الله بڑا قدر دان ہے کہ عمل صالح کو قبول فرماتا ہے اور بڑا برد بار ہے کہ عمل معصیت پر فی الفور مواخذہ نہیں فرماتا اور پوشیدہ اور ظاہر اعمال کا جاننے والا ہے اور زبردست ہے اور حکمت والا ہے۔ (شکور سے حکیم تک تمام مضامین سورت کے لئے بمنزلہ علت کے ہیں کہ سب مضامین ان پر مرتب و متفرع ہو سکتے ہیں۔) 

 

(آیت) مَآ اَصَابَ مِنْ مُّصِيْبَةٍ اِلَّا بِاِذْنِ اللّٰهِ ۭ وَمَنْ يُّؤْمِنْۢ بِاللّٰهِ يَهْدِ قَلْبَهٗ ”یعنی کسی کو کوئی مصیبت الله کے اذن کے بغیر نہیں پہنچتی اور جو شخص الله پر ایمان لاتا ہے الله تعالیٰ اس کے قلب کو ہدایت فرما دیتا ہے“ مطلب یہ ہے کہ یہ امر تو اپنی جگہ ایک یقینی حقیقت ہے کہ الله تعالیٰ کے اذن و مشیت کے بغیر کہیں کوئی ذرہ بھی نہیں ہل سکتا، الله کے اذن کے بغیر نہ کوئی کسی کو نقصان و تکلیف پہنچا سکتا ہے نہ نفع اور راحت مگر جس شخص کا الله پر اور اس کی تقدیر پر ایمان نہیں ہوتا مصیبت کے وقت اس کے لئے قرار و سکون کا کوئی سامان نہیں ہوتا، وہ ازالہ مصیبت کے لئے ہاتھ پیر مارتا رہتا ہے، بخلاف مومن کے جس کا تقدیر الٰہی پر ایمان ہے الله تعالیٰ اس کے قلب کو اس پر مطمئن کر دیتا ہے کہ جو کچھ ہوا الله تعالیٰ کے اذن و مشیت سے ہوا، جو کچھ مصیبت مجھے پہنچی وہ پہنچنی ہی تھی اس کو کوئی ٹلا نہیں سکتا اور جس مصیبت سے نجات ہوئی وہ نجات ہونا ہی تھی، کسی کی مجال نہیں جو اس مصیبت کو مجھ پر ڈال دے، اس ایمان و اعتقاد کے نتیجہ میں اس کو آخرت کے ثواب کا وعدہ بھی سامنے ہوتا ہے جس سے دنیا کی بڑی سے بڑی مصیبت آسان ہو جاتی ہے۔



آیت نمبر 12

وَاَطِيۡعُوا اللّٰهَ وَاَطِيۡعُوا الرَّسُوۡلَۚ فَاِنۡ تَوَلَّيۡتُمۡ فَاِنَّمَا عَلٰى رَسُوۡلِنَا الۡبَلٰغُ الۡمُبِيۡنُ ۞ 


لفظی ترجمہ:

وَاَطِيْعُوا: اور اطاعت کرو | اللّٰهَ: اللہ کی | وَاَطِيْعُوا الرَّسُوْلَ: اور اطاعت کرو رسول کی | فَاِنْ تَوَلَّيْتُمْ: پھر اگر منہ موڑو تم | فَاِنَّمَا: تو بیشک | عَلٰي رَسُوْلِنَا: ہمارے رسول پر | الْبَلٰغُ الْمُبِيْنُ: پہنچانا ہے کھلم کھلا


ترجمہ:

اور حکم مانو الله کا اور حکم مانو رسول کا پھر اگر تم منہ موڑو تو ہمارے رسول کا تو یہی کام ہے پہنچا دینا کھول کر


آیت نمبر 13

اَللّٰهُ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَؕ وَعَلَى اللّٰهِ فَلۡيَتَوَكَّلِ الۡمُؤۡمِنُوۡنَ ۞ 


لفظی ترجمہ:

اَللّٰهُ: اللہ تعالیٰ | لَآ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ: نہیں کوئی الہ برحق مگر وہی | وَعَلَي اللّٰهِ: اور اللہ پر ہی | فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُوْنَ: پس چاہیے کہ توکل کریں مومن


ترجمہ:

الله اس کے سوا کسی کی بندگی نہیں اور الله پر چاہئے بھروسہ کریں ایمان والے



آیت نمبر 14

يٰۤاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِنَّ مِنۡ اَزۡوَاجِكُمۡ وَاَوۡلَادِكُمۡ عَدُوًّا لَّكُمۡ فَاحۡذَرُوۡهُمۡۚ وَاِنۡ تَعۡفُوۡا وَتَصۡفَحُوۡا وَتَغۡفِرُوۡا فَاِنَّ اللّٰهَ غَفُوۡرٌ رَّحِيۡمٌ ۞ 


ترجمہ:

اے ایمان والو ! تمہاری بعض جو روئیں اور اولاد دشمن ہیں تمہارے سو ان سے بچتے رہو اور اگر معاف کرو اور درگزر کرو اور بخشو تو الله ہے بخشنے والا مہربان


آسان اردو تفسیر:

(آیت) يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اِنَّ مِنْ اَزْوَاجِكُمْ وَاَوْلَادِكُمْ عَدُوًّا لَّكُمْ فَاحْذَرُوْهُمْ ”یعنی اے مسلمانو ! تمہاری بعض بیبیاں اور اولاد تمہارے دشمن ہیں، ان کے شر سے بچتے رہو“۔

 ترمذی و حاکم وغیرہ نے بسند صحیح حضرت ابن عباس سے نقل کیا ہے کہ یہ آیت ان مسلمانوں کے بارے میں نازل ہوئی جو ہجرت مدینہ کے بعد مکہ مکرمہ میں داخل اسلام ہوئے اور ارادہ کیا کہ ہجرت کر کے آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو جائیں مگر ان کے اہل و عیال نے ان کو نہ چھوڑا کہ ہجرت کر کے چلے جائیں (روح) 

(اور یہ زمانہ وہ تھا کہ مکہ سے ہجرت کرنا ہر مسلمان پر فرض تھا) قرآن کریم کی آیت مذکورہ میں ایسی بیوی اور اولاد کو انسان کا دشمن قرار دیا اور ان کے شر سے بچتے رہنے کی تاکید فرمائی کیونکہ اس سے بڑا دشمن انسان کا کون ہوسکتا ہے جو اس کو ہمیشہ ہمیشہ کے عذاب اور جہنم کی آگ میں مبتلا کر دے۔

 اور حضرت عطاء بن ابی رباح کی روایت یہ ہے کہ یہ آیت عوف بن مالک اشجعی کے بارے میں نازل ہوئی، جن کا واقعہ یہ تھا کہ یہ مدینہ میں موجود تھے اور جب کسی غروہ و جہاد کا موقع آتا تو جہاد کے لئے جانے کا ارادہ کرتے تھے مگر ان کے بیوی بچے فریاد کرنے لگتے کہ ہمیں کس پر چھوڑ کر جاتے ہو، یہ ان کی فریاد سے متاثر ہو کر رک جاتے تھے (روح، ابن کثیر) 

 ان دونوں روایتوں میں کوئی تضاد نہیں، دونوں ہی آیت کا سبب نزول ہو سکتے ہیں، کیونکہ الله کا فرض خواہ ہجرت ہو یا جہاد جو بیوی اور اولاد فرض کی ادائیگی میں مانع ہوں وہ اس کے دشمن ہیں۔

وَاِنْ تَعْفُوْا وَتَصْفَحُوْا وَتَغْفِرُوْا فَاِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ، سابقہ آیت میں جن کے بیوی بچوں کو دشمن قرار دیا ہے ان کو جب اپنی غلطی پر تنبیہ ہوا تو ارادہ کیا کہ آئندہ اپنے اہل و عیال کے ساتھ سختی اور تشدد کا معاملہ کریں گے، اس پر آیت کے اس حصہ میں یہ ارشاد نازل ہوا کہ اگرچہ ان بیوی بچوں نے تمہارے لئے دشمن کا سا کام کیا کہ تمہیں ادائے فرض سے مانع ہوئے مگر اس کے باوجود ان کے ساتھ تشدد اور بے رحمی کا معاملہ نہ کرو بلکہ عفو و درگزر اور معافی کا برتاؤ کرو تو یہ تمہارے لئے بہتر ہے کیونکہ الله جل شانہ کی عادت بھی مغفرت و رحمت کی ہے۔ 

گناہ گار بیوی بچوں سے بیزاری اور بغض نہیں چاہئے

مسئلہ علماء نے اس آیت سے استدلال کیا کہ اہل و عیال سے کوئی کام خلاف شرع بھی ہو جائے تو ان سے بیزار ہو جانا اور ان سے بغض رکھنا یا ان کے لئے بد دعا کرنا مناسب نہیں (روح)


آیت نمبر 15

اِنَّمَاۤ اَمۡوَالُـكُمۡ وَاَوۡلَادُكُمۡ فِتۡنَةٌ ؕ وَاللّٰهُ عِنۡدَهٗۤ اَجۡرٌ عَظِيۡمٌ ۞ 


ترجمہ:

تمہارے مال اور تمہاری اولاد یہی ہیں جانچنے کو اور الله جو ہے اس کے پاس ہے ثواب بڑا


آسان اردو تفسیر:

(آیت) اِنَّمَآ اَمْوَالُكُمْ وَاَوْلَادُكُمْ فِتْنَةٌ، فتنہ کے معنی ابتلاء اور امتحان کے ہیں، مراد آیت کی یہ ہے کہ مال واولاد کے ذریعہ الله تعالیٰ انسان کی آزمائش کرتا ہے کہ ان کی محبت میں مبتلا ہو کر احکام و فرائض سے غفلت کرتا ہے یا محبت کو اپنی حد میں رکھ کر اپنے فرائض سے غافل نہیں ہوتا۔

مال و اولاد انسان کے لئے بڑا فتنہ ہیں

 اکثر گناہوں میں خصوصاً حرام کمائی میں انہیں کی محبت کی وجہ سے مبتلا ہوتا ہے، ایک حدیث میں ہے کہ قیامت کے روز بعض اشخاص کو لایا جائے گا اس کو دیکھ کر لوگ کہیں گے۔ اکل عیالہ حسناتہ ”یعنی اس کی نیکیوں کو اس کے عیال نے کھالیا“ (روح) ایک حدیث میں آنحضرت ﷺ نے اولاد کے بارے میں فرمایا مبخلتہ مجبنة ”یعنی یہ بخل اور جبن یعنی نامردی اور کمزوری کے اسباب ہیں“ کہ ان کی محبت کی وجہ سے آدمی الله کی راہ میں مال خرچ کرنے سے رکتا ہے، انہیں کی محبت کی وجہ سے جہاد میں شرکت سے رہ جاتا ہے، بعض سلف صالحین کا قول ہے الحیال سوس الطاعات ”یعنی عیال انسان کی نیکیوں کے لئے گھن ہے“ جیسا گھن غلہ کو کھا جاتا ہے یہ اس کی نیکیوں کو کھا جاتے ہیں“۔



آیت نمبر 16

فَاتَّقُوا اللّٰهَ مَا اسۡتَطَعۡتُمۡ وَاسۡمَعُوۡا وَاَطِيۡعُوۡا وَاَنۡفِقُوۡا خَيۡرًا لِّاَنۡفُسِكُمۡؕ وَمَنۡ يُّوۡقَ شُحَّ نَفۡسِهٖ فَاُولٰٓئِكَ هُمُ الۡمُفۡلِحُوۡنَ ۞ 


ترجمہ:

سو ڈرو الله سے جہاں تک ہو سکے اور سنو اور مانو اور خرچ کرو اپنے بھلے کو اور جس کو بچا دیا اپنے جی کے لالچ سے سو وہ لوگ وہی مراد کو پہنچے


آسان اردو تفسیر:

فَاتَّقُوا اللّٰهَ مَا اسْتَطَعْتُمْ ”یعنی تقویٰ اختیار کرو مقدور بھر“ جب آیت اتقوالله حق تقاتہ نازل ہوئی جس کے معنی یہ ہیں کہ ”الله سے ایسا تقویٰ اختیار کرو جیسا کہ الله کا حق ہے“ تو صحابہ کرام پر بہت بھاری اور شاق ہوا کہ الله کے حق کے مطابق تقویٰ کس کے بس میں ہے، اس پر یہ آیت نازل ہوئی جس نے بتلا دیا کہ الله تعالیٰ نے انسان کو اس کی طاقت اور مقدور سے زیادہ تکلیف نہیں دی، تقویٰ بھی اپنی طاقت کے مطابق واجب ہے، مقصد یہ ہے کہ حصول تقویٰ میں اپنی پوری توانائی اور کوشش کرلے تو اس سے الله کا حق ادا ہوجائے گا (روح ملخصاً) 

تمت سورة التغابن وللہ احمد


آیت نمبر 17

اِنۡ تُقۡرِضُوا اللّٰهَ قَرۡضًا حَسَنًا يُّضٰعِفۡهُ لَـكُمۡ وَيَغۡفِرۡ لَـكُمۡؕ وَاللّٰهُ شَكُوۡرٌ حَلِيۡمٌۙ ۞ 


لفظی ترجمہ:

اِنْ تُقْرِضُوا: اگر تم قرض دو گے | اللّٰهَ: اللہ کو | قَرْضًا حَسَنًا: قرض حسنہ | يُّضٰعِفْهُ لَكُمْ: وہ دوگنا کردے گا اس کو تمہارے لیے | وَيَغْفِرْ لَكُمْ: اور بخش دے گا تم کو | وَاللّٰهُ: اور اللہ | شَكُوْرٌ حَلِيْمٌ: قدردان ہے ، بردبار ہے


ترجمہ:

اگر قرض دو الله کو اچھی طرح پر قرض دینا وہ دونا کر دے تم کو اور تم کو بخشے اور الله قدر دان ہے تحمل والا


آیت نمبر 18

عٰلِمُ الۡغَيۡبِ وَالشَّهَادَةِ الۡعَزِيۡزُ الۡحَكِيۡمُ  ۞ 


لفظی ترجمہ:

عٰلِمُ الْغَيْبِ: جاننے والا ہے غیب کو | وَالشَّهَادَةِ: اور حاضر کو | الْعَزِيْزُ: زبردست ہے | ا

لْحَكِيْمُ: حکمت والا


ترجمہ:

جاننے والا پوشیدہ اور ظاہر کا زبردست حکمت والا۔ ؏



ایک تبصرہ شائع کریں

0تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں (0)