کیا قرآن کی تلاوت کو گانا کہنا درست ہے؟

Abdul Salam Niazi
0


is_it_correct_to_call_the_recitation_of_the_quran_a_song_meas_momin


کیا ہماری تلاوت “گانا” ہے؟ ایک علمی و مؤدّبانہ وضاحت


الف۔ قرآنِ مجید کو خوبصورت آواز کے ساتھ پڑھنا سنت اور مستحب ہے، بشرطیکہ تجوید و مخارج محفوظ رہیں اور کوئی آلۂ موسیقی/پس منظر موسیقی شامل نہ ہو۔

ب۔ نبی ﷺ نے اچھّی آواز کے ساتھ قرآن پڑھنے کی تحسین فرمائی اور صحابی کی خوش آوازی کو "مزامیرِ آلِ داود" سے تشبیہ دی۔

ت۔ قرآن سات احرف پر نازل ہوا۔ صحابہ کے مابین ادائیگی کے اختلاف کو نبی ﷺ نے سب کو درست قرار دیا؛ اس سے سمجھ آتا ہے کہ لہجے اور ادائیگی میں دائرۂِ شرع کے اندر وسعت ہے۔

ث۔ کسی کی شرعی طور پر جائز تلاوت کو “گانا” کہہ کر بدنام کرنا اخلاقاً و شرعاً درست نہیں؛ قرآنِ کریم بدگمانی، طعن و تشنیع اور بلاعلم بات سے روکتا ہے (الحجرات 11-12؛ الاسراء 36)۔

ج۔ ہماری نیت محض ثوابِ جاریہ ہے؛ تلاوت قواعدِ تجوید کے مطابق ہے، کوئی موسیقی/بیٹ/انسٹرومنٹ شامل نہیں؛ صرف قدرتی خوش آوازی ہے۔


 آدابِ اختلاف اور ایک اہم تنبیہ


اسلام ہمیں نصیحت نرمی اور دلیل سے کرنے کا حکم دیتا ہے۔ کسی مؤمن بھائی کی نیت پر حملہ یا اس کی جائز دینی کاوش کو “بڑی غلطی” کہنا، جبکہ دلیل واضح نہ ہو، سخت گناہ کا باعث بن سکتا ہے۔
قرآن: “اے ایمان والو! نہ مرد دوسرے مردوں کا مذاق اُڑائیں… اور بدگمانی سے بچو… اور جس چیز کا تمہیں علم نہیں اُس کے پیچھے نہ پڑو” (الحجرات 11-12؛ الاسراء 36)۔
اور “جو اہلِ ایمان مردوں اور عورتوں کو بلاوجہ اذیّت دیتے ہیں وہ بہتان اور کھلے گناہ کے مرتکب ہیں” (الأحزاب 58)۔
لہٰذا اگر کسی نے بلا تحقیق کسی کی تلاوت کو “گانا” کہہ دیا تو اللہ کے ہاں جواب دہی سخت ہو سکتی ہے۔ ہم سب کو اپنی زبان کی حفاظت کرنا چاہیے۔


کیا خوش آوازی کے ساتھ قرآن پڑھنا سنت ہے؟


اس بارے میں ہم قرآن سے پوچھتے ہیں کہ قرآنی ہدایت کیا ہے؟ ادائیگی کے بارے میں اللّٰہ تبارک و تعالیٰ کا کیا فرمان ہے۔ اللّٰہ فرماتا ہے۔

“وَرَتِّلِ الْقُرْآنَ تَرْتِيلًا” (المزّمّل 4) ۔ ٹھہر ٹھہر کر، قواعد کے ساتھ، خوب صورت ادائیگی۔


واضح احادیث


نبی ﷺ نے فرمایا: “اللہ تعالیٰ اس نبی کی قراءت کو جس کی آواز اچھی ہو اور وہ بلند آواز سے پڑھتا ہو، سب سے زیادہ توجّہ سے سنتا ہے”۔


فرمایا: “قرآن کو اپنی آوازوں کے ساتھ مزّین (خوبصورت) کرو”۔ (سُنن ابی داود)


فرمایا: “جو شخص قرآن کو خوش آوازی سے نہ پڑھے وہ ہم میں سے نہیں”۔ اور ایک روایت میں اضافہ: “(یعنی) بلند آواز سے پڑھے”۔ (صحیح بخاری 7527)


ابو موسیٰ اشعریؓ کی قراءت سن کر ارشاد فرمایا: “تمہیں آلِ داود کے مزامیر میں سے ایک مزمار دیا گیا ہے” (یعنی بہت شیریں آواز) ۔ یہ حدیث بخاری و مسلم دونوں میں ہے۔


حاصل کلام یہ ہے کہ خوش آوازی مستحب اور قابلِ تعریف ہے، بشرطیکہ حدودِ شرع (تجوید، مخارج، مدود) نہ ٹوٹیں اور گانے بجانے کی کیفیت/آلات شامل نہ ہوں۔


“سات احرف” اور قراءت کے لہجوں کی گنجائش


نبی ﷺ نے فرمایا: “یہ قرآن سات احرف پر نازل ہوا ہے، پس جس طرح آسان ہو اُسی طرح پڑھو”۔ اس کا پس منظر وہ واقعہ ہے جہاں عمرؓ نے ہشامؓ بن حکیم کی مختلف ادائیگی سنی؛ دونوں کو نبی ﷺ کے پاس لایا گیا تو آپ ﷺ نے دونوں قراءتوں کو درست قرار دیا۔ (صحیح بخاری)


اس سے معلوم ہوا کہ ادائیگی میں مشروع وسعت موجود ہے، جب تک اصل الفاظ، مخارج اور احکامِ تجوید محفوظ رہیں۔


بعد میں متواتر قراءتیں مدوّن ہوئیں؛ عوامی سطح پر معروف بات یہی ہے کہ لہجے/آہنگ میں تفاوت ہوسکتا ہے، مگر تجوید نہیں ٹوٹتی۔


اہم نوٹ: “احرف سبعہ” (Seven Ahruf) اور “قراءت” (Qirāʾāt) الگ علمی اصطلاحات ہیں؛ عام قاری کے لیے خلاصہ یہ کہ شرع کی مقررہ حدود کے اندر ادائیگی میں گنجائش ہے، تحریف یا تجوید کی خرابی نہیں ہونی چاہیے۔


خوش آوازی کی شرائط: کب جائز اور کب ناجائز؟


جائز/مستحب جب


الف۔ مخارج و صفاتِ حروف، احکامِ تجوید اور وقف و ابتداء صحیح ہوں (ابن الجزری کی معروف نصیحت: تجوید لازم ہے؛ کلاسیکی کتبِ تجوید)۔
ب۔ کوئی آلۂ موسیقی/بیک گراؤنڈ میوزک نہ ہو۔
ت۔ نغمگی قدرتی ہو یا ایسی تعلیم جس سے تجوید متاثر نہ ہو، اور مقصود خشوع و تدبر ہو نہ کہ محض دھن۔
ث۔ لہجہ ایسا ہو کہ الفاظ میں بگاڑ، حروف میں زیادتی/کمی یا مدّ کی بے جا طوالت نہ بنے—امام نوویؒ نے اسی افراط سے منع فرمایا ہے کہ جس سے حروف بگڑ جائیں؛ البتہ تحسینِ صوت مستحب رکھی۔


ناجائز/ممنوع جب:


الف۔ تجوید ٹوٹے، حروف بدلیں، یا آیات کی ہیئت بگڑ جائے۔
ب۔ قراءت کو گانے کی مخصوص دھنوں اور موسیقی کے اوزان کے تابع کر دیا جائے جس سے احکامِ تلاوت متاثر ہوں۔ کئی اہلِ علم نے اس سے منع کیا ہے۔
ت۔ پسِ منظر میں موسیقی/انسٹرومنٹس شامل کیے جائیں۔ فتاوٰی و ادارہ جاتی بیانات میں اس کی ممانعت ملتی ہے۔

اس لیے اگر دیکھا جائے تو اصل معیار قرآن کی صحیح ادائیگی ہے؛ خوش آوازی اس کی زینت ہے، بدل نہیں۔


ہمارے چینل کی تلاوت کے بارے میں واضح جواب


الف۔ میں اور میرا بیٹا ہم نے آٹھ سال ایک لہجے کو بنانے میں لگائے ہیں بہت زیادہ مشقت، بہت زیادہ کوششوں کے بعد، اور اللہ تبارک و تعالی سے مسلسل گڑگڑانے کے بعد، اللہ تبارک و تعالی نے ہم پر اپنا فضل فرمایا اور ہم نے اس لہجے کو پا لیا۔ اور رہی بات تو جب محشر میں انشاءاللہ،  اللہ تبارک و تعالی کے سامنے کھڑے ہوں گے تو اس وقت میرے اخلاص کو دیکھا جائے گا کہ میں نے کتنے خلوص سے، کتنی محنت سے پوری امت کو جوڑنے کا ایک سلسلہ شروع کیا تھا۔


ب۔ ہم (میں اور میرا بیٹا) تجوید کی پوری کوشش کے ساتھ قدرتی خوش آوازی میں تلاوت کرتے ہیں؛ کوئی میوزک/بیٹس/انسٹرومنٹس شامل نہیں۔


ت۔ لہجہ اور آہنگ شرعی حدود کے اندر ہے۔ یہی سنت کا ذوق ہے، جیسا کہ اوپر احادیث سے واضح ہے۔

 
ث۔ ہماری نیت ثوابِ جاریہ ہے؛ محض اللہ کی رضا اور سامعین کے قلوب میں قرآن کی محبت پیدا کرنا مقصود ہے۔ ریا یا دنیاوی نمائش ہرگز نہیں۔


سوال و جواب: “گانے” اور “تلاوت” میں فرق


الف۔ کیا ہر نغمگی گانا ہے؟ نہیں۔ قدرتی آہنگ اور شرعی حدود میں نغمگی سنت ہے؛ گانا وہ ہے جو موسیقی/اوزانِ موسیقی کے تابع ہو یا تجوید کو توڑے۔

ب۔ کیا بلند آواز سے پڑھنا درست ہے؟ جی ہاں؛ نبی ﷺ نے خوش آواز اور بلند آواز سے قراءت کی فضیلت بیان فرمائی۔

ت۔ کیا لہجے میں تنوّع درست ہے؟ اگر تجوید محفوظ ہو تو ہاں۔ سبعۃ احرف والی احادیث سے وسعت کا اصول ملتا ہے۔


اہلِ علم کے چند اصولی اقوال (ماخذ کے ساتھ)


الف۔ امام نوویؒ (التبیان): “تحسینِ صوت (آواز کو خوشگوار بنانا) مستحب ہے، بشرطیکہ تمطیط/اتنی کھینچ نہ ہو کہ حرف بڑھ جائے یا خفاء ہو۔ یہ حرام ہے۔”

ب۔ ائمۂ تجوید/ابن الجزریؒ: تجوید کی پابندی لازم؛ تلاوت کی صحت مخارج و صفات سے ہے۔ خوش آوازی زینت ہے۔ (متونِ تجوید)

ت۔ معاصر فتاویٰ (نمونہ): قدرتی سُروں میں نغمگی جائز و پسندیدہ؛ موسیقی کے باقاعدہ اوزان/مقامات کے تابع کر دینا، جس سے تجوید متاثر ہو، ناجائز۔

آخر میں: نیت اور دعا

ہمارا مقصد قرآن کی خدمت، اپنے اور دوسروں کے دلوں میں محبتِ قرآن بٹھانا، اور ثوابِ جاریہ ہے۔ جو بھائی بہن اصلاحی مشورہ دینا چاہیں، ہم شکر گزار ہوں گے۔ لیکن براہِ کرم ادبِ اختلاف اور حسنِ ظن ملحوظ رکھیں۔
اَللّٰهُمَّ زَيِّنَّا بِزِينَةِ القُرْآنِ، وَاجْعَلْنَا مِنْ أَهْلِهِ وَخَاصَّتِهِ۔ آمین۔


حوالہ جات (مزید مطالعہ کے لیے)


سُنن ابی داود: “زَیِّنُوا الْقُرْآنَ بِأَصْوَاتِكُمْ” (کتاب الصلاۃ)۔

صحیح بخاری 7527: “لَيْسَ مِنَّا مَنْ لَمْ يَتَغَنَّ بِالْقُرْآنِ… يَجْهَرُ بِهِ”۔

صحیح بخاری/مسلم (ابو موسیٰؓ): “لَقَدْ أُوتِيتَ مِزْمَارًا مِنْ مَزَامِيرِ آلِ دَاوُدَ”۔

صحیح بخاری (سبعۃ أحرف): واقعۂ عمرؓ و ہشامؓ۔ “أُنْزِلَ الْقُرْآنُ عَلَى سَبْعَةِ أَحْرُفٍ”۔

صحیح بخاری: “اللہ تعالیٰ اس نبی کی قراءت کو… سب سے زیادہ توجہ سے سنتا ہے” (کتاب فضائل القرآن)۔

امام نوویؒ، التبیان فی آداب حملة القرآن: تحسینِ صوت مستحب، افراطِ تمطیط ممنوع۔

تجوید/ابن الجزریؒ (متون و شروحِ جزریہ): احکامِ تجوید کی تاکید۔

عصرِ حاضر کی توضیحات (نمونہ): نغمگیِ فطری جائز، موسیقی کے اوزان کے تابع قراءت ناجائز۔



ایک تبصرہ شائع کریں

0تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں (0)