سورۃ العادیات آسان اردو تفسیر

0



surah_al_adiyat_asaan_urdu_tafseer_meas_momin
Surah Al-Adiyat Asaan Urdu Tafseer 


اب آپ سورۃ العادیات کی تفسیر کو اسان اردو میں ملاحظہ فرمائیں


القرآن - سورۃ نمبر 100 العاديات


أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ


آیت نمبر 1


وَالۡعٰدِيٰتِ ضَبۡحًا ۞

لفظی ترجمہ:
وَ: قسم | الْعٰدِیٰتِ: دوڑنے والے | ضَبْحًا: ہانپ کر

اردو ترجمہ:
قسم ہے دوڑنے والے گھوڑوں کی ہانپ کر

آسان اردو تفسیر:
قسم ہے ان گھوڑوں کی جو ہانپتے ہوئے دوڑتے ہیں پھر (پتھر پر) ٹاپ مار کر آگے جھاڑتے ہیں پھر صبح کے وقت تاخت تاراج کرتے ہیں پھر اس وقت غبارا ڑاتے ہیں پھر اس وقت (دشمنوں کی) جماعت میں جا گھستے ہیں (مراد اس سے لڑائی کے گھوڑے ہیں۔ جہاد ہو یا غیر جہاد، عرب چونکہ حرب وضرب اور جنگ کے عادی تھے جس کے لئے گھوڑے پالتے تھے ان کی مناسبت سے ان جنگی گھوڑوں کی قسم کھائی گئی آگے جواب قسم ہے کہ) بیشک (کافر) آدمی اپنے پروردگار کا بڑا ناشکر ہے اور اس کی خود بھی اس کی خبر ہے (کبھی ابتداء ہی اور کبھی کچھ غور کے بعد اپنی ناشکری کا احساس کرلیتا ہے) اور وہ مال کی محبت میں بڑا مظبوط ہے (یہی اس کی ناشکری کا سبب ہے، آگے حط مال اور ناشکری پر وعید ہے یعنی) کیا اس کو وہ وقت معلوم نہیں جب زندہ کئے جاویں گے جتنے مردے قبروں میں ہیں اور طاہر ہوجائے گا جو کچھ دلوں میں ہے بیشک ان کا پروردگار ان کے حال سے اس روز پورا آگاہ ہے (اور مناسب جزا دے گا۔ حاصل یہ ہے کہ انسان کو اگر اس وقت کی پوری خبر ہوتی اور آخرت کا حال مستحضر ہوتا تو اپنی ناشکری اور حب مال سے باز آجاتا)

سورة عادیت حضرت ابن مسعود اور جابر اور حس بصری، عکرمہ، عطاء رحمہم اللہ کے نزدیک مکی اور ابن عباس، انس، امام مالک، قتاعدہ کے نزدیک مدنی سورت ہے (قرطبی)
اس سورت میں حق تعالیٰ نے جنگی گھوڑوں کے کچھ خاص حالات وصفات کا ذکر فرمایا اور ان کی قسم کھا کر یہ ارشاد فرمایا کہ انسان اپنے رب کا بڑا ناشکر ہے۔ یہ بات تو قرآن میں باربار معلوم ہوچکی ہے کہ حق تعالیٰ اپنی مخلوقات میں سے مختلف چیزوں کی قسم کھا کر خاص واقعات اور احکام بیان فرماتے ہیں یہ حق تعالیٰ کی خصوصیت ہے، انسان کے لئے کسی مخلوق کی قسم کھانا جائز نہیں ہے اور قسم کھانے کا مقصد عام قسموں کی طرح اپنی بات کو محقق اور یقینی بتلانا ہے اور یہ بات بھی پہلے آچکی ہے کہ قرآن کریم جس چیز کی قسم کھا کر کوئی مضمون بیان فرماتا ہے تو اس چیز کو اس مضمون کے ثبوت میں دخل ہوتا ہے اور یہ چیز گویا اس مضمون کی شہادت دیتی ہے۔ یہاں جنگی گھوڑوں کی سخت خدمات کا ذکر گویا اس کی شہادت میں لایا گیا ہے کہ انسان بڑا ناشکر ہے۔ تشریح اس کی یہ ہے کہ گھوڑوں کے اور خصوصاً جنگی گھوڑوں کے حالات پر نظر ڈالئے کہ وہ میدان جنگ میں اپنی جان کو خطرے میں ڈال کر کیسی کیسی سخت خدمات انسان کے حکم و اشارہ کے تابع انجام دیتے ہیں حالانکہ انسان ان گھوڑوں کو پیدا نہیں کیا، انکو جو گھاس دانہ انسان دیتا ہے وہ بھی اس کا پیدا کیا ہوا نہیں، اس کا کام صرف اتنا ہے کہ خدا تعالیٰ کے پیدا کئے ہوئے رزق کو ان تک پہنچانے کا ایک واسطہ بنتا ہے اب گھوڑے کو دیکھئے کہ وہ انسان کے اتنے سے احسان کو کیسا پہچانتا اور مانتا ہے کہ اس کے ادنیٰ اشارہ پر اپنی جان کو خطرہ میں ڈال دیتا ہے اور سخت سے سخت مشقت برداشت کرتا ہے، اسکے بالمقابل انسان کو دیکھو جس کو ایک حقیر قطرہ سے اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا اور اس کو مختلف کاموں کی قوت بخشی، عقل وشعوردیا، ان کے کھانے پینے کی ہر چیز پیدا فرمائی اور اس کی تمام ضروریات کو کس قدر آسان کر کے اس تک پہنچادیا کہ عقل حیران رہ جاتی ہے مگر وہ ان تمام اکمل واعلیٰ احسانات کا بھی شکر گزار نہیں ہوتا اب الفاظ آیت کی تشریح دیکھئے عادیات، عدو سے مشتق ہے جس کے معنی دوڑنے کے ہیں۔ ضبحاً ، ضبح وہ خاص آواز ہے جو گھوڑے کے دوڑنے کے وقت اس کے سینے سے نکلتی ہے جس کا ترجمہ ہانپتا کیا گیا ہے۔ موریات، ایراء سے مشتق ہے جس کے معنی آگ نکالنے کے ہیں جیسے چقماق کو مار کر یا دیا سلائی کو رگڑ کر نکالی جاتی ہے۔ قدحاً ، قدح کے معنے ٹاپ مارنے کے ہیں پتھریلی زمین پر جب گھوڑا تیزی سے دوڑے خصوصاً جبکہ اس کے پاؤں میں آہنی نعل بھی ہو ٹکراؤ سے آگ کی چنگاریاں نکلتی ہیں۔ مغیرات، اغارہ سے مشتق ہے جس کے معنے حملہ کرنے اور چھاپہ مارنے کے ہیں۔ صبحاً صبح کے وقت کی تحضیص بیان عادت کے طور پر ہے کیونکہ عرب لوگ اظہار شجاعت کے لئے رات کی اندھیری میں چھاپہ مارنا معیوب سمجھتے تھے حملہ صبح ہونے کے بعد کیا کرتے تھے اثرن، اثارت سے دوڑتے ہیں کہ ان کے سموں سے غبار اڑ کر چھا جاتا ہے خصوصاً صبح کے وقت میں غبار اڑنا زیادہ سرعت اور تیزی کی طرف اشارہ ہے کیونکہ یہ وقت عادةً غبار اڑنے کا نہیں، کسی سخت دوڑ ہی سے اس وقت غبار اٹھ سکتا ہے۔


آیت نمبر 2


فَالۡمُوۡرِيٰتِ قَدۡحًا ۞

لفظی ترجمہ:
فَ: پھر | الْمُوْرِیٰت: آگ نکالنے والے | قَدْحًا: سم مار کر

ترجمہ:
پھر آگ سلگانے والے جھاڑ کر

آسان اردو تفسیر:
فوسطن بہ جمعاً ، یعنی یہ دشمن کی صفوں میں بےخوف گھس جاتے ہیں۔ کنود کے معنی میں حضرت حسن بصریٰ نے فرمایا کہ وہ شخص جو مصائب کو یاد رکھے اور نعمتوں کو بھول جائے اس کو کنود کہا جاتا ہے۔
ابو بکر واسطی نے فرمایا جو اللہ کی نعمتوں کو اس کی معصیتوں میں صرف کرے وہ کنود ہے۔ اور ترمذی نے فرمایا کہ جو شخص نعمت کو دیکھے اور منعم یعنی نعمت دینے والے کو نہ دیکھے وہ کنود ہے۔ ان سب اقوال کا حاصل نعمت کی ناشکری کرنا ہے۔ اس لئے کنود کا ترجمہ ناشکر کا کیا گیا ہے۔


آیت نمبر 3


فَالۡمُغِيۡرٰتِ صُبۡحًا ۞

لفظی ترجمہ:
فَ: پھر | الْمُغِیْرٰت: تیزی سے حملہ کرنیوالے | صُبْحًا: صبح کے وقت

اردو ترجمہ:
پھر صبح کے وقت یلغار کرتے ہیں۔


آیت نمبر 4


فَاَثَرۡنَ بِهٖ نَقۡعًا ۞

لفظی ترجمہ:
فَ: پھر | اَثَرْنَ: چھوڑتے ہیں | بِ: سے | ہٖ: اس | نَقْعًا: گرد

اردو ترجمہ:
پھر اس موقع پر غبار اڑاتے ہیں۔


آیت نمبر 5


فَوَسَطۡنَ بِهٖ جَمۡعًا ۞

لفظی ترجمہ:
فَ: پھر | وَسَطْنَ: درمیان ہوتے | بِ: سے | ہٖ: اس | جَمْعًا: جماعت

اردو ترجمہ:
پھر اسی وقت کسی جمگھٹے کے بیچوں بیچ جاگھستے ہیں۔


آیت نمبر 6


اِنَّ الۡاِنۡسَانَ لِرَبِّهٖ لَـكَنُوۡدٌ ۞

لفظی ترجمہ:
اِنَّ: بیشک | الْاِنْسَانَ: انسان | لِ: واسطے | رَبِّ: رب | ہٖ: اپنے | لَکَنُوْدٌ: بڑا ناشکرا

اردو ترجمہ:
کہ انسان اپنے پروردگار کا بڑا ناشکرا ہے۔


آیت نمبر 7


وَاِنَّهٗ عَلٰى ذٰلِكَ لَشَهِيۡدٌ ۞

لفظی ترجمہ:
وَ: اور | اِنَّ: بیشک | ہٗ: وہ | عَلٰی: اوپر | ذٰلِكَ: اس کے | لَ: ضرور | شَھِیْدٌ: گواہ

اردو ترجمہ:
اور وہ خود اس بات کا گواہ ہے۔


آیت نمبر 8


وَاِنَّهٗ لِحُبِّ الۡخَيۡرِ لَشَدِيۡدٌ ؕ‏ ۞

لفظی ترجمہ:
وَ: اور | اِنَّ: بیشک | ہٗ: وہ | لِ: واسطے | حُبِّ: محبت | الْخَیْرِ: مال کی | لَ: بہت | شَدِیْدٌ: سخت

اردو ترجمہ:
اور آدمی محبت پر مال کی بہت پکا ہے

آسان اردو تفسیر:
انہ لحب الخیر لشدید، خیر کے لفظی معنی ہر بھلائی کے ہیں۔ عرب میں مال کو بھی لفظ خیر سے تعبیر کرتے تھے، گویا مال بھلائی ہی بھلائی اور فائدہ ہی فائدہ ہے حالانکہ درحقیقت بعض مال انسان کو ہزاروں مصیبتوں میں بھی مبتلا کردیتے ہیں۔ آخرت میں تو ہر مال حرام کا یہی انجام ہے کبھی کبھی دنیا میں بھی مال انسان کے لئے وبال بن جاتا ہے مگر عرب کے محاورہ کے مطابق اس آیت میں مال کو لفظ خیر سے تعبیر کردیا ہے جیسا ایک دوسری آیت میں فرمایا ان ترک خیرا، یعنی یہاں بھی خیر سے مراد مال ہے۔
آیت مذکور میں گھوڑوں کی قسم کھا کر انسان کے متعلق دو باتیں کہی گئیں، ایک یہ کہ وہ ناشکر ہے۔ مصیبتوں تکلیفوں کو یادرکھتا ہے نعمتوں اور احسانات کو بھول جاتا ہے۔ دوسرے یہ کہ وہ مال کی محبت میں شدید ہے۔ یہ دونوں باتیں شرعاً وعقلاً مذموم ہیں ان میں انسان کو ان مذموم خصلتوں پر متنبہ کرنا مقصود ہے۔ ناشکری کا مذموم ہانا تو بالکل ظاہر ہے۔ مال کی مخبت کو جو مذموم قرار دیا حالانکہ وہ انسانی ضروریات کا مدار ہے۔ اور اس کے کسب واکتساب کو شریعت نے صرف حلال ہی نہیں بلکہ بقدر ضرورت فرض قرار دیا ہے تو مال کی محبت کا مذموم ہونا یا تو وصف شدت کے اعتبار سے ہے کہ مال کی محبت میں ایسا مغلوب ہوجاوے کہ اللہ تعالیٰ کے احکام سے بھی غافل ہوجائے اور حلال و حرام کی پروانہ رہے، اور یا اسلئے کہ مال کا کسب واکتساب اور بقدر ضرورت جمر کنا تو مذموم نہیں بلکہ فرض ہے مگر محبت اس کی بھی مذموم ہے کیونکہ محبت کا تعلق دل سے ہے اس کا حاصل یہ ہوگا کہ مال کو بقدر ضرورت حاص کرنا اور اس سے کام لینا تو ایک فریضہ اور محمود ہے لیکن دل میں اس کی محبت ہونا پھر بھی مذموم ہی ہے۔ جیسا انسان پیشاب پاخانے کی ضرورت کو پورا بھی کرتا ہے اس کا اہتمام بھی کرتا ہے مگر اس کے دل میں محبت نہیں ہوتی۔ بیماری میں دوا بھی پیتا ہے آپریشن بھی کراتا ہے مگر دل میں ان چیزوں کی محبت نہیں ہوتی بلکہ بدرجہ مجبوری کرتا ہے اس طرح اللہ کے نزدیک مومن کو ایسا ہونا چاہئے کہ بقدر ضرورت مال کو حاصل بھی کرے اس کی حفاظت بھی کرے اور مواقع ضرورت میں اس سے کام بھی لے مگر دل اس کے ساتھ مشغول نہ ہو، جیسا کہ مولانا رومی نے بڑے بلیغ انداز میں فرمایا ہے
آب اندر زید کشتی پشتی است آب درکشتی ہلاک کشتی است
یعنی پانی جب تک کشتی کے نیچے رہے تو کشتی کا مددگار ہے مگر یہی پانی جب کشتی کے اندر آجائے تو کشتی کو لے ڈوبتا ہے۔ اس طرح مال جب تک دل کی کشتی کے اردگرد رہے تو مفید ہے جب دل کے اندر گھس گیا تو ہلاکت ہے۔ آخرسورت میں انسان کی ان دونوں مذموم خصلتوں پر آخرت کی وعید سنائی گئی۔.


آیت نمبر 9


اَفَلَا يَعۡلَمُ اِذَا بُعۡثِرَ مَا فِى الۡقُبُوۡرِۙ ۞

لفظی ترجمہ:
اَ: کیا | فَ: پس | لَا: نہیں | یَعْلَمُ: جانتا | اِذَا: جب | بُعْثِرَ: نکالاجائے | مَا: جو | فِی: میں | الْقُبُوْرِ: قبروں

اردو ترجمہ:
کیا نہیں جانتا وہ وقت کہ کریدا جائے جو کچھ قبروں میں ہے

آسان اردو تفسیر:
افلایعلم اذا بعثر ما فی القبور الآیتہ، کیا اس غافل انسان کو اس کی خبر نہیں کہ قیامت کے روز جبکہ مردے قبروں سے زندہ کر کے اٹھا لئے جاویں گے اور دلوں میں چھپی ہوئی باتیں بھی سب کھل کر سامنے آجاوینگی اور یہ بھی سب جانتے ہیں کہ رب العالمین ان سب کے سب حالات سے باخبر ہیں تو اس کے مطابق جزاء سزا دیں گے اس لئے عقلمند کا کام یہ ہے کہ ناشکری سے باز آئے اور مال کی محبت میں ایسا مغلوب نہ ہو کہ اچھے برے کی تمیز نہ رہے۔
اس آیت میں یہ دو مذموم خصلتیں مطلق انسان کی بیان کی گئی ہیں حالانکہ انسان میں انبیاء و اولیاء اور بہت سے صلحاء عباد ایسے ہیں، جو ان مذموم خصلتوں سے پاک اور شکر گزار بندے ہوتے ہیں مال کو اللہ کی راہ میں خرچ کر ڈالنے کے لئے تیار رہتے ہیں حرام مال سے بچتے ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ مطلق انسان کی طرف ان مذموم خصلتوں کی نسبت اس لئے کردی گئی کہ اکثر انسان ایسے ہی ہیں اس سے سب کا ایسا ہونا لازم نہیں آتا۔ اسی لئے بعض حضرات نے اس آیت میں انسان سے مراد انسان کافر لیا ہے جیسا کہا وپر خلاصہ تفسیر میں ایسا ہی ہے اس کا حاصل یہ ہوگا کہ یہ دونوں مذموم خصلتیں دراصل کافر کی ہیں کسی مسلمان میں بھی خدانخواستہ پائی جائیں تو اسے فکر کرنا چاہئے۔ واللہ اعلم


آیت نمبر 10


وَحُصِّلَ مَا فِى الصُّدُوۡرِۙ ۞

لفظی ترجمہ:
وَ: اور | حُصِّلَ: کھولاجائے | مَا: جو | فِی: میں | الصُّدُوْرِ: سینوں

اردو ترجمہ:
اور سینوں میں جو کچھ ہے اسے ظاہر کردیا جائے گا۔


آیت نمبر 11


اِنَّ رَبَّهُمۡ بِهِمۡ يَوۡمَئِذٍ لَّخَبِيۡرٌ  ۞

لفظی ترجمہ:
اِنَّ: بے شک | رَبَّ: رب | ھُمْ: ان کا | بِ: ساتھ | ھِمْ: ان کے | یَـوْمَىِٕذٍ: اس دن | لَّ: ضرور | خَبِیْرٌ: خبر رکھنے والا

اردو ترجمہ:
یقینا ان کا پروردگار اس دن ان (کی جو حالت ہوگی اس) سے پوری طرح باخبر ہے۔



آپ سورۃ القارعہ کی تفسیر کو آسان اردو میں یہاں پڑھ سکتے ہیں۔
https://www.measmomin.com/surah-al-qariah-asaan-urdu-tafseer.html


آپ سورۃ العادیات کو عربی، انگلش اور اردو ترجمہ کے ساتھ یہاں پڑھ سکتے ہیں:
🔗
https://www.measmomin.com/surah-al-adiyat-arabic-urdu-english-translation.html

 


 

ایک تبصرہ شائع کریں

0تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں (0)