سورۃ القریش آسان اردو تفسیر

0


surah_al_quraish_asaan_urdu_tafseer_meas_momin
Surah Al-Quraish Asaan Urdu Tafseer


اب آپ سورۃ القریش کی تفسیر کو آسان اردو میں ملاحظہ فرمائیں 


القرآن - سورۃ نمبر 106 قريش


أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ


آیت نمبر 1


لِاِيۡلٰفِ قُرَيۡشٍۙ ۞ 


لفظی ترجمہ:

لِ: واسطے | اِیْلٰفِ: مانوس کرنے | قُرَیْشٍ: قریش کو


اردو ترجمہ:

اس واسطے کہ مانوس رکھا قریش کو


آسان اردو تفسیر: 

چونکہ خوگور ہوگئے ہیں یعنی جاڑے اور گرمی کے سفر کے خوگر ہوگئے ہیں تو (اس نعمت کے شکر میں) انکو چاہئے کہ اس خانہ کعبہ کے مالک کی عبادت کریں جس نے ان کو بھوک میں کھانے کو دیا اور خوف سے ان کو امن دیا۔ 

اس پر تو سب مفسرین کا اتفاق ہے کہ معنی اور مضمون کے اعتبار سے یہ سورت سورة فیل ہی سے متعلق ہے اور شاید اس وجہ سے بعض مصاحف میں ان دونوں کو ایک ہی سورت کر کے لکھا گیا تھا، دونوں کے درمیا نبسم اللہ نہیں لکھی تھی مگر حضرت عثمان غنی ؓ، نے جب اپنے زمانے میں تمام مصاحف قرآن کو جمع کر کے ایک نسخہ تیار فرمایا اور تمام صحابہ کرام کا اس پر اجماع ہوا۔ اسی نسخہ قرآن کو جمہور کے نزدیک امام کہا جاتا ہے اس میں ان دونوں فرمایا اور تمام صحابہ کرام کا اس پر اجماع ہوا۔ اسی نسخہ قرآن کو جمہور کے نزدیک امام کہا جاتا ہے اس میں ان دونوں کو دو الگ الگ سورتیں ہی لکھا ہے۔ دونوں کے درمیان بسم اللہ لکھی گی ہے۔

لایلف قریش، حرف لام ترکیب نحوی کے اعتبار سے اس کا مقضنی ہے کہ اس کا تعلق کسی سابق مضمون کے ساتھ ہو اسی لئے اس کے متعلق میں متعدد اقوال ہیں، پچھلی سورت کے ساتھ معنوی تعلق کی بنا پر بعض حضرات نے فرمایا ہے کہ یہاں مخدوف جملہ انا اھلکنا اصحب الفیل ہے یعنی ہم نے اصحاب فیل کو اس لئے ہلاک کیا کہ قریش مکہ سردی گرمی کے دو سفروں کے عادی تھے، ان کی راہ میں کوئی رکاوٹ نہ رہے سب کے دلوں میں ان کی عظمت پیدا ہوجائے اور بعض حضرات نے فرمایا کہ مخدوف جملہ اعجبوا ہے یعنی تعجب کرو قریش کے معاملے سے کس طرح سردی گرمی کے سفر آزادانہ بےخطر ہو کر کرتے ہیں اور بعض نے فرمایا کہ اس کا تعلق اس جملہ سے ہے جو آگے آیت میں آ رہا ہے یعنی فلیعبدوا مطلب یہ ہوا کہ قریش کو اس نعمت کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ کا شکر گزار ہونا اور اس کی عبادت میں لگ جانا چاہئے اس صورت میں فلیعبدوا کے اوپر حرف فاء اس لئے ہے کہ پہلے جملے میں ایک معنی شرط کے پائے جاتے ہیں بہرحال اس سورت میں میں ارشاد یہ ہے کہ قریش مکہ چونکہ دو سرفوں کے عادی تھے، ایک سردی میں یمن کی طرف دوسرا گرمی میں شام کی طرف اور انہی دو سفروں پر ان کی تجارت اور کاروبار کا مدار تھا اور اسی تجارت کی بنا پر وہ مالدار اور اغنیاء تھے اس لئے اللہ تعالیٰ نے ان کے دشمن اصحاب فیل کو عبرتناک سزا دے کر ان کی عظمت لوگوں کے قلوب میں بڑھا دی، یہ پورے ممالک میں جہاں بھی جائیں لوگ ان کی تعظیم تکریم کرتے ہیں۔

قریش کی افضلیت سارے عرب پر۔ اس سورت میں اس کیطرف بھی اشارہ ہے کہ تمام قبائل عرب میں قریش اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے زیادہ مقبول ہیں جیسا کہ حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے تمام اولاد اسماعیل ؑ میں سے کنانہ کو اور کنانہ میں سے قریش کو اور قریش میں سے بنی ہاشم کو اور بنی ہاشم میں سے مجھ کو انتخاب کرلیا ہے (البغوی عن واثلہ بن اسقع) اور ایک حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ تمام آدمی قریش کے تابع ہیں خیر و شر میں (راہ مسلم عن جابر، مظہری) اور پہلی حدیث میں جس خداوندی انتخاب کا ذکر ہے غالباً اس کی وجہ ان قبائل کے خاص ملکات اور استعداد دیں ہیں، کفر و شرک اور جہالت کے زمانہ میں بھی ان کے بعض اخلاق اور ملکات نہایت اعلیٰ تھے ان میں قبول حق کی استعداد بہت کامل تھی، یہی وجہ ہے کہ صحابہ کرام اور اولیاء اللہ میں بیشتر لوگ قریش میں سے ہوئے ہیں


آیت نمبر 2


اٖلٰفِهِمۡ رِحۡلَةَ الشِّتَآءِ وَالصَّيۡفِ‌ۚ ۞ 


لفظی ترجمہ:

اٖلٰفِ: مانوس کرنا | ھِمْ: ان کا | رِحْلَۃَ: سفر سے | الشِّتَآءِ: سردی کے | وَ: اور | الصَّیْفِ: گرمی


اردو ترجمہ:

مانوس رکھنا ان کو سفر سے جاڑے کے اور گرمی کے


آسان اردو تفسیر:

رحلة الشتاً ء والصیف، یہ بات معلوم و معروف ہے کہ مکہ مکرمہ ایک ایسے مقام میں آباد ہے جہاں کوئی زراعت نہیں ہوتی وہاں باغات نہیں جن کے پھل مکہ والوں کو مل سکیں، اسی لئے بانی بیت اللہ حضرت خلیل اللہ علیہ الصلوة والسلام نے مکہ مکرمہ کے آباد ہونے کے وقت اللہ تعالیٰ سے یہ دعا فرمائی تھی کہ اس شہر کو جائے امن بنا دے اور اہل مکہ کو ثمرات کا رزق عطا فرمائے ارزق اھل من الثمرات اور باہر سے ہر طرح کے پھل ہیاں لائے جایا کریں یحی الیہ ثمرات کل شئی اس لئے اہل مکہ کے معاش کا مدار اس پر تھا کہ وہ تجارت کے لئے سفر کریں اور اپنی ضروریات وہاں سے لائیں۔ حضرت ابن عباس نے فرمایا کہ مکہ والے بڑے افلاس اور تکلیف میں تھے یہاں تک کہ رسول اللہ ﷺ کے جد امجد ہاشم نے قریش کو اس کے لئے آمادہ کیا کہ دوسرے ملکوں سے تجارت کا کام کریں۔ ملک شام ٹھنڈا ملک تھا گرمی کے زمانے میں وہاں اور یمن گرم ملک ہے سردی کے زمانے میں اس طرف تجارتی سفر کرتے اور منافع حاصل کرتے تھے اور چونکہ یہ لوگ بیت اللہ کے خادم ہونے کی حیثیت سے تمام عرب میں مقدس و محترم مانے جاتے تھے تو یہ راستہ کے ہر خطرے سے بھی محفوظ رہتے تھے اور ہاشم چونکہ ان سب کے سردار مانے جاتے تھے ان کا طریقہ یہ تھا کہ اس تجارت میں جو منافع حاصل ہوتے ان کو قریش کے امیر و غریب سب میں تقسیم کردیتے تھے یہاں تک کہ ان کا غریب آدمی بھی مالداروں کی برابر سمجھا جاتا تھا۔ پھر حق تعالیٰ نے ان پر یہ مزید احسان فرمایا کہ ہر سال کے دو سرفوں کی زحمت سے بھی اس طرح بچا دیا کہ مکہ مکرمہ سے ملے ہوئے علاقہ یمن، تبادلہ اور حرش کو اتنا سرسبز اور زرخیز بنادیا کہ وہاں کا غلہ ان کی ضرورت سے زائد ہونے کی بناء پر ان کو اس کی ضرورت پڑی کہ یہ غلات وہاں سے لا کر جدہ میں فروخت کریں۔ چناچہ اکثر ضروریات زندگی جدہ میں ملنے لگیں مکہ والے ان طویل دو سرفوں کے بجائے صرف دو منزل پر جا کر جدہ سے سب سامان لانے لگے۔ آیت مذکورہ میں حق تعالیٰ نے مکہ والوں پر اسی احسان و انعام کا ذکر فرمایا ہے۔


آیت نمبر 3


فَلۡيَـعۡبُدُوۡا رَبَّ هٰذَا الۡبَيۡتِۙ‏ ۞ 


لفظی ترجمہ:

فَ: تو | لْیَعْبُدُوْا: چاہئے وہ عبادت کریں | رَبَّ: رب کی | ھٰذَا: اس | الْبَیْتِ: گھرکے


اردو ترجمہ:

تو چاہئے کہ بندگی کریں اس گھر کے رب کی


آسان اردو تفسیر:

فلیعبدوا رب ھذا البیت، انعامات کا ذکر کرنے کے بعد ان کا شکر ادا کرنے کے لئے قریش کو خصوصی خطاب کے ساتھ یہ ہدایت فرمائی کہ اس کے گھر کے مالک کی عبادت کیا کرو۔ اس جگہ اللہ تعالیٰ کی صفات میں سے رب البیت ہونے کی صفت کو خصوصیت سے اس لئے ذکر فرمایا کہ یہی بیت کعبہ ان کے تمام فضائل اور برکات کا سرچشمہ تھا۔

آیت نمبر 4


الَّذِىۡۤ اَطۡعَمَهُمۡ مِّنۡ جُوۡعٍ ۙ وَّاٰمَنَهُمۡ مِّنۡ خَوۡفٍ  ۞ 


لفظی ترجمہ:

الَّذِیْۤ: جس نے | اَطْعَمَ: کھانادیا | ھُمْ: ان کو | مِّنْ: سے | جُوْعٍ: بھوک | وَّ: اور | اٰمَنَ: امن دیا | ھُمْ: ان کو | مِّنْ: سے | خَوْفٍ: خوف 


اردو ترجمہ:

جس نے ان کو کھانا دیا بھوک میں اور امن دیا ڈر میں۔  ؏


آسان اردو تفسیر:

الذی الطعھم من جوع و امنھم من خوف اس میں قریش مکہ کے لئے دنیا کی ان تمام عظیم نعمتوں کو جمع فرما دیا ہے جو انسان کے خوش عیش رہنے کے لئے ضروری ہیں اطعھم من جوع میں کھانے پینے کی ضروریات داخل ہیں اور امنھم من خوف میں دشمنوں ڈاکوؤں کے خوف سے مامون ہونا بھی شامل ہے اور آخرت کے عذاب سے مامون ہونا بھی۔

 ابن کثیر نے فرمایا کہ یہی وجہ ہے کہ جو شخص اس آیت کے حکم کے مطابق اللہ تعالیٰ کی عبادت کرے تو اللہ تعالیٰ اس کے لئے دنیا میں بھی امن اور بےخوف و خطر رہنے کا سامان فرما دیتے ہیں اور آخرت میں بھی اور جو اس سے انحراف کرے اس سے یہ دونوں قسم کے امن سلب کر لئے جاتے ہیں جیسا کہ قرآن کریم میں فرمایا ضرباللہ مثلاً قریتہ کانت امتہ مطمئنتہ یایتھا رزقھا رغدا من کل مکان فکفرت بانعم اللہ فاذا قھا اللہ لباس الجوع و الخوف بما کانوا یصنعون یعنی اللہ تعالیٰ نے ایک مثال بیان فرمائی کہ ایک بستی تھی جو مامون و محفوظ اور ہر خطرہ سے مطمئن تھی اس کا رزق ہر جگہ سے وافر آجاتا تھا، پھر اس بستی والوں نے اللہ کے انعامات کی ناشکری کی تو اللہ نے ان کو بھوک اور خوف کی پریشانی میں مبتلا کردیا ان کے کرتوت کی بنا پر 

ابو الحسن قزوینی نے فرمایا کہ جس شخص کو کسی دشمن یا اور کسی مصیبت کا خوف ہو اس کے لئے لایلاف قریش کا پڑھنا امان ہے، اس کو امام جزری نے نفل کر کے فرمایا کہ یہ عمل آزمودہ اور جرب ہے۔

بہر حال ہر بلا و مصیبت کے دفع کرنے کے لئے اس کی قرات مجرب ہے۔ حضرت قاضی صاحب موصوف فرماتے ہیں کہ میں نے بھی بارہا اس کا تجربہ کیا ہے۔


 

ایک تبصرہ شائع کریں

0تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں (0)