قرآن سورۃ الکافرون آسان اردو تفسیر

0


quran_surah_al_kafirun_asaan_urdu_tafseer_meas_momin
Surah Al-Kafiron

الحمدللہ سورۃ الکافرون کی آسان اردو تفسیر یہاں ملاحظہ فرمائیں۔


سورۃ نمبر 109 الكافرون


أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ


آیت نمبر 1


قُلْ يٰٓاَيُّهَا الْكٰفِرُوْنَ ۞ 


لفظی ترجمہ:

قُلْ: کہہ دو | یٰۤـاَیُّھَا: اے | الْکٰفِرُوْنَ: کافرو


ترجمہ:

تو کہہ اسے منکرو


آسان اردو تفسیر:

آپ (ان کافروں سے) کہہ دیجئے کہ اے کافرو (میرا تمہارا طریقہ ایک نہیں ہوسکتا اور) نہ میں تمہارے معبودوں کی پرستش کرتا ہوں اور نہ تم میرے معبود کی پرستش کرتے ہو اور نہ (آئندہ استقبال میں) میں تمہارے معبودوں کی پرستش کروں گا اور نہ تم میرے معبود کی پرستش کرو گے (مطلب احقر کے نزدیک یہ ہے کہ میں موجد ہو کر شرک نہیں کرسکتا نہ اب نہ آئندہ، اور تم مشرک ہو کر موحد نہیں قرار دیئے جاسکتے نہ اب نہ آئندہ، یعنی توحید و شرک جمع نہیں ہو سکتے۔) تم کو تمہارا بدلہ ملے گا اور مجھ کو میرا بدلہ ملے گا (اس میں ان کے شرک پر وعید بھی سنا دی گئی۔) 


سورت کے فضائل اور خواص۔ حضرت صدیقہ عائشہ نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ فجر کی سنتوں میں پڑھنے کے لئے دو سورتیں بہتر ہیں سورة کافرون اور سورة اخلاص (رواہ ابن ہاشم مظہری) اور تفسیر ابن کثیر میں متعدد صحابہ سے منقول ہے کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو صبح کی سنتوں میں اور بعد مغرب کی سنتوں میں بکثرت یہ دو سورتیں ڑھتے ہوئے سنا ہے۔ بعض صحابہ نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا کہ ہمیں کوئی دعا بتا دیجئے جو ہم سونے سے پہلے پڑھا کریں، آپ نے قل یا ایھا الکفرون پڑھنے کی تلقین فرمائی اور فرمایا کہ یہ شرک سے برائت ہے (رواہ الترمذی و ابوداؤد) اور حضرت جبیر بن مطلعم فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ان سے فرمایا کہ کیا تم یہ چاہتے ہو کہ جب سفر میں جاؤ تو وہاں تم اپنے سب رفقاء سے زیادہ خوشحال با مراد رہو اور تمہارا سامان زیادہ ہوجائے۔ انہوں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ بیشک میں ایسا چاہتا ہوں۔ آپ نے فرمایا کہ آخر قرآن کی پانچ سورتیں سورة کافرون، سورة نصر، سورة اخلاص، سورة فلق اور سورة ناس پڑھا کر اور ہر سورة کو بسم اللہ سے شروع کرو اور بسم اللہ ہی پر ختم کرو۔ حضرت جبیر فرماتے ہیں کہ اس وقت میرا حال یہ تھا کہ سفر میں اپنے دوسروں ساتھیوں کے بالمقابل قلیل الزاد خستہ حال ہوتا تھا۔ جب سے رسول اللہ ﷺ کی اس تعلیم پر عمل کیا میں سب سے بہتر حال میں رہنے لگا (مضہری بحوالہ ابویعلی) اور حضرت علی سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم ﷺ کو بچھونے کاٹ لیا تو آپ نے پای اور نمک منگایا اور یہ پانی کاٹنے کی جگہ لگاتے جاتے تھے اور قل یا ایھا الکافرون قل اعوذ برب الفلق، قل اعوذ برب الناس پڑھتے جاتے تھے۔

شان نزول۔ ابن اسحاق کی روایت ابن عباس سے یہ ہے کہ ولید بن مغیرہ اور عاص بن وائل اور اسود بن عبدالطلب اور امیہ بن خلف رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے اور کہا کہ آؤ ہم آپس میں اس پر صلح کرلیں کہ ایک سال آپ ہمارے بتوں کی عبادت کیا کریں اور ایک سال ہم آپ کے معبود کی عبادت کریں (قرطبی) اور طبرانی کی روایت حضرت ابن عباس سے یہ ہے کہ کفار مکہ نے اول تو باہمی مصالحت کے لئے رسول اللہ ﷺ کے سمنے یہ صورت پیش کی کہ ہم آپ کو اتنا مال دیتے ہیں کہ آپ سارے مکہ میں سب سے زیادہ ملادار ہوجائیں اور جس عورت سے آپ چاہیں آپ کا نکاح کردیں، آپ صرف اتنا کریں کہ ہمارے معبودوں کو برا نہ کہا کریں اور اگر آپ یہ بھی نہیں مانتے تو ایسا کریں کہ ایک سال ہم آپ کے معبود کی عبادت کیا کریں اور ایک سال آپ ہمارے معبودوں کی عبادت کیا کریں۔ 

اور ابو صالح کی روایت حضرت ابن عباس سے یہ ہے کہ کفار مکہ نے باہمی مصالحت کے لئے یہ صورت پیش کی تھی کہ آپ ہمارے بتوں میں سے بعض کو صرف ہاتھ لگا دیں تو ہم آپ کی تصدیق کرنے لگیں گے، اس پر جبرئیل امین سورة کافرون لے کر نازل ہوئے جس میں کفار کے اعمال سے برات اور خلاص اللہ تعالیٰ کی عبادت کا حکم ہے شان نزول میں جو متعدد واقعات بیان ہوئے ہیں ان میں کوئی تضاد نہیں، ہوسکتا ہے کہ یہ واقعات سبھی پیش آئے ہوں اور ان سب کے جواب میں یہ سورت نازل ہوئی ہو جس کا حاصل ایسی مصالحت سے روکنا ہے۔

لا اعبد ماتعبدون الآیتہ اس سورة میں یہ چند کلمات مکرر آئے ہیں اس تکرار کو رفع کرنے کے لئے ایک تفسیر تو وہ ہے جس کو بخایر نے بہت سے مفسرین سے نقل کیا ہے کہ دو کلمے ایک مرتبہ زمانہ لا کے لئے اور دوسری مرتبہ زمانہ مستقبل کے متعلق آئے ہیں اس لئے کوئی تکرار نہیں۔ مطلب یہ ہے کہ نہ تو بالفعل ایسا ہو رہا ہے کہ میں تمہارے معبودوں کی عبادت کروں اور تم میرے معبود کی عبادت کرو، اور نہ آئندہ ایسا ہوسکتا ہے کہ میں اپنی توحید پر تم اپنے شرک پر قائم رہتے ہئے ایک دوسرے کے معبود کی عبادت کریں۔ اسی تفسیر کو حضرت حکیم الامت نے تفسیر بیان القرآن میں اختیار فرمایا ہے جو اوپر خلاصہ تفسیر میں آ چکی ہے مگر بخاری کی تفسیر میں لکم دینکم ولی دین کی تفسیر دین بمعنے مذہب اسلام و فکر سے کی ہے اور مطلب یہ قرار دیا ہے کہ مصالحت کی مجوزہ صورت قابل قبول نہیں میں تو اپنے دین پر قائم ہوں ہی تم بھی اپنے دین پر مصر ہو تو تم جانور، اس کا انجام تمہیں بھگتنا ہے اور بیان القرآن میں دین کو بمعنے جزاء قرار دیا ہے۔

دوسری تفسیر وہ ہے جس کو ابن کثیر نے اختیار فرمایا ہے کہ حرف مالغت عرب میں جیسا اسم موصول الذی کے معنی میں آتا ہے ایسا ہی کبھی مصدری معنی کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے کہ وہ جس فعل پر داخل ہو اس کو بمعنے مصدر کردیتا ہے۔ اس سورت میں پہلی جگہ تو صرف ما اسم موصول الذی کے معنے میں ہے اور دوسری جگہ مامصدر یہ ہے تشریح اس کی یہ ہے کہ پہلے جمعہ لا اعبد ماتعبدون ولا انتم عبدون ما اعبد کے معنے یہ ہوئے کہ جن معبودوں کی تم عبادت کرتے ہو میں ان کی عبادت نہیں کرتا اور جس معبود کی میں عبادت کرتا ہوں اس کی تم نہیں کرتے اور دوسرے جملے ولا انا عابد ماعبدتم ولا انتم عبدون ما اعبد میں حرف ما مصدریہ ہے اور معنے یہ ہیں انا عابد عبادتکم ولا انتم عابدون عبادتی، یعنی ہماری اور تمہاری عبادت کے طریقے ہی الگ الگ ہیں، میں تمہارے طرز کی عبادت نہیں کرسکتا اور تم جب تک ایمان نہ لاؤ تو میرے طرز کی عبادت نہیں کرسکتے۔ اس طرح پہلے جملے میں معبودوں کا ختلاف بتلایا اور دوسرے جملے میں عبادت کے طرز و طریقہ کے اختلاف کو ظاہر کیا، حاصل یہ ہوا کہ نہ تمہارے اور ہمارے معبود میں اشتراک ہے نہ طری عبادت میں، اس طرح تکرار رفع ہوا اور طریق عبادت رسول اللہ ﷺ اور مسلمانوں کا وہ ہے جو آپ کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے بذریعہ وحی بتلایا گیا اور مشرکین کے طریقے خود ساختہ ہیں۔

ابن کثیر نے اس تفسیر کو راحج قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ کلمہ اسلام لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ سے یہی مفہوم نکلتا ہے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور طریق عبادت وہ معتبر ہے جو محمد رسول اللہ ﷺ کے واسطے سے ہم تک پہنچا ہے اور لکم دینکم ولی دین کی تفسیر میں ابن کثیر نے فرمایا کہ یہ جملہ ایسا ہی ہے جیسے دوسری جگہ قرآن کریم کا ارشاد ہے فان کذبوک فقل لی عملی ولکم عملکم اور دوسری جگہ ہے لنا اعمالنا ولکم اعمالکم اس کا حاصل یہ ہے کہ لفظ دین کو ابن کثیر نے بھی اعمال دین کے معنی میں لیا ہے اور پھر مقصود اس سے وہی ہوگا جو بیان القرآن میں بیان کیا گیا کہ ہر ایک کو اپنے اپنے عمل کی جزا سزا خود بھگتنی پڑے گی۔

اور بعض مفسرین نے ایک تیسری تفسیر یہ اختیار کی کہ صرف ما دونوں جگہ موصولہ ہی ہے اور حال و استقبال کا بھی فرق نہیں بلکہ یہ دو جملے فی المواقع مکرر لائے گئے ہیں مگر ہر تکرار برا نہیں ہوتا، بہت جگہ تکرار تقاضائے بلاغت ہوتا ہے جیسا کہ فان مع العسر یسراً ان مع العسر یسرا میں ہے۔ یہاں اس تکرار کا مقصد تاکید مضمون بھی ہے اور یہ بھی کہ کفار کی طرف سے چونکہ ایسی مصالحت کی پیشکش متعدد مرتبہ کی گئی تو متعدد جملوں سے اس کو رد کیا گیا

کفار سے معاہدہ صلح کی بعض صورتیں جائز ہیں بعض ناجائز۔ سورة کافرون میں کفار کی طرف سے پیش کی ہوئی مصالحت کی چند صورتوں کو بالکلیہ رد کر کے اعلان برائت کیا گیا، مگر خود قرآن کریم میں یہ ارشاد بھی موجود ہے و ان جنحوا للسلم فاجنح لھا، یعنی کفار اگر صلح کی طرف جھکیں تو آپ بھی جھک جایئے (یعنی معاہدہ صلح کرلیجئے) اور مدینہ طیبہ جب آپ ہجرت کر کے تشریف لے گئے تو یہود مدینہ سے آپ کا معاہدہ صلح مشہود و معروف ہے اس لئے بعض مفسرین نے سورة کافرون کو مسنوخ کہہ دیا اور منسوخ کہنے کی بڑی وجہ آیت لکم دینکم ولی دین کو قرار دیا ہے کیونکہ بظاہر یہ احکام جہاد کے منافی ہے۔ مگر صحیح یہ ہے کہ یہاں لکم دینکم کا یہ مطلب نہیں کہ کفار کو کفر کی اجازت یا کفر پر برقرار رکھنے کی ضمانت دے دی گئی بلکہ اس کا حاصل وہی ہے جو لنا اعمالنا ولکم اعمالک کا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ جیسا کرو گے ویسا بھگتو گے اس لئے راجح اور صحیح جمہور کے نزدیک یہ ہے کہ یہ سورت منسوخ نہیں، جس قسم کی مصالح سورة کافرون کے نزول کا سب بنی وہ جیسے اس وقت حرام تھی آج بھی حرام ہے اور جس صورت کی اجازت آیت مذکورہ میں آئی اور رسول اللہ ﷺ کے معاہدہ یہود سے عملاً ظاہر ہوئی، وہ جیسے اس وقت جائز تھی آج بھی جائز ہے۔ بات صرف موقع و محل کو سمجھنے اور شرائط صلح جائز ہے بجز اس صلح کے جس کی رو سے اللہ کی حرام کی ہوئی کسی چیز کو حلال یا حلال کی ہوئی چیز کو حرام قرار دیا گیا ہو۔ اب غور کیجئے کہ کفار مکہ نے صلح کی جو صورتیں پیش کی تھیں، ان سب میں کم از کم کفر و اسلام کی حدود میں التباس یقینی ہے اور بعض صورتوں میں تو اصول اسلام کے خلاف شرک کا ارتکاب لازم آتا ہے، ایسی صلح سے سورة کافرون نے اعلان برائت کردیا اور دوسری جگہ جس صلح کو جائز قرار دیا اور معاہدہ یہود سے اس کی عملی صورت معلوم ہوئی اس میں کوئی چیز ایسی نہیں جس میں اصول اسلام کا خلاف کیا گیا ہو یا کفر و اسلام کی حدود آپس میں ملتبس ہوئی ہوں۔ اسلام سے زیادہ کوئی مذہب رواداری، حسن سلوک صلح و سلامیت کا داعی نہیں مگر صلح اپنے انسانی حقوق میں ہوتی ہے۔ خدا کے قانون اور اصول دین میں کسی صلح مصالحت کی کوئی گنجائش نہیں۔ واللہ اعلم


آیت نمبر 2


لَاۤ اَعْبُدُ مَا تَعْبُدُوْنَ ۞ 


لفظی ترجمہ:

لَاۤ: نہیں | اَعْبُدُ: میں عبادت کرتا | مَا: جس کی | تَعْبُدُوْنَ: تم عبادت کرتے ہو


اردو ترجمہ:

میں نہیں پوجتا جس کو تم پوجتے ہو


آیت نمبر 3


وَلَاۤ اَنْتُمْ عٰبِدُوْنَ مَاۤ اَعْبُدُ ۞ 


لفظی ترجمہ:

وَ: اور | لَاۤ: نہ | اَنْتُمْ: تم | عٰبِدُوْنَ: عبادت کرنیوالے | مَاۤ: جس کی | اَعْبُدُ: میں عبادت کرتاہوں


اردو ترجمہ:

اور نہ تم پوجو جس کو میں پوجوں


آیت نمبر 4


وَلَاۤ اَنَا عَابِدٌ مَّا عَبَدْتُّمْ ۞ 


لفظی ترجمہ:

وَ: اور | لَاۤ: نہ | اَنَا: میں | عَابِدٌ: عبادت کرنیوالا | مَّا: جس کو | عَبَدْتُّمْ: تم نے پوجا


اردو ترجمہ:

اور نہ مجھ کو پوجنا ہے اس کا جس کو تم نے پوجا


آیت نمبر 5


وَلَاۤ اَنْتُمْ عٰبِدُوْنَ مَاۤ اَعْبُدُ ۞ 


لفظی ترجمہ:

وَ: اور | لَاۤ: نہیں | اَنْتُمْ: تم | عٰبِدُوْنَ: عبادت کرنیوالے | مَاۤ: جس کی | اَعْبُدُ: میں عبادت کرتا ہوں


اردو ترجمہ:

او نہ تم کو پوجنا ہے اس کا جس کو میں پوجوں


آیت نمبر 6


لَكُمْ دِيْنُكُمْ وَلِيَ دِيْنِ  ۞ 


لفظی ترجمہ:

لَ: واسطے | کُمْ: تمہارے | دِیْنُ: دین | کُمْ: تمہارا | وَ: اور | لِیَ: میرے لئے 

| دِیْنِ: میرادین


اردو ترجمہ:

تم کو تمہاری راہ اور مجھ کو میری راہ۔ ؏



آپ سورۃ الکافرون کو عربی انگلش اور اردو بمع اردو لفظی ترجمہ یہاں پڑھ سکتے ہیں۔


https://www.measmomin.com/surah-al-kafirun-arabic-english-urdu.html

ایک تبصرہ شائع کریں

0تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں (0)