![]() |
Surah Al-Qadr Asaan Urdu Tafseer |
اب آپ مکمل سورۃ القدر کی آسان تفسیر کو اردو میں ملاحظہ فرمائیں۔
آسان اردو تفسیر
القرآن - سورۃ نمبر 97 القدر
أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
آیت نمبر 1
اِنَّاۤ اَنۡزَلۡنٰهُ فِىۡ لَيۡلَةِ الۡقَدۡرِ ۞
لفظی ترجمہ:
اِنَّـاۤ: بیشک | اَنْزَلْنَا: ہم نے اتارا | ہُ: اسے | فِیْ: میں | لَیْلَۃِ: رات | الْقَدْرِ: قدروالی
اردو ترجمہ:
ہم نے اِس (قرآن) کو شب قدر میں نازل کیا ہے
آسان اردو تفسیر:
بیشک ہم نے قرآن کو شب قدر میں اتارا ہے (تحقیق شب قدر میں نازل ہونے کی سورة دخان میں گزری ہے) اور زیادت تشویف کے لئے فرماتے ہیں کہ۔) آپ کو کچھ معلوم ہے کہ شب قدر کیسی چیز ہے (آگے جواب ہے کہ) شب قدر ہزار مہینوں سے بہتر ہے (یعنی ہزار مہینہ تک عبادت کرنے کا جس قدر ثواب ہے اس سے زیادہ شب قدر میں عبادت کرنے کا ثواب ہے، کذا فی الخازن اور وہ رات ایسی ہے کہ) اس رات میں فرشتے اور روح القدس (یعنی جبرائیل علیہ السلام) اپنے پروردگار کے حکم سے ہر امر خیر کو لے کر (زمین کی طرف) اترتے ہیں (اور وہ شب) سراپا سلام ہے (جیسا حدیث بیہقی میں حضرت انس سے مرفوعاً مروی ہے کہ شب قدر میں حضرت جبرئیل ؑ فرشتوں کے ایک گروہ میں آتے ہیں اور جس شخص کو قیام و قعود و ذکر میں مشغول دیکھتے ہیں تو اس پر صلوة بھجیتے ہیں یعنی اس کے لئے دعائے رحمت کرتے ہیں اور خازن نے ابن الجوزی سے اس روایت میں یسلمون بھی بڑھایا ہے یعنی سلامتی کی دعا کرتے ہی اور یصلون کا خلاصہ بھی یہی ہے کیونکہ رحمت و سلامتی میں تلازم ہے اسی کو قرآن میں سلام فرمایا ہے اور امر خیر سے مراد یہی ہے اور نیز روایات میں اس میں توبہ کا قبول ہونا ابواب سماء کا مفتوح ہونا اور ہر مومن پر ملائکہ کا سلام کرنا آیا ہے۔ کذا فی الدرالمنشور اور ان امور کا بواسطہ ملائکہ کے ہونا اور موجب سلامت ہونا ظاہر ہے یا امر سے مراد وہ امور ہوں جن کا عنوان سورة دخان میں امر حکیم اور اس شب میں ان کا طے ہونا ذکر فرمایا ہے اور) وہ شب قدر (اسی صفت و برکت کے ساتھ) طلوع فجر تک رہتی ہے (یہ نہیں کہ اس شب کے کسی حصہ خاص میں یہ برکت ہو اور کسی میں نہ ہو)
شان نزول۔ ابن ابی حاتم نے مجاہد سے مرسلاً روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے بنی اسرائیل کے ایک مجاہد کا حال ذکر کیا جو ایک ہزار مہینے تک مسلسل مشغول جہاد رہا، کبھی ہتھیار نہیں اتارے۔ مسلمانوں کو یہ سن کر تعجب ہوا، اس پر سورة قدر نازل ہوئی جس میں اس امت کے لئے صرف ایک رات کی عبادت کو اس مجاہد کی عمر بھر کی عبادت یعنی ایک ہزار مہینے سے بہتر قرار دیا ہے اور ابن جریر نے بروایت مجاہد ایک دوسرا واقعہ یہ ذکر کیا ہے کہ بنی اسرائیل میں ایک عابد کا یہ حال تھا کہ ساری رات عبادت میں مشغول رہتا اور صبح ہوتے ہی جہاد کے لئے نکل کھڑا ہوتا دن بھر جہاد میں مشغول رہتا، ایک ہزار مہینے اس نے اسی مسلسل عبادت میں گزار دیئے۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے سورة قدر نازل فرما کر اس امت کی فضیلت سب پر ثابت فرما دی۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ شب قدر امت محمدیہ کی خصوصیات میں سے ہے۔
ابن کثیر نے یہی قول امام مالک کا نقل کیا ہے اور بعض ائمہ شافعیہ نے اس کو جمہور کا قول کلھا ہے۔ خطابی نے اس پر اجتماع کا دعویٰ کیا ہے مگر بعض محدثین نے اس میں اختلاف کیا ہے۔
لیلتہ القدر کے معنے۔ قدر کے ایک معنی عظمت و شرف کے ہیں۔ زہری وغیرہ حضرات علماء نے اس جگہ یہی معنی لئے ہیں اور اس رات کو لیلتہ القدر کہنے کی وجہ سے اس رات کی عظمت و شرف ہے۔ اور ابوبکر وراق نے فرمایا کہ اس رات کو لیلتہ القدر اسوجہ سے کہا گیا کہ جس آدمی کی اس سے پہلے اپنی بےعملی کے سبب کوئی قدر و قیمت نہ تھی اس رات میں توبہ و استغفار اور عبادت کے ذریعہ وہ صاحب قدر و شرف بن جاتا ہے۔
قدر کے دوسرے معنی تقدیر و حکم کے بھی آتے ہیں، اس معنے کے اعتبار سے لیلتہ القدر کہنے کی وجہ یہ ہوگی کہ اس رات میں تمام مخلوقات کے لئے جو کچھ تقدیر ازلی میں لکھا ہے اس کا جو حصہ اس سال میں رمضان سے اگلے رمضان تک پیش آنیوالا ہے وہ ان فرشتوں کے حوالہ کردیا جاتا ہے جو کائنات کی تدبیر اور تنقید امور کے لئے مامور ہیں، اس میں ہر انسان کی عمر اور موت اور رزق اور بارش وغیرہ کی مقداریں مقررہ فرشتوں کو لکھوا دی جاتی ہیں یہاں تک کہ جس شخص کو اس سال میں حج نصیب ہوگا وہ بھی لکھدیا جاتا ہے اور یہ فرشتے جن کو یہ امور سپرد کئے جاتے ہیں۔ بقول ابن عباس چار ہیں۔ اسرافیل، میکائیل، عزرائیل، جبرئیل (علیہم السلام)
سورة دخان کی آیت انا انزلنہ فی لیلة مبرکة انا کنا منذرین، فیھا یفرق کل امر حکیم، امراً من عندنا میں یہ مضمون خود صراحت کے ساتھ آ گیا ہے کہ اس لیلتہ مبارکہ میں تمام امور تقدیر کے فیصلے لکھے جاتے ہیں اور اس آیت کی تفسیر میں گزر گیا ہے کہ جمہور مفسرین کے نزدیک لیلتہ مبارکہ سے مراد بھی لیلتہ القدر ہی ہے اور بعض حضرات نے جو لیلہ مبارکہ سے نصف شعبان کی رات یعنی لیلتہ البرائت مراد لی ہے تو وہ اس کی تطبیق اس طرح کرتے ہیں کہا بتدائی فیصلے امور تقدیر کے اجمالی طور پر شب براءت میں ہوجاتے ہیں پھر ان کی تفصیلات لیلتہ القدر میں لکھی جاتی ہیں اس کی تائید حضرت ابن عباس کے ایک قول سے ہوتی ہے جس کو بغوری نے بروایت ابوالضحی نقل کیا ہے اس میں فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ سال بھر کے تقدیری امور کا فیصلہ تو شب برائت یعنی نصف شعبان کی رات میں کرلیتے ہیں پھر شب قدر میں یہ فصلے متعلقہ فرشتوں کے سپرد کردیئے جاتے ہیں (مظہری) اور یہ پہلے لکھا جا چکا ہے کہ امور تقدیر کے فیصلے اس رات میں ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اس سال میں جو امور تقدیر نافذ ہونا ہیں وہ لوح محفوظ سے نقل کر کے فرشتوں کے حوالے کردیئے جاتے ہیں اور اصل نوشتہ تقدیر پر ازل میں لکھا جا چکا ہے۔
لیلة القدر کی تعیین۔ اتنی بات تو قرآن کریم کی تصریحات سے ثابت ہے کہ شب قدر ماہ رمضان المبارک میں آتی ہے مگر تاریخ کے تعین میں علماء کے مختلف اقوال ہیں جو چالیس تک پہنچتے ہیں مگر تفسیر مظہری میں ہے کہ ان سب اقوال میں تاریخ کے تعین میں علماء کے مختلف اقوال ہیں جو چالیس تک پہنچتے ہیں مگر تفسیر مظہری میں ہے کہ ان سب اقوال میں صحیح یہ ہے کہ لیلتہ القدر رمضان مبارک کے آخری عشرہ میں ہوتی ہے مگر آخری عشرہ کی کوئی خاص تاریخ متعین نہیں بلکہ ان میں سے کسی بھی رات میں ہو سکتی ہے وہ ہر رمضان میں بدلتی بھی رہتی ہے اور ان دس میں سے خاص طاق راتیں یعنی 29, 27, 25, 23, 21 میں ازروئے احادیث صحیحہ زیادہ احتمال ہے۔ اس قول میں تمام احادیث جو تعیین شب قدر کے متعلق آئی ہیں جمع ہوجاتی ہیں جن میں 29, 27, 25, 23, 21 راتوں میں شب قدر ہونے کا ذکر آیا ہے۔ اگر شب قدر کو ان راتوں میں دائر اور ہر رمضان میں منتقل ہونے والا قرار دیا جائے تو یہ سب روایات حدیث اپنی اپنی جگہ درست اور ثابت ہوجاتی ہیں کسی میں تاویل کی ضرورت نہیں رہتی، اسی لئے اکثر ائمہ فقہاء نے اس کو عشرہ اخیرہ میں منتقل ہونے والی رات قرار دیا ہغے۔ ابوقلابہ، امام مالک، احمد بن حنبل، سفیان ثوری، اسحاق بن راہویہ ابوثور، مزنی، ابن خزیمہ وغیرہ سب نے یہی فرمایا ہے اور ایک روایت میں امام شافعی سے بھی اس کے مواقف منقول ہے اور دوسری روایت امام شافعی کی یہ ہے کہ یہ رات منتقل ہونے والی نہیں بلکہ معین ہے۔ صحیح بخاری میں حضرت صدیقہ عائشہ کی روایت سے آیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تحروالیلة القدر فی العشر الاواخر من رمضان، یعنی شب قدر کو رمضان کے آخری عشرہ میں تلاش کرو اور صحیح مسلم میں حضرت ابن عمر کی روایت سے آیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا فاطلبوھا فی الوتر منھا، یعنی شب قدر کو رمضان کے عشرہ اخیرہ کی طاق راتوں میں طلب کرو۔
لیلتہ القدر کے بعض فضائل اور اس رات کی مخصوص دعا۔ اس رات کی سب سے بڑی فضیلت تو وہی ہے جو اس سورت میں بیان ہئیو ہے کہ اس ایک رات کی عبادت ایک ہزار مہینوں یعنی تراسی 83 سال سے زائد کی عبادت سے بھی بہتر ہے پھر بہتر ہونے کی کوئی حد مقرر نہیں، کتنی بہتر ہے کہ دوگنی چوگنی دس گنی سوگنی وغیرہ سبھی احتمالات ہیں۔
او صیحیین میں حضرت ابوہریرہ کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جو شب قدر میں عبادت کے لئے کھڑا رہا اس کے تمام پچھلے گناہ معاف ہوگئے اور حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ شب قدر میں وہ تمام فرشتے جن کا مقام سدرة المنتہیٰ پر ہے جبرئیل امین کیساتھ دنیا میں اترتے ہیں اور کوئی مومن مرد یا عورت ایسی نہیں جس کو وہ سلام نہ کرتے ہوں بجز اس آدمی کے جو شراب پیتا یا خنزیر کا گوشت کھاتا ہو۔
اور ایک حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جو شخص شب قدر کی خیر و برکت سے محروم رہا وہ بالکل ہی محروم بدنصیب ہے۔ شب قدر میں بعض حضرات کو خاص انوار کا مشاہدہ بھی ہوتا ہے مگر نہ یہ سب کو اصل ہوتا ہے نہ رات کی برکات اور ثواب حاصل ہونے میں ایسے مشاہدات کا کچھ دخل ہے اس لئے اس کی فکر میں نہ پڑنا چاہئے۔
حضرت صدیقہ عائشہ نے رسول اللہ ﷺ سے دریافت کیا کہ اگر میں شب قدر کو پاؤں تو کیا دعاء کروں آپ نے فرمایا کہ یہ دعا کرو اللھم انک عفو تحب العفو فاعف عنی یا اللہ آپ بہت معاف کرنے والے ہیں اور معافی کو پسند کرتے ہیں۔ میری خطائیں معاف فرمایئے۔
انا انزلنہ فی لیلة القدر اس آیت میں تصریح ہے کہ قرآن کریم شب قدر میں نازل ہوا، اس کا یہ مفوم بھی ہوسکتا ہے۔ پورا قرآن لوح محفوظ سے اس رات میں اتارا گیا پھر جبرئیل امین اس کو تدریجاً تئیس سال کے عرصہ میں حسب ہدایت تھوڑا تھوڑا لاتے رہے اور یہ بھی مراد ہو سکتی ہے کہا بتدائے نزول قرآن اس رات میں چند آیتوں سے ہوگیا باقی بعد میں نازل ہوتا رہا۔
تمام آسمانی کتابیں رمضان ہی میں نازل ہوئی ہیں۔ حضرت ابوذر غفاری نے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ صحف ابراہیم ؑ تیسری تاریخ رضمان میں اور تو رات چھٹی تاریخ میں اور انجیل تیرہویں تاریخ میں اور زبور اٹھارویں تاریخ رمضان میں نازل ہوئی ہیں اور قرآن نبی کریم ﷺ پر چوبیس تاریخ رمضان میں اترا ہے۔
آیت نمبر 2
وَمَاۤ اَدۡرٰٮكَ مَا لَيۡلَةُ الۡقَدۡرِؕ ۞
لفظی ترجمہ:
وَ: اور | مَاۤ: کیا | اَدْرٰ ىكَ: تونے جانا | مَا: کیا | لَیْلَۃُ: رات | الْقَدْرِ: قدر والی
اردو ترجمہ:
اور تم کیا جانو کہ شب قدر کیا ہے؟
English:
And what do you know what the Night of Power is?
آیت نمبر 3
لَيۡلَةُ الۡقَدۡرِ ۙ خَيۡرٌ مِّنۡ اَلۡفِ شَهۡرٍؕ ۞
لفظی ترجمہ:
لَیْلَۃُ: رات | الْقَدْرِ: قدر | خَیْرٌ: بہتر | مِّنْ: سے | اَلْفِ: ہزار | شَھْرٍ: ماہ
اردو ترجمہ:
شب قدر ہزار مہینوں سے زیادہ بہتر ہے
English:
The Night of Power is better than a thousand months.
آیت نمبر 4
تَنَزَّلُ الۡمَلٰٓئِكَةُ وَالرُّوۡحُ فِيۡهَا بِاِذۡنِ رَبِّهِمۡۚ مِّنۡ كُلِّ اَمۡرٍ ۞
لفظی ترجمہ:
تَنَزَّلُ: اترتے ہیں | الْمَلٰٓىِٕکَۃُ: فرشتے | وَ: اور | الرُّوْحُ: روح | فِیْ: میں | ھَا: اس | بِ: ساتھ | اِذْنِ: اذن | رَبِّ: رب کے | ھِمْ: اپنے | مِنْ: سے | کُلِّ: ہر | اَمْرٍ: کام
اردو ترجمہ:
فرشتے اور روح اُس میں اپنے رب کے اذن سے ہر حکم لے کر اترتے ہیں
آسان اردو تفسیر:
تنزل الملکة والروح روح سے مراد جبرئیل امین ہیں۔ حضرت انس کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جب شب قدر ہوتی ہے تو جبرئیل امین فرشتوں کی بڑی جماعت کے ساتھ زمین پر اترتے ہیں اور جتنے اللہ کے بندے مرد و عورت نماز یا ذکر اللہ میں مشغول ہوتے ہیں سب کے لئے رحمت کی دعا کرتے ہیں۔
من کل امر میں حرف من بمعنے با رہے جیسے یحفظونہ من امر اللہ آلایتہ میں بھی من و بمعنے باء استعمال ہوا ہے۔ معنے یہ ہیں کہ فرشتے لیلتہ القدر میں تمام سال کے اندر پیش آنے والے تقدیری واقعات لے کر زمین پر اترتے ہیں۔ اور بعض حضرات مفسرین مجاہد وغیرہ نے من کل امر کو سلام کے ساتھ متعلق کر کے یہ معنے قرار دیئے ہیں کہ یہر ات سلامتی ہے ہر شر و آفت اور بری چیز سے۔
آیت نمبر 5
سَلٰمٌ هِىَ حَتّٰى مَطۡلَعِ الۡفَجۡرِ ۞
لفظی ترجمہ:
سَلٰمٌ: سلامتی | ھِیَ: وہ | حَتّٰی: تک | مَطْلَعِ: طلوع | الْفَجْرِ: صبح
اردو ترجمہ:
وہ رات سراسر سلامتی ہے طلوع فجر تک
آسان اردو تفسیر:
سلم، عبارت کی اصل سلم ہے۔ لفظ ھی حذف کردیا گیا، معنے یہ ہیں کہ یہ رات سلام اور سلامتی ہی ہے اور خیر ہی خیر ہے اس میں شرکا نام نہیں اور بعض حضرات نے تقدیر عابرت سلام ہو قرار دے کر اس کو من کل امر کی صفت بنایا اور معنی یہ ہوئے کہ یہ فرشتے ہر ایسا امرلے کر آتے ہیں جو خیر وسلام ہے۔
ھی حتی مطلع الفجر، یعنی لیلتہ القدر کی یہ برکات رات کے کسی خاص حصہ کی ساتھ مخصوص نہیں، شروع رات سے طلوع فجر تک ایک ہی حکم ہے۔
فائدہ۔ ان آیات میں لیلتہ القدر کو ایک ہزار مہینوں سے بہتر قرار دیا ہے اور ظاہر ہے کہ ان ایک ہزار مہینوں کے اندر بھی ہر سال ایک شب قدر آئے گی تو حساب کس طرح بنے گا۔ ائمہ تفسیر نے فرمایا کہ یہاں ایک ہزار مہینوں سے وہ مراد ہیں جن میں شب قدر شامل نہ ہو اس لئے کوئی اشکال نہیں
اختلاف مطالع کے سبب مختلف ملکوں اور شہروں میں شب قدر مختلف دنوں میں ہو تو اس میں کوئی اشکال نہیں، کیونکہ ہر جگہ کے اعتبار سے جو رات شب قدر قرار پائے گی اس جگہ اسی رات میں شب قدر کے برکات حاصل ہوں گے۔ واللہ سبحانہ و تعالیٰ اعلم۔
مسئلہ۔ جس شخص نے شب قدر میں عشاء اور صبح کی نماز جماتع سے پڑھ لی اس نے بھی اس رات کا ثواب پا لیا اور جو شخص جتنا زیادہ کرے گا زیادہ ثواب پائی گی صحیح مسلم میں حضرت ثمان غنی کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جس شخص نے عشاء کی نماز جماعت کے ساتھ ادا کرلی تو آدھی رات کے قیام کا ثواب پا لیا اور جس نے صبح کی نماز بھی جماعت سے ادا کرلی تو پوری رات جاگنے عبادت کرنے کا ثواب حاصل کرلیا۔