![]() |
Surah At-Takathur |
اب آپ سورۃ التکاثر کی مکمل تفسیر آسان اردو میں ملاحظہ فرمائیں
سورۃ نمبر 102 التكاثر
أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
آیت نمبر 1
اَلۡهٰٮكُمُ التَّكَاثُرُۙ ۞
لفظی ترجمہ:
اَلْھٰی: غافل رکھا | کُمُ: تم کو | التَّکَاثُرُ: طلب کثرت نے
اردو ترجمہ:
غفلت میں رکھا تم کو بہتایت کی حرص نے
آسان اردو تفسیر:
دو نبوی سامان پر فخر کرنا تم کو (آخرت سے) غافل کئے رکھتا ہے یہاں تک کہ تم قبرساتنوں میں پہنچ جاتے ہو (یعنی مر جاتے ہو کذافی تفسیر ابن کثیر مرفوعاً) ہرگز نہیں (یعنی دنیوی سامان قابل فخر ہے اور نہ آخرت قابل غفلت) تم کو بہت جلد (قبر میں جاتے ہی یعنی مرتے ہی) معلوم ہوجاوے گا پھر (’ و بارہ تم کو متنبہ کیا جاتا ہے کہ) ہرگز (یہ چیزیں قابل فخر اور توجہ کے اور آخرت قابل غفلت و انکار کے) نہیں تم کو بہت جلد (قبر سے نکلتے ہی یعنی حشر میں) معلوم ہوجاوے گا (کذافی فتح البیان مرفوعاً اور سہ بارہ پھر تم کو متوجہ کیا جاتا ہے کہ) ہرگز (یہ چیزیں قابل فخر و توجہ کے اور آخرت قابل غفلت اور انکار کے) نہیں (اور) اگر تم یقینی طور پر جان لیتے (یعنی دلائل صحیحہ میں غور و توجہ سے کام لیتے اور اس کا یقین آجاتا تو کبھی اس سامان پر فخر اور آخرت ہے غفلت میں نہ پڑتے) واللہ تم لوگ ضرور دوزخ کو دیکھو پھر (کرر تاکید کے لئے کہا جاتا ہے) واللہ تم لوگ ضرور اس کو ایسا دیکھنا دیکھو گے جو کہ خود یقین ہے (کیونکہ یہ دیکھنا استدلال اور دلائل کی راہ سے نہیں ہوگا جس سے یقین حاصل ہونے میں کبھی دیر بھی لگتی ہے بلکہ یہ آنکھوں کا مشاہدہ ہوگا۔ خلاصہ یہ ہے کہ اپنی آنکھوں دیکھ لینے کو عین الیقین سے تعبیر فرمایا ہے) پھر (ور بات سنو کہ) اس روز تم سب سے نعمتوں کی پوچھ ہوگی۔ (ہ اللہ کی دی ہوئی نعمتوں کا حق ایمان و اطاعت کیسا بجا لائے یا نہیں۔)
الکم التکاثر، تکاثر کثرت سے مشتق ہے معنی ہیں کثرت کیساتھ مال و دولت جمع کرنا۔ حضرت ابن عباس اور حسن بصری نے اس لفظ کی یہی تفسیر کی ہے اور یہ لفظ بمعنے تفاخر بھی استعمال کیا جاتا ہے حضرت قتادہ کی یہی تفسیر ہے اور حضرت ابن عباس کی ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے الہاکم التکاثر پڑھ کر فرمایا کہ اس سے مراد یہ ہے کہ مال کو ناجائز طریقوں سے حاصل کیا جائے اور مال پر جو فرائض اللہ کے عائد ہوتے ہیں انہیں خرچ نہ کریں
آیت نمبر 2
حَتّٰى زُرۡتُمُ الۡمَقَابِرَؕ ۞
لفظی ترجمہ:
حَتّٰی: یہاں تک | زُرْتُمُ: تم نے زیارت کی | الْمَقَابِرَ: قبروں کی
اردو ترجمہ:
یہاں تک کہ جادیکھیں قبریں
آسان اردو تفسیر:
حتی زرتم المقابر، یہاں زیارت مقابر سے مراد مر کر قبر میں پہنچنا ہے جیسا کہ حدیث مرفوع میں خود رسول اللہ ﷺ نے حتی زرتم المقابر کی تفسیر میں فرمایا حتی یاتیکم الموت (ابن کثیر بروایت ابن ابی حاتم) اس لئے مطلب آیت کا یہ ہوگا کہ تم لوگوں کو مال و دولت کی بہتات یا مال و اولاد اور قبیلہ و نسب پر تفاخر غفلت میں ڈالے رہتی ہے اپنے انجام اور آخرت کے حساب کی کوئی فکر نہیں کرتے یہاں تک کہ اسی حال میں تمہیں موت آجاتی ہے اور وہاں عذاب میں پکڑے جاتے ہو یہ خطاب بظاہر عام انسانوں کو ہے جو مال و اولاد کی محبت یا دوسروں پر اپنی برتری اور تفاخر میں ایسے مست رہتے ہیں کہ اپنے انجام کو سوچنے کی طرف توجہ ہی نہیں ہوتی۔ حضرت عبداللہ ابن شخیرہ فرماتے ہیں کہ میں ایک روز آنحضرت ﷺ کی خدمت میں پہنچا تو آپ الہاکم التکاثر پڑھ رہے تھے اور یہ فرما رہے تھے کہ
آدمی کہتا ہے کہ میرا مال میرا مال حالانکہ اس میں تیرا حصہ تو اتنا ہی ہے جس کو تو نے کھا کر فنا کردیا یا پہن کر بوسیدہ کردیا یا صدقہ کر کے اپنے آگے بھیج دیا اور اس کے سوا جو کچھ ہے وہ تیرے ہاتھ سے جانے والا ہے تو اس کو لوگوں کے لئے چھوڑنے والا ہے۔
امام بخاری نے حضرت انس سے روایت کیا ہے کہ رسول ﷺ نے فرمایا
اگر آدم زادے کے لئے ایک وادی (دامن کوہ) سونے سے بھری ہوئی موجود ہو تو (وہ اس پر قناعت نہیں کرے گا بلکہ) چاہیگا کہ ایسی دو وادیاں ہوجاویں اور اس کے منہ کو تو (قبر کی) مٹی کے سوا کوئی چیز بھر نہیں سکتی اور اللہ تعالیٰ توبہ قبول کرتا ہے اس شخص کی جو اس کی طرف رجوع ہو۔
حضرت ابی بن کعب فرماتے ہیں کہ ہم حدیث کے الفاظ مذکورہ کو قرآن سمجھا کرتے تھے یہاں تک کہ سورة الہاکم التکاثر نازل ہوئی۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے الہاکم التکاثر پڑھ کر مذکورہ الفاظ اس کی تفسیر و تشریح کے طور پر پڑھے تھے اس سے بعض حصابہ کو شبہ ہوگیا کہ یہ بھی قرآن ہی کے الفاظ ہیں بعد میں جب پوری سورة الہاکم التکاثر سامنے آئی تو اس میں یہ الفاظ نہیں تھے اس سے حقیقت واضح ہوگئی کہ یہ الفاظ تفسیر کے تھے۔
آیت نمبر 3
كَلَّا سَوۡفَ تَعۡلَمُوۡنَۙ ۞
لفظی ترجمہ:
کَلَّا: ہاں ہاں | سَوْفَ: عنقریب | تَعْلَمُوْنَ: تم جان لوگے
اردو ترجمہ:
کوئی نہیں آگے جان لو گے
آیت نمبر 4
ثُمَّ كَلَّا سَوۡفَ تَعۡلَمُوۡنَؕ ۞
لفظی ترجمہ:
ثُمَّ: پھر | کَلَّا: ہاں ہاں | سَوْفَ: عنقریب | تَعْلَمُوْنَ: تم جان لوگے
اردو ترجمہ:
پھر بھی کوئی نہیں آگے جان لوں گے
آیت نمبر 5
كَلَّا لَوۡ تَعۡلَمُوۡنَ عِلۡمَ الۡيَقِيۡنِؕ ۞
لفظی ترجمہ:
کَلَّا: ہاں ہاں | لَوْ: اگر | تَعْلَمُوْنَ: تم جانتے | عِلْمَ: علم | الْیَقِیْنِ: یقین کا
ترجمہ:
کوئی نہیں اگر جانو تم یقین کر کے
آسان اردو تفسیر:
لو تعلمون علم الیقین، حرف لو جو شرط کے لئے آتا ہے اس کے مقابل کوئی جزاء ہونا چاہئے وہ بقرینہ سیاق اس جگہ حذف کردی گئی ہے یعنی لما الھکم التکاثر یعنی اگر تم کو قیامت کے حساب کتاب کا یقین ہوتا تو تم اس تکاثر اور تغافل میں نہ پڑتے۔
آیت نمبر 6
لَتَرَوُنَّ الۡجَحِيۡمَۙ ۞
لفظی ترجمہ:
لَـتَـرَوُنَّ: ضروردیکھوگے | الْجَحِیْمَ: جہنم کو
ترجمہ:
بیشک تم کو دیکھنا ہے دوزخ
آسان اردو تفسیر:
ثم لترونھا عین الیقین اوپر خلاصہ تفسیر سے معلوم ہو چا ہے کہ عین الیقین سے مراد وہ یقین ہے کہ جو کسی چیز کے مشاہدہ کے بعد حاصل ہوتا ہے اور یہ سب سے اعلیٰ درجہ یقین کا ہے۔ حضرت ابن عباس نے فرمایا کہ حضرت موسیٰ ؑ جب کوہ طور پر تشریف رکھتے تھے اور ان کے پیچھے ان کی قوم نے گو سالہ پرستی شروع کردی تو اللہ تعالیٰ نے ان کو وہیں کوہ طور پر خبر کردی تھی کہ تمہاری قوم اس وبال میں مبتلا ہوگئی ہے مگر موسیٰ ؑ پر اس خبر سے اتنا اثر نہیں ہوا جتنا اس وقت ہوا جب واپس پہنچ کر انہوں نے بنی اسرائیل کی گوسالہ پرستی آنکھوں سے دیکھی اس کا اثر یہ ہوا کہ بےاختیار ہو کر الواح تورات ہاتھ سے چھوڑ دیں
آیت نمبر 7
ثُمَّ لَتَرَوُنَّهَا عَيۡنَ الۡيَقِيۡنِۙ ۞
لفظی ترجمہ:
ثُمَّ: پھر | لَتَرَوُنَّ: تم ضروردیکھوگے | ھَا: اسے | عَیْنَ: آنکھ سے | الْیَقِیْنِ: یقین کی
ترجمہ:
پھر دیکھنا ہے اس کو یقین کی آنکھ سے
آسان اردو تفسیر:
ثم لتسئلن یومئذ عن النعیم یعنی تم سب سے قیامت کے روز اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی نعمتوں کے متعلق باز پرس ہوگی کہ تم نے ان کا شکر کیا ادا کیا اور ان کو گناہوں میں تو خچ نہیں کیا، ان میں سے بعض نعمتوں کے متعلق تو خود قرآن میں دوسری جگہ وضاحت آگئی جیسا فرمایا ان السمع والبصر و الفوادکل اولیک کان عنہ مسؤ لا جس میں انسان کی قوت شنوائی، بینائی اور دل سے متعلق وہ لاکھوں نعمتیں آگئیں جن کو انسان ہر لمحہ استعمال کرتا ہے۔
حدیث۔ اور رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ قیامت کے روز بندہ سے جس چیز کا سب سے پہلے سوال ہوگا (وہ تندرستی ہے) اس کو کہا جائے گا کہ کیا ہم نے تمہیں تندرستی نہیں دی تھی اور کیا ہم نے تمہیں ٹھنڈا پانی نہیں پلایا تھا
حدیث۔ اور رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ محشر میں کوئی آدمی اپنی جگہ سے سرک نہ سکے گا جب تک پانچ سوالوں کا جواب اس سے نہ لیا جائے۔ ایک یہ کہ اس نے اپنی عمر کو کن کاموں میں فنا کیا ہے۔ دوسرے یہ کہ اس نے اپنے شباب کی قوت کو کن کاموں میں خرچ کیا ہے۔ تیسرے یہ کہ جو مال اس نے حاصل کیا وہ کس کس طریقے جائز یا ناجائز سے حاصل کیا۔ چوتھے یہ کہ اس مال کو کہاں کہاں خرچ کیا، پانچویں یہ کہ جو علم اللہ نے اس کو دیا تھا اس پر کتنا عمل کیا۔
اور امام تفسیر مجاہد نے فرمایا کہ قیامت میں یہ سوال دنیا کی ہر لذت کے متعلق ہوگا (قرطبی) خوا ہ اس کا تعلق کھانے پینے سے ہو لیالباس اور مکان سے یا بیوی اور اولاد سے یا حکومت و عزت سے۔ قرطبی نے اس کو نقل کر کے فرمایا کہ یہ بالکل درست ہے اس سوال میں کسی خاص نعمت کی تخصیص نہیں ہے۔
سورة تکاثر کی خاص فضیلت۔ رسول اللہ ﷺ نے صحابہ کرام سے خطاب کر کے فرمایا کہ کیا تم میں کوئی آدمی اس کی قدرت نہیں رکھتا کہ ہر روز قرآن کی ایک ہزار آیتیں پڑھا کرے۔ صحابہ کرام نے عرض کیا کہ روزانہ ایک ہزار آیتیں کون پڑھ سکتا ہے۔ آپ نے فرمایا کہ تم میں کوئی الہاکم التکاثر نہیں پڑھ سکتا، مطلب یہ ہے کہ الہاکم التکاثر روزانہ پڑھنا ایک ہزار آیتوں کے پڑھنے کی برابر ہے۔
آخر
آیت نمبر 8
ثُمَّ لَـتُسۡئَـلُنَّ يَوۡمَئِذٍ عَنِ النَّعِيۡمِ ۞
لفظی ترجمہ:
ثُـمَّ: پھر | لَتُسْئَلُنَّ: ضرور تم سے پوچھا جائے گا | یَوْ
مَىِٕذٍ: اس دن | عَنِ: سے | النَّعِیْمِ: نعمتوں
اردو ترجمہ:
پھر پوچھیں گے تم سے اس دن آرام کی حقیقت۔ ؏
آپ سورۃ التکاثر کو عربی انگلش اور اردو بمع اردو لفظی ترجمہ یہاں پڑھ سکتے ہیں۔
https://www.measmomin.com/surah-at-takathur-arabic-english-text.html