سورۃ التین آسان اردو تفسیر

0


surah_at_teen_asaan_urdu_tafseer_meas_momin
Surah at-Teen Asaan Urdu Tafseer


سورۃ نمبر 95 التین آسان اردو تفسیر 


أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ


آیت نمبر 1


وَالتِّيۡنِ وَالزَّيۡتُوۡنِۙ‏ ۞ 


لفظی ترجمہ:

وَ: قسم | التِّیْنِ: انجیر کی | وَ: اور | الزَّیْتُوْنِ: زیتون کی


ترجمہ:

قسم انجیر کی اور زیتون کی


آسان اردو تفسیر:

قسم ہے انجیر (کے درخت) کی اور زیتون (کے درخت) کی اور طور سینین کی اور اس امن والے شہر (یعنی مکہ معظمہ) کی کہ ہم نے انسان کو بہت خوبصورت سانچہ میں ڈھالا ہے پھر (ان میں جو بوڑھا ہوجاتا ہے) ہم اس کو پستی کی حالت والوں سے بھی پست تر کردیتے ہیں (یعنی وہ خوبصورتی بدصورتی سے اور قوت صنعف سے بدل جاتی ہے اور برے سے برا ہوجاتا ہے مقصود اس سے بیان کرنا کمال قبح کا ہے جس سے ان کے دوبارہ پیدا کرنے پر حق تعالیٰ کی قدرت ہونا واضح ہوتا ہے کقولہ تعالیٰ اللہ الذی خلقنکم من ضعف الخ اور مقصود اس سورت کا یہ معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی قدرت دوبارہ پیدا کرنے اور زندہ کرنے پر ثابت کرنا ہے جیسا کہ فما یکذیک بعد بالدین کے جملے سے اس طرف اشارہ پایا جاتا ہے اور اس آیت کے عموم سے چونکہ یہ معلوم ہوتا ہے کہ بوڑھے سب کے سب قبیح اور برے ہوجاتے ہیں اس ابہام کو دور کرنے کے لئے آگے آیت میں ایک استثناء بیان کیا جاتا ہے کہ) لیکن جو لوگ ایمان لائے اور اچھے کام کئے تو ان کے لئے اس قدر ثواب ہے جو کبھی منقطع نہ ہوگا (جس میں بتلا دیا کہ مومن صالح بوڑھے ضعیف ہوجانے کے باوجود انجام کار کے اعتبار سے اچھے ہی رہتے ہیں بلکہ پہلے سے زیادہ ان کی عزت بڑھ جاتی ہے، آگے خلقنا اور رددنا پر تفریع ہے کہ جب اللہ تعالیٰ تخلیق و تخلیق و تقلیب احوال پر قادر ہیں) تو (اے انسان) پھر کون چیز تجھ کو قیامت کے بارے میں منکر بنا رہی ہے (یعنی وہ کونسی دلیل ہے جس کی بنا پر تو ان دلائل کے ہوتے ہوئے قیامت کا منکر ہو رہا ہے) کیا اللہ تعالیٰ سب حاکموں سے بڑھ کر حاکم نہیں ہے (تصرفات دنیویہ میں بھی جن میں سے تخلیق انسانی اور پھر بڑھاپے میں اس پر تغیرات کا ذکر اوپر آیا ہے اور تصرفات اخرویہ میں بھی جن میں سے قیامت و مجازاة بھی ہے)


والتین والزیتون، اس آیت میں چار چیزوں کی قسم کھائی گئی ہے جن میں دو درخت ہیں ایک تین یعنی انجیر، دوسرے زیتون اور ایک پہاڑ طور اور ایک شہر یعنی مکہ مکرمہ کی، اس تخصیص کی وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ یہ دونوں درخت کثیر البرکت کثیر المنافع ہیں جس طرح طور پہاڑ اور شہر مکہ کثیر البرکت ہیں اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ یہاں تین اور زیتون کے ذکر سے مراد وہ جگہ ہو جہاں یہ درخت کثرت سے پیدا ہوتے ہیں اور وہ ملک شام ہے جو معدن انبیاء (علیہم السلام) ہے اور حضرت ابراہیم ؑ بھی اسی ملک میں مقیم تھے ان کو ہجرت شام ہے جو معدن انبیاء (علیہم السلام) ہے اور حضرت ابراہیم ؑ بھی اسی ملک میں مقیم تھے ان کو ہجرت کرا کر مکہ معظمہ لایا گیا تھا اس طرح ان قسموں میں تمام وہ مقامات مقدسہ شامل ہوگئے جہاں خاص خاص انبیاء (علیہم السلام) پیدا اور مبعوث ہوئے، ملک شام انبیاء علہیم السلام کا وطن اور مسکن ہے۔ کوہ طور حضرت موسیٰ ؑ کے حق تعالیٰ کے ساتھ ہمکلام ہونے کی جگہ ہے اور سینین یاسینا اس مقام کا نام ہے جہاں یہ پہاڑ واقع ہے اور بلد امین مکہ مکرمہ خاتم الانبیاء ﷺ کا مولد و مسکن ہے۔


آیت نمبر 2


وَطُوۡرِ سِيۡنِيۡنَۙ ۞ 


لفظی ترجمہ:

وَ: اور | طُوْرِ: طور | سِیْنِیْنَ: سینا کی


ترجمہ:

اور طور سینین کی


آیت نمبر 3


وَهٰذَا الۡبَلَدِ الۡاَمِيۡنِۙ ۞ 


لفظی ترجمہ:

وَ: اور | ھٰذَا: اس | الْبَلَدِ: شہرکی | الْاَمِیْنِ: امن والے


ترجمہ:

اور اس شہر امن والے کی


آیت نمبر 4


لَقَدۡ خَلَقۡنَا الۡاِنۡسَانَ فِىۡۤ اَحۡسَنِ تَقۡوِيۡمٍ ۞ 


لفظی ترجمہ:

لَقَدْ: تحقیق | خَلَقْنَا: ہم نے پیداکیا | الْاِنْسَانَ: انسان کو | فِیْۤ: میں | اَ حْسَنِ: اچھی | تَقْوِیْمٍ: بناوٹ


ترجمہ:

ہم نے بنایا آدمی خوب سے اندازے پر


آسان اردو تفسیر:

ان چار چزیوں کی قسم کھا کر فرمایا گیا لقد خلقنا الانسان فی احسن تقویم تقویم کے لفظی معنے کسی چیز کے قوام اور بنیاد کو درست کرنے کے ہیں۔ احسن تقویم سے مراد یہ ہے کہ اس کی جبلت و فطرت کو بھی دوسری مخلوقت کے اعتبار سے احسن بنایا گیا اور اس کی جسمانی ہئیت اور شکل و صورت کو بھی دنیا کے سب جانداروں سے بہتر اور حسین بنایا گیا۔

انسان تمام مخلوقات میں سب سے زیادہ حسین ہے۔ جس کا حاصل یہ ہے کہ انسان کو حق تعالیٰ نے اپنی تمام مخلوقات میں سب سے زیادہ حسین بنایا ہے۔ ابن عربی نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کی مخلوقات میں انسان سے احسن نہیں کیونکہ اس کو اللہ تعالیٰ نے حیات کیساتھ عالم، قادر، متکلم، سمیع، بصیر، مدبر اور حکیم بنایا ہے اور یہ سب صفات دراصل خود حق سبحانہ، و تعالیٰ کی ہیں۔ چناچہ بخاری و مسلم کی روایت میں آیا کہ ان اللہ خلق ادم علی صورتہ یعنی اللہ تعالیٰ نے آدم ؑ کو اپنی صورت پیر پیدا فرمایا ہے۔ مراد اس سے یہی ہو سکتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی بعض صفات کا کوئی درجہ اس کو بھی دیا گیا ہے ورنہ حق تعالیٰ ہر شکل و صورت سے بری ہے۔

محسن انسانی کا ایک عجیب واقعہ۔ قرطبی نے اس جگہ نقل کیا ہے کہ عیسیٰ بن موسیٰ ہاشمی جو خلیفہ ابوجعفر منصور کے دربار کے مخصوص لوگوں میں سے تھے اور اپنی بیوی سے بہت محبت رکھتے تھے ایک روز چاندی رات میں بیوی کے ساتھ بیٹھے ہوئے بول اٹھے انت طالق ثلاثاً ان لم تکونی احسن من القمر یعنی تم پر تین طلاق ہیں، اگر تم چاند سے زیادہ حسین نہ ہو، یہ کہتے ہی بیوی اٹھ کر پردہ میں چلی گئی کہ آپ نے مجھے طلاق دیدی، بات ہنسی دل لگی کی تھی مگر طلا قکا حکم یہی ہے کہ کسی طرح بھی طلاق کا صریح لفظ بیوی کو کہہ دیا جائے تو طلاق ہوجاتی ہے خواہ ہنسی دل لگی ہی میں کیا جائے۔ عیسیٰ بن موسیٰ نے رات بڑی بےچینی اور رنج و غم میں گزاری صبح کو خلیفہ وقت ابوجعفر منصور کے پاس حاضر ہوئے اور اپنا قصہ سنایا اور اپنی پریشانی کا اظہار کیا۔ منصور نے شہر کے فقہا اہل فتویٰ کو جمع کر کے سوال کیا سب نے ایک ہی جواب دیا کہ طلاق ہوگئی کیونکہ چاند سے زیادہ حسین ہونے کا کسی انسان کے لئے امکان ہی نہیں، مگر ایک عالم جو امام ابوحنیفہ کے شاگردوں میں سے تھے خاموش بیٹھے رہے۔ منصور نے پوچھا کہ آپ کیوں خاموش ہیں تب یہ بولے اور بسم اللہ الرحمٰٓن الرحیم پھڑ کر سورة تین تلاوت کی اور فرمایا کہ امیر المومنین اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کا احسن تقویم میں ہونا بیان فرما دیا ہے، کوئی شئے اس سے زیادہ حسین نہیں۔ یہ سن کر سب علماء فقہا حیرت میں رہ گئے کوئی مخالفت نہیں کی اور منصور نے حکم دے دیا کہ طلاق نہیں ہوئی۔

اس سے معلوم ہوا کہ انسان اللہ تعالیٰ کی ساری مخلوق میں سب سے زیادہ حسین ہے ظاہر کے اعتبار سے بھی اور باطن کے اعتبار سے بھی، حسن و جمال کے اعتبار سے بھی اور بدنی ساخت کے اعتبار سے بھی، اس کے سر میں کیسے کیسے اعضاء کیسے کیسے عجیب کام کر رہوے ہیں کہ ایک مستقل فیکٹری معلوم ہوتی ہے جس میں بہت سی نازک باریک خود کار مشینیں چل رہی ہیں۔ یہی حال اس کے سینہ اور پیٹ کا ہے اسی طرح اس کے ہاتھ پاؤں کی ترکیب و ہئیت ہزاروں حکمتوں پر مبنی ہے۔ اسی لئے فلاسفہ نے کہا ہے کہ انسان ایک عالم اصغر یعنی پودے عالم کا ایک نمونہ ہے۔ سارے عالم میں جو چیزیں بکھری ہوئی ہیں وہ سب اس کے وجود میں جمع ہیں 

صوفیائے کرام نے بھی اس کی تائید کی اور بعض حضرات نے انسان کے سر سے پیر تک کا سراپا لے کر اشیائے عالم کے نمونے اس میں دکھلائے ہیں۔


آیت نمبر 5


ثُمَّ رَدَدۡنٰهُ اَسۡفَلَ سَافِلِيۡنَۙ ۞ 


لفظی ترجمہ:

ثُمَّ: پھر | رَدَدْنَا: ہم نے لوٹایا | ہُ: اسے | اَسْفَلَ: زیادہ نیچے | سَافِلِیْنَ: نیچوں سے



ترجمہ:

پھر پھینک دیا اس کو نیچوں سے نیچے


آسان اردو تفسیر:

ثم رددنہ اسفل سفلین، پہلے جملے میں ساری مخلوقات اور کائنات سے احسن بنانے کا بیان تھا، اس جملے میں اس کے بالمقابل یہ بتلایا گیا ہے کہ جس طرح وہ اپنی ابتدا اور شباب میں ساری مخلوقات سے زیادہ حسین اور سب سے بہتر تھا آخر میں اس پر یہ حالت بھی آتی ہے کہ وہ بد سے بدتر اور برے سے برا ہوجاتا ہے ظاہر یہ ہے کہ بدتری اور برائی اس کی ظاہری جسمانی حالت کے اعتبار سے بتلائی گئی ہے کہ شباب ڈھلنے کے بعد شکل و صورت بدلنے لگتی ہے بڑھاپا اس کا روپ بالکل بدل ڈالتا ہے، بدہئیت بد شکل نظر آنے لگتا ہے بیکار اور دوسروں پر بار ہو کر رہ جاتا ہے۔ کسی کے کام نہیں آتا، بخلاف دوسرے جانوروں کے کہ وہ آخر تک اپنے کام میں لگے رہتے ہیں، انسان ان سے دودھ اور سواری باربرداری کے اور دوسری قسم کے سینکڑوں کام لیتے ہیں، وہ ذبح کردیئے جائیں یا مر جائیں تو بھی ان کی کھال، بال، ہڈی، غرض جسم کا ریزہ ریزہ انسانوں کے کام میں آتا ہے بخلاف انسان کے کہ جب وہ بیماری اور بڑھاپے میں عاجز و درماندہ ہوجاتا ہے تو مادی اور دنیاداری کے اعتبار سے کسیک ام کا نہیں رہتا مرنے کے بعد بھی اس کے کسی جز سے کسی انسان یا جانور کو فائدہ نہیں پہنچتا، خلاصہ یہ ہے کہ اس کے اسفل السلافلین میں پہنچ جانے سے مراد اس کی مادی اور جسمانی کیفیت ہے۔ یہ تفسیر حضرت ضحاک وغیرہ ائمہ تفسیر سے منقول ہے


آیت نمبر 6


اِلَّا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ فَلَهُمۡ اَجۡرٌ غَيۡرُ مَمۡنُوۡنٍؕ ۞ 


لفظی ترجمہ:

اِ لَّا: مگر | الَّذِیْنَ: جولوگ | اٰمَنُوْا: ایمان والے | وَ: اور | عَمِلُوا: کام کئے انہوں نے | الصّٰلِحٰتِ: اچھے | فَ: تو | لَ: واسطے | ھُمْ: انکے | اَجْرٌ: ثواب | غَیْرُ: نہ | مَمْنُوْنٍ: ختم ہونیوالا


ترجمہ:

مگر جو یقین لائے اور عمل کئے اچھے سو ان کے لئے ثواب ہے بےانتہا


آسان اردو تفسیر:

اس تفسیر پر اگلی آت میں جو مؤمنین صالحین کے استثناء یعنی الا الذین امنو وعملو الصلحت قلھم اجر غیر ممنون کا ذکر ہے اس کا یہ مطلب نہیں کہ ان پر بڑھاپے میں کے حالات اور عجز و درماندگی نہیں آتی بلکہ مطلب یہ ہے کہ اس جسمانی بیکاری اور مادی خرابی کا نقصان ان کو نہیں پہنچتا بلکہ نقصان صرف ان لوگو کو پہنچتا ہے جنہوں نے اپنی ساری فکر اور توانائی اسی مادی درستی پر خرچ کی تھی وہ اب ختم ہوگئی اور آخرت میں ان کا کوئی حصہ نہیں بخلاف مؤمنین صالحین کے کہ ان کا اجر وثواب کبھی قطع ہونیوالا نہیں۔ اگر دنیا میں بڑھاپے کی بیماری کمزوری اور عجز سے سابقہ بھی پڑا تو آخرت میں ان کے لئے درجات عالیہ اور راحت ہی راحت موجود ہے اور بڑھاپے کی بیکاری اور عجز سے سابقہ بھی پڑا تو آخرت میں ان کے لئے درجات عالیہ اور راحت ہی راحت موجود ہے اور بڑھاپے کی بیکاری میں بھی عمل کم ہوجانے کے باوجود ان کے نامہ اعمال میں وہ سب اعمال لکھے جاتے ہیں جو وہ قوت کے زمانے میں کیا کرتا تھا۔ حضرت انس کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جب کوئی مسلمان کسی بیماری میں مبتلا ہوجاتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے اعمال کلھنے والے فرشتے کو حکم دیدیتے ہیں کہ جو جو عمل خیر یہ اپنی تندرستی میں کیا کرتا تھا وہ سب اس کے اعمال نامہ میں لکھتے رہو (رواہ البغوی فی شرح السنہ و البخاری عن ابی موسیٰ مثلہ فی المریض والمسافر) اس کے علاوہ اس مقام پر مؤمنین صالحین کی جزاء جنت اور اس کی نعمتوں کو بیان کرنے کے بجائے لھم اجرغیر ممنون فرمایا ہے یعنی ان کا اجر کبھی مقطوع و منقطع ہونیوکالا نہیں۔ اس میں اشارہ اس طرف بھی ہوسکتا ہے کہ ان کا یہ صلہ دنیا کی مادی زندگی ہی سے شروع ہوجاتا ہے۔ حق تعالیٰ اپنے مقبول بندوں کے لئے بڑھاپے اور صنعف میں ایسے مخلف رفقاء مہیا فرما دیتے ہیں جو ان کے آخری لمحہ تک ان سے روحانی فوائد اٹھاتے ہیں اور ان کی ہر طرح کی خدمت کرتے ہیں اسی طرح بڑھاپے کا وہ وقت جب انسان مادی اور جسمانی طور پر معطل بیکار اور لوگوں پر بار سمجھا جاتا ہے، اللہ کے یہ بندے اس وقت بھی بیکار نہیں ہوتے اور بعض حضرات مفسرین نے اس آیت کی تفسیر یہ فرمائی ہے کہ رددنہ اسفل سفلین عام انسانوں کے لئے نہیں بلکہ کفار و فجار کے لئے ہے۔ جنہوں نے خدا داد احسن تقویم اور انسانی کمالات و شرافت اور عقل کو مادی لذائذ کے پیچھے برباد کردیا تو اس ناشکری کی سزا میں ان کو اسفل السلافلین میں پہنچا دیا جائے گا، اس صورت میں الا الذین امنوا کا استثناء اپنے ظاہری مفہوم پر رہتا ہے کہ اسفل سافلین میں پہنچنے سے وہ لوگ مستثنیٰ ہیں جو ایمان لائے اور عمل صالح کے پابند رہے کیونکہ ان کا اجر ہمیشہ جاری رہے گا۔


آیت نمبر 7


فَمَا يُكَذِّبُكَ بَعۡدُ بِالدِّيۡنِ‏ ۞ 


لفظی ترجمہ:

فَ: تو | مَا: کیا | یُکَذِّبُ: جھٹلاتاہے | كَ: تجھے | بَعْدُ: بعد | بِ: کو | الدِّیْنِ: بدلہ


ترجمہ:

پھر تو اس کے پیچھے کیوں جھٹلائے بدلہ ملنے کو


آسان اردو تفسیر:

فما یکذبک بعد بالدین، پچھلی آیات میں تخلیق انسانی کے کمال اور اس پر حق تعالیٰ کے خاص انعام کا پھر بڑھاپے میں حالات کے انقلاب کا ذکر فرما کر اس آیت میں منکرین قیامت کو تنبیہ کی گئی ہے کہ قدرت الٰہیہ کے ایسے مناظر اور انقلاب دیکھنے کے بعد بھی کیا گنجائش ہے کہ تم آخرت اور قیامت کی تکذیب کرو، کیا اللہ تعالیٰ سب حکومت کرنے والوں پر حاکم نہیں۔

حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جو شخص سورة تین پڑھے اور اس آیت پر پہنچے الیس اللہ باحکم الحکمین تو اس کو چاہئے کہ یہ کلمہ کہے بلی وانا علی ذلک من الشھدین اس لئے حضرات فقہاء نے فرمایا کہ یہ کلمہ پڑھنا مستحب ہے۔


آیت نمبر 8


اَلَيۡسَ اللّٰهُ بِاَحۡكَمِ الۡحٰكِمِيۡنَ  ۞ 


لفظی ترجمہ:

اَ: کیا | لَیْسَ: نہیں | اللّٰہُ: اللہ | بِ: کوئی | اَ حْکَمِ: بڑا حاکم | الْحٰکِمِیْنَ: حاکموں سے


ترجمہ:

کیا نہیں ہے اللہ سب حاکموں سے بڑا حاکم۔  ؏



آپ سورۃ التین کو عربی، انگلش اور اردو  بمع اردو لفظی ترجمہ یہاں پڑھ سکتے ہیں۔
https://www.measmomin.com/surah-at-teen-arabic-engilsh-urdu.html


ایک تبصرہ شائع کریں

0تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں (0)