![]() |
Surah Ad-Dhuhaa Asaan Urdu Tafseer |
اب آپ سورۃ الضحی کا مکمل تفسیر آسان اردو زبان میں ملاحظہ فرمائیں
سورۃ نمبر 93 الضحى - آسان اردو تفسیر
آیت نمبر 1
ترجمہ:
قسم دھوپ چڑھتے وقت کی
آسان اردو تفسیر:
قسم ہے دن کی روشنی کی اور رات کی جب کہ وہ قرار پکڑے (قرار پکڑنے کے دو معنی ہو سکتے ہیں ایک حقیقی یعنی اس کی ظلمت کا کامل ہوجانا کیونکہ رات میں اندھیری رفتہ رفتہ بڑھتی ہے، کچھ رات گزرنے پر مکمل ہوجاتی ہے، دوسرے مجازی یعنی جانداروں کا اس میں سو جانا اور چلنے پھرنے اور بولنے چالنے کی آوازوں کا ساکن ہوجانا، آگے جواب قسم ہے) کہ آپ کے پروردگار نے نہ آپ کو چھوڑا اور نہ آپ سے بیزار ہوا (کیونکہ اول تو آپ سے کوئی بات ایسی نہیں ہوئی دوسرے حضرات انبیاء (علیہم السلام) کو اللہ تعالیٰ نے اس سے محفوظ و معصوم بنایا ہے۔ پس آپ کفار کے خرافات و لغویات سے محزون حضرات انبیاء (علیہم السلام) کو اللہ تعالیٰ نے اس سے محفوظ و معصوم بنایا ہے۔ پس آپ کفار کے خرافات و لغویات سے محزون نہ ہوجائے جو چند روز وحی کی تاخیر کے سبب یہ کہنے لگے کہ آپ کو آپ کے خدا نے چھوڑ دیا ہے، آپ برابر نعمت وحی کے مشرف رہیں گے اور یہ شرف و کرامت تو آپ کے لئے دنیا میں ہے) اور آخرت آپ کے لئے دنیا سے بدرجہا بہتر ہے (پس وہاں آپ کو اس سے زیادہ نعمتیں ملیں گی) اور عنقریب اللہ تعالیٰ آپ کو (آخرت میں بکثرت نعمتیں) دے گا سو آپ (ان کے عطا ہونے سے) خوش ہو اویں گے ( اور جس کی قسم کھائی ہے اس کو اس بشارت سے مناسبت یہ ہے کہ جس طرح اللہ تعالیٰ ظار میں اپنی قدرت و حکمت کے مختلف نشان ظاہر کرتا ہے دن کے پیچھے رات کو اور رات کے پیچھے دن کو لاتا ہے یہی کیفیت باطنی حالات کی سمجھو۔ اگر سورج کی دھوپ کے بعد رات کی تاریکی کا آنا اللہ تعالیٰ کی خفگی اور ناراضی کی دلیل نہیں اور نہ اس کا کوئی ثبوت ہے کہ اس کے بعد دن کا اجالا کبھی نہ ہوگا تو چند روز وحی کے رکے رہنے سے یہ کیونکر سمجھ لیا جائے کہ آج کل خد اپنے منتخب کئے ہوئے پیغمبر سے خفا اور ناراض ہوگیا اور ہمیشہ کے لئے وحی کا دروازہ بند کردیا، ایسا کہنا تو خدا تعالیٰ کے علم محیط اور حکمت بالغہ پر اعتراض کرنا ہے گویا اس کو خبر نہ تھی کہ جس کو میں نبی بنا رہا ہوں وہ آئندہ چل کر اس کا اہل ثابت نہ ہوگا نعوذ باللہ منہ۔ آگے بعض نعمتوں سے مضمون مذکور کی تائید ہے یعنی) کیا اللہ تعالیٰ نے آپ کو یتیم نہیں پایا پھر (آپ کو) ٹھکانا دیا ( کہ شکم مادر میں ہونے کے وقت ہی آپ کے والد کی وفات ہوگئی اللہ تعالیٰ نے آپ کے دادا سے پرورش کرایا پھر جب آپ آٹھ برس کے ہوئے تو ان کی بھی وفات ہوگئی تو آپ کے چچا سے پرورش کرایا، ٹھکانہ دینے کا مطلب یہی ہے اور اللہ تعالیٰ نے آپ کو (شریعت س) بیخبر پایا سو (آپ کو شریعت کا) رتہ بتلایا (کقولہ تعالیٰ ما کنت تدری ما الکتب ولا الایمان الخ اور وحی سے پہلے شریعت کی تفصیل معلوم نہ ہونا کوئی عیب نہیں) اور اللہ تعالیٰ نے آپ نادر پایا سو مالدار بنادیا (اس طرح کہ حضرت خدیجہ (رض) کے مال میں آپ نے بطور مضاربت کے تجارت کی، اس میں نفع ملا، پھر حضرت خدیجہ نے آپ سے نکاح کرلیا اور اپنا تمام مال حاضر کردیا۔ مطلب یہ کہ آپ ابتدا سے مورد انعامات رہے ہیں آئندہ بھی رہیں گے ان انعامات پر ادائے شکر کا حکم ہے کہ جب ہم نے آپ کو یہ نعمتیں دی ہیں) تو آپ (اس کے شکریہ میں) یتیم پر سختی نہ کیجئے اور سائل کو مت جھڑکئے (یہ تو شکر فعلی ہے) اور اپنے رب کے انعامات (مذکورہ) کا تذکرہ کرتے رہا کیجئے۔
شان نزول۔ اس سورت کے سبب نزول کے متعلق بخاری و مسلم میں حضرت جندب بن عبداللہ کی روایت سے آیا ہے اور ترمذی نے حضرت جندب سے یہ روایت کیا ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ایک انگلی زخمی ہوگئی اس سے خون جاری ہوا تو آپ نے فرمایا، ان انت الا اصب دمیت، وفی سبیل اللہ مالقیت، یعنی تو ایک انگلی ہی تو ہے جو خون آلودہ ہوگئی اور جو کچھ تکلیف تجھے پہنچی وہ اللہ کی راہ میں ہے (اس لئے کیا غم ہے) حضرت جندب نے یہ واقعہ ذکر کر کے رمایا کہ اس واقعہ کے بعد (کچھ روز) جبرئیل امین کوئی وحی لے کر نہیں آئے تو مشرکین مکہ نے یہ طعنہ دینا شروع کیا کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ان کے خدا نے چھوڑ دیا اور ناراض ہوگیا، اس پر یہ سورت ضحیٰ نازل ہوئی حضرت جندب کی روایت جو بخاری میں ہے اس میں ایک دورات تہجد کے لئے نہ اٹھنے کا ذکر ہے، وحی میں تاخیر کا ذکر نہیں اور تمذی میں تہجد میں ایک دو رات نہ اٹھنے کا ذکر نہیں صرف وحی میں تاخیر کا ذکر ہے۔ ظاہر ہے کہ ان دونوں میں کوئی تعارض نہیں، ہوسکتا ہے کہ دونوں باتیں پیش آئی ہوں، راوی نے کبھی ایک کو بیان کیا کبھی دوسرے کو اور یہ عورت جس نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو طعنہ دیا ام جمیل ابو لہب کی بیوی تھی جیسا کہ دوسری روایات میں ہے اور تاخیر وحی کے واقعات متعدد مرتبہ پیش آئے ہیں ایک شروع نزول قرآن میں پیش آیا جس کو زمانہ فترت وحی کہا جاتا ہے یہ سب سے زیادہ طویل تھا۔ ایک واقعہ تاخیر وحی جا اس وقت پیش آیا جبکہ مشرکین یا یہود نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روح کی حیقیت کے متعلق سوال فرمایا اور آپ نے بعد میں جواب دینے کا وعدہ فرما لیا، مگر انشاء اللہ نہ کہنے کے سبب کچھ روز تک سلسلہ وحی کا بند رہا اس پر مشرکین نے یہ طعنے دینا شروع کئے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا خدا نہ کہنے کے سبب کچھ روز تک سلسلہ وحی کا بند رہا اس پر مشرکین نے یہ طعنے دینا شروع کئے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا خدا ان سے ناراض ہوگیا اور ان کو چھوڑ دیا، اسی طرح کا یہ واقعہ ہے جو سورة ضحیٰ کے نزول کا سبب ہوا یہ ضروری نہیں کہ یہ سب واقعات ایک ہی زمانے میں پیش آئے ہوں بلکہ آگے پیچھے بھی ہو سکتے ہیں۔
آیت نمبر 2
وَالَّيۡلِ اِذَا سَجٰىۙ ۞
لفظی ترجمہ:
وَالَّيْلِ : اور رات کی | اِذَا سَجٰى: جب چھا جائے
ترجمہ:
اور رات کی جب چھا جائے
آیت نمبر 3
مَا وَدَّعَكَ رَبُّكَ وَمَا قَلٰىؕ ۞
لفظی ترجمہ:
مَا : نہیں | وَدَّعَكَ : آپ کو چھوڑا | رَبُّكَ : آپ کا رب | وَمَا قَلٰى: اور نہ بیزار ہوا
ترجمہ:
نہ رخصت کردیا تجھ کو تیرے رب نے اور نہ بیزار ہوا
آیت نمبر 4
ترجمہ:
اور البتہ پچھلی بہتر ہے تجھ کو پہلی سے
آسان اردو تفسیر:
ولاخرة خیرلک من الاولی، یہاں آخرت کو اپنے معروف معنی میں اور اس کے بالمقابل اولیٰ کو دنیا کے معنے میں لیا جائے تو تفسیر وہ ہے جو خلاصہ تفسیر میں اوپر آ چکی ہے کہ یہ کفار و مشرکین جو طعنے آپ کو دے رہے ہیں یہ دنیا میں تو دیکھ ہی لیں گے کہ وہ سراسر لغو اور غلط تھے ہم اس سے آگے آخرت کے انعامات کا بھی آپ سے وعدہ کرتے ہیں کہ آپ کو دنیا سے بہت زیادہ انعامات سے نوازا جائے گا اور یہ بھی کچھ بعید نہیں کہ اس جگہ آخرت کو اس کے لفظی منے میں لیا جاوے یعنی پچھلی حالت جیسا کہ لفظ اولیٰ کے لفظی معنے پہلی حالت کے ہیں تو مطلب آیت کا یہ ہوگا کہ آپ پر اللہ تعالیٰ کے انعامات برابر زیادہ ہی ہوتے چلے جائیں گے کہ ہر پہلی حالت سے پچھلی حالت بہتر اور افضل ہوتی چلی جائے گی، اس میں علوم و معارف اور قرب الٰہی کے درجات میں ترقی بھی داخل ہے اور دنیا کے معاشی مسائل اور عزت و حکومت بھی۔
آیت نمبر 5
ترجمہ:
اور آگے دے گا تجھ کو تیرا رب پھر تو راضی ہوگا
آسان اردو تفسیر:
ولسوف یعطیک ربک فترضی، یعنی آپ کا رب آپ کو اتنا دے گا کہ آپ راضی ہوجائیں، اس میں حق تعالیٰ نے یہ متعین کر کے نہیں بتالای کہ کیا دیں گے اس میں شارہ عمومی کی طرف ہے کہ آپ کی ہر مرغوب چیز آپ کو اتنی دیں گے کہ آپ راضی ہوجائیں۔ آپ کی مرغوب چیزوں میں دین اسلام کی ترقی، دین اسلام کا عام طور پر دنیا میں پھیلنا پھر امت کی ہر ضرورت اور خود آپ کا دشمنوں پر غالب آنا، ان کے ملک میں اللہ کا کلمہ بلند کرنا اور دین حق پھیلانا سب داخل ہیں۔ حدیث میں ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اذا لا ارضی و واحدمن امتی فی النار یعنی جب یہ بات ہے تو میں اس وقت تک راضی نہ ہوں گا جب تک میری امت میں سے ایک آدمی بھی جہنم میں رہے گا (قرطبی) اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ میری امت کے بارے میں میری شفاعت قبول فرمائیں گے یہاں تک کہ حق تعالیٰ فرما دیں گے ریت یا محمد، اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اب بھی آپ راضی ہیں، تو میں عرض کروں گا یا رب رضیت یعنی اے میرے پروردگار میں راضی ہوں اور صحیح مسلم میں حضرت عمرو بن عاص کی روایت ہے کہ ایک روز رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے وہ آیت تلاوت فرمائی جو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے متعلق ہے فمن تبعنی فانہ منی ومن عصانی فانک غفور رحیم پھر دوسری آیت تلاوت فرمائی جس میں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا قول ہے ان تعذبھم فانھم عبادک پھر آپ نے دعا کے لئے دونوں ہاتھ اٹھائے اور گریہ وزاری شروع کی اور بار بار فرماتے تھے اللھم امتی امتی، حق تعالیٰ نے جبرئیل امین کو بھیجا کہ آپ سے دریافت کریں کہ آپ کیوں روتے ہیں (اور یہ بھی فرمایا کہ اگرچہ ہمیں سب معلوم ہے) جبرئیل امین آئے اور سوال کیا، آپ نے فرمایا کہ میں اپنی امت کی مغفرت چاہتا ہوں۔ حق تعالیٰ نے جبرئیل امین سے فرمایا کہ پھر جاؤ اور کہہ دو کہ اللہ تعالیٰ آپ سے فرماتے ہیں کہ ہم آپ کو آپ کی امت کے بارے میں راضی کردیں گے اور آپ کو رنجیدہ نہ کریں گے۔
آیت نمبر 6
ترجمہ:
بھلا نہیں پایا تجھ کو یتیم پھر جگہ دی
آسان اردو تفسیر:
اوپر طعنہ کفار کے جواب میں جو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر انعامات الہیہ کے دنیا و آخرت میں فائض ہونے کا اجمالی ذکر آیا ہغے اس میں اس کی تھوڑی سی تفصیل تین خاص نعمتوں کے ذکر سے فرمائی گئی ہیں اول الم بحمدک یتیماً فاوی یعنی ہم نے آپ کو یتیم پایا کہ والد کا انتقال ولادت سے پہلے ہی ہوچکا تھا اور انہوں نے کوئی مال و جائیداد بھی نہ چھوڑی تھی جس سے آپ کی پرورش ہو سکے، تو ہم نے آپ کا ٹھکانہ بنادیا، یعنی آپ کے دادا عبدالمطلب اور ان کے بعد چچا ابوطالب کے دلوں میں آپ کی ایسیم حبت ڈالدی کہ صلبی اولاد سے زیادہ آپ کی تربیت میں کوشش کرتے تھے۔
آیت نمبر 7
ترجمہ:
اور پایا تجھ کو بھٹکتا پھر راہ سمجھائی
آسان اردو تفسیر:
دوسری نعمت ووجدک ضالافھدی لفظ ضال کے معنے گمراہ کے بھی آتے ہیں اور ناواقف بیخبر کے بھی، یہاں دوسرے ہی معنے مراد ہو سکتے ہیں کہ نبوت سے پہلے آپ شریعت الٰہیہ کے احکام اور علوم سے بیخبر تھے، آپ کو منصب نبوت پر فائز کر کے آپ کی رہنمائی فرمائی۔
آیت نمبر 8
ترجمہ:
اور پایا تجھ کو مفلس پھر بےپروا
آسان اردو تفسیر:
تیسری نعمت ووجدک عائلاً فاغنی، عائل، عیلہ سے مشتق ہے جس کے معنے فقیر و محتاج ہونے کے ہیں، معنی آیت کے یہ ہوئے کہ آپ کو اللہ تعالیٰ نے نادار اور بےزر پایا تو آپ کو غنی و مالدار کردیا جس کی ابتداء حضرت خدیجہ کبریٰ کے مال میں بطور شرکت مضاربت کے تجارت کرنے سے ہوئی پھر وہ خود آپ کے عقد نکاح میں آ کر ام المومنین ہوئیں تو ان کا سارا مال ہی آپ کی خدمت کے لئے ہوگیا۔
آیت نمبر 9
ترجمہ:
کردیا سو جو یتیم ہو اس کو مت دبا
آسان اردو تفسیر:
ان تینوں نعمتوں کا ذکر فرمانے کے بعد آپ کو تین چیزوں کا حکم دیا گیا، اول فاما البیتیم فلا تقھر، قہر کے معنے غلبہ اور جبری تسلط کے ہیں، مراد یہ ہے کہ آپ کسی یتیم کو ضعیف اور بےوارث سمجھ کر اس کے اموال و حقوق پر اس طرح مسل نہ ہوں کہ اس کا حق ضائع ہوجائے اسی لئے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یتیم کے ساتھ شفقت کے معاملے کی تاکید فرمائی اور اس کے ساتھ دل شکنی کا برتاؤ کرنے سے منع فرمایا، ارشاد ہے کہ مسلمانوں کے گھروں میں بہتر گھر وہ ہے جس میں کوئی یتیم ہو اور اس کے ساتھ احسان و محبت کا سلوک کیا جاتا ہو، اور سب سے برا گھر وہ ہے جس میں کوئی یتیم ہو اور اس کے ساتھ برا سلوک کیا جاتا ہو (رواہ البخاری فی الادب المفرد، وابن ماجہ والبغوری، مظہری)
آیت نمبر 10
ترجمہ:
اور جو مانگتا ہو اس کو مت جھڑک
آسان اردو تفسیر:
دوسرا حکم اما السائل فلاتنھر، تنہر، نہر سے مشتق ہے جس کے معنے زجر اور جھڑکنے کے ہیں اور سائل کے معنے سوال کرنے والا، اس میں وہ بھی داخل ہے جو کسی مال کا سوال کرے اور وہ بھی جو علمی تحقیق کا سوال کرے، دونوں کو جھڑکنے ڈانٹنے سے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو منع فرمایا گیا، بتر یہ ہے کہ سائل کو کچھ دے کر رخصت کرے اور نہیں دے سکتا تو نرمی سے عذر کر دے اسی طرح کسی علمی مسئلہ کا سوال کرنے والے کے جواب میں بھی سختی اور بدخوئی ممنوع ہے نرمی اور شفقت سے جواب دینا چاہئے بجز اس کے کہ سائل کسی طرح مانے ہی نہیں تو بضرورت زجر بھی جائز ہے۔
آیت نمبر 11
ترجمہ:
اور جو احسان ہے تیرے رب کا سو بیان کر۔ ؏
آسان اردو تفسیر:
تیسرا حکم واما بنعمة ربک فحدث حدث، تحدیب سے مشتق ہے جس کے معنے بات کرنے کے ہیں مراد یہ ہے کہ آپ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا لوگوں کے سامنے ذکر کیا کریں کہ یہ بھی ایک طریقہ شکر گزاری کا ہے یہاں تک کہ آدمی جو کسی آدمی پر احسان کرے اس کا بھی شکر ادا کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ حدیث میں ہے جو شخص لوگوں کے احسان پر ان کا شکر نہیں کرتے وہ اللہ کا بھی شکر نہیں کریگا ( رواہ احمد درداتہ ثفات، مظہری)
ایک حدیث میں ارشاد ہے کہ جو شخص تم پر کوئی احسان کرے تو چاہئے کہ آپ بھی اس کے احسان کا بدلہ دو ، اور اگر مالی بدلہ دینے کی استطاعت نہیں تو یہی کرو کہ لوگوں کے سامنے اس کی تعریف کرو کیونکہ جس نے لوگوں کے جمع میں اس کی ثناء و تعریف کی تو اس نے شکر گزاری کا حق ادا کردیا (رواہ البغوی عن جابر بن عبداللہ، مظہری)
مسئلہ۔ ہر نعمت کا شکر ادا کرنا واجب ہے مالی نعمت کا شکریہ ہے کہ اس مال میں سے کچھ اللہ کے لئے اخلاص نیت کے ساتھ خرچ کرے اور نعمت بدن کا شکریہ ہے کہ جسمانی طاقت کو اللہ تعالیٰ کے واجبات ادا رنے میں صرف کرے اور علم و معرفت کی نعمت کا شکریہ ہے کہ دوسروں کو اس کی تعلیم دے (مظہری)
مسئلہ۔ سورة والضحیٰ سے آخر قرآن تک ہر سوت کیساتھ تکبیر کہنا سنت ہے اور اس تکبیر کے الفاظ شیخ صالح مصری نے لا الہ الا اللہ واللہ اکبر بتلائے ہیں۔ (مظہری)
ابن کثیر نے ہر سورت کے ختم پر اور بغوی نے ہر سورت کے شروع میں ایک مرتبہ تکبیر کہنے کو سنت کہا ہے (مظہری دونوں میں سے جو صورت بھی اختیار کرے سنت ادا ہوجائے گی۔ واللہ اعلم
فائدہ۔ سورة ضحیٰ سے آخر قرآن کریم تک بیشتر سورتوں میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر حق تعالیٰ کے خاص انعامات اور آپ کے مخصوص فضائل کا ذکر ہے اور چند سورتوں میں قیامت اور اس کے احوال کا۔ قرآن حکیم کا شروع خود قرآن کی عظمت اور ناقبال شک و شبہ ہونے سے کیا گیا اور ختم قرآن اس ذات کی عظمت و شان پر کیا گیا جس پر قرآن نازل ہوا۔
📖 سورۃ الضحی کو عربی، انگلش اور اردو ترجمہ کے ساتھ پڑھیں:
🔗
https://www.measmomin.com/surah-ad-dhuhaa-arabic-urdu-english-translation.html